قومیں ایمان، عقیدے اور نظریے سے بنتی ہیں

814

عبدالعزیز غوری
جو قوم اپنے نصب العین اور نظریات سے روگردانی کرتی ہے وہ اپنی حاکمانہ صلاحیتوں کو کھو کر مستقبل کے تقاضوں سے آنکھیں بند کر لیتی ہے، دوست و دشمن کی تمیز کھو دیتی ہے، اس کی روحِ جہاد سرد اور قوت اجتہاد شل ہوجاتی ہے۔ جمود کا شکار ہو کر اپنا حاکمانہ کردار بھی کھو بیٹھتی ہے، اقتدار پر اس کی گرفت ڈھیلی ہوجاتی ہے، حکمران عیاشی میں ڈوب کر تن آسان بن جاتے ہیں نتیجتاً آہستہ آہستہ مخلص اور دیانت دار افسر حکومت کے رویے کو دیکھ کر اپنے عہدوں سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔
حکمران اپنے گرد مفاد پرست خود غرض، ضمیر فروشوں خوش آمدی جمع کرتے ہیں جو انہیں “سب ٹھیک ہے” کی خبریں دیتے ہیں حکومت اپنی ساکھ کھو بیٹھتی ہے رشوت، اقرباپروری، ناانصافی، بیروزگاری، غربت اور افلاس کی وجہ سے معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے جرائم بڑھتے جاتے ہیں، انصاف کے دروازے بند ہوتے جاتے ہیں، معیشت کا زوال زراعت کی تباہ کاری شروع ہوجاتی ہے، امیری اور غریبی کا فرق اپنی حد پار کرجاتا ہے، قوم اخلاقی زوال کا شکار ہوکر مردہ دل، خود غرض، ضمیر فروش، بزدل، بے غیرت اور بے حمیت ہوجاتی ہے۔۔ ہزاروں غدّار پیدا ہوجاتے ہیں جو روٹی کے چند ٹکڑوں شراب کی بوتل پر ایمان کا سودا کر دیتے ہیں شراب، جوا، سود اور زنا سرعام ہوجاتا ہے باہمی عداوت اور دشمنی، ذات برادریوں مسلک کے جھگڑے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں۔ گھات میں بیٹھا ہوا دشمن قوم کی صفوں میں گھس جاتا ہے آستین کے سانپ بھی باہر نکل آتے ہیں ان حالات میں کوئی بندہ خدا اور جماعت اصلاح کے لیے اٹھتی ہے تو کرپٹ حکمران، فرقہ پرست علماء، خود غرض اور ضمیر فروش سیاستدان حرام کا کاروبار کرنے والے اور حرام مال پر پلنے والے جرائم پیشہ حکمرانوں کے کاسالیس پالتو غنڈے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور اس طرح دشمن کے لیے میدان بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ اپنے ایمان، عقیدے، نصب العین اور نظریہ حیات کے لیے قربانی دینے والوں کو پہلے ہی نیم مردہ کردیاجاتاہے وطن دشمنوں کی راہ روکنے والوں ان کا مقابلہ کرنے والوں میں سے جب کوئی نہیں بچتا تو وہ حکمرانوں کو بڑی آسانی سے اپنے جال میں پھنسا کر ملک پر قبضہ جما لیتے ہیں۔۔۔۔ تاریخ کبھی پرانی نہیں ہوتی یہ کل کی بات ہے مسلم ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی حکومت ہوتی تھی مگر وہ طاقت کے نشے میں بدمست ہوچکے تھے۔۔ انہوں نے آنے والے طوفان سے آنکھیں بند کی ہوئیں تھیں وہ سمجھتے تھے کہ ہمیشہ ایسا رہے گا زمانہ کبھی بھی کروٹ نہیں بدلے گا۔۔۔
ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوکر ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تجارت کی اجازت طلب کرتی ہے اور اسے تجارت کرنے کا پروانہ مل جاتا ہے۔۔۔ کچھ عرصہ بعد وہ پھر حاضر ہوتی ہے کہ اپنے سامان کی حفاظت کے لیے ذاتی گارڈ رکھنے کی اجازت چاہیے۔۔۔۔وہ بھی اسے مل جاتی ہے۔۔
جب تجارتی کمپنی کی تجارت بڑھی تو اسے دربار میں عزت کی نظر سے دیکھا جانے لگا تو اس نے درباریوں میں سے ہی اپنے ہمنواؤں کو تلاش کر لیا اور انہیں لالچ دیکر اپنے ساتھ ملا لیا اور اہم معلومات حاصل کرنے لگے۔۔۔ پھر انہوں نے وقت کے بادشاہ کو پیشکش کی کہ آپ جتنا لگان زمینداروں سے وصول کرتے ہیں اس کی وصولی کا ٹھیکہ آپ ہمیں دیں ہم آپ کو دگنی رقم ادا کریں گے۔ تن آسان اور عیش پرست حکمرانوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی یہ پیشکش بھی قبول کرلی یوں وقت کے ساتھ ساتھ نااہل حکمرانوں نے اپنے کاشتکاروں کی گردنیں دشمنوں کے حوالے کردیں۔۔۔ شروع شروع میں چھوٹے چھوٹے زمینداروں سے جھگڑے شروع ہوئے بعد میں تو نوابوں اور جاگیرداروں سے جھگڑے شروع ہوگئے اور یوں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے قدم جما لیے جب زمین پاؤں سے نکل گئی تو حکمرانوں کو پتا چلا۔۔۔۔۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنی مدد کیلئے برطانوی حکومت کو بلا لیا اور ہندوستان پر قبضے کی جنگ شروع ہوگئ۔ بادشاہت سکڑتے سکڑتے دہلی تک محدود ہو گئی اور 1857 میں اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔۔۔ یہ ایک فوج کا دوسری فوج سے مقابلہ تھا ہندوستان کے حکمرانوں نے عوام کو اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرسکیں۔ یوں ہمارے حکمرانوں کی عیاشی، نااہلی، تن آسانی، باہمی رقابت، بزدلی، اور نصب العین سے انحراف نے ملک گنوا دیا۔ یاد رکھیے خون بہنے سے قومیں فنا نہیں ہوتیں مگر جب رگوں میں بے غیرتی اور بے حمیتی کا خون منجمد ہوجائے تو غلامی انکا مقدر بن جاتی ہے۔۔
صدیوں سے مسلمان حکمران اور عوام جس راستے پر گامزن تھے اس کا یہ انجام تو ہونا تھا اب نا کوئی شاہ ولی اللہ تھا اور احمد شاہ ابدالی جو مسلمانوں کے اقتدارکی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچاتا۔۔۔ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے پوری بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ مسلمانوں کی مزاحمتی قوتوں کو کچل دیا ہزاروں علماء کی لاشیں درختوں پر لٹکا دیں، ہزاروں بے گناہ نہتے عوام کو شہید اور جیلوں میں بند کر دیا، کالے پانی بھیج دیا، مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ کردیا،ان کی زمین جائیداد پر قبضہ کرلیا، جاری تعلیمی، معاشی اور عدالتی نظام منسوخ کر کے ظلم و جبر سے بھرپور کافرانہ نظام رائج کردیا۔۔۔ روزی کے دروازے بند کر دیے پیٹ کی آگ بجھانے اور زندہ رہنے کے لیے ایک ہی دروازہ کھلا تھا وہ تھا “غلامی کا” ذہنی معاشی سیاسی سماجی اور نظریاتی غلامی کا۔۔۔۔
جن کو دنیا مطلوب تھی انہوں نے انگریز سے وفاداری کا اعلان کرکے غداری کا پٹہ گلے میں ڈال لیا اور جن کو دین مطلوب تھا انہوں نے انگریز کی نوکری وفاداری کو حرام قرار دے دیا۔۔ اس سے مسلمانوں میں مادہ اور روح کا تنازع کھڑا ہو گیا اور یہاں امت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک طبقے نے خانقاہوں، مسجدوں ومدرسوں کا راستہ اختیار کیا دوسرا طبقہ انگریزی نظام حکومت کا وفادار بن گیا۔۔ پہلے گروہ نے سیاست کو حرام قرار دے دیا انگریز کے ہر فعل سے نفرت کرنے لگے اور دوسرا گروہ انگریز اور اس کے نظام پر ایمان لے آئے۔۔۔ ایک تیسرا عنصر بھی تھا جس نے نہ تو انگریز کی غلامی اختیار کی اور نہ ہی دنیا ترک کرکے علیحدگی اختیار کی وہ گروہ مسلمانوں میں بیداری اور اسلامی تشخص کو زندہ کرنے کے لیے خاموشی سے جدوجہد کرتا رہا۔۔ اسی دوران دنیا عالمی جنگ کی لپیٹ میں آ گئی انگلستان بھی اس میں شریک تھا اسے سپاہی درکار تھے اس نے ہندوستان کے عوام سے اپیل کی کہ وہ فوج میں بھرتی ہو جائیں علماء نےفوج میں بھرتی کو حرام قرار دے دیا اور یہ فتویٰ جاری کیا کہ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ کتے کی موت مرے گا۔۔
انگریز شروع سے ہی ہندوؤں کو نواز رہے تھے مگر وہ فوج کے لیے کارگر نہیں تھے اس لئے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمے پر انگریز ہندوستان چھوڑ دے گا اور ہندوستان آزاد ہو جائے گا اس اعلان کے بعد ہندوستان کی عوام فوج میں بھرتی ہوئی اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد فوج میں بھرتی ہوگئی۔ ہندوستان میں آزادی اور بیداری کے لئے لہر دوڑ گئی ہندو انگریز کی سرپرستی قبول کرچکے تھے انگریز بھی یہ چاہتا تھا کہ وہ ہندوستان کی باگ دوڑ ہندوؤں کے ہاتھ میں دے کر چلا جائے ہندو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ آئندہ پورے ہندوستان کے حاکم ہوں گے انہوں نے وقت سے پہلے ہی رنگ دکھانا شروع کر دیا انتہائی مکاری کے ساتھ انھوں نے مسلمانوں کو گمراہ کیا سیاسی میدانوں میں وہ لوگ رہ گئے تھے جنہوں نے انگریزی حکومت اور نظام کو تسلیم کرلیا تھا مسلمانوں کا سودا اعظم سیاست سے دور تھا۔۔ کانگریس ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ جماعت تھی آزادی کی تحریک میں ہندو مسلمان ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔۔۔
عالمی جنگ کا سب سے زیادہ ہولناک نقصان مسلمانوں کو ہوا خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا ترک جس کی حکومت تین براعظموں میں تھی اس کی بندر بانٹ ہوگئی۔ ایک ملک کے چالیس ملک بن گئے۔ عرب و عجم کا جھگڑا کھڑا ہوگیا عالمی شیطانوں نے خود مسلمانوں کے ہاتھ حرم کو بے توفیق اور خلافت کی قبا چاک کرائ خلافت عثمانیہ کے ضلع اور صوبے ملک بن گئے۔۔ سعودی عرب، لیبیا، الجزائر، شام، ایران، یمن، لبنان، اردن اور دیگر افریقی اور عرب ریاستیں وجود میں آگئیں۔ عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ کرادیا خلافت عثمانیہ کا سقوط مسلمانوں پر بجلی بن کر گرا ہر طرف اندھیرا چھا گیا خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے ہندوستان سے ہزاروں مسلمان ترکی پہنچے جو وہاں شہید ہوئے اور ان کی قبریں وہاں موجود ہیں۔۔
آسمانِ سیاست پر ظلم ناانصافی اور جہالت کے سیاہ بادل چھاگئے ہدایت کے چراغ بجھ گئے انسانیت مفقود ہوگئ عرب و عجم کے تعصب نے اسلام کا پرچم سرنگوں کردیا عرب نے تو خود اسلام کی جگہ قومیت کا پرچم تھام لیا اور ترکوں نے خود خلافت کی قبا چاک کردی۔۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اذان، نماز، مسجد، پردہ، اشاعت اسلام، طباعت قرآن ممنوع قرار دے دیے گئے عثمانیوں کی 600 سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا مسلمان سمندر میں بے لنگر جہاز کی طرح ہوگئے ہندوستان میں بحالی خلافت کی تحریک چلائی مگر جو ہونا تھا وہ ہوا۔۔۔۔ ایک متحد قوم منتشر ہوگئی اسلام کی داعی قوم اپنے نظریے سے دستبردار ہوگئی اپنا نظام زندگی ترک کرکے کافرانہ نظام زندگی قبول کرلیا۔۔ مسلمان دین میں شرائع عبادت تک محدود ہوگئے بلکہ دین کا عیسائی عقیدہ سرائیت کرگیا۔
ظاہر میں تو سب کچھ ختم ہو چکا تھا لیکن اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا تھا ہندوستان میں حالات نے کروٹ لی۔
انگریزوں نے اپنا بوریا بستر باندھ لیا قریب تھا انگریز ہندوستان کا اقتدار ہندوؤں کو سونپنے ہی لگے تھے مگر مسلم لیگ نے انکا منصوبہ خاک میں ملادیا مسلم لیگ نے ہندوستان میں دو الگ الگ خودمختار آزاد ریاستوں کا مطالبہ کردیا جس سے ہندوستان کی سیاست میں بھونچال آگیا۔۔۔۔ کانگریس جو پورے ہندوستان پر قبضے کا خواب دیکھ رہی تھی اس کا خواب چکنا چور ہوگیا کانگریس نے وطنی قومیت کے نظریے پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی مگر سید ابوالاعلی مودودی رحمته الله عليه کی مومنانہ فراست کام آئ اور انہوں نے بروقت مسئلہ قومیت کتاب لکھ کر وطنی قومیت کے گمراہ کن نظریے کو خاک میں ملادیا۔ وطنی قومیت کو رد کرکے مسلمانان ہند دیوانہ وار اٹھے تو ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کا قتل عام کر کے ان کے گھروں اور بازاروں کو لوٹ کر آگ لگادی پاکستان کی حمایت سے روکنے کی کوشش کی مگر “درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” وہ مسلمانوں کو زور و جبر سے دبانا چاہتے تھے مگر مسلمان جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر ہر قسم کے ظلم و جبر سے مقابلہ کرنے کے لیے لاالہ اللہ کی چنگاری سینے میں لئے قربانی کے لیے تیار ہوگئے۔
یاد رکھیے! جو قوم جان و مال کی قربانی دینے کا عزم لے کر اٹھے دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنا غلام نہیں بنا سکتی اور نا اسے منزل پر پہنچنے سے روک سکتی ہے۔۔۔ عزیمت کی راہ سے فرار بزدلوں اور نا مردوں کا شیوہ ہے مسلمانوں کی تاریخ عزم و ہمت اور صبر و استقلال کی تاریخ ہے ہندو تعداد میں مسلمانوں سے پانچ گناہ تھے دولت و وسائل میں بھی زیادہ مگر ہندو کبھی بھی مسلمانوں کو زیر نہیں کرسکے۔ مسلمانوں نے ہندو اور انگریز دونوں کا مقابلہ کرکے جان و مال کی لازوال قربانیان دے کر پاکستان بنایا مگر افسوس کا مقام ہے کہ جس نظریہ اور مقصد کے لیے پاکستان بنا تھا اس نظریے اور مقصد ہی کو فراموش کردیا گیا قومیں ایمان عقیدے اور نظریہ سے بنتی ہیں۔
قوم نے قربانی دے دی مگر رہنماؤں کی فراست گم ہوگئ جب ان کی قربانی جرات و ہمت کا وقت آیا تو وہ ناکام ہوگئے نادان گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔۔۔۔
انگریز نے ہمارے سماجی، معاشی سیاسی، تعلیمی، اخلاقی و عدالتی نظام کو ختم کرکے اپنا نظام نافذ کیا تھا پاکستان بنانے والوں کا دینی اخلاقی اورقومی فریضہ تھا کہ انگریز کے نظام کو ختم کرکے اسلام کا تعلیمی، معاشی، عدالتی، سماجی و سیاسی نظام نافذ کرتے۔ شہید ملت خان لیاقت علی خان نے تمام مکاتب فکر کے علماء کی مشاورت سے 1949میں قراداد مقاصد اسمبلی سے منظورکروا کر ہمیشہ کے لئے طے کردیا کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے، بالاتر قانون قرآن وسنت کا قانون ہے، عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قانون کے مطابق حکومت قائم کی جائے گی اس جرم کی پاداش میں ملک کےغداروں سے ملکر بیرونی اسلام دشمنوں نے لیاقت علی خان کو بھرے جلسے میں گولی مار کر شہید کر دیا یہ پاکستان کا دوسرا سانحہ تھا پہلا بانی پاکستان قائداعظم کی قیام پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہی وفات اور دوسرا ملک کی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت۔ قرارداد مقاصد کو منظور ہوئے 70 سال بیت گئے پہلے اسلامی آئین پر 1958میں شب خون مارا گیا، دوسرے پر 1969 میں اور تیسرا 1973 میں جوآئین بنا اس کے مطابق نا حکمرانوں نے حکومت کی اور نا ہی مقتدر اداروں نے ان کو حکومت کرنے دی۔ 1977 میں دوبارہ آئین معطل کرکے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔1999 میں ایک بار پھر آئین معطل ہوا۔
آئین کے خلاف علاقائی قومیتوں اور مسلک پر بنی جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیکر قومی وحدت کو پامال کیا گیا۔ حکمرانوں نے خزانے کواپنی جاگیر سمجھا اور قانون کو گھر کی لونڈئ بنا کررکھا۔ سودی کا نظام چلتا رہا عدالتیں قرآن و سنت کے خلاف فیصلے دیتی رہیں غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہو گیا،۔ شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا، نوجوان سرکش اور باغی ہو گئے، حکمرانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے عوام کااسلامی نظام سے اعتبار اٹھ گیا، جو غلطیاں اسلامی بادشاہوں نے کی تھی وہی غلطیاں ہمارے حکمران کر رہے ہیں۔۔
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ مندرجہ ذیل راستے بربادی کے سنگ میل ہیں؟؟
حکمرانوں کے دلوں میں قادیانیوں کے لیے نرم گوشہ،
کرتاپور کا قیام،
بلیک واٹر کی بغیر ویزہ پاکستان میں رسائی،
سی پیک کے ذریعہ چینیوں کا اثر و رسوخ،
الیکٹرک، پی ٹی سی ایل کی طرح اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے، اور دیگر منافع بخش اداروں کی نجکاری،
غیر ملکی سفارتی عملے کو پاکستانی سیاست دانوں، علماء اور قوم پرستوں سے ملنے کی کھلی چھوٹ،
بار بار ناموس رسالت پر حملہ،
کشمیر میں ظلم و ستم پر خاموشی،
اسرائیل سے تعلقات کی باتیں۔۔۔۔
صاحبان فکر و نظر کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آج 73 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟؟؟ اگر نہیں تو اب سوچ لو۔۔۔۔ آنے والی نسلوں کو کیسا پاکستان دے کر جارہے ہیں؟؟ سازشی عناصر غلط فمہی دور کرلیں۔۔
اسلام پاکستان اور فوج لازم و ملزوم ہیں۔۔۔۔
اسلام زندہ باد۔۔۔ پاکستان پائندہ باد

حصہ