سب سے پہلے تو قارئین کو یہ تاریخی عید الفطرمبارک ہو۔دُنیا بھرمیں یہ رمضان المبارک جس طرح گزراویسا ماحول شاید پہلی بار ہی دیکھا گیا۔پاکستان میں البتہ پہلے سے کی گئی پیش گوئی کے مطابق 21رمضان کے بعد سے سب معمول کی جانب آنا شروع ہو گیا تھا۔ اَفطار پارٹی، شب بیداری، تراویح ، بازار ، دکانیں، شاپنگ سب شروع ہو گیا تھا، نماز عید کی اجازت بھی دے دی گئی ۔نیو کراچی کے کئی سیکٹر میں تو بازار لگتے ہی رات ۹ بجے سے 2بجے تک اور ایسی رونق ہوتی کہ لاک ڈاؤن یا کوروناکی موجودگی کاکوئی تصور بھی واضح نہ ہوتا۔ڈاکٹر حضرات بدستور احتیاط کرنے اور وائرس سے خبردار کرتے رہے۔بہرحال عبادات ورجوع الی اللہ کے لحاظ سے لاک ڈاؤن بہترین ذریعہ اور موقع بھی تھا۔فلاحی تنظیموں نے غریب و مستحقین کی مدد کرکے اُنہیں راشن و دیگر ضروریات کا سامان پہنچا کر اس موقع کا فائدہ اُٹھایا ، لیکن میں نے یہ بات پہلے بھی کہی تھی اور دوبارہ دہرا رہا ہوں کہ اس لاک ڈاؤن سے ہم نے اگر شعوری طور پرخواہشات اور ضروریات کا فرق نہیں سمجھا، اگر ان دونوں کے درمیان لکیر نہیں کھینچی اور خواہشات کو ضرورت بنانے کے عمل سے باز نہیں آئے تو یقینا خسارے میں رہیںگے۔ مادہ پرستانہ تہذیب کا بنیادی ماخذ ہی یہی ہے کہ مادی خواہشات کو بڑھاوا دو اور اُن سب کو حاصل کرنا ہی اُسکی ضرورت بنا دو تاکہ انسان کی تمام تر جدوجہد اِسی کے گرد گھومتی رہے اور پیسہ رولنگ کرتارہے۔
رمضان المبارک میں مختلف ٹی وی چینلز پر جاری ٹرانسمشن ہر سال ہی کسی نہ کسی مضبوط اہم وجہ سے شدیدعوامی تنقید کا نشانہ بنتی آ رہی تھیں۔امسال گو کہ لاک ڈاؤن تھا ، جس چینل نے یہ نشریات کیںبہت احتیاط کے ساتھ کرنے کی کوشش کی لیکن ناظرین کی کمال کی نظر بول ٹی وی کی نشریات کے دوران اسکرین پر افطار کی معاونت کرنے والے اداروں میں سے ایک کے نام پر جا کر نظر ، عقل ، دل سب کچھ ٹھہر گئی۔اس نے لیا اسکرین شاٹ اور وہ مارا سوشل میڈیا پر۔ بس پھر کیاتھا لوگوں نے چینل بدل کر تصدیق کچھ ہی دیر میں کرلی اور دے مار ساڑھے چار۔اُس ادارے کا نام ’مری بریوری‘ تھا جس کے بارے میں ’گوگل بابا ‘ اور ’وکی چاچا‘ فرماتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل کی اور موجودہ پاکستان کی سب سے بڑی الکوحل اشیاء تیار کرتی ہے۔ اب الکوحل والی اشیاء سے تو آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ اُس کے ذیل میں شراب کی تمام اقسام شامل ہیں۔ تسلی کے لیے اُنکی کمپنی کی ویب سائٹ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اب معاملہ اتنا نہیںتھابلکہ ہوا یہ کہ پوری ٹرانسمشن کے دوران شیعہ سُنی علماء کے درمیان حساس موضوعات کو بھی ریٹنگ کیلیے ہوا دی جاتی رہی ۔ کبھی یوم علی ؓ کے تناظر میں تو کبھی دیگر شان ِصحابہ ؓ کے تناظر میں۔نشریات کی میزبانی کرنے والے دونوں افراد کا علمی، صحافتی، تجرباتی پس منظر صفر ہی تھا ایک خاتون اس سے قبل سامنے اسکرین سے دیکھ کر طویل عرصہ نیوز پڑھا کرتی تھیں پھر ایک پروگرام کی میزبانی شروع کر دی اور اُس کے بعد سیدھا رمضان نشریات ،جبکہ دوسرے معاون میزبان مزاحیہ شوز اور نقل اتارنے میں بہترین مہارت رکھتے تھے۔اب جو ان سب کو ملا کر سوشل میڈیا پر شور مچا تو اُس پر مزید تڑکہ چینل کی جانب سے ایک معقول اداکار کی زبانی یوں لگوایا گیا کہ ’’ مری بریوری تو ایک جوس بنانے والی کمپنی ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا ، ٹوئٹر پر بول کی افطار ٹرانسمشن اور افطار کے تعاون کرنے والو کے ساتھ اُن کی ساری مصنوعا ت کی تصاویر لگا لگا کر ’جوس‘کی حقیقت بیان کرتے رہے۔ٹرینڈ لسٹ میں مری بریوری بھی آیا اور بول کی نشریات کو بھی فرقہ واریت پھیلانے کا مجرم قرار دیا گیا۔ اب جو کام شراب خانوں کے تعاون سے ہوگا اُس سے خیر تو کبھی پھیلنے سے رہا۔ سلام تو اُن علماء کرام پر ہے جو شراب خانوں کے تعاون سے ملنے والی رقم میں سے فی پروگرام ملنے والی اپنی دیہاڑی کی خاطر اس پر خاموش رہے اور تواتر سے شرکت کرتے رہے۔اسی طرح جیو نیوز سے بھی ایک سنگین نشریاتی غلطی سرزد ہوئی ، لیکن اُن کی اعلیٰ ظرفی اور اپنی غلطی کی قبولیت کا اِقرار واقعی قابل تقلید تھا۔ کسی نیوز پیکیج کے دوران قادیانی اقلیت کا لوگو اِسکرین پر نمودار ہوا ، جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا اس پر جیسے ہی توجہ دلائی گئی تو ادارے نے فوراً اپنے نیوز بلیٹن میں اِس نادانی پر علانیہ معافی اور ختم نبوت ﷺ کے عقیدے کا اقرار کیا ۔
اس ہفتہ بھی ترک سیریل ارتغرل سماجی میڈیا پر اہم موضوع بنا رہا ، خصوصاًجب ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ ہالی ووڈ، بالی ووڈ کے عادیوں کے لیے کہیں زیادہ بہتر ہے ارتغرل سیریز دیکھ لینا۔اِسی طرح پاکستانیوں نے حلیمہ سلطان کا کردار کرنے والی ’اِسرا‘ سے انسٹا گرام پر رابطہ کرکے پاکستانیوں میں ڈرامے کی مقبولیت کا بتایا جس کے جواب میں اداکارہ نے بھی پاکستانیوں کی محبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ اِسی ڈرامے کے ایک اور کردار ارتغرل کے قریبی سپاہی ’دوان‘کی جانب سے بھی ایک ویڈیو کلپ ریلیز ہوا جس میں انہوں نے پاکستانیوں کی محبت کو خراج تحسین پیش کیا اور اردو میں پاکستان آنے کا کہا ۔اس دوران جن ایک دو پاکستانی اداکاروںنے اس ڈرامے کو تنقید کا نشانہ بنایا اُنہیں کوب دل کھول کر گالیاں بھی دی گئیں ۔ میں نے خصوصی طور پر نوٹ کیا کہ عوام اندر سے بھرے بیٹھے تھے کہ کوئی اس ڈرامے پر ذرہ برابر تنقید کرے تو وہ اُسے آڑے ہاتھوں لیں۔ عوام کو اندازہ ہو رہا تھا کہ جن ڈراموں نے اُن سے اُنکی روایات ، مذہبی و دینی اقدار چھین لی تھیں اب متبادل دیکھ کر اُن کی طبیعت صاف کرنے کا وقت آگیا تھا۔یہ بات تو پھر بھی قابل برداشت تھی کہ ہم بھی ایسے ڈرامے بنائیں لیکن اس پر تنقید کسی طور نہیں قبول۔ویسے پاکستان میں اتنا بھی قحط نہیں پڑا ہے ، عمیرہ احمد کے تحریر کردہ ڈرامے شہر ذات، الف اس کے علاوہ خدا اور محبت، الف اللہ انسان جیسی مقبول سیریز میں بھی روحانیت اور اللہ سے انسان کے تعلق کا اچھا پیغام دیا گیا ۔اس فیلڈ میں کئی سال سے جڑے ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ کوئی یہودی ہندو سازش کچھ نہیں،سب کچھ کمرشل اپروچ ہے مطلب پیسہ ، پیسہ لگاؤ اور اپنی مرضی کا مواد چلاؤ نماز پڑھاؤ، جہاد کرو ، جو چاہے کرو ۔ہمارا منافع پورا ہو بس۔اب پیسہ آتا ہے کمرشل سے اور کمرشل یعنی اشتہارات کی دُنیا کے اپنے تقاضے ہیں توہم اُسی کے گرد بندھے ہیں۔لیکن ارتغرل نے بہر حال ہر مال بیچنے والی کمپنی کو یہ بتا دیا کہ ناظرین کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔اِس ضمن میں ایک مقبول پوسٹ یہ بھی تھی کہ ’’جو لوگ ارتغرل سیریل پر تنقید کر رہے ہیں،وہ میرے چند سوالات کے جوابات ہی دے دیں۔ کیا پاکستانی ڈرامے میں کبھی مرتے وقت کلمہ شہادت پڑھتے دکھایا گیا؟ کیا کبھی باجماعت نماز پڑ ھتے دکھایا گیا؟ کیا کبھی خاتون کے سر پر دوپٹہ اور وہ عزت دکھائی جو اْس کا حق ہے؟ کیا کبھی جذبہ جہاد کی ترغیب دی گئی؟ کیا کبھی ظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو جانے کا کہا گیا؟ کیا جب کبھی کوئی کسی بھی محفل میں گیا تو سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرنے کو کہا گیا؟ کیا قرآن کی آیات کو موقع کی مناسبت سے لوگوں کو باترجمہ سمجھایا گیا؟ کیا کبھی نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث پڑھ کر سنائی گئیں؟ کیا کبھی اسلامی شعار کے مطابق زندگی گزارنے کی ترغیب دی گئی؟ کیا کبھی صلیبیوں، یہودیوں اور ہندوؤں کی سازشوں کے بارے میں بتایا گیا کے کیسے وہ ہمارے اندر نفاق ڈالتے ہیں؟اگر ان سوالات کے جواب آپ کے پاس نہیں ہیں تو ذرا سوچیں یہ ہم کس کے ایجنڈے پر کیا دکھا کر کس طرف جا رہے ہیں؟‘‘۔ یو ٹیوب پر تیزی سے بڑھتا ہوا ناظرین کا رُجو ع اِس کی مقبولیت کو وہاں تک لے گیا جس کا ذکر میں نے تین ہفتہ پہلے کر دیا تھاکہ سب لوگ آن لائن ہی دیکھیں گے کیونکہ کوئی ایک قسط دیکھ کر رکتا نہیں ۔ وہی ہواکہ اب سب شائقین نے آن لائن ہی اردو ، انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ دوسرے ، تیسرے چوتھے اور کئی نے تو پانچوں دیکھ ڈالے۔یہ بات میں از خود نہیں بیان کر رہا جو جو دیکھ لیتا ایک معرکے کے طور پر فیس بک پر اپنی پوسٹ کے ذریعہ اعلانیہ بتاتا ۔ترکی سے ہمارے دوست ڈاکٹر فرقان حمید جو ٹی آر ٹی اردو سروس سے بھی وابستہ ہیں اور اب اپنا ایک یو ٹیوب چینل ‘ یار من ترکی‘کے نام سے چلاتے ہیں ، وہ خود بھی متاثرین ارتغرل میں سے ہیں۔میں نے گذارش کی کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعدکسی طرح اس ڈرامے کے کردار وں کو پیش کرنے والے ’محمد بوزداغ ‘، ڈرامہ کے ہیرو ’انگین التان ‘کے ساتھ کوئی انٹرویو ضرور کریں ۔ انہوں نے آج ہی خوش خبری دی کہ رابطہ ہو گیا ہے اور عن قریب ایک تفصیلی انٹرویو اُن کے یوٹیوب چینل پر نشر ہوگااردو ترجمہ کے ساتھ۔
اس ہفتہ اللہ کے فضل سے شب قدر اور قیام پاکستان والی بابرکت رات بھی ہمیںنصیب ہوئی ، روایتی طور پر کئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت آئے اور اللہ کو راضی کرنے، عبادات اور گناہوں سے معافی کی جانب متوجہ کرتے رہے۔ اتفاق یا حسن اتفاق سے اِسی رات ایک ویڈیو وائرل ہوئی ، ویڈیو کیا تھی دھماکہ تھا، موبائل کیمرے کا ایک اور تاریخ ساز استعمال تھا جس نے شب قدر کی بابرکت رات میںہلچل مچا دی۔تھوڑی دیر میں’کرنل کی بیوی‘ کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا۔پہلے کرنل کے چاول مشہور تھے اب کرنل کی بیوی بھی مشہور ہو گئی ۔ویسے اس پورے چکر میں کسی نے اُس بے چارے کرنل کے بارے میں نہیں سوچا جو اب ایک نئی زندگی گزارے گا ، بلکہ افواج پاکستان میں تو تمام کرنل حضرات ہی ایک دوسرے سے چھپتے پھر رہے ہوگے کہ وہ میری بیوی نہیں تھی چنانچہ کچھ ہی دیر بعد اِسی سلسلے میں ایک اور وضاحتی ویڈیو بھی آئی کہ وہ عورت کرنل کی سابقہ بیوی ہے اور کئی سال قبل طلاق ہو چکی ہے ۔اس کے علاوہ کرنل کا مبینہ نام ، گاڑی نمبر و دیگر معلومات بھی پوسٹ کر دی گئیں یہاں تک کہ یہ بھی ڈھونڈ نکالا گیا کہ ’’ایبٹ آباد میں اگست 2018میں پولیس والوں کے ساتھ کرنل کی ایک گالم گلوچ و بدتمیزی والی جھڑپ ہوئی تھی ۔ تب بھی جنرل باجوہ نے سخت نوٹس لیا تھا اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کوئٹہ ٹرانسفر کر دیا تھا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی ثبوت کے طور پر اُس مبینہ کرنل کی بدتمیزی والی ویڈیو بھی شیئر کی گئی ۔اب جو کچھ اس ہیش ٹیگ کے ذیل نشر ہوتا رہا ووہی پیش خدمت ہے ۔یہ پوسٹیںعوامی احساسات کی ترجمان ہیں اور بتا رہی ہیں کہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں۔ میڈیا خصوصاً اے آر وائی نے جس طرح واقعہ کی رپورٹنگ کی وہ بھی شدید ہدف تنقید رہا۔’ادارے نے کروڑوں کے ڈرامے و نغمے بنا کہ اپنا امیج اچھا کیا اور بعض جگہوں پہ پولیس کو بدنام کیا۔اب پولیس کی دو منٹ کی ویڈیو نے سارا حساب چکتا کردیا۔اب پولیس نے گانا بنانے کا اعلان کردیا۔ البم کا نام ہوگا۔مجھے کرنل کی بیوی کو پڑھانا ہے ‘‘نعیم طاہر لکھتے ہیںکہ ’’کسی کو بد دُعا دینی ہو تو کہاجائے اللہ تجھے بیوی دے ایسی جیسی کرنل کی بیوی۔’آج سمجھ آیا کہ خلیل الرحمٰن قمر نے کس کے لیے کہا تھا دو ٹکے کی عورت ۔‘سہیل رفیق لکھتے ہیںکہ ’’سب قصور نواز شریف کا ہے,نا ہزارہ موٹروے بناتا اور نا کرنل کی بیوی ایسی تڑی لگاتی۔‘‘اسی طرح اُس عظیم صوبیدار وسپاہی کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ،’’انجام سے واقف ہونے کے باوجود کرنل_کی_بیوی کی ویڈیو بنانے والے باہمت پولیس اہلکار کو حقیقی معنوں میںوطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔ کرنل کی بیوی تھی اس لیئے جانے دیا کسی سویلین کی ہوتی تو سانحہ ساہیوال ہو گیا ہوتا ۔‘‘