افشاں نوید
سن 1441 ہجری کا رمضان مسلمانوں کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
دل انتہائی غمگین ’’بیت اللہ اور مساجد تک رسائی نہیں‘‘بازار سنسان پڑے ہیں۔
باجماعت تراویح کے روح پرور مناظر ہیں نہ افطار کے وقت کے عوامی دسترخوان کی رونقیں،مساجد میں اعتکاف،شبینے اور لیلۃ القدر کے روح پرورمناظر بھی نہیں ہم اپنی پاکیزہ تہذیب کے یہ دلکش مظاہر دیکھنے کے بچپن سے عادی ہیں۔
رمضان کا ایک انفرادی پہلو ہے اور ایک اجتماعی۔۔۔
ذرا ٹھہریے! ۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہم نے رمضان کے سماجی پہلو کو روحانی پہلو پر غالب کر دیا تھا بلکہ ہم نے رمضان کو “سالانہ فیسٹیول”کا درجہ دے دیا تھا۔
بڑی بڑی تراویح کی مجالس،ہوٹلوں کے پرتکلف سحروافطار کے پیکجز،عوامی دسترخوان،روز افطار پارٹیاں،شبینے، اعتکاف کی رونقیں،راتوں کو دن بنادیا برائے تفریح، دن سو کے گزار دیا،رات رات بھر نوجوان اور فیملیز سڑکوں پر،کھانے اور مشروبات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے،میلوں ٹھیلوں کے سب رنگ عود آئے اس ماہ مقدس میںاگر ہماری مذھبی سماجی مصروفیات ہماری خودی کی نگہبان نہیں تھیں اور امت کی حالت زار تو یہی بتارہی ہے کہ
نماز و روزہ وقربانی وحج
سب باقی ہے”تو”باقی نہیں ہے
مساجد کی کثرت مگر اس اذان کا کیا کیجیے جس سے روح بلالی ہی نکل چکی۔
دیکھئے۔۔اسلام کا نظام عبادات تو صرف تربیت کے لیے ہے۔
نماز کے بارے میں کہا گیا جو نماز بے حیائی سے نہیں روکتی یا غریب کی مدد پر آمادہ نہیں کرتی تو وہ ریا اور دکھاوا ہے۔
اسی طرح روزہ رکھنے والوں کے لیے وعید ہے کہ جو جھوٹ بولنا اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتے ان کے حصے میں سوا، بھوک وپیاس کے کچھ نہیں آتا۔
چودہ سو اکتالیس ہجری کا رمضان۔ بازار بند،شاپنگ مال بند، مساجد میں نمازی نہیں، معیشت کی بھاگ دوڑ نہ دفاتر میں کام۔ہو کا عالم اور قرنطینہ قرآن سرگوشی کررہا ہے کہ پھر ’’وتبتل الیہ تبتیلا ‘‘ سب سے کٹ کر اسی کے ہو جائیں۔جب معاشرہ ہم سے چھن گیا تو اس غم کو روگ بنانے کے بجائے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی جستجو کے سفر پر ہی نکل جائیں۔
یہ مکافات عمل ہے۔ہم نے بھی تو حد کر دی تھی۔پہلے رمضان کو کمرشلائز کیا،پھر گلیمرائز اور رمضان شوز نے رمضان کا سارا تقدس ہی چھین لیا تھا۔سب کچھ بک رہا تھا اور بہت کچھ خریدا جارہا تھا۔
رمضان کو بازار بنا چھوڑا اور بازار زندگی کاحاصل بن گئے۔
اب بہت کچھ چھننے کے بعد اس رمضان کو زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ بننا چاہیے۔ اس وقت انسانیت کو کرونا کی صورت میں جو جھٹکا دیا گیا ہے انسانیت اس سے سیکھ رہی ہے۔
ابرھائی ٹیکنالوجی کا زعم رکھنے والی دنیا ننھی کرونائی ابابیلوں سے شکست کھاگئی۔فطری اصولوں سے انحراف کرکے انسان نے فطرت کو للکارا تھا۔اب وہ قدرت کی پکڑ پر بند گلی میں کھڑی محو حیرت ہے۔
قدرت دین اسلام کے علمبرداروں کو میدان عمل میں دھکیل رہی ہے۔کرونا کے بعد کی دنیا اس کی ہوگی جو اس کی ذمہ داری اٹھائے گا۔اس وقت کاروبار دنیا منجمد کردیاگیا کہ بھاگ دوڑ کی دنیا میں ہم اپنا منصب بھول چکے تھے،رمضان کی ان ساعتوں میں اپنی تنظیم سازی کریں۔خود کو اکٹھا کریں۔ بہت الزام لگا چکے دنیا پر۔اب اپنے کرنے کے کام طے کریں۔
قوم ھودؑ ولوطؑ کے بارے میں ہم سے بازپرس نہیں ہوگی لیکن ان تاریخی لمحات میں جب کووڈ 19 کے بعد نئی دنیا جنم لے رہی تھی ہم نے ہمارے خاندان مسلم معاشروں نے کیا کیا خود کو منوانے کے لیے۔
زخم خوردہ انسانیت جو ایک غیبی طاقت کا وجود محسوس کر رہی ہے ہم پوری قوت اور قول وعمل سے اسلام کا پیغام رکھیں دنیا کے سامنے۔بے بس انسانیت اور لاچار وجود جسے محسوس کررہے ہیں۔
وہی خدا ہے۔۔۔ وہی خدا ہے
پوسٹ کووڈ اپنی تجارت، اپنا خسارہ اپنا دفتر،اپنی آمدنی، اپنے گھر سے آگے بھی سوچیں اور اگر 1441 ہجری کا رمضان ایک اندرونی انقلاب اور نیا انسان ہمارے اندر پیدا نہ کرسکا تو ہم کورونا کے بعد دنیا کو کچھ دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔
ہم سے سابقہ کا نہیں لمحہ موجود کے تاریخی لمحات میں ہمارے کردار کا ضرور سوال ہوگا۔
ایک حالیہ مضمون میں نوم چومسکی نے کہا ہے کہ” شاید کورونا وائرس کے بعد کی دنیا کے عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ انہیں کس طرح کی دنیا کی ضرورت ہے؟”
آنے والی دنیا میں اگر ہم خود کو “ضرورت”ثابت نہ کرسکے تو اس انہونی کے بعد کس “ہونے”کا انتظار ہے ؟؟
………
کورونا اور۔۔۔ اباجی ۔۔۔
اس کورنٹائن میں اپنے پیارے بچھڑے ہوئے رشتے خوب یاد آرہے ہیں۔۔ماں باپ بھی کبھی خود سے جدا ہوتے ہیں۔
کرونا وبا میں اباجی سے جڑی یادیں بارش کے قطروں کی طرح ایک ردھم سے بھیگی خوشبو کے ساتھ چلی آئیں۔
سب بچوں کی سات برس کی عمر میں روزہ کشائی کروائی۔کبھی روزہ رکھوانے پر اصرار نہ کرتے البتہ نماز نہ پڑھنے والے پر جو عذاب نازل ہوںگے وہ ہمیں نانی اور اباجی نے اتنی بار بتائےکہ زبانی یاد کرادئیے۔
اباجی کے سامنے تو گہرے بادل آتے یا بادل و بجلی کی گرج چمک ہوتی تو اس طرح آسمان کی طرف دیکھ کر با آواز بلنداستغفار کرتے جیسے اللہ کا غضب صرف انہی پر آیا ہو۔
تیز آندھی آتی تو گھبرا کر تیز تیز قدموں مسجد کا رخ کرتے۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ زور کی بارش ہو یا سیلاب کی پیشگوئی اور گھر میں ریڈیو بج جائے،ٹی وی کھل جائے، حتیٰ کہ ہم آپس میں ہنس بول کر بات بھی کر لیں۔ بس استغفار کی تلقین کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔
( یہ تو ہمیں بہت بعد کی زندگی میں پتہ چلا کہ بارش انجوائے کرنے کی چیز ہے اور گرج چمک میں سکھیاں سہلیاں ساون کے گیت بھی گاتی ہیں)۔
اباجی نڈھال کرتی گرمی میں برابر دوزخ کا ذکر کرتے رہتے کہ ہم سے اتنی سی گرمی نہیں برداشت ہوتی تو وہاں کی آگ کیسے برداشت ہوگی؟
اس وقت تو متوسط طبقے کے گھروں میں اے سی کا کوئی تصور نہ تھا۔شام پانچ بجنے کا ہم بے چینی سے انتظار کرتے کہ دھوپ ڈھلے تو کھلی چھت پر جاسکیں۔
ایک خوفزدہ دل بھی کیا چیز ہے؟کووڈ 19 نے اچھی طرح سمجھا دیا۔
ہمارے بچپن کا خوف کتنا مختلف تھا۔اگر اباجی نےکچن میں باسی روٹی یا بچا سالن پلیٹ میں پڑا دیکھ لیا تو سمجھو قیامت آگئی۔
اسراف ہے یہ رزق کا حساب کتاب کیسے دو گے؟
اگر غلطی سے نل کھلا رہ گیا،پانی بہتا دیکھ لیا۔پانی اتنی بڑی نعمت اس کا حساب بہت سخت ہوگا۔بچوں کا اجتماعی محاسبہ ہوجاتا۔
اباجی کے دنیا سے رخصت ہونے کے تیس برس بعد آج سوچ رہی ہوں کہ اگر انکے سامنے کرونا آتا تو انکے رمضان کیسے گزرتے؟ان کی گھبراہٹ کا کیا عالم ہوتا جو آسمان سرخ دیکھ کر ڈر جاتے تھے اور کہتے جاتے کہ قوموں پر عذاب اسی طرح آتے ہیں۔
بادل کڑکنے کی آواز جس زور سے آسمان سے زمین کی طرف آتی اسی شدت سے ان کے نالے زمین سے آسمان کی طرف جاتے کہ دل دہل جاتا۔
ایک بار غلطی سے رمضان میں روزے کے دوران پانی پی لیا۔ساٹھ روزے کفارے کے رکھے۔(وہ دین کا علم رکھنے والے ایک صوفی منش انسان تھے،جانتے تھے کہ غلطی پر کفارہ نہیں مگر ان کے دل نے قضا رکھنے کا فیصلہ کیا۔ہم جیسے فتووں کی راہ پر چلتے ہیں کچھ عزیمتوں کے رستے کے خوگر،عشق کبھی کبھی عقل کو تنہا چھوڑ دیتا ہے۔)
شدید گرمی آب زمزم کی چھوٹی سی بوتل اور دو چھوارے جیب میں رکھ کر دفتر جاتے کہ دیر سویر ہوتو راستہ میں ہی افطار کرلیں۔
اپنوں نے مشورہ دیا کہ شدید گرمی کا موسم گزر جانے دیں سرد موسم میں کفارے کے روزے رکھ لیں۔
انھوں نے بلاناغہ ساٹھ روزے پورے کیے۔بولے اگر سردی سے قبل مرگیا تو میرا حساب کون دے گا؟
تو ایسا آدمی اگر کرونا دیکھ لیتا تو۔۔۔
یقینا اباجی ہم سے سے امت مسلمہ کی روش کی بات نہ کرتے، مسلم حکمرانوں کی بے حسی پر نوحے نہ پڑھتے، میڈیا کی رپورٹوں پر رات دن بحث کرتے، نہ حکومتی زعماء کے بیان پر رائے زنی کرتے۔
وہ ہمیں یہ بتاتے کہ ہمارے گھر میں فلاں فجر کی نماز میں سستی کرتا ہے اس لیے یہ عذاب آیا ہے۔
کیونکہ ہمارے بچے قرآن سے دور ہیں اس لیے اللہ میاں ناراض ہو گئے ہیں۔ ہم رزق ضائع کرتے ہیں۔ پانی کی قدر نہیں کرتے اس لئے ہماری ڈور کھینچی گئی ہے۔کیونکہ ہم ساری رات غافلوں کی طرح خراٹے لیتے ہیں اس لیے غضب خداوندی جوش میں آیا ہے۔ ہم اپنی ماں کی بات نہیں مانتے،انھیں تنگ کرتے ہیں اس لیے اللہ ناراض ہے ہم سے۔
اس وقت گلوبل ولیج کا تصور تھا نہ دنیا سمٹ کر ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کے پوروں پر آئی تھی۔”سماجی رابطوں”کی دنیا محلے کی چند گلیوں سے آگے نہ تھی،اس لیے گھروں میں اسی طرح کی گفتگو ہوتی ہوگی۔
اب ہمارے بچے گلوبل ولیج کا حصہ ہیں۔بچے بچے کو نیو یارک کے گلی محلوں کی خبر،اٹلی کی سڑکوں پر لاشوں کی تعداد،آسٹریلوی حکومت کے حفاظتی اقدامات،چین کی لیبارٹریز میں ویکسین کے تجربات کی کام یابی یا ناکامی، عالمی نشریاتی ادارے، میگزین کرونا سازشی تھیوریوں کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں۔یہ سب معلوم ہے۔
ہر منٹ معلومات کے ٹینکر کے ٹینکر سوشل میڈیا پر انڈیلے جارہے ہیں۔ یوٹیوب پر ہر لمحہ بے حساب ویڈیوز اپلوڈ کی جا رہی ہیں۔
سوچوں کا دائرہ وسیع ہو گیا۔اب بچے ان باتوں سے نہیں ڈریں گے جن سے ہم ڈر جاتے تھے۔
اب معلومات کے سمندر میں سب غوطے کھا رہے ہیں۔
کسی کے پاس چپو والی کشتی ہے کوئی ماہر تیراکی کوئی ہماری طرح ہاتھ پاؤں مار کر جان بچانے کی فکر میں ہے۔
کورونا وبا کو اللہ میاں کی ناراضگی کے اس پیراڈائم میں نہیں دیکھا جائے گا کہ میری نماز،میری رفتار میری گفتار،میرا کردار بھی اللہ کے عذاب کا سبب بن سکتا ہے!!!۔
قومیں افراد سے بنتی ہیں.انفرادی گناہ ہی تو اکھٹے ہو کر اجتماعی عذاب کو دعوت دیتے ہیں… اصل میں آج سے چار پانچ دہائی پہلے کا تصور خدا اور تصور دنیا بہت مختلف تھا۔
اب انسان اس خوف سے نکل آیا جس خوف میں کبھی ہماری نسل مبتلا تھی۔
ہمارے اباجی اور نانی دجال کا ایسے ذکر کرتے جیسے وہ ہماری چھت پر بیٹھا ہوا ہے۔اباجی تو دو ٹرینوں کے ٹکرانے پر اتنا پریشان ہو جاتے جیسے ہمارے ہی عزیز اس ٹرین میں سوار ہوں۔سارا دن استغفار کرتے اور گھر میں بہت اداس فضا ہو جاتی۔
خاندان کے کسی گھر میں موت ہوجاتی اس دن ہمارے گھر یہ سوال نہیں ہوسکتا تھا کہ آج کیا پکے گا؟امی کہتیں خامشی سے جو ہے پکالو اباجی ناراض ہو جائیں گے کہ موت کو بھول کر ہم کھانے پینے میں پڑے ہوئے ہیں۔
شاہ فیصل کو جب شہید کیا گیا اب تک میری یاداشت میں ہے کہ یوں لگا کہ ان کا سوئم ہمارے ہی گھر میں ہوا ہو۔ہر ایک کے ہاتھ میں سپارہ،اباجی کا رنگ بدلا رہا کہ ایسے آدمی کا یوں اٹھنا قرب قیامت کی علامت ہے۔
اب قیامت ہم سے دور ہوگئی ہے شائداس وقت تو ہر علامت قرب قیامت کی علامت گردانی جاتی،ہر فتنہ دجال کی یاد دلاتا تھا۔
بات لمبی ہوگئی مگر ہم نے چوتھائی صدی جس ہستی کی قربت میں گزاری ہو ان یادوں کی پٹاری کھلتی ہے تو کیسے جھونکے ہوتے ہیں باد نسیم کے!!۔
وہ تو شکر ہے اباجی کے سامنے کرونا نہیں آیا۔وہ اتنا خوفزدہ ہو جاتے کہ نہ گھر میں رنگ برنگے افطار کے دسترخوان لگنے دیتے،نہ راتوں کو سوتے(وہ معمولا بھی شب بھر عبادت میں مصروف رہتے تھے)ان کا گریہ سب کو آزردہ رکھتا،دنیا کی ویرانی ان کے دل کی ویرانی بن جاتی، نہ عید کی خریداریوں کا ذکر وہ سنتے کہ جب اللہ غضبناک ہے اسنے مسجد کے دروازوں پر روک دیا ہے تو قیامت کے دن کا کیا انتظار ؟؟
اللہ ہمیں اپنے والدین کا صدقۂ جاریہ بنادے۔آمین