پہاڑوں کے بیٹے

265

ام ایمان
(نویں قسط)
زبیر اس کے محتاط اور خوف زدہ انداز پر حیران تھا۔ دوسرے دن روسی فوجی اسے بھی لینے آ پہنچے، انہوں نے اسے کمرے سے نکالا اور اپنے ساتھ ایک دوسرے کمرے میں لے گئے۔ وہ کمرہ ایک عالی شان آفس کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ شیشے کی لمبی چوڑی میز کے پیچھے بیٹھے فوجی وردی میں ملبوس اس شخص نے نظریں اٹھا کر زبیر کو غور سے دیکھا تو اس کی نگاہوں کی تیزی میں زبیر کو موت جیسی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ زبیر نے آنکھیں جھکا لیں، اس کے اشارے پر فوجیوں نے اسے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کمرے سے باہر چلے گئے۔
’’اے کاش! میرے پاس کوئی پستول ہوتی، کیا اچھا نشانہ ہے‘‘ زبیر نے دل میں سوچا۔
’’زبیر تم کب مجاہد بنے؟‘‘ سوال کم اور الزام زیادہ تھا کہ ہمیں پتا ہے تم مجاہد ہو۔ ’’ہاں یہ بتائو کہ کب سے ہو؟‘‘
زبیر خاموش رہا، اس نے اپنی نگاہیں شیشے کی میز پر جما کر سوچا کہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
’’ہوں…! تو تم کچھ کہنے کے موڈ میں نہیں ہو۔‘‘ اس نے میز پر دھری گھنٹی بجائی۔ دو گارڈ فوراً اندر داخل ہوئے۔ ’’یس سر…!‘‘ انہوں نے ایڑیاں جوڑ کر صاحب کو سلیوٹ مارا۔
’’انہیں لے جائو اور بلڈنگ نمبر 99 کی سیر کروائو۔ کل انہیں لے کر میرے پاس آنا۔‘‘ دونوں گارڈ زبیر کے دائیں بائیں کھڑے ہوگئے اور بازوئوں کو سختی سے پکڑ کر کمرے سے باہر لے گئے۔
زبیر سوچ رہا تھا کہ بلڈنگ نمبر 99 اللہ جانے کون سی جگہ ہے! باہر جاتے ہوئے انہوں نے زبیر کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی۔ خاصی دیر چلنے کے بعد ایک کھلی گاڑی میں بٹھایا۔ زبیر نے محسوس کیا کہ جن راستوں پر یہ جیپ چل رہی ہے وہاں زیادہ ٹریفک نہیں ہے، کیوں کہ کسی قسم کی گاڑی کی آواز نہیں آرہی تھی۔ گاڑی سے اتار کر وہ لوگ کسی عمارت میں لے گئے۔ کئی منزلہ سیڑھیاں چڑھ کر آخرکار اس کی آنکھوں سے پٹی اتار دی گئی۔ کچھ لمحے زبیر کو کچھ نظر نہ آیا۔ آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا چھٹا تو سامنے نظر آنے والے منظر نے اس کے رونگٹے کھڑے کردیے۔ تقریباً درجن بھر سانپ کمرے میں رینگتے پھر رہے تھے، اسی کمرے کے ایک حصے میں دو لڑکے دہشت کے عالم میں ان سانپوں کو دیکھ رہے تھے۔ ایک باریک جالی کی دیوار ان کے درمیان حائل تھی، وہ لڑکے دہشت کے عالم میں دیوار سے چپکے بیٹھے تھے۔
’’آگے بڑھو‘‘۔ فوجیوں نے زبیر کو ٹہوکا دیا۔ زبیر نے جلدی سے چونک کر قدم آگے بڑھائے۔
…٭…
زینب اپنی بھابھی صفیہ کے ساتھ مصروف رہنے کی کوشش کرتی لیکن نہ معلوم کیوں اسے یوں محسوس ہوتا جیسے دل پر بھاری بوجھ آپڑا ہے۔ ہنسی اس کے ہونٹوں سے روٹھ چلی تھی، بلکہ بعض دفعہ تو یہ دل چاہتا کہ بس چپ چاپ کہیں بیٹھ جائے اور تصور میں زبیر سے باتیں کرتی رہے۔ فاطمہ کا دل گل جانہ کے ساتھ لگ گیا تھا، دونوں کھیل کود میں مگن رہتیں، لیکن دن میں کم از کم ایک دفعہ تو فاطمہ ماں سے ضرور پوچھتی کہ بابا ابھی کیا کررہے ہوں گے؟
زینب الٹا اسی سے پوچھتی کہ ’’بتائو تمہارے خیال میں وہ کیا کررہے ہوں گے؟‘‘
فاطمہ کبھی خیال ظاہر کرتی کہ وہ سو رہے ہوں گے، کبھی کہتی وہ ضرور اس وقت دشمنوں سے دو‘ دو ہاتھ کرنے میں مصروف ہوں گے، کبھی اس کے خیال میں وہ نماز پڑھ رہے ہوں گے۔ اپنے سوال کا جواب وہ خود ہی بہت سوچ سمجھ کر وقت اور حالات کو دیکھ کر دیتی۔ اس میں گویا اسے ایک نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی۔
بلال اور ہلال بھی باپ کے بارے میں سوال جواب کرتے تھے لیکن روزانہ نہیں۔ بیٹیوں میں محبت اور خدمت کا جو جذبہ خدا نے رکھا ہے ویسا بیٹوں میں ہونا مشکل ہے۔
شیر دل بھائی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ ان دونوں کو بھی اسی اسکول میں داخل کرا دیا تھا۔ فجر کی نماز مسجد میں ادا کرتے، آکر ناشتا کرتے جو زیادہ تر روٹی اور چائے پر مشتمل ہوتا، پھر ماموں شیردل کے ساتھ اسکول چلے جاتے۔ اسکول کے داخلے کے وقت زینب نے رومال میں لپٹی ہوئی کچھ رقم بھائی کے ہاتھ پر رکھ دی تھی۔ شیر دل کبھی ہاتھ پر دھرے پیسوں کو دیکھتا، کبھی زینب کو۔ زینب بولی ’’بھائی یہ رقم میں نے ان پیسوں سے بچا بچا کر جمع کی ہے جو زبیر مجھے دیتے تھے… اب ان کا بہترین مصرف یہی ہے کہ انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کیا جائے۔‘‘
’’زینب تیرے بھائی کے پاس اتنا ہے کہ وہ تیرے بچوں کو پڑھا سکے، جب نہیں ہوگا تو ضرور یہ رقم تجھ سے لے لوں گا۔‘‘ شیر دل کے چہرے کی سرخی بتا رہی تھی کہ وہ غصے میں ہے۔ زینب کا دل دھڑکنے لگا، اس نے دوسرے انداز میں بات کی ’’بھائی یہ رقم میرے پاس محفوظ نہیں ہے، آپ اس کو رکھ لیں اور جب ضرورت محسوس کریں استعمال کریں۔‘‘
شیر دل نے کچھ سوچتے ہوئے رقم رومال میں لپیٹ کر جیب میں ڈال لی۔
صفیہ بھابھی دور چولہے کے پاس بیٹھی ناشتے کی تیاری کررہی تھی۔ اس نے دور سے زینب کو شیر دل کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ نند کے آجانے سے صفیہ کو روزمرہ کے اخراجات میں تنگی تو ہوتی تھی لیکن وہ نہایت سمجھ دار اور صابر و شاکر عورت تھی، اس نے کبھی شیردل کو اس معاملے میں کچھ نہیں جتایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھتی جارہی تھی اور دوسری طرف گھر کے افراد میں بھی اضافہ ہوچلا تھا۔ لیکن دال روٹی کا سبب بنانے والا تو اوپر بیٹھا ہے، وہ اپنے بندوں کی ضروریات سے بخوبی واقف ہے۔
زینب کا کڑھائی سلائی کا شوق روزگار کا ایک ذریعہ بن گیا۔ محلے کی عورتیں اپنے کپڑے اسی سے سلوانے لگی تھیں۔ وہ سلائی مشین جو صفیہ کو جہیز میں ملی تھی، اب جس طرح کام آئی تھی صفیہ بھی اس پر حیران تھی۔ اُس نے تو اسے اسٹور میں رکھوا دیا تھا، کبھی کبھار کوئی پھٹا کپڑا سینے کے لیے نکالتی اور بس۔ اسے خود تو سلائی کا اتنا شوق بھی نہیں تھا، پھر گھر کے کام دھندوں میں بچوں کے ساتھ اس کو فرصت بھی کہاں ملتی تھی!
ایک دن جب بچوں کے کئی پھٹے ہوئے کپڑے جمع ہوئے تو صفیہ نے مشین اسٹور سے نکالی۔ یہ ہاتھ کی مشین تھی۔ زینب تو حیران رہ گئی۔
’’بھابھی یہ تو بڑے کام کی چیز ہے، آپ نے اسے اسٹور میں ڈالا ہوا ہے۔‘‘ صفیہ نے حیرت سے زینب کو دیکھا۔ ’’اس مشین کے ذریعے ہم محلے کی عورتوں کے کپڑے سی سکتے ہیں، روزمرہ کے اخراجات میں آسانی ہوجائے گی۔‘‘
’’زینب مجھے تو کپڑے سینے نہیں آتے، اور پھر تمہارے بھائی بھلا اس کی اجازت دیں گے!‘‘
’’ارے اس میں کیا برائی! ہاتھ کی کمائی ہے، یہ سنتِ رسولؐ ہے۔‘‘
’’تم خود ہی بات کرلینا اپنے بھائی سے، لیکن دیکھو ان کے غصے سے ہوشیار رہنا۔‘‘
’’کیوں، کیا غصے میں بھائی ہاتھ چلاتے ہیں؟‘‘ زینب نے مسکرا کر صفیہ بھابھی کو دیکھا۔ دوسرے ہی دن زینب نے شیردل سے بات کی:
’’شیر دل بھائی ہاتھ کے ہنر کو استعمال کرنے میں کیا برائی ہے!‘‘ شیر دل کے چہرے پر ناگواری کا ایک سایہ سا لہرا گیا۔
’’زینبے! تم کیا چاہتی ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ بھائی کے ہوتے بہن کام کررہی ہے؟‘‘
’’لوگوں کی بات نہ کریں، لوگ تو باتیں بناتے ہی رہتے ہیں، اور کچھ نہیں تو کل کو یہی بات بنائیں گے کہ بھائی کے ہوتے ہوئے بچے ننگے پائوں کیوں رہتے ہیں، یا ان کے بدن پر نیا کپڑا کیوں نہیں ہے؟ لوگوں کو تو باتیں بنانے کے لیے کوئی نہ کوئی موضوع چاہیے، اور موضوع کی کمی انہیں کبھی محسوس نہیں ہوگی آپ خواہ کچھ کرلیں، بھائی کیا میرا دل نہیں چاہتا کہ میں اپنے بھتیجوں کے لیے کچھ کروں، انہیں ہماری وجہ سے جو تنگی ہوتی ہے وہ نہ ہو، پھر حالات کیسے ہیں! کچھ بچت ہوگی تو ہاتھ میں پیسہ رہے گا، کل دیکھیے کیا ہو؟‘‘
’’زینبے تُو کہتی تو ٹھیک ہے مگر…‘‘
’’بھائی! اس میں کچھ حرج نہیں ہے، اپنے ہاتھ سے کام تو ہمارے رسول پاکؐ نے بھی کیا۔‘‘
شیر دل نے زینب کے سر پر ہاتھ رکھ کر اجازت دے دی۔
زینب اٹھتے اٹھتے پھر بیٹھ گئی۔ نظریں جھکا کر بولی’’بھیا! زبیر کا کچھ پتا نہیں چلا؟ کوئی خیر خبر، کوئی اطلاع آئی ہے؟ جمال خان اور کمال خان کی طرف سے کوئی خط وغیرہ آیا ہے؟‘‘ زینب کا چہرہ ضبط کے باعث سرخ ہورہا تھا۔ اسے دکھڑے رونے کی عادت نہ تھی، لیکن بیٹوں اور شوہر کی جدائی تو بہرحال دل کو بے چین رکھتی تھی۔ بچوں اور گھر میں مصروف رہتی تھی لیکن اب کچھ دنوں سے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے۔
زبیر کو گئے مہینوں ہوگئے تھے لیکن نہ تو خود اس کا پتا تھا اور نہ ہی بیٹوں کی خیر خیریت ملی تھی۔ زینب کا دل اندر سے جیسے کوئی مٹھی میں لے کر دباتا تھا۔ آج بھائی سے باتوں ہی باتوں میں اس نے پوچھ ہی لیا۔
شیر دل نے ایک نظر بہن کے پریشان چہرے پر ڈالی اور پھر دور خلائوں میں دیکھتے ہوئے بولا ’’پریشان نہ ہو زینب، اللہ خیر کرے گا۔‘‘
لیکن سچ یہ ہے کہ وہ خود بھی پریشان تھا۔ حالات روز بہ روز خراب ہوتے جارہے تھے۔ روسی افغان فوجیوں کے ساتھ مل کر کتوں کی طرح مجاہدین اور ان سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ پچھلے دنوں دو سپاہی اسکول بھی آئے تھے جائزہ لینے کے لیے کہ کوئی سیاسی باتیں تو نہیں ہوتی ہیں، یا طالب علموں کو سیاست پر تو کچھ سکھایا پڑھایا نہیں جاتا؟
شیر دل نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش تو کی تھی، اب پتا نہیں وہ مطمئن ہوئے یا نہیں۔ دوسری طرف زبیر کے خیریت سے پہنچ جانے کی بھی کوئی خبر نہیں ملی تھی۔
جمال اور کمال خان کا خط آیا تھا کسی مجاہد کے ہاتھوں، جو شیر دل کے محلے میں رہتا تھا، جس میں انہوں نے پوچھا تھا کہ بابا کیسے ہیں؟ ان کے کمانڈر ادریس کو ان کی طرف سے پریشانی ہے اور یہ کہ انہیں اتنا عرصہ کابل اور اس کے نواح میں نہیں گزارنا چاہیے۔ روسیوں نے اپنے مخبر جگہ جگہ پھیلا رکھے ہیں۔
اس اطلاع کے بعد کہ زبیر واپس نہیں پہنچا ہے، اور وہاں یہ سمجھا جارہا ہے کہ زبیر ابھی تک کابل خورد میں ہی ہے، شیر دل بڑا پریشان تھا۔ زبیر نے تو جانے کی اتنی جلدی کی تھی کہ مشکل سے دو دن وہ رکا تھا۔ اسے گئے ہوئے بھی اب چار پانچ مہینے ہورہے ہیں، اگر وہ وہاں نہیں پہنچا تو پھر کہاں تھا؟ کیا اسے گرفتار کرلیا گیا ہے؟ شیر دل کو ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ بہن کو بتائے۔ اس نے بہت غور کے بعد سوچا کہ ابھی بہن اور بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے، یہاں تک کہ حقیقت کا پتا چل جائے۔ دو دن بعد خط لانے والا مجاہد واپس جائے گا تو اس کے ہاتھ اطلاع بھجوائوں گا۔ لکھنے کے بجائے زبانی پیغام بہتر رہے گا۔ شیردل اسکول سے فارغ ہوکر دوپہر بارہ بجے تک دکان پر چلا جاتا تھا۔ اس سے پہلے اس کی غیر موجودگی میں ایک لڑکا دکان کھول کر گاہک نمٹاتا تھا۔ شیر دل کے پڑوس میں ہی رہتا تھا، اس کی ماں نے اس کا نام تو مہربان خان رکھا تھا لیکن پورا نام تو شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ اب تو وہ مہرو کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ بیوہ ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ باپ مجاہد تھا، دو سال پہلے اس کی شہادت کی خبر آئی تھی۔ ہمت و حوصلہ جیسے افغان قوم کے خون میں گندھا ہے۔ اس نے اپنے شوہر کی شہادت پر نہ خود ایک آنسو بہایا، نہ کسی کو بہانے دیا، اس نے اپنے بیٹے کو بھی بڑی ہمت سے سنبھالا۔ شیر دل نے ان لوگوں کے لیے دل ہی دل میں کچھ کرنے کا سوچا تھا، پھر صفیہ سے مشورہ کرکے اس کی ماں کو راضی کیا کہ دن میں وہ دکان پر شیر دل کے ساتھ رہے اور جیسے جیسے وقت ملے گا شیر دل اس کو پڑھا بھی دیا کرے گا۔ مہرو کی ماں بخوشی راضی ہوگئی کہ اس کے خیال میں ایک طرف تو گھر کے دال دلیہ کا انتظام ہوگیا اور دوسری طرف بیٹے کو اچھے سرپرست کی سرپرستی مل گئی۔ اس نے بیٹے کو اچھی طرح سمجھایا ہوا تھا کہ شیردل ماما کی بات ماننا ہے۔ اب تو مہرو اور شیردل دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔ شیردل تو مہرو پر اتنا اعتماد کرتا تھا کہ صبح دکان کھولنے کی ذمہ داری اسی پر ڈالی ہوئی تھی۔ اسکول سے واپسی تک مہرو دکان کا انتظام بخوبی چلاتا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ