ہادیہ امین
یادہے بھائی جب چھوٹے تھے ہم،
نئے کپڑے جوتے پہنتے تھے ہم،
اور میٹھی عید پہ ٹوپی پہن کر،
ایک ساتھ عید گاه جاتے تھے ہم،
بھائی ہم گڈے لگتے تھے،
سب ہم کو پیارکرتے تھے،
تم سب سے مجھے ملواتے تھے،
اور عیدی مجھے دلواتے تھے،
پھر ہم بڑے ہو گئے بھائی،
بچپن کی عید پھر کبھی نہ آئی،
اب آج یہاں میں لیٹا ہوں،
بے بس اور اکیلا رہتا ہوں،
پچھلی عید پہ زنده تھا،
ہر آن تم کو یاد کرتا تھا،
تمہاری خوشی کو کھیر پکوائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی! !!۔
…………………
مانا گھر میرا چھوٹا تھا،
پر دل تو پہلے جیسا تھا،
میں تم سے ملنے آتا تھا،
تم ملازم کوکہہ دیا کرتےتھے،
جائو تم ابھی،مصروف ہو بھائی،
اور پھر یوں لمبی ہوئی جدائی،
میں پھر بھی عید پہ آتا تھا،
بس ملتا تھا،مانگتا تو نہ تھا،
آنی جانی دولت کو پا کر،
کم لگنے لگا اپنا ہی بھائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی!!!۔
…………………
رزق تمہارا بڑھتا گیا،
ترقی کے راستے ملتے گئے،
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تم،
چھوٹے بھائی کو بھولتے گئے،
نہ ملتے سال بھر،شکوه نہ تھا،
کوئی بغض،عداوت کینہ نہ تھا،
پر عید تو عید ہوتی ہے بھائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی!!!۔
……………
پھر رزق تمہارا کچھ کم ہوا،
ساتھ میرا وقت بھی ختم ہوا،
تب تم کو بھائی کی یاد ستائی،
اور پھر میٹھی عید بھی آئی،
آج تم ملنے آئے ہو،
گلاب کی پتیاں لائے ہو،
اب میرے یہ کس کام کی بھائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی!!!۔
……………
اب بھی کچھ وقت باقی ہے،
میرے بچوں کا دل اب خالی ہے،
اس عید پہ ان کا باپ نہیں،
اور تایا ان کو یاد نہیں،
یہاں بیٹھ کہ اب کیوں روتے ہو،
جائو ان کو جا کر عیدی دو،
رشتوں کی قدر سکھائی ہے میں نے،
اور آتے ہیں بڑے غم ان کو سہنے،
تم پر ان کا حق ہے بھائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی!!!۔
…………
دیکھو ان کو یاد رکھنا تم،
صلہ رحمی کا پاس رکھنا تم،
رشتوں کو جوڑے رکھے گر ہم،
ایک اچھی مثال کو قائم کریں ہم،
اپنوں سے کبھی کوئی شکوه نہ کرے،
اور کبھی کوئی یہ نہ کہے،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی،
تم میٹھی عید پہ کہاں تھے بھائی!!!۔
————–