بنت انور
آمنہ کے ابو ڈرائنگ روم میں بیٹھے نیوز دیکھ رہے تھے جبکہ اس کے چھوٹے بہن بھائی ایان اور سویرا ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ڈرائنگ بک میں بھی کلر کر رہے تھے اور آمنہ کورونا وائرس سے متعلق کوئی آرٹیکل اپنے موبائل پر پڑھ رہی تھی تبھی ایک خبر نے اس کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیا یہ خبر ایک پاکستانی ہیرو ڈاکٹر اسامہ کے متعلق تھی جو کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھتے تھے کہ کس طرح انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کی کہ کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوگے خبروں میں یہ بھی دکھایا جارہا تھا کہ کسطرح ڈاکٹراسامہ کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا ۔ ابو میں بھی اس طرح کی ڈاکٹر بنوں گی جیسے کہ ڈاکٹراسامہ تھے جنہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنی جان بھی قربان کر دی آمنہ نے عزم سے کہا۔انشااللہ ابو نے آمنہ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا ۔آمنہ کا خواب ڈاکٹر بننا تھا آمنہ ابھی دسویں جماعت کی طالب علم تھی آج کل حکومت نے کورونا وائرس کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن کر رکھا تھا اسکی وجہ سے سب لوگوں کی طرح آمنہ کے گھر والے بھی گھر میں ہی مقید تھے آمنہ کے ابو اور اسکے بھائی گھر کے سوداسلف یہ بہت ضروری کام سے ہی ماسک پہن کر گھر سے نکلتے تھے ۔
آمنہ بہت حساس طبیعت کی مالک تھی جب خبروں میں کورونا وائرس سے متعلق دیکھتی کہ کس طرح اس وائرس نے دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے اور کتنے لوگ اس وائرس کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو آمنہ کو بہت دکھ ہو تا تھا۔ آمنہ حساس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شہری بھی تھی اسے بہت افسوس ہوتا تھا ایسے لوگوں کو دیکھ کر جو اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے اسے بغیر ماسک پہنے گھر سے باہر نکلنے والوں پر اور لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود بغیر کسی شدید ضرورت کے بور ہونے پر باہر پھرنے والوں پر بہت غصہ آتا تھا آمنہ انکو دیکھ کر افسردگی سے سوچتی تھی کہ انہیں اپنے جانوں کی کوئی پرواہ نہیں کہ انہیں مرجانا منظور ہے لیکن بور ہونا نہیں۔ آمنہ نہ صرف کورونا وائرس سے متعلق احتیاطی تدابیر پر خود عمل کرتی بلکہ دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھی جس سے بعض اوقات اس کا بھائی احمد چڑ جاتا احمد لاپروا طبیعت کا مالک تھا وہ بھی اس وائرس کو سنجیدگی سے نہ لینے والے لوگوں میں شامل تھاآمنہ جب کبھی احمد کو اس کی لاپروائی پر ٹوکتی اور اسے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہتی تو وہ لاپروائی سے کہتا اللہ نے اگر میرے نصیب میں اس وائرس کا شکار ہونا لکھا ہوگا تو وہ ہو کر رہے گا ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے کچھ نہیں ہوگاآمنہ کو اس کی یہ بات بالکل اچھی نہیں لگتی تھی آمنہ اس بات پر یقین رکھتی تھی انسان کو سب کچھ نصیب پر چھوڑ کر بے فکر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی طرف سے بھی کوشش کرنی چاہیے لیکن یہ بات احمد کو کون سمجھاتا جب بھی وہ احمد کو سمجھانے کی کوشش کرتی تو وہ یہ کہہ کر آمنہ کو چپ کروا دیتا کے تمہارے ذہن پر تو كرونا کا بھوت سوار ہوگیا ہے ۔
ابھی بھی آمنہ جو آرٹیکل پڑھ رہی تھی وہ کرو نا کی تباہی اور لوگوں کی لاپروائی پر تھا ۔ابو لوگوں کو سمجھ میں کیوں نہیں آتا یہ کتنا خطرناک وائرس ہے انہیں اپنی جان پیاری نہیں جو یہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے آمنہ نے افسردگی سے کہا ۔ بیٹا اللہ سمجھ دے ایسے لوگوں کو جو اپنی لاپرواہی کی وجہ سے اپنی جان کے ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں ابو نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ابھی آمنہ ابو سے بات ہی کر رہی تھی تبھی احمد سلام کرتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا وعلیکم السلام سب نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا شاید وہ باہر سے آیا تھا ۔تم باہر گئے تھے آمنہ نے تصدیقی لہجے میں پوچھا ہاں سبزی لینے گیا تھا امی نے بھیجا تھا احمد نے میز پر رکھے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔تم نے باہر سے آکر ہاتھ دھوئے ہیں؟ آمنہ نے جب احمد کو جگ کو کو چھوتے ہوئے دیکھا تو تشویش سے کہا نہیں احمد نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تمہیں معلوم ہے کہ کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب بھی باہر سے آؤ کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تک صابن سے اچھی طرح ہاتھ نہ دھو لو تم نے پھر بھی ہاتھ نہیں دھوئے ؟ آمنہ نے افسوس سے کہا ایک تو تمہارے سر سے کورونا کا بھوت نہیں اترتا ہر وقت ہم سب کو نصیحتیں ہاتھ دھو، ماسک پہن کر نکلو ابو نفسیاتی مریض بن گئی ہے یہ احمد نے جھنجلا کر کہا آپی مجھے بھی باہر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے نہیں جانے دیتی ایان نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور مجھے بھی بار بار ہاتھ دھونے کا کہتی ہیں سویرا نے بھی ایان کا ساتھ دیتے ہوئے کہا۔کتنی بار میں نے تمہیں سمجھایا ہے آمنہ وہی ہوتا ہے جو ہمارے نصیب میں لکھا ہوتا ہے ماسک پہننے سے ،ہاتھ دھونے سے کیا ہماری تقدیر کا لکھا ہوا ٹل جائے گا میرے کئی دوست بغیر ماسک کے باہر گھوم رہے ہوتے ہیں انہیں تو کورونا نہیں ہوا اور سب سے بڑی بات اللہ پر توکل کرنا ہوتا ہے اور مجھے اللہ پر بھروسہ ہے احمد نے کہا تمہاری یہ بات غلط ۔۔۔۔۔۔آمنہ احمد کو سمجھانے کے لیے بول ہی رہی تھی تبھی ابو نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تم خاموش ہو جاؤ بیٹا !ابواب ٹی وی بند کر چکے تھے ایان اور سویرا نے بھی ڈرائنگ بک بند کر دی تھی سب کی توجہ ابو کی طرف تھی ابو نے تھوڑا توقف کیا اس کے بعد بات بولنا شروع کیا احمد میں کافی دیر سے تمہاری اور آمنہ کی باتیں سن رہا ہوں بیٹا توکل کے متعلق تمہاری سوچ بالکل غلط ہے توکل کا مطلب وہ نہیں ہوتا جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ توکل کا معنی تو یہ ہے کہ انسان تمام ممکنہ وسائل اور مادی اسباب اور ذرائع اختیار کرے اور تمام تدابیر کو اپنائیں پھر اللہ سے حسن معاملے کی امید رکھے یہ مطلب نہیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ سمجھے جو ہو گا وہ اللہ کی طرف سے ہوگا یہ غلط سوچ ہے ابو تھوڑی دیر کے لیے رکے اور ایک طائرانہ نگاہ اپنے بچوں پر ڈالی جوپوری توجہ سےبات سن رہے تھے پھر بولنا شروع کیابیٹا میں تمہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتا ہوں مجھے یقین ہے تمہیں اس سے توکل کا حقیقی مطلب سمجھ میں آجائے گا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول میں اپنی اونٹی کو باندھ کر توکل کرو یا پھر کھلا چھوڑ کر توکل کرو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلے باندھو پھر اللہ پر بھروسہ کرو (سنن ترمیذی:٢۵١٧) بیٹا یہ تو کل نہیں ہوتا کہ کوئی شخص رات کو گھر کے سارے دروازے کھلے چھوڑ کر سو جائے اور پھر اللہ پر بھروسہ کریں کہ چوری نہ ہو جو اس طرح کرے گا اس کے گھر چوری تو لازمی ہوگی بلکہ توکل میں تو پہلے اونٹ کو باندھا جاتا ہے یعنی گھر کے دروازے بند کیے جاتے ہیں اور پھر اللہ پر بھروسہ کیا جاتا ہے مجھے امید ہے کہ تمہیں توکل کا حقیقی مطلب سمجھ میں آگیا ہوگا ابو نے شفقت سے کہا جی ابو احمد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ابو ڈرائنگ روم سے اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے جاچکےتھےلیکن احمد کے توکل کو جھنجوڑ گئے تھے تبھی احمد کا موبائل بجنے لگا اس نے کال ریسیو کی تو یہ اس کے دوست سہیل کی تھی جو اس سے آنے کے متعلق پوچھ رہا تھا کیو نکہ ان سب دوستوں نے آج باہر ملنے کا پروگرام بنایا تھا احمد نے یہ کہہ کر انکار کر دیا یار میں نہیں آرہا میں تو تم لوگوں کو بھی یہی کہونگا کہ تم لوگ ان حالات میں بلاوجہ باہر نہ نکلو زندگی رہی تو یہ ملنا ملاناچلتا رہے گا احمد کی بات سن کر سہیل نے حیرانگی سے کہا تم کب سے کورونا سے ڈرنے لگے چھوڑو ان احتیاطی تدابیر کو کچھ نہیں ہوتا یار اللہ پر بھروسا ہے نا تمہیں ؟کیوں نہیں بیشک اللہ پر بھروسہ ہے لیکن پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہے پھر اللہ پر بھروسہ کیا جاتا ہے جیسے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ وسلم نے فرمایا پہلے اونٹ کو باندھو پھر توکل کرو احمد نے یہ کہہ کر رابطہ منقطع کر دیا تھا ۔آمنہ محبت بھری نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس کے بھائی کو آج تو کل کا صحیح مطلب سمجھ میں آگیا ہے ۔ آپکو بھی سمجھ میں آ گیا ناں؟ ؟؟