رملہ کامران
چھٹی کا دن تھا اور دوپہر کا وقت،گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ سب ہی میٹھی نیند کے مزے لے رہے تھے سواۓ میرے چھوٹے بھائی کے، جو میٹھی اشیا کھانے کے شوقین تھے. اس وقت بھی وہ لاونج میں بیٹھے میٹھی اشیا کے نرغے میں گَھرے ٹی وی پر میچ کا مزا بھی لے رہے تھے۔ میں بھی اپنی جمائیاں روکے ہاتھ میں پکڑے ناول کی ایک مزے دار قسط پڑھنے میں مصروف تھی ۔
ہم تین بہن بھائی ہیںميں بسمہ،مجھ سے چھوٹا بھائی بابر اور سب سے چھوٹی بہن لائبہ ہے ۔ کہنے کو تو یہ دونوں بہن بھائی بہت اچھے ہيں لیکن یہ دونوں ہی مل کر پورے دن امی کو اپنی شرارتوں سے پریشان کر کے رکھ دیتے کیونکہ ابو تو پورے دن گھر سے باہر رہتے تھے اور امی کو ہی ان دونوں کی شرارتیں سہنی پڑتی تھیں ۔
ابھی میں قسط ختم کر کے سونے کے لئے لیٹنے ہی والی تھی کہ ایک زوردار چیخ نے مجھے باہر جانے پر مجبور کر دیا ۔ میں بھاگی بھاگی کمرے سے باہر آئی لیکن پھر جلد ہی باہر کا منظر دیکھ کر میرا منہ بن گیا ۔ دیکھا تو صاحبزادے کے دانتوں میں کوئی چیز پھنس گئی تھی جسکی وجہ سے انھوں نے پورا گھرآسمان پہ اٹھا لیا تھا ۔ یہ چیخیں جو انکی اب بھی جاری تھیں ، تمام گھر والوں کو اکھٹا کرنے کے لیے کافی تھیں۔
بھاگم بھاگ امی ابو اسے ہسپتال لے کر گئے۔ بڑی مشکلوں سے ڈاکٹرنے انکا منہ کھولا لیکن انکے منہ سے اتنی حسین مہک اٹھی کہ بے اختیار ڈاکٹر کو پیچھے ہٹنا پڑا ۔ وہ تو صد شکر کہ ڈاکٹر نے ماسک چڑھا رکھا تھا ورنہ یہ ان کی آخری سانس بھی ہو سکتی تھی۔ گھر والے ان کی اس مہک سے پہلے سے ہی واقف تھے اسی لیے وہ ناک بند کر کے آئے ہوئے تھے ۔ ڈاکٹر کو بھی ناک بند کر کے دانت نکالنے پڑے۔ ببلو میاں کے اسطرح چیخنے چلانے پر ڈاکٹر کو کئی دفعہ مشکل کا سامنا کرنا پڑا لیکن نرس کی مدد سے ڈاکٹر آخرکار دانت نکالنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ابو نے ڈاکٹر کی بتائی ہوئی کچھ دوائیاں خریدیں اور ببلو میاں کو ساتھ لے کر گھر کی جانب روانہ ہوئے ۔ امی نے اپنے بیٹے کی اتنی دردناک حالت پر ترس کھاتےہوئے ابو سے کہلوا کر ببلو میاں کی پسند کی آئسکریم سب بچوں کے لئے الگ الگ خرید لیں ۔
گھر پہنچ کر سب بچوں نے مزے لے لے کر آئسکریم کھائی ۔ اس سب کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ببلو میاں روزدن کے علاوہ رات کو بھی دانت صاف کرنے لگے۔