اعظم طارق کوہستانی
مولانا مودودیؒ بلاشبہ ایک مجدد ہیں، آپ آج ہی کے نہیں بلکہ آنے والے کل کے بھی امام ہیں، اُن کے انتقال کو چالیس برس گزر چکے ہیں لیکن اُس کے باوجود آپ ان کا لکھا ہوا پڑھیں تو بالکل تازہ مسائل پر بھی وہ باتیں اور آرا فٹ بیٹھتی ہیں جو کئی برس قبل اُنھوں نے بیان کیے تھے، موجودہ دور کے چند مسائل کو لیکر جب مولانا سے رجوع کیا تو مولانا کی کتابوں میں درج ذیل جوابات ملے ، یہاں ان سوالات اور مولانا کے جوابات دیے جارہے ہیں، اُمید ہے کہ اس سے نا صرف چند جدید مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ دماغی تطہیر کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔یاد رہے کہ جوابات مولانا مودودیؒ کی کتب سے اَخذ شدہ ہیں۔
کیا معاشی طور پر مضبوط ہوناعورت کا حق نہیں ہے؟
کیا بیٹیاں وراثت کی حق دار ہیں؟
جواب: معاشی طور پر مضبوط ہونا عورت کا حق ہے اور اسے یہ حق اسلام دیتا ہے، وراثت میں بیٹیوں کا کیا حق ہے اور کتنا ہے ؟اس کے متعلق سید مودودیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’پردہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اپنی منزلت کو برقرار رکھتا ہے ،وہ اس کی معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ اسلام کے سوا تمام قوانین نے عورت کو معاشی حیثیت سے کم زور کیا ہے اور یہی معاشی بے بسی معاشرت میں عورت کی غلامی کا سب سے بڑا سبب بنی ہے۔ یورپ نے اس حالت کو بدلنا چاہا مگر اس طرح کہ عورت کو ایک کمانے والا فرد بنایا۔ یہ ایک دوسری عظیم تر خرابی کا باعث بن گیا۔ اسلام بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے، شوہر سے، اولاد سے اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے اسے وراثت ملتی ہے۔ نیز شوہر سے اسے مہر بھی ملتا ہے اوران تمام ذرائع سے جو کچھ مال اسے پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبض و تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں جن میں مداخلت کا اختیا ر نہ اس کے با پ کو حاصل ہے، نہ شوہر کو، نہ کسی اور کو۔ مزید برآں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر، خود محنت کر کے کچھ کمائے تو اس کی مالک بھی کلیتًہ وہی ہے اور ان سب کے باوجود اس کا نفقہ ہر حال میں اس کے شوہر پر واجب ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مال دار ہو، اس کا شوہر اس کے نفقے سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہو گئی ہے کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہو تی ہے۔
دوسری بات یہ کہ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف رکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کو نفقہ اور مہر کے حقو ق حاصل ہیں جن سے مرد محروم ہے۔ عورت کا نفقہ صرف اس کے شوہر ہی پر واجب نہیں بلکہ شوہر نہ ہونے کی صورت میں باپ، بھائی، بیٹے یا دوسرے اولیا پر اس کی کفالت واجب ہوتی ہے۔ پس جب عورت پر وہ ذمہ داریا ں نہیں ہیں جو مرد پر ہیں، تو وراثت میں بھی اس کا حصہ وہ نہیں ہونا چاہیے جو مرد کا ہے۔
٭…٭
٭…عورت کی اس دنیا میں کیا حیثیت ہے اور صدیوں سے مختلف معاشرت نے عورت کو کیا مقام دیا ہے، مزید یہ کہ اسلام عورت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ وراثت سے لیکر اس کی رضامندی اور خوشی کو کس حد تک مقدم رکھتا ہے اور کہاں کہاں عورت کی مردوں کی طرح حدود متعین کرتا ہے، ان تمام معاملات پر سید ابولاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب’’پردہ ‘‘ میں درج کردی ہیں۔ اس کتاب سے آپ عورت کا اصل مقام اور مرتبہ جان سکتے ہیں۔
حوالہ: ابوالا علیٰ، مودودی،سید، پردہ، باب دہم (اسلامی نظامِ معاشرت)،اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص:197
٭…٭
کیا عبادات کا جاہلی تصور بھی موجود ہے؟
جواب: عبادات میں بھی لوگوں نے مختلف نقطہ نظر کے ساتھ اپنے اپنے نظریات شامل کیے ہیں…ان نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:۔
’’اسلام میں عبادات کا مفہوم محض پوجا کا نہیں ہے، بلکہ بندگی (prayer) کا بھی ہے۔ عبادات کو محض پوجا کے معنی میں لینا دراصل جاہلیت کا تصور ہے۔ جاہل لوگ اپنے معبودوں کو انسانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بڑے آدمی، سردار یا بادشاہ، خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، نذرانے پیش کرنے سے مہربان ہوجاتے ہیں، ذلت اور عاجزی کے ساتھ ہاتھ جوڑنے سے پسیج جاتے ہیں اور ان سے یوں ہی کام نکالا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کا معبود بھی انسان سے خوشامد، نذرونیاز اور اظہارِ عاجزی کا طالب ہے۔ انہی تدبیروں سے اسے اپنے حال پر مہربان کیا جا سکتا ہے اور اسے خوش کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔ اس تصور کی بنا پر جاہلی مذاہب چند مخصوص اوقات میں مخصوص مراسم ادا کرنے کو عبادت کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
انسان خدا کو جنگلوں اور پہاڑوں میں یا عزلت کے گوشوں میں نہیں پاسکتا۔ خدااسے انسانوں کے درمیان، دینوی زندگی کے ہنگامۂ کارزار میں ملے گا اور اس قدر قریب ملے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔جس کے سامنے حرام کے فائدے، ظلم کے مواقع اور بدکاری کے راستے قدم قدم پر آئے اور ہر قدم پر وہ خدا سے ڈر کر ان سے بچتا ہوا چلا۔ اسے خدا کی یافت ہوگئی۔ ہر قدم پر وہ اپنے خداکو پاتا تھا؟ جس نے گھر میں تفریح کے لمحوں میں اور کاروبار کے ہنگاموں میں ہر کام اس احساس کے ساتھ کیا کہ خدا مجھ سے دور نہیں ہے، اس نے خدا کو ہر لمحے اپنے سے قریب اور بہت قریب پایا، جس نے سیاست، حکومت، صلح وجنگ، مالیات اور صنعت و تجارت جیسے ایمان کی سخت آزمایش کرنے والے کام کیے اور یہاں کامیابی کے شیطانی ذرائع سے بچ کر خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کا پابند رہا اس سے بڑھ کر مضبوط اور سچا ایمان اور کس کا ہوسکتاہے؟ اس سے زیادہ خدا کی معرفت اور کسے حاصل ہوسکتی ہے ؟اگر وہ خدا کا ولی اور مقرب بندہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا؟
اسلامی نقطئہ نظر سے انسانی کی روحانی قوتوں کی نشونما کا راستہ یہی ہے ۔روحانی ارتقا اس کا نام نہیں ہے کہ آپ پہلوان کی طرح ورزشیں کر کے اپنی قوت ارادی (will power) کو بڑھالیں اور اس کے زور سے کشف و کرامت کے شعبدے دکھانے لگیں ۔بلکہ روحانی ارتقا اس کا نام ہے کہ آپ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو پائیں، اپنے ذہن اور اپنے جسم کی تمام طاقتوں سے صحیح کام لیں ،اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونے کی کوشش کریں۔ دینوی زندگی میں جہاں قدم قدم پر آزمائش کے موقع پیش آتے ہیں ،اگر آپ حیوانی اور شیطانی طریق کار سے بچتے ہوئے چلیں اور پورے شعوراور صحیح تمیز کے ساتھ اس طریقے پر ثابت قدم رہیں جو انسان کے شایان شان ہے، تو آپ کی انسانیت یوماًفیوماًترقی کرتی چلی جائے گی اور آپ روز بروز خدا سے قریب تر ہوتے جائیں گے ۔اس کے سوا روحانی ترقی اور کسی چیز کا نام نہیں ۔
اکثر لوگ ’’روحانی ترقی‘‘ کا لفظ بولتے ہیں، مگر خود نہیں جانتے کہ ’’روحانیت ‘‘ آخر ہے کیا چیز ہے۔ اسی لیے وہ تمام عمر ایک مبہم چیز کی تلاش اور سعی و حصول میں لگے رہتے ہیں اور ساری تگ ودو کے بعد بھی کچھ نہیں جانتے کہ کہاں پہنچنا تھا اور کہاں پہنچے۔ حالانکہ اگر اسی لفظ’’روحانیت ‘‘پر غور کرلیں توبات بالکل واضح ہوجائے کہ اس لفظ روحانیت میں روح سے مراد انسانی روح ہے نہ کہ کوئی اور روح۔ پس روحانیت انسانیت ہی کا دوسرا نام ہوا۔ انسان اپنی حیوانی خواہشات کی بندگی سے نکل کر کمال انسانیت کی طرف جتنی زیادہ پیش قدمی کرے گا اور اخلاق واوصاف انسانی سے آراستہ ہو کر رضائے الٰہی کے بلند ترین نصب العین تک پہنچنے کی جتنی کامیاب سعی کرے گا،اسی قدر روحانی ترقی اسے حاصل ہوگی۔
حوالہ: ابوالا علیٰ، مودودی،سید، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر، باب اول (حقیقت عبادت)، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص:13
٭…٭
کیا جہاد تلوار کے زور پر زبردستی لوگوں کو اسلام قبول کروانے کا نام ہے؟
جواب: جہاد کے حوالے سے ہمیشہ اسلام کے مخالفین نے طرح طرح کے الزامات لگائے ہیں…قیامِ پاکستان سے پہلے اس حوالے سے باقاعدہ بحث شروع ہوچکی تھی کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا…ان الزامات اور غلط فہمیوں کا جواب مولانا نے اپنی کتاب’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے علاوہ دیگر کئی جگہوں پر بھی دیا ہے، ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘کے نام سے لکھی گئی تحریر میں مولانامودودیؒ رقم طراز ہیں:
عموماً لفظ ’’جہاد‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں (holy war) ’’مقدس جنگ‘‘ کیا جاتا ہے اور اس کی تشریح و تفسیر مد ت ہاے دراز سے کچھ اس انداز میں کی جاتی رہی ہے کہ اب یہ لفظ ’’جوشِ جنون‘‘ کا ہم معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کو سنتے ہی آدمی کی آنکھوں میں کچھ اس طرح کا نقشہ پھرنے لگتا ہے کہ مذہبی دیوانوں کا ایک گروہ ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے، ڈاڑھیا ں چڑھاے، خونخوار آنکھوں کے ساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جہاں کسی کا فرکو دیکھ پا تا ہے پکڑ لیتا ہے اور تلوار اس کی گردن پر رکھ کر کہتا ہے کہ بول لا الہ الااللہ ورنہ ابھی سر تن سے جدا کر دیا جا ئے گا۔ ماہرین نے نے ہماری یہ تصویر بڑی قلمکاریوں کے ساتھ بنائی ہے اور اس کے نیچے مو ٹے حرفوں میں لکھ دیا ہے کہ
بوئے خو ں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
دراصل اسلام ایک انقلا بی نظریہ و مسلک ہے جو تمام دنیا کے اجتما عی نظم (sanction) کو بدل کر اپنے نظریہ و مسلک کے مطابق اسے تعمیر کرنا چاہتا ہے اور مسلما ن اس بین الاقوامی انقلا بی جماعت (international revolutionary party) کا نام ہے جسے اسلام اپنے مطلوبہ انقلا بی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے منظم کرتا ہے اور جہاد اس مقصد جدوجہد (revolutionary struggle) کا اور انتہا ئی صرفِ طاقت کا نام ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسلامی جما عت عمل میں لاتی ہے۔
تمام انقلابی مسلکوں کی طرح اسلام بھی عام مروّج الفاظ کو چھوڑ کر اپنی ایک خا ص اصطلاحی زبان (terminology) اختیار کرتا ہے تاکہ اس کے انقلا بی تصورات عام تصورات سے ممتاز ہوسکیں۔ لفظ جہاد بھی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسلام نے حرب اور اسی نوعیت کے دوسرے عربی الفاظ جو جنگ (war) کے مفہوم کو ادا کرتے ہیں قصداً ترک کر دیے اور ان کی جگہ ’’جہاد ‘‘کا لفظ استعمال کیا جو (struggle) کا ہم معنی ہے بلکہ اس سے زیادہ مبالغہ رکھتا ہے۔ انگریزی میں اس کا صحیح مفہوم یوں ادا کیا جاسکتا ہے:۔
ـ”To exert one’s utmost endeavour in furthering a cause”
اپنی تمام طاقتیں کسی مقصد میں صرف کردینا
سوال یہ ہے کہ پرانے الفاظ کو چھوڑ کر یہ نیا لفظ کیوں اختیار کیا گیا ،اس کا جوا ب بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’جنگ ‘‘ کا لفظ قوموں اور سلطنتوں کی ان لڑائیوں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج تک ہورہا ہے جواشخاص یا جماعتوں کی نفسانی اغراض کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ ان لڑائیوں کے محرک ایسے شخصی یا اجتماعی مقاصد ہوتے ہیں جن کے اندر کسی نظریے اور کسی اصول کی حمایت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔
۔(جاری ہے)۔