نثار احمد نثار
ادب کی موت واقع ہو گئی ہے‘ غزل بے وقعت صنف ہے‘ ادب پر جمود طاری ہے‘ غزل وحشی صنفِ سخن ہے‘ ادب روبہ زوال ہے۔‘‘ہر بیس یا پچیس سال بعد اس قسم کے جملے سامنے آتے رہتے ہیں یا اس قسم کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ان جملوں کے کہنے اور نعرے لگانے والوں میں جوش ملیح آبادی‘ محمد حسن عسکری‘ کلیم الدین احمد‘ سلیم احمد اور فی زمانہ سرور جاوید شامل رہے ہیں۔ یہ جملے اور نعرے قارئین شعر و سخن‘ ناقدین فن و ہنر اور مشاہیر اردو ادب سنتے بھی رہے ہیں اور ان کا جواب بھی دیتے رہے ہیں اور کچھ اہلِ قلم تو ان بحث و مباحث میں حد سے گزر جاتے ہیں مگر دیکھا گیا ہے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ان جملوں اور اس قسم کی نعرے بازی سے اردو ادب یا اس کی تخلیقات پر ایک فی صد بھی اثر نہیں پڑا۔ یہ نعرے گونجے تو سہی مگر اہلِ قلم نے مذاق کے طور پر ان سے بھرپور حظ اٹھایا اور خوب مزے لیے مگر غزل یا اردو ادب پر کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ادب تخلیق ہونا بند ہوا ہے اور نہ ادب کے قارئین کم ہوئے ہیں بلکہ ان میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے اور پہلے کی طرح‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ اردو ادب کی تمام اصنافِ سخن (نظم و نثر) میں لکھا جارہا ہے اور آئے دن مختلف اصنافِ ادب کی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں مگر ان باتوں کا علم اس شخص کو ہوگا جو کتابی دنیا سے سروکار رکھے گا‘ جسے مطالعے کی عادت ہوگی۔ کسی حسینہ کے پہلو میں بیٹھ کر یا اپنے ڈرائنگ روم میں آرام کرنے والا شخص کتابی دنیا سے واقف نہیں ہو سکے۔
موجودہ دور میں افسانے اور ناول لکھے جارہے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے ادب کا ترجمہ کرکے اردو ادب کا دامن مالا مال ہو رہا ہے۔ دبستان کراچی اور دبستان پنجاب میں بہت عمدہ غزلیں کہی جارہی ہیں۔ نظم کے شعبے میں کافی کام ہو رہا ہے۔ تنقید بھی لکھی جارہی ہے اور سفر نامے بھی سامنے آرہے ہیں علم و عروض پر مستند کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ مزاحیہ ادب اور رثانء ادب بھی ترقی کر رہا ہے۔ حمد و نعت پر پی ایچ ڈی ہو رہی ہیں۔
ان تمام شعرا‘ ادب‘ ناقدین‘ محققین‘ نثار کی ادبی خدمات اور ان تمام کی معیاری تخلیقات کے ہوتے ہوئے ’’ادب روبہ زوال‘‘ کیسے ہو سکتا ہے‘ ہر سال حکومت پاکستان اور حکومت پاکستان کے متعدد ادارے اہل قلم کو ان کی بہترین ادبی و معیاری تخلقیات پر مختلف تعریفی اسناد‘ اعزازی شیلڈز‘ سول ایوارڈز‘ سیرت ایوارڈز اور نقد انعامات سے نوازا کرتی ہے۔ یہ ایوارڈز ان کی بہترین اور معیاری ادبیء تخلیقات پر دیے جاتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال پاکستان میں متعدد بہترین و معیاری ادبی تخلیقات سامنے آتی ہیں اور جو تخلیقات ایوارڈز کی تعداد پوری ہونے کی وجہ سے انعام پانے والی کتب کی فہرست میں نہیں آتی وہ بھی معیاری ہوتی ہیں جو کہ انعام کا حق دار تو ٹھہرتی ہیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ معیاری گردانی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ وہ تخلقیات جن کی دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے اور وہ تخلقیات جو دنیا میں معیاری ادب کے مقابل رکھی جاتی ہیں اور پوری دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان تمام کے باوجود کوئی شخص خود کو پروموٹ کرنے یا احساسِ کم تری کا شکار ہونے یا اپنی اشتہاری مہم خود چلانے کے چکر میں یہ نعرہ لاتا ہے کہ ’’ادب روبہ زوال ہے‘‘ تو شاید یہ آواز اس کے دل کی آواز ہے‘ ہمیں اس سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے کہ اس کی تخلقیات اس قابل نہیں تھیں کہ معیاری اور اہم کا درجہ پا سکیں (اور اُن کا شمار اردو ادبِ عالیہ میں ہو سکے) جس کے سبب وہ دل برداشتہ ہو کر یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کسی طرح تو کوئی شہرت کا پہلو سامنے آئے۔
بہرحال یہ بات قابلِ غور ہے کہ جتنا ادب لکھا جارہا ہے وہ تمام کا تمام معیاری نہیں ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم گیوں کے ساتھ گھن پیستے رہیں۔ غیر معیاری کے ساتھ ساتھ معیاری ادب کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈالتے رہیں۔ یہ ادبی بد دیانتی ہوگی‘ اگر میں پاکستان میں تخلیق ہونے والی گزشتہ پچاس سالہ ادبی تخلیقات اور ان کے تخلیق کاروں کے نام گنوائوں تو یہ فہرست ایک کتاب کی صورت اختیار کر لے گی (کیوں کہ زیر مطالعہ مضمون میں‘ میں نے فقط بہ قید حیات اہلِ قلم کے نام پیش کیے ہیں۔) پھر ادب روبہ زوال کا نعرہ لگانے والا شخص اپنے گریبان میں جھانک کر خود ہی فیصلہ کر لے گا کہ وہ کہاں تک سچا ہے کیوں کہ گزشتہ پچاس سال میں بے شمار معیاری اور قابلِ ذکر افسانوی مجموعے‘ ناولٹ‘ ناول‘ نظم و غزل کے مجموعے‘ انشائیوں‘ کالموں‘ فکاہیوں کی کتابیں‘ طنزیہ و مزاحیہ تحریریں‘ مثنویاں‘ مسدس‘ قصدیہ‘ رباعیات‘ قطعات‘ ہائیکوز‘ ماہیوں کے مجموعے نہ صرف منظر عام پر آئے ہیں بلکہ قارئین شعر و سخن ناقدین فن و ہنر اور مشاہیر اردو ادب سے داد و تحسین بھی ہو وصول کر چکے ہیں اور سرکاری و نیم سرکاری اور نجی ادارے اور انجمنوں سے تعریفی اسناد اور نقد انعامات بھی حاصل کر چکے ہیں اور ان کی گونج دنیائے اردو ادب میں تا دیر سنی جاتی رہے گی۔
جب تک ادیب زندہ ہے‘ ادب کو زوال نہیں‘ صائمہ نفیس
اردو زبان و ادب بالکل بھی روبہ زوال نہیں‘ آیئے اعداد و شمار کے مطابق دیکھتے ہیں جب ہی ہمیں اس کے مدلل جواز نظر آئیں گے کیوں کہ یہ بحث بہت پرانی ہے۔ اردو زبان و ادب کا شعبہ ہر یونیورسٹی اور کالجز میں موجود ہے جہاں آج بھی طالب علموں کو میرٹ کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔ اس ڈپارٹمنٹ میں آج بھی اردو زبان کے شیدائی پوری دنیا سے یہ زبان سیکھنے آتے ہیں اور سند حاصل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اردو کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ شہر قائد کے آرٹس کونسل میں منعقد کی جانے والی کانفرنس جو گزشتہ بارہ سال سے ہر سال دسمبر کے پہلے ہفتے میں منعقد کی جاتی ہے اس دس روزہ کانفرنس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ادب دوست شخصیات شریک ہوتی ہیں اور ادب کی ہر ہر صنف پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے‘ سیمینار منعقد ہوتے ہیں جس میں اپنی اپنی صنف کی وہ جید شخصیات جو قبولیت‘ مقبولیت اور محبوبیت کا شرف حاصل کر چکی ہوتی ہیں ان سے ملاقات کا موقع میسر آتا ہے بلکہ ان کی علمی گفتگو سے ان کے مشاہدے اور تجربات کا تجزیہ بھی سامنے آتا ہے اور ایک جامع رپورٹ بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس صنف میں اس سال کیا کیا نئے شاہکار تخلیق کیے گئے اور اگر ان کے معیار میں کہیں کوئی کجی رہ گئی ہی تو اس کی بھی نشان دہی کی جاتی ہے۔
اسی طرح بے شمار ادبی تنظیمیں اپنا کام پوری لگن اور تن دہی سے صرف اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لیے کرتی ہیں جس میں محبت‘ لگن کے ساتھ ساتھ یہ اپنی توانائی‘ وقت اور پیسہ بھی بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ اب وہ شعرا کے ساتھ شامیں ہوں‘ حلقہ ارباب ذوق کی محافل ہوں‘ ترقی پسند مصنفین کی بیٹھکیں ہوں‘ نفاذ اردو کے سیمینارز ہوں‘ مشاعرے ہوں‘ نثر کی نشستیں ہوں‘ کتاب کی رونمائی کی تقریب ہو‘ ہر کوئی اردو زبان و ادب کا شیدائی اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ مختلف جرائد اور اخبارات ہمیشہ کی طرح ادبا کے نگارشات ادب کے شائقین تک پہنچانے میں ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ کتب میلے کا کامیاب انعقاد اور کتب کی خریداری میں پچاس فی صد گراف کی اونچائی یہ خوش آئند امید دکھاتی نظر آتی ہے کہ انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں بھی کتاب سے محبت کرنے والے اسے خرید رہی ہیں۔ مختلف پبلی کیشنز آج بھی اپنے اپنے اداروں سے ادب کی ہر ہر صنف پر کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب یہ سیمینارز‘ کانفرنسیں‘ مشاعرے‘ نشستیں‘ حلقے اور یونیورسٹیوں میں اردو ڈپارٹمنٹ میں ہدف کے مطابق داخلے‘ ماسٹر‘ ایمفل‘ پی ا یچ ڈی ہونے کے باوجود کہیں سے اگریہ آواز اٹھ رہی ہے تو کیوں؟ اس کی ایک وجہ یہ نظر آتی ہے کہ تنقید کا پشتہ کمزور ہو رہا ہے‘ ناقدین کا کال ہے‘ دھوپ کو راستہ پیڑ کی عریانی سے ملتا ہے اور کشتی کبھی کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے بھی ڈوب جاتی ہے۔ کچھ خود ساختہ ناقدین ہیں جنہوں نے اس خالی جگہ کو دیکھ کر قابض ہونا شروع کر دیا ہے اور یہ انہی کا نعرہ ہے کہ اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے‘ اچھے ناقدین کی حوصلہ افزائی کیجیے‘ انہیں سامنے لانے کے مواقع فراہم کریں ناقدین کا معیار ہمارے ذہنوں میں نقش ہونا چاہیے صرف ایک یا دو غزلیں اور چند اشعار لکھ کر پوری عمر اس کے بل بوتے پر داد وصول کرنے والا شاعر ناقد نہیں ہو سکتا اسی طرح افسانے یا ناول کے قریب سے بھی کبھی نہ گزرنے والا اچھا قاری تو بن سکتا ہے مگر اپنے آپ کو ناقد نہیں سمجھ سکتا۔
ناقد کا معیار اس کی غیر معمولی کارکردگی‘ علمی و ادبی تعلیمی وابستگی اور پختہ ذہنی سطح جو کسی بھی تخلیق کار کی تخلیق کا غیر جانبدار ہو کر گہرائی اور گیرائی سے تجزیہ کرسکے۔ کسی بھی خود ساختہ ناقد کو محض اس کے مطالعے اور بھاری بھرکم الفاظ کے استعمال سے کی گئی گفتگو پر یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ تخلیق کو اپنے ناقص معیار کی کسوٹی پر رکھے بلکہ نقد و نظر اور تنقید کے لیے انہیں موقع دیا جائے جنہوں نے اردو زبان و ادب کی ترویج و تحسین کے لیے اس دشت کی سیاحی میں آبلہ پائی کے گہر پائے اپنی عمریں صف کر دیں پوری عزت و احترام ان کے کہے کو معیار سمجھا جائے اور ان کے لکھے کی تکریم کی جائے ہم خوش قسمت ہیں کہ ایسے گوہر نایاب ہمارے درمیان موجود ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی بصیرت کی تعظیم کی جائے اور ان کی نشاندہی پر تیشے سے ضرب لگاتے ہوئے شاہکار تراشتے رہیں۔ زبان و ادب‘ انسانی‘ اخلاقی‘ سماجی‘ معاشرتی حقیقتوں کا آئینہ اور تہذیب کا پَرتو ہوتا ہے وہ ادیب ہی ہے جو معاشرے کے ناروا اور ناشائستہ رویوں پر پہلی ایف آئی آر کاٹتا ہے اور قاری کی عدالت میں پیش کر دیتا ہے اب اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرتا ہے کہ گزشتہ دور کا ادیب اپنے امر میں کتنا سچا اور کھرا تھا‘ ادیب لفظ کی حرمت اور قلم استعمال جانتا ہے اس لیے جب تک ادیب زندہ ہے‘ ادب کو زوال نہیں۔
کیا اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے؟
اس موضوع پر ہم جسارت سنڈے میگزین میں آپ کی تحریر شائع کریں گے‘ آپ اپنا مضمون 0300-9271778 پر واٹس ایپ کیجیے۔
(انچارج صفحہ جہانِ ادب)