نیرکاشف
باورچی خانے سے پھیلتی چائے کے دم کی خوشبو کو آغا صاحب کئی بار نتھنے پھلا کر سانسوں کے ذریعے اندر اتار چکے تھے۔ ویسے بھی جب سے بصارت نے ساتھ چھوڑا تھا، حسیں ضرورت سے زیادہ کام کرنے لگی تھیں۔ دم سے اٹھنے والی چائے کی خوشبو سے ایسے محظوظ ہونے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے، کام والی حسنہ کے ہاتھ کی بنی چائے نے انہیں کبھی متاثر نہیں کیا تھا، جب کبھی بہو اپنے ہاتھوں سے چائے کو دم دیا کرتی تو انہیں اپنی آرام کرسی پہ بیٹھے بیٹھے ہی خبر ہوجایا کرتی تھی۔ واہ بھئی واہ، اس کا مطلب ہے کہ آج ناشتے پہ بھی اہتمام ہو گا۔ انہیں بچوں کی مانند خوشی ہوئی۔ موبائل پہ ایف ایم سننے کے علاوہ ان کی دلچسپی کا مرکز ایک کھانا ہی تو رہ گیا تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے کرتے کھانا ان کے لیے بس ایک ضرورت ہی ہوا کرتا تھا، یا کاروباری تقاضوں کی بنا پہ دعوتیں دینا اور دعوتوں میں شریک ہونا۔۔۔۔ اُس وقت بھی میز پہ سجے اشتہا انگیز کھانوں کو کون پوچھتا تھا! خالص کاروباری معاملات پہ گفتگو کے ساتھ حلق کے اندر اترنے والا نوالہ ذائقے میں کیسا ہے، اس پہ غور کرنے کی فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ لیکن اب ان کی زندگی میں خوشی کا تصور کھانے کے معیار تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔ بیٹ بھر کے کھانا کھا چکے ہوتے، لیکن کوئی آملیٹ بھی بناتا تو خوشبو سونگھ کر دل چاہتا کہ آواز لگائیں ”ایک آملیٹ مجھے بھی دینا بھئی“۔ اب تو حسنہ جب کبھی چھوٹو کے لیے میٹھا پراٹھا بناتی اُن سے ضرور پوچھ لیا کرتی، بلکہ اکثر تو بِنا پوچھے ہی بنا کر لے آیا کرتی۔
انہوں نے کرسی کے ساتھ دھری چھوٹی میز پہ ہاتھ مارا، چائے کی پیالی رکھنے برابر جگہ ہے کہ نہیں۔ خالی سطح محسوس کرتے ہی اطمینان بھری مسکراہٹ لبوں پہ پھیل گئی۔ ”السلام علیکم ابا جی“۔ جواد اندر داخل ہوا۔ ”ارے تم بھی گھر پہ ہو، خیریت تو ہے ناں؟“ اب کے وہ چونک گئے تھے، بہو تو کبھی کبھار چھٹی کرلیا کرتی تھی لیکن جواد۔۔۔ وہ تو اپنے کاروبار کے معاملے میں باپ سے بھی چار قدم آگے تھا۔ ”جی ابا جی خیریت ہی ہے، آئیں باہر چلیں کھانے کی میز پہ“۔ اس نے نرمی سے باپ کا بازو تھاما تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے، میز پہ پہنچے تو پوتے پوتی بھی اردگرد ہی تھے۔۔۔ کالج یونیورسٹی جانے والے بچے، جن کی آواز سنے بھی ہفتے ہوجایا کرتے تھے، اب اکٹھے ہی سب کی آوازیں کانوں میں پڑنے لگیں۔ اب تو حیران سے زیادہ وہ پریشان ہو گئے۔ ”جواد سب خیریت تو ہے؟“ ”جی ابا جی سب ٹھیک ہے،بس یہ وبا جو پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے حکومت نے پابندی لگادی ہے گھروں سے نکلنے پہ“۔ سب اپنی اپنی زبان میں تفصیلات بتانے لگے۔
آج کل آغا صاحب کا زیادہ وقت ٹی وی والے کمرے میں سب کے ساتھ ہی گزرا کرتا۔
کبھی بچوں کی نوک جھونک سنتے، کبھی ان کے ماں باپ کی۔ پوتی لاڈ سے گلے میں بانہیں ڈال کر ہر بحث میں دادا کو اپنی طرف کرنے کی کوشش کرتی، تو پوتے شور مچا مچا کر انہیں کان بند کردینے پہ مجبور کردیتے۔ کبھی خبریں سنتے ہوئے ماحول سوگوار سا ہوجاتا، تو کبھی عوام کا ایک دوسرے کی مدد کے لیے کھڑے ہوجانا سب مکینوں میں جوش و خروش پیدا کردیتا۔ اپنے اپنے موبائل ہاتھ میں پکڑے کبھی لطیفے سنائے جارہے ہوتے، تو کبھی کسی دوست یا رشتے دار کے گھر میں گزارے جانے والے دن۔ جواد کے ساتھ اتنی باتیں تو انہوں نے ساری زندگی نہیں کی تھیں۔ انہیں کھانوں کی خوشبوؤں نے پہلے کی طرح متاثر کرنا چھوڑ دیا تھا، البتہ پہلی بار یوں بھی ہونے لگا تھا کہ بچوں کی موجودگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نوالے کے لیے ہاتھ پلیٹ کے آگے پیچھے جا پڑتا اور وہ زوردار قہقہہ لگا کر اس لمحے سے بھی محظوظ ہوتے۔
انہیں اپنا آپ ایسا لگتا جیسے کسی خشک ہوتے پودے کو اتنا پانی مل گیاہو کہ اس کی شاخوں پہ مزید پتّوں کی جگہ نہ بچی ہو۔ جامد سی زندگی میں ارتعاش پیدا ہوگیا تھا، سناٹوں کی جگہ آوازوں نے لے لی تھی، جیسے کسی خالی کینوس پہ مصور نے ترنگ میں آکر سارے رنگ ایک ساتھ الٹ دیئے ہوں۔
”آج کیا پکا ہے بھئی؟“ انہوں نے کرسی پہ بیٹھ کر اندازے سے پلیٹ اپنی جانب کھسکاتے ہوئے بہو کی مخصوص کرسی کی جانب رخ کرکے سوال کیا۔ ”ابا جی کریلے گوشت، آپ کو پسند ہیں ناں“، بہو نے جواب دیا تو وہ خوشی سے سر ہلا کر پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ ”حسنہ صبح کے لیے سب کے کپڑے استری ہوگئے ہیں ناں؟“ ”جی بی بی جی سارے کپڑے استری ہیں“۔ بہو اور حسنہ کی گفتگو سن کر وہ ٹھٹھک گئے۔ ”تو کل۔۔۔۔؟“ انہوں نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ ”جی ابا جی کل سے شکر ہے لاک ڈاؤن ختم ہے، اب سب اپنے اپنے کام پہ لگیں گے، پہلے ہی بہت ہرج ہوگیا ہے سب چیزوں کا“۔ جواد نے گلاس میں پانی ڈال کر اُن کی جانب سرکاتے ہوئے اطلاع دی۔ ”میں تو اتنی خوش ہوں، اتنے دنوں بعد اپنی سہیلیوں سے ملوں گی“۔ پوتی کی آواز میں چہچہاہٹ چھلکی تھی۔ ”چلو بھئی کافی دن ہم نے ایک ساتھ وقت گزارا، اب کل سے پھر وہی روٹین، سب الگ الگ وقت پہ گھر آئیں گے، کھانا لے کر اپنے اپنے کمرے میں کھا لیا کریں گے“۔ پوتوں میں سے کسی نے کھانے سے انصاف کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔ آغا صاحب نے اپنی ساری توجہ کھانے پہ مرکوز کرنے کی پوری کوشش کر ڈالی، پھر سے انہیں کھانے کی خوشبوؤں سے دل لگانا تھا۔ موبائل کو کتنے دنوں سے ہاتھ نہیں لگایا تھا، اسے ڈھونڈ کے چارج کرنا تھا۔ قرنطینہ شروع ہوچکا تھا۔