اطہر شاہ خان جیدی کی رحلت

847

سیمان کی ڈائری
آہ! نام ور فن کار، ادیب اور شاعر جناب اطہر شاہ خان عرف جیدی طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ مرحوم اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943ء میں برطانوی ہندوستان کی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے اور انتقال کے وقت ان کی عمر77 برس سے زائد تھی۔ آپ 1947 میں خاندان کے ساتھ لاہور اور 1957 میں کراچی منتقل ہوئے۔انہوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کرنے کے بعد پشاورسے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا۔ بعدازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز بھی کیا۔یہی نہیں انھوں نے سینٹرل ہومیوپیتھک میڈیکل کالج سے ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی سند بھی حاصل کی لیکن کوئی مطب نہیں کھولا صرف دوستوں کو ادویات تجویز کیا کرتے تھے۔لکھنا ہی ان کا بنیادی ذریعہ معاش تھا جس کی ابتدا انھوں نے زمانہ طالب علمی سے کی تھی۔ اطہر شاہ خان خاندانی لحاظ سے اخون خیل پٹھان تھے۔ چوتھی جماعت میں تھے کہ والدہ کا انتقال ہو گیا۔ والد محکمہ ریلوے میں ملازم تھے۔ کچھ عرصہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ والدین کے بعد ان کے بڑے بھائی سلیم شاہ خان نے خاندان کی کفالت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بچپن سے انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ تیسری جماعت میں والدہ نے انہیں علامہ اقبال کی کتاب بانگِ درا انعام میں دی۔
اطہر شاہ خان نے ٹیلی وژن اور اسٹیج پربہ طور ڈراما نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا۔ ان کا شمار ٹیلی ویژن کے ابتدائی ڈرامہ نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔ اطہر شاہ خان کی سپرہٹ ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آشیانہ، آپ جناب، جیدی اِن ٹربل، پرابلم ہاؤس، ہائے جیدی، کیسے کیسے خواب، با اَدب با ملاحظہ ہوشیار اور دیگر شامل ہیں۔انتظار فرمائیے، وہ سیریل تھی جس نے اطہر شاہ خان کو ’جیدی‘ بنا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔2001ء میں انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے جب اپنی سلور جوبلی منائی تو اطہر شاہ خان جیدی کو گولڈ میڈل عطا کیا۔اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اورفلموں کے لیے خوب لکھا اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ بنیادی طور پر وہ ایک زرخیز تخلیق کارتھے۔ 1964ء میں اطہر شاہ خان جیدی کے لکھے ہوئے ڈرامے ’لاکھوں میں تین‘ میں 3 مرکزی کرداروں میں سے ایک علی اعجازکا کردار تھا۔انہوں نے درجنوں فلمیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی پہلی فلم ’بازی‘ نے باکس آفس پر گولڈن جوبلی منائی۔ ان کے تحریر کردہ مزاحیہ ڈراموں نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔
ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر لاہور میں ڈرامہ ‘مسٹر یس، نو اینڈ واٹ’ کی ریکارڈنگ جاری تھی، قوی خان اس کے مرکزی کردار اور تحریر اطہر شاہ کی تھی۔ قوی خان انھیں روزانہ گھر سے اپنی ویسپا اسکوٹر پر پی ٹی وی سنٹر لاتے اور واپسی پر چھوڑ دیتے تھے۔ایک روز قوی خان کی ویسپا خراب ہوگئی اور سڑک پر انھیں دیکھ کر لوگوں کا مجمع لگ گیا اور مداحوں نے ان کی بڑی پذیرائی کی جبکہ اس دوران اطہر شاہ ایک کونے میں کھڑے رہے۔ قوی خان نے مجمع کی توجہ ان کی جانب کرائی بھی کہ یہ ڈراما انھوں نے تحریر کیا ہے وہ تو اس کا محض ایک کردار ہیں لیکن مجمع نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔
جیدی کے کردار پر مرکوز پاکستان ٹیلی وژن کا آخری ڈراما ”ہائے جیدی” 1997ء میں پیش کیا گیا۔انھوں نے بہ طور شاعر، مصنف، ڈراما نگار، ہدایتکار، اداکاراور فنون لطیفہ کے شعبوں میں اپنا لوہا بھی منوایالیکن جیدی کے کردار سے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی اور یہ نام ان کی ذات کا حصہ بن گیا۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی کردار اداکار کے نام کے ساتھ ایسا جڑے کہ وہی پہچان بن جائے۔وہ بڑا سا پائپ، لانگ کوٹ پہنے، چھوٹی سی ٹائی باندھے یہ شخص جلوہ گر ہوتا تھا۔گول چہرے پر گول چشمہ، لانگ کوٹ کے ساتھ چین سموکنگ ان کی شناخت تھی ۔ اس سیریل میں ان کے ساتھ معین اختر، شکیل یوسف بھی شامل تھے۔
اطہر شاہ خان مزاحیہ شاعری بھی کرتے عید کے دنوں میں پی ٹی وی کے مزاحیہ مشاعروں کا وہ مرکزی جز ہوا کرتے تھے جبکہ اخبارات میں بھی ان کے قطعات شائع ہوتے۔متعدد اخبارات میں انھوں نے کالم نویسی بھی کی۔ مزاح کی شاعری کے حوالے سے انھیں اندرون اور بیرون ملک مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔غالباً دوبئی کا ایک مشاعرہ جشنِ جون ایلیا میں جب وہ اسٹیج پر پڑھنے کے لیے آئے تو جون ایلیا نے کہا کہ یہاں مزاحیہ شاعری کی جگہ سنجیدہ شاعری سنانا۔خیر انھوں نے جون بھائی کی فرمائش پرسنجیدہ قطعہ پیش کیا اور بعد میں مزاحیہ شاعری سنائی۔اسی طرح پشاور کے خیبر میڈیکل کالج میں انھوں نے تومیری مرضی کی ردیف میں مزاح سے بھرپور ایک غزل سنائی جو بہت مقبول ہوئی۔
اطہر شاہ کی ابتدائی پہچان ریڈیو پاکستان ہی تھی۔ انھوں نے وہاں ‘رنگ ہی رنگ جیدی کے سنگ’ کے نام سے ایک مزاحیہ پروگرام بھی کیا جس کے پروڈیوسر عظیم سرور تھے یہ پروگرام 17 برس مسلسل چلا جو ریڈیو پاکستان کا ایک ریکارڈ ہے۔پی ٹی وی کے پروگرام میں تو وہ مزاحیہ سے نظر آتے تھے یہاں وہ بالکل ہی محتلف تھے انھوں نے اس پروگرام میں ایک سو روپ تبدیل کیے۔بہ طور لکھاری ان کی پہلی فلم بازی، سپر ہٹ ثابت ہوئی۔ جس میں فلمسٹار ندیم اور محمد علی پہلی بار آمنے سامنے آئے اور اس میں اداکارہ نشو کو بھی متعارف کرایا گیا جبکہ ان کی دیگر فلموں میں گونج اٹھی شہنائی، ماں بنی دلہن، منجی کتھے ڈھاواں شامل ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر علی شاہ عرف جیدی نے لگ بھگ بیس برسوں میں سات سو ڈرامے لکھے، 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان میں مزاح نگاری کی دنیا پر ان کا راج تھا۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈرامے انتظار فرمائیے، با ادب باملاحظہ ہوشیار، لاکھوں میں تین، پہلے دیکھنے والوں کی زندگی اور پھر یادوں کا حصہ بن گئے۔وہ طویل عرصے سے شوگر،گردے اور فالج کے عارضے میں مبتلا تھے اوران بیماریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے۔ اطہر شاہ خان جیدی کی نمازجنازہ گلشن اقبال میں ادا کی گئی اور سخی حسن قبرستان میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔نمازِ جنازہ میں حکومتی ہدایت کے پیشِ نظر صرف اہل خانہ اور محدود افرادہی شریک ہوئے ۔جن میں سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں۔
اُن کے دوستوں میں سینئرپی ٹی وی کے پروڈیوسرمحمد اقبال لطیف نے اپنے تاثرات میں کہا،1963میں اردو کالج میں مجھے ملنے والے سینئر طالبعلم پہلی ملاقات میں ہی دل میں گھر کرگئے۔اردوکالج کے سالانہ تقریبات میں ان کے لکھے ہوئے مزاحیہ ڈراموں میں انہوں نے مجھے مستقل اداکار بنادیا۔ہم نے ریڈیو پر ساتھ آناجانا اورساتھ صداکاری بھی کی ۔میری زندگی میں ان کا مقام مشفق بڑے بھائی اور پہلے ہدایت کار کا تھا۔کالج کے بعدہم اپنے اپنے کیرئیر کے خوابوں کی تعبیر پانے الگ الگ راہوں پر چل دیے۔وہ لاہور میں اپنی شب وروز محنت سے تھیٹر اور فلم انڈسٹری میں دمکنے لگے۔ میں نے تعلیم ختم کرکے ہالی ووڈامریکہ سے واپسی پر پی ٹی وی کی ملازمت اختیار کی یوں چند سال کے وقفے کے بعد پی ٹی وی لاہور میری پہلی پوسٹنگ (1975) کے وقت ہم پھر یکجا ہوئے اور لاہور کے کھابوں،ہماری قربتوں اور ان کے اسٹیج ڈراموں میںاداکاری کاسلسلہ دوبارہ جاری ہوگیا۔اس وقت وہ اپنی لکھی فلم بازی کی شوٹنگ پر مدعو کرتے اور شوٹنگ کے بعد مجھے پی ٹی وی پر ڈرامہ پروڈیوس کرنے پر اکساتے رہتے۔بالآخر کراچی ٹی وی سینٹر پر ”انتظار فرمائیے”، ”ہیلو ہیلو” اور ”رفتہ رفتہ” جیسی سپر ہٹ سیریلز کی پروڈکشن سے ہم دونوں بھائیوں کی ایک ساتھ مل کر ٹی وی پروڈکشن کرنے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ۔دنیا کے لیے جیدی اور اطہرشاہ خان میرے لیے ”اطوبھائی”آج یوں چلے گئے جیسے اچانک کالج کی کینٹین کا میرا بل دے کر چپکے سے چلے جاتے تھے۔اطو بھائی یہ کیا کر گئے آپ؟؟؟دھوکا،جھوٹ اور بناوٹ توآپ کی فطرت میں تھا ہی نہیں۔زندگی کا پہلا اورآخری دھوکا دے گئے۔جانا توسب کو ہے مگرآپ کچھ تو کہہ کر جاتے۔ آج آپ آخری منزل کی طرف روانہ ہوئے مگر شان کے ساتھ اپنی معصوم اداکاری اور اپنی ہنستی تحریریں،کھکھلاتے اشعار کی سدا قائم رہنے والی گونج دے گئے۔ 1963 سے 2020تک 57 سال کے منظر آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح رواں ہیں۔دل مان نہیں رہا کہ دنیا کو مسکراہٹوں کا خزانہ دینے والے لیجنڈری ”مسٹرجیدی”ہمیں آنسو دے گئے۔اللہ کریم ورحیم آپ کی نیک روح کو مغفرت،بلنددرجات اور آخری سفر میں آسانیاں عطا کرے۔آمین۔
معروف شاعر امجد اسلام امجد نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اطہر شاہ خان سے میری پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی۔ اُس وقت وہ صحافت کے شعبے میں زیر ِتعلیم تھے۔ وہ اُس وقت لاہور ریڈیو اور پی ٹی وی لاہور کے لیے نہ صرف باقاعدگی سے لکھ رہے تھے بلکہ اُن کی تحریریں بہت پسند بھی کی جا رہی تھیں۔اس ملاقات کے بعداطہر شاہ خان میرے ٹی وی رائٹر بننے کا وسیلہ بنے۔ انھوں نے مجھے یقین دلایا کہ میں ڈراما لکھ سکتا ہوں ۔اُس پر آشوب دور میں اطہر شاہ خان ہی وہ شخص تھے جنھوں نے مجھے حوصلہ دیا اُن کا یہ احسان میں مرتے دم تک یاد رکھوں گا۔ڈراما سیریل ’’وارث‘‘ لکھنے کے بعد مجھے بہ طور ڈراما نگار بے شمار ایوارڈ ملے۔اطہر شاہ خان جتنے بڑے فنکاراور مزاح نگار تھے، اتنے ہی بڑے انسان بھی تھے۔ نیویارک سے مزاح کے معروف شاعر خالد عرفان نے اپنے تاثرات میں کہا اطہرشاہ خان ، خدادصلاحیتوں کے حامل اداکار ، ہدایت کار ، مصنف اور شاعر تھے ۔ ان کا شمار ان اداکاروں میں ہوتا تھا ، جن کے ڈراموں کے اوقات میں بازار اور دکانیں بند ہوجایا کرتی تھیں ۔ چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک تخلیقی ذہن کے فنکار تھے ، اس لیے انہوںنے فلم کی کہانیوں کے علاوہ ، افسانے لکھے اور شاعری کی ۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ صرف مزاحیہ شاعری کرتے تھے۔ اُن کی سنجیدہ غزلوں میں بلاکی ذہانت ، برجستگی اور کہنہ مشقی پائی جاتی تھی ۔ گویا وہ اپنی شعری تخلیقی صلاحتیوں کے باعث طنزو مزاح کے بھی اچھے شاعرتھے ۔انہوں نے اپنے شعری سفر کا آغاز ۱۹۸۵ء میں کیا۔ مزاحیہ مشاعروں میں ان کے لیے محفل پر چھاجانا کوئی کمال کی بات نہیں تھی لیکن سنجیدہ غزلوں کے ذریعے اہل قلم اور باشعور سامع و قاری کے دل میں جگہ بناناانہی کا خاصہ تھا ۔ نارتھ ناظم آباد میں کسی شادی ہال میں ایک مزاحیہ مشاعرہ تھا جس میں اتفاق سے میں بھی شریک تھا اور یہ مشاعرہ اطہر شاہ خاں(جیدی) کی زندگی کا پہلا مشاعرہ تھا۔ بہت سے سکہ بند اساتذہ انہیں دیکھ کر جز بز ہوئے لیکن جب انہوں نے اپنی شاعری سنائی تو یہی اساتذہ اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ۔ انہوں نے فنکاری اور شاعری نہیں کی بلکہ لوگوں کے دلوں میں گھر کیا اور جولوگ دلوں میں گھر کرتے ہیں وہ کبھی مرا نہیں کرتے۔ سعید آغا نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اطہر شاہ خان میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ بہت کمال کے لکھاری اور شاعر تھے۔ہم نے بیرون ملک مشاعروں کے لیے ایک ساتھ سفر کیے۔اپنی بیماری کے سبب سعید آغا اطہر شاہ خان کے لیے بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن کہہ نہیں سکے۔یہاں قارئین کو بتاتا چلوں کہ معروف شاعرسعید آغا اِن دنوں علیل ہیں ۔ اُن کی صحت و سلامتی کی دعا ضرور کیجیے گا۔

قطعات

رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا

فیل پا جیسا مرض اللہ بچائے
کتنے اس پر ہول طاری ہو گئے
وہ بے چاری چلنے پھرنے سے گئی
بیٹھے بیٹھے پاؤں بھاری ہو گئے

پوچھا جو شیخ نے کہ یہ کیا ہے گلاس میں
گھبرا کے میں اسے عرقِ گل بتا گیا
کہنے لگا کہ جھوٹ ادھر لاؤ سونگھ لوں
دیکھو تو کس بہانے سے چسکی لگا گیا

حصہ