سید عارف بہار
بھارت نے ایک ٹھیٹھ ہند و ریاست کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے کا جو فیصلہ کیا اس سے ایک سخت گیر ہندو لابی کو طاقت کے مراکز پر اپنی گرفت قائم کرنے میں تو کامیابی ہوئی مگر اس سے عالمی سطح پر بھارت کابنا ہوا آزاد اور سیکولر جمہوریہ کا نقش نقش بر آب بنتا جا رہا ہے ۔بھارت اپنے اصل رنگ وروپ میں پوری طرح دنیا کے سامنے آتا جا رہا ہے ۔برسوں بھارت پاکستان کی بدنامی کے پردے میں اپنی نیک نامی تلاش کرتا رہا مگر اب بھارت پاکستان کے آئینے میں پہچانے جانے کی بجائے اپنے افعال اور اعمال اور پالیسیوں کی بنا پر اپنا اصل نقش اور شناخت قائم کرتا جا رہاہے ۔ اس کا ایک ثبوت امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجئس فریڈم کی رپورٹ ہے جس میں بھارت کو اقلیتوں کے لئے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے ’’باعث تشویش ‘‘ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔اس کمیشن کی رپورٹ کے تحت بھارت مذہبی آزادی میں بھارت کئی درجے نیچے آگیاہے۔رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مہم چلائی ۔بابری مسجد پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ،مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ اور بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے شہریت کے قانون کا نفاذ اس مہم کا حصہ ہیں۔امریکی کمیشن نے ان نفرت انگیز مہمات میں شریک بھارتی شخصیات اور اداروں پر پابندیوں کی تجویز بھی دی ہے۔اس کے ساتھ ہی وائٹ ہائوس کے ٹویٹر سے مودی سمیت پانچ اہم افراد کو ان فالو کر دیا گیا ہے۔دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند الکسیمی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک پر مسلسل نظر رکھے ہوئے اور ان کے ٹویٹس یہ بتا رہے ہیں کہ وہ اس معاملے کو یہیں ختم کرنے کو تیار نہیں۔ کسی بھی متحرک اور فعال جمہوریت کو راہ راست پر رکھنے میں اپوزیشن ،میڈیا اور عدلیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔بھارت میں اپوزیشن کو کلی طور پر دیوار سے لگادیا گیا جبکہ باقی دوستون اپنی آزادانہ شناخت کھو کر حکومت کے آگے سپر ڈالے ہوئے ہیں۔بابری مسجد اور کشمیر کی خصوصی شناخت کے مقدمات کے ساتھ بھارتی عدلیہ کے سلوک نے یہ بتا دیا کہ ریاست کا اہم ستون کرم گزیدہ ہو کرآزادانہ طور پر کھڑا رہنے کی صلاحیت اور سکت کھو چکا ہے۔ بھارت کا میڈیا نفرت کے اس سفر میں مودی حکومت کے ہمرکاب تو بھارت کی عدلیہ اس کے شامل باجا ہے۔ اب تو ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں جس میں بھارتی میڈیا کے اس کردار کو بھارتی جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔ ہانگ کانگ کے معروف انگریزی اخبار ایشیا ٹائمز میںنیپال کے ایک دانشور بھیم بھورٹل نے ’’کارپوریٹ میڈ،یا بھارتی جمہوریت کے لئے ایک سنجیدہ خطرہ‘‘کے عنوان سے اہم مضمون لکھا ہے۔جس میں بھارتی صحافت کو کئی نام دئیے گئے جن میں ہر نام کا مفہوم بدنامی سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتا ہے ۔مضمون نگار نے بھارتی میڈیا کے لئے مودی حکومت کی’’ بینڈ ویگن‘‘ یعنی بینڈ کو لئے چلنے والی ویگن ،’’چیر لیڈرز‘‘ کسی کھیل میں نعرہ آفریں بلند والا کردار اور’’کے فیب ‘‘یعنی نوراکشتی کرنے والا قرار دے رہا ہے ۔یہ القابات اس ملک کے میڈیا کو دئیے جارہے ہیں جس کی آزادی اور جرات کے قصے کچھ عرصہ تک عام تھے جس کی پہچان خشونت سنگھ ،منی شنکر آئر ،کلدیپ نائیر،سعید نقوی،شاہد صدیقی جیسے لوگ تھے جو متواز ن انداز میں اپنی بات کہنے کا فن جانتے تھے مگر اب بھارتی میڈیا حکومت کا بھونپو بن کر اپنی آبرو گنوا بیٹھا ہے ۔ایشیا ٹائمز کا مضمون اس کی واضح دلیل ہے۔مضمون نگار لکھتے ہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کو کئی سنگین خطرات درپیش میں جن میں ایک خود بھارتیہ جنتا پارٹی ہے اوراس کے بعد بھارت کے میڈیا کا رویہ اور کردار ہے۔بھارت کا میڈیا مودی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کی حمایت میں پوری دلجمعی سے شامل ہوجاتا ہے ۔یہ ایجنڈا لیفٹیسٹ مخالف ،انسانی حقوق مخالف،اپوزیشن مخالف کو کچھ بھی ہو بھارتی میڈیا اس کی حمایت میںمودی کی غلط کاریوں ،کمزوریوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش میں جُت جاتاہے۔جنگ آزادی کے جن بھارتی ہیروز نے ایک متحمل،عدم تشدداور سیکولر ملک کا خواب دیکھا تھا اب حالات دیکھ کو قبروں عالم اروح میں پیچ وتاب کھا رہے ہوں گے۔مضمون نگار لکھتے ہیں کہ فعال جمہوریت کی پہچان بے خوف ،آزاد اور صاف وشفاف میڈیاہوتا ہے مگر 2015میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت کا میڈیا حکومت کا بھونپوبن گیا ہے۔حکومت کے کارپوریٹ میڈیا سے قریبی تعلقات ہیںاسی لئے بھارتی میڈیا مودی کی ہرمہم کی حمایت میں سرگرم ہوجاتا ہے۔بھارت دنیا میں گائے کا گوشت اور چمڑا برآمد کرنے والے ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے اس کے باجود بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں گائے کے گوشت پر پابندی لگائی گئی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے ہمنوائوں نے گائو رکھشا مہم چلائی ۔اس مہم کے دوران چند برس میں ایک سوافراد ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔بھارتی میڈیا نے اس رویے کی مذمت کرنے کے بجائے یہ نکتہ تراشا کہ اگر یہ افراد گائے کا گوشت لے کر نہ چلتے تو قتل نہ ہوتے ۔گائو رکھشا مہم کے حوالے سے منعقدہ ٹی وی شو ز میں اینکراقلیتوں کے نمائندوں پر چیختے رہے حتیٰ کہ انہیں غدار تک کہا جاتا رہا ۔بائیں بازو کی آواز کو دبانے کے لئے جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم راہنما کنہیا کمار کو گرفتار کیا گیااوراب وہ بغاوت کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔بی جے پی کا ترجمان میڈیا کنہیا کمار کو پاکستان کا تنخواہ داراور غدار بنا کر پیش کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا حقوق انسانی مخالف ثقافت کو فروغ دے رہا ہے۔وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والے ہر اہلکار کو ہیرو بناکر پیش کر رہا ہے جس کی مثال کشمیر میں ایک عام شہری کو فوجی گاڑی کے آگے باندھ کر ہیومن شیلڈ بنانے والے بھارتی فوجی میجر گوگوئی کے حق میں بھارتی میڈیاگلا پھاڑ کر بولتا رہا ۔اپوزیشن نے پلوامہ حملے پر سوالات اُٹھائے تو بھارتی میڈیا نے اپوزیشن کو بھی غدار قرار دیا۔نوٹ بندی لاک ڈائون سمیت مودی حکومت کی ہر ناکام پالیسی کی پردہ پوشی کرنا بھارتی میڈیا کا وطیرہ بن گیا ہے۔مضمون نگار نے اپنی بات ایک ہندی شاعر سمپتھ سرال کے اس جملے پر کیا ہے کہ اگر یہ میڈیا 1947میںہوتا تو بھارت کبھی آزادی حاصل نہیں کر سکتاتھا۔یہ بات سچ ہے کہ اگر مودی خود کو تاحیات وزیر اعظم قرار دے تو بھارتی میڈیا اسے ایک تاریخی فیصلہ قراردے کر جشن منارہا ہوگا۔بھارتی میڈیا کے موجودہ کردار وعمل کا اس خوبصورت محاکمہ ممکن نہیں۔اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ بھارتی جمہوریت کا ایک اہم ستون ٹوٹ گر اہے گویا کہ حکومت کو اب عقل ودانش کی راہ دکھانا والا کوئی بھی باقی نہیں بچا۔