شہید ریاض نائکو، لاک ڈاؤن اور سوشل میڈیا

480

کوروناکے بارے میں مختلف باتیںمستقل جاری و ساری ہیں ۔اب یہ بات سب ضرور کہہ رہے ہیں کہ یہ وائرس تو حقیقت ہے مگر اتنا خوفناک یا بہت زیادہ جان لیوا نہیں۔ امریکہ سے معوذ صدیقی نے نیو یارک میں لاک ڈاؤن خاتمے کی منظر کشی کی کہ لوگ نکل آئے ہیں، بلا خوف و خطر ، جبکہ سرکاری طور پر وہاں15مئی کو لاک ڈاؤن مرحلہ وار ختم ہونے کا اعلان ممکن ہے ۔واضح رہے کہ نیو یارک میں اموات کی تعداد کوئی 20000کے قریب پہنچ چکی ہیں ، جس میں سیکڑوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔سماجی میڈیا پر مستقل واقعات و چیزوںکو جوڑ کر مختلف قسم کی سازش کے تانے بانے جوڑے جا رہے ہیں۔اولاً ڈیٹا والی بات کہ سب کا ڈیٹا چلا جائے گا ، ویکسین کے بہانے یا کورونا نہ لگنے کے بہانے ۔دوسرا بل گیٹس فاؤنڈیشن والا بلکہ والے ایشوز بھی ہیں ،جس کے بارے میں یوں پوسٹیں دھڑا دھڑ شیئر کی جاتی رہی ہیں، ’’ کورونا عالمی سازش کا حصہ ہے جس میں بل گیٹس، امریکہ اوریہودی لابی ملوث ہے۔عالمی استعمار نے چین۔پاکستان اورایران کو تباہ کرنا تھا ، لیکن الٹا یورپ تباہ ہوگیا، فرانس کو بہت بڑا دکھ ہے فرانس ،امریکہ کی اس حرکت پر نالاں ہے اورسخت غصے میں ہے، اٹلی اورجرمنی بھی سخت غصے میں ہیں۔اسلیے عوام کا احتجاج زوروں سے جاری ہے ۔‘ اسی طرح امریکہ ہی سے ایک نامعلو م ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بل اینڈ ملنڈا گیٹس کے ایک ریسرچ سینٹر کی جعلی تصویر بنا کر اُس پر ’ سینٹر فار گلوبل ہیومن پاپولیشن ریڈکشن ‘ کندہ کر کے خوب وائرل کیا گیا۔اسی طرح رائٹرز کی فیکٹ چیک ٹیم نے ڈیتا والی بات یا بل گیٹس کی جانب سے انسانوں میں مائیکرو چپ لگانے والی بات کی بھی بغور تحقیق کی ہے ۔ اس میں ڈجیٹل سرٹیفیکیٹ والی بات تو درست ہے ،البتہ مائیکرو چپ والی بات کی کوئی تصدیق سامنے نہیں آئی۔ویکسین بنانے کی دلچسپی کے تناظر میں ۴مئی کو بل گیٹس نے اپنے بلاگ میں خود کہا کہ اس وائرس کے خلاف امیونٹی بڑھانے والے ویکسین کی تیاری میں ڈیڑھ سال لگے گا۔( بحوالہ gatesnotes.com) اب اگلے ڈیڑھ سال میں کیا منظر نامہ ہوگا ، کس طرح یہ ویکسین اگر بنی تو کیا رنگ لائے گی،کس طرح انسانوں کو لگائی جائے گی ؟ یہ اُس وقت کی صورتحال خود بتائے گی۔ اب چلو مان لیں کہ یہ سب ویکسین کے لیے کیا گیا لیکن وائرس تو حقیقت میں ہے نا ، علاج کے لیے ویکسین تو ویسے بھی لازمی چاہیے ۔ جو چاہے بنا لے ، جس طرح چاہے بیچ دے۔ یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔ میں نے تو یوں بھی سمجھایا کہ یہ تو بنیادی طور پر صرف ’کورونا ‘صورتحال سے فائدہ اُٹھانا ہوا جیسا کہ یہاں ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ 5روپے والا ماسک250روپے تک چلا گیا۔ مرغی 300پر چلی گئی ، آٹا، دال ، چاول کی بڑھتی قیمتیں دیکھ لیں،پیٹرول دُنیا میں کم ہوا لیکن پاکستان میں عوام ویسے ہی خوار ہو رہی ہے۔توبنیادی طور پر اس صورتحال کا سب نے فائدہ اٹھایا۔اِسی طرح بل گیٹس بھی فائدہ اُٹھائے گا یا کوئی اور جسے ڈیٹا چاہیے یا صرف ویکسین کی رقم ۔پاکستان کے سیٹلائیٹ نظام سے وابستہ ایک دوست بتاتے ہیں کہ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اتنی وسعت پا چکی ہے کہ گھر کے تہہ خانے تک بھی جھانک لے بلکہ وہاں بھی نشانہ لے لے۔ اب اس ڈیٹا سے اور مزید کیا چاہیئے تو وہ بھی لے لو۔میں نے تو قرآنی فارمولے سے سمجھایا کہ صرف ایک سورۃ قریش میں دیکھ لو جن دو چیزوں کا مسئلہ ہے یعنی ’بھوک ‘اور ’حالت خوف ‘ آج وہی پوری دُنیا پر بشمول پاکستان یہی کیفیت طاری ہے نا ۔ایک اَن دیکھے کورونا کے پھیلنے سے جڑا موت کا ’خوف ‘ہے جس کے نتیجہ میں لاک ڈاؤن ہوا ہے جوبے روزگاری و ’بھوک ‘کی جانب لے آیا ہے ۔ہر گزرتا دن امیر و غریب سب کو جھٹکے دے رہا ہے تو ایسی ہی کیفیت سے نکلنے کا راستہ اللہ پاک نے یہی بتایا ہے کہ ’رب کی بندگی ، عبادت کواپناؤ‘۔ہاں ایک بات اور بتاتا چلوں کہ 14مئی کو پوپ فرانسس نے بھی اس وائرس سے پر قابو پانے کیلیے دنیا بھر میں دعا کی درخواست تمام مذاہب کے ماننے والوں سے کی ہے ۔
چلیں یہ تو چلتا رہے گا ، ابھی تو سب اپنے اپنے فلسفہ لا رہے ہیں۔ ویسے بھی کنفیوژن تا حال برقرار ہے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ڈاکٹرز کچھ کہہ رہے ہیں، تاجر کچھ، سیاسی جماعتیں بھی کنفیوژ ہیں۔ پاکستان میںلاک ڈاؤن کے خاتمے کا مکمل ماحول بنتا جا رہا تھا ۔ اگر لاک ڈاؤن کا مقصد کورونا کو پھیلنے سے روکنا تھا تو یہ سب کچھ اُس مقصد کے برخلاف ہی ہو رہا تھا۔ نادرا کے دفاتر کھلنے کے بعد وہاں کسی احتیاط کی گنجائش نہیں نظرا ٓتی تھی ۔ پھر بازاروں کو جس طرح کھولنے یا نرم لاک ڈاؤن کا اعلان یا گیا وہ خود مضحکہ خیز تھا۔ کسی کی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ چھوٹی دکانیں کھلیں گی بڑے شاپنگ مالز بند، بڑے اسٹور کھلیں گے لیکن شادی ہالز و ہوٹل بند۔مقامی ٹرانسپورٹ کھولیں گے لیکن ریلوے بند۔امتحانات بھی کینسل، اسکول کی چھٹیاں بھی بڑھ گئیں مگر دکانیں شام پانچ بجے تک کھیلیں گی۔بہر حال یہ تمام فیصلے کنفیوژڈ ذہنیت کی عکاسی کرتے تھے ، ٹوئٹر پر lockdownendکے ہیش ٹیگ نے اس حوالے سے ٹرینڈ لسٹ میں جگہ بنا لی۔دوسری جانب کورونا کی آڑ میں ’سیاست ‘ بھی چمکائی جا رہی ہے شوگر مافیا کے بعد آئی پی پی اسکینڈل کے پیچھے بھی اربوں روپے کا گھپلہ سامنے آکر دبایا جا رہا ہے۔پچھلے ہفتہ سے چلنے والا قادیانی ایشو یعنی اُن کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے والا معاملہ اس ہفتہ بھی چلتا رہا ۔ دلوں کا حال اللہ جانتا ہے تاہم سوشل میڈیا رپورٹ کرنے کے تناظر میں یہ حقیقت ہے کہ اینکر ندیم ملک نے اس مدعہ پراپنے با وثوق ذرائع کی بنیاد پر وزیر مذہبی امور سے کُرید کُرید کر کئی بے باک سوالات کیے۔یوں اُن کی گفتگو و پروگرام کے کلپس اگلے دن عوامی تائید پا کر ٹرینڈ کی صورت اُبھر آئے۔دوسری جانب معروف سوشل میڈیا مبلغ اسلام انجینئر محمد علی مرزا سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔ ویسے بھی اُن کے سوشل میڈیا یو ٹیوب چینل کے سبسکرائبرز کوئی سوا گیارہ لاکھ کے قریب ہیں اور اُن کے ویوز 20 کروڑ سے زائد ہیں۔بیعت اور مریدی کے تناظر میں اُن کی کسی تقریر یا گفتگو کے ایک ویڈیو کلپ کے بھی ادھورے حصہ کو بنیاد بنا کر اُن پر لعن طعن کی گئی پھر ایف آئی آر درج کرا کے گرفتار کروایا گیا۔یوں وہ مزید مشہور ہو گئے۔ بی بی سی نے بھی رپورٹ کیا ، عدالت نے بھی کمزور کیس کی بنیاد پر رہائی دی،اس طرح ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کی صورت اُبھرے اور اُن کے بے شمار چاہنے والوں معتقدین نے اُنہیں اپنا ’ہیرو‘ قرار دیتے ہوئے ’سچائی کا پیکر‘ ، اُن کے اپنے قول کہ میں ہوں ’مسلم علمی کتابی ‘کا خوب شور پیٹا۔دوسری جانب مخالفین اُن کے ویڈیوز اور اُن کے نشر کردہ مواد میں سے قابل اعتراض باتیں نکال کر لعن طعن کرتے رہے۔ قادیانیوں کے حوالے سے اُن کا موقف بھی خاصا تنقید کا نشانہ رہا جس میں انہوں نے کہا کہ ’کسی کی مخالفت میں بھی حد سے آگے نہیں نکلنا چاہیے ۔ یہود و نصاریٰ کی مسلم دشمنی کے بارے میں قرآن کی گواہی موجود ہے، قادیانی تو پھر بھی ہمارے نبی ﷺ کو نبی تو مانتا ہے ، اسلیے قادیانی یہودو نصاریٰ کے مقابلے میں ترتیب دشمنی میں بعد میں آئے گا۔‘‘
لاک ڈاؤن کی پہلی اصطلاح ہمیں پچھلے سال5اگست کو بھارت کی جانب سے موصول ہوئی تھی جو اُس نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے جبر و ظالمانہ فیصلہ کو نافذ کرنے کے لیے کیا تھا۔ اُس کے بعد چین کے پاس سے سُننے کو ملی پھر خود پاکستان آج بھی اُس کو عملی طور پر دیکھ رہا ہے ۔مگر مقبوضہ کشمیر میں اُس کی شکل بدترین کرفیو سے بھی کچھ زیادہ ہی رہی۔پاکستان میں تو 50دن میں ہی سب باہر آگیا مگر مقبوضہ وادی میں آج 9ماہ بعد بھی صورتحال انتہائی خرابی کی جانب ہے ۔ایسے میں ظلم سے آزادی وحریت کے سفر پر گامزن ایک اور عظیم روشن ستارہ نوجوان انجینئر ریاض نیکو ؒ کی شہادت کی خبر سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بن گئی۔شہید برہان وانی کے بعد حزب المجاہدین کے اہم کمانڈر تھے جن پر بھارتی فوج کی جانب سے خاصا بھاری انعام بھی رکھا گیا تھااور کئی جانباز کارروائیوں میں بے شمار بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کر چکے تھے ۔ بھارتی آرمی، پولیس اور سی آر پی ایف کی مشترکہ ٹیم کے ایک بڑے آپریشن کے نتیجے میں اپنے دو قریبی مجاہدین کے ہمراہ طویل معرکہ میں جام شہادت نوش کر گئے۔شہید کی کوئی پانچ چھ ہی تصاویر عام ہوئی تھیں جنہیں بھر پور انداز سے شیئر کیا جاتا رہا۔ فیس بک انتظامیہ کو برہان وانی کی طرح شہید کا نام اور تصویر اتنی سخت تکلیف کا باعث رہی کہ اُس نے تصاویر یا نام ڈالنے والوں کو دھڑا دھڑ متنبہ کر کے از خود ڈیلیٹ کرنے لگا اور متنبہ کرنے پر نہ ماننے والوں کے اکاؤنٹ سسپنڈ کرنے لگا۔ ٹوئٹر پر ریاض نائکو، ریاض نائکو ہمارا ہیرو و دیگر ہیش ٹیگ ٹرینڈ کی صورت اختیار کر چکے تھے ۔چند سو مجاہدین کو قابو کرنے کے لیے کئی سالوں سے 8لاکھ سے زائد کی آرمی خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔اہل کشمیر کے رد عمل کے خوف سے ۹ ماہ سے جاری نرم گرم لاک ڈاؤن بھارتی کمزوری کی نشانی ہے ۔حزب کمانڈر کی شہادت کے رد عمل میں ایک وائرل ویڈیو میں سخت احتجاج ، پتھراؤ کی صورت عوامی رد عمل بہت کچھ بتا رہا تھا جس میں لوگ تمام کرفیو لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو توڑ کر نکل آئے تھے۔معروف اینکر جمیل فاروقی لکھتے ہیں کہ ،’’ریاض نیکو مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی شہید کے بعد جرات کا وہ پیکر تھے جنہوں نے بھارت کو جذبہ حریت سے ناکوں چنے چبوا دئیے – رشی کپور اور عرفان خان کے مرنے پر ٹویٹ کرنے والے آج اس شہزادے کی شہادت پر کہاں مر گئے ہیں؟‘‘ اسی طرح ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ ’’کشمیری کمانڈر ریاض نیکونا کی شہادت پر بھارت میں خوب بڑھکیں ماری جا رہی ہیں۔17 کمانڈوز اور افسروں کی ہلاکت کے بعد ایک شہادت پر یہ دعوے مضحکہ خیز ہیں۔انڈین آرمی اور کشمیری آبادی کا تناسب 1:10 مگر فوجی ہلاکت کی شرح 1:17 ہے اسطرح ساری فوج مرواکر بھی کچھ نہیں بچے گا۔ سچ یہی ہے کہ ہم نے رسم محبت کو زندہ کیا..زخم دل جیت کر… نقد جاں وار کر..!الوداع ریاض نائکو..جنت میں برہان وانی تمہارا منتظر ہوگا!‘‘۔ اگلے روز بھارتی میڈیا کی شر انگیزی کے خلاف RadicalIndianMediaکے ہیش ٹیگ کو بھی ٹرینڈ کی صورت لسٹ میں جگہ مل گئی جس کے ذیل میں بھارتی میڈیا کے اگلتے زہر ، مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی آواز دبانے کو بھی سخت تنقید کانشانہ بنایا گیا۔
وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر پی ٹی وی پر جاری ترکی ڈرامہ سیریز ’ارتغرل‘ نے بدترین ترجمہ و ڈبنگ کے باوجود اپنی جگہ بنا لی۔ کوئی دو سے تین مرتبہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈبنا۔ مجموعی طور پر سماجی میڈیا پر بھر پور تعریفی رد عمل آیا۔ مجھے خوشی جب ہوئی جب میں نے ملک کی معروف شخصیت قاسم علی شاہ کو بھی ارتغرل کا گرویدہ پایا جس پر انہوں نے ایک ویڈیو بھی نشر کی۔ارتغرل کے خوبصورت ڈائیلاگ پر مبنی خوبصورت پوسٹیں ہوں یا اُس کے مناظر کو جمع کر کے مختلف کلپس سب کو بھر پور پسندیدگی مل رہی تھی ۔کوئی اُن کے مقبرے کی تصاویر ڈالتا، کوئی اُس کی تھیم میوزک کی تیاری کی تو کوئی اداکاروں کی ۔ غرض کہ اس سیریز نے بچی کھچی پاکستانی عوام کو بھی جکڑ ہی لیا۔ میں کود اپنے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو میرے کئی بار کہنے کے باوجود سیریز نہیں دیکھ سکے لیکن نا معلوم کیسے پی ٹی وی کے شکار ہوگئے ۔اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ایک پاکستانی نے تجزیہ کیا کہ ’ابھی تو شروعات ہے ۔ آگے دیکھنا کہ ارتغرل نمکو، ارتغرل بسکٹ، ارتغرل گھی ، ارتغرل سیمنٹ ، ارتغرل چائے سب کچھ آئے گا۔ صدیوں پہلے اس مرد مجاہد کومعلوم بھی نہ ہوگا کہ ترکوں سے زیادہ اُسے پاکستانی محبت کریں گے ۔‘اس سیریل کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہونا چاہیے اور یہی ہر مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے ۔مگر افسوس کہ اِس وقت دنیا بھر میں یہ پیغام پہنچانے عام کرنے والی اس انقلابی سیریز کے اثرات سمیٹنے کے لیے روئے زمین پر اس نعرے کو لیڈ کرنے والی ارتغرل جیسی کوئی قیادت موجود نہیں ، اسلیے دُکھ ہوتا ہے کہ یہ انقلابی پیغام بھی صرف سماجی میڈیا کی نظر نہ ہوجائے ، تاہم یہ ضرور ہے کہ اس کے اثرات تا دیر رہیں گے ، کیونکہ سیزن ابھی باقی ہیں ۔

حصہ