پہاڑوں کے بیٹے

345

اُمِ ایمان
(ساتویں قسط)
’’کیا وہ لوگ میرے بھائی کو اپنے ساتھ لے گئے تھے؟‘‘
’’ہاں فیروز کا کچھ پتا نہیں چل سکا۔‘‘
’’اچھا، میرے بھائی کا نام فیروز تھا۔ ماں جی نے تو نہیں بتایا تھا۔‘‘ زبیر نے دل ہی دل میں نام دہراہا۔
’’بیٹا! اب تم کہاں رہو گے؟‘‘ اس سوال نے زبیر کو چونکا دیا۔
’’پتا نہیں بابا!‘‘ زبیر اداس ہوگیا۔ چودہ پندرہ سال کا لڑکا، جسے نہ اپنے مستقبل کی کوئی خبر تھی، نہ ماضی کا کوئی سرا اس کے ہاتھ میں تھا۔ بابا برکت زبیر کے لیے تو بڑے برکت والے ثابت ہوئے۔ پہلے وہ اسے اپنے گھر لے گئے، تقریباً ایک ہفتہ وہ ان کا مہمان رہا۔ جب تک زبیر کے پاس پیسے رہے، وہ گھر کا سودا سلف لاتا رہا، لیکن ایک ہفتے بعد ہی اس کا ہاتھ ایک دم خالی تھا۔ اب اس کو بابا برکت کے ساتھ رہنا اور اپنی ضروریات کے لیے انہیں زیر بار کرنا مناسب نہ لگا۔
’’بابا! میں جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا تم کہاں جائو گے، کوئی منزل ہے تمہاری؟‘‘ برکت بابا نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ان کی شفقت زبیر کے دل میں ایک انوکھی لذت کا احساس جگاتی تھی۔ وہ سر جھکائے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
’’بیٹا پھر کیا ارادہ ہے تمہارا؟‘‘ انہوں نے تھوڑی دیر بعد دوبارہ پوچھا۔
’’ابھی تو کوئی منزل نہیں، لیکن میں اپنی منزل آپ بنوں گا۔‘‘ اس کے چہرے پر عزم اور حوصلہ تھا۔
’’شاباش بیٹا! آئو میں تم کو ایسی جگہ لے چلوں جہاں تم اپنا آپ ڈھونڈ پائو گے۔‘‘ یوں بابا برکت اسے مدرسہ تفہیم القرآن لے گئے اور وہاں داخل کروا آئے۔ جانے سے پہلے بابا برکت نے اسے بہت سی نصیحتیں کیں، محنت سے پڑھنے اور لگن کے ساتھ آگے بڑھنے کی۔
’’بابا اگر آپ کو میرے گھر والوں یا بھائی کے بارے میں کچھ اور پتا ہے تو بتادیں۔ میرے سفر کی ایک منزل بھائی فیروز کو ڈھونڈنا بھی ہے۔‘‘
’’بیٹا تیرا دادا گائوں کی مسجد کا امام تھا، اس کے بعد تیرا باپ امام بنا۔ وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ تیرا دادا میرے دوستوں میں سے تھا۔ سو اس رشتے سے تُو میرا پوتا ہوا ناں۔‘‘
’’پتا نہیں اُس رات کیسی قیامت آئی تھی، ان درندوں نے تیرے پورے گھرانے کو ختم کرڈالا۔ تُو اور فیروز باڑے کے پاس والی کوٹھری میں سو رہے تھے۔ پتا نہیں کیسے تجھ پر ان کی نظر نہیں پڑی۔ وہ فیروز کو پکڑ کر لے گئے، بعد میں پتا چلا کہ غلط فہمی کی وجہ سے اس قدر خون خرابا ہوا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے بتایا کہ فیروز کو سرحد پر افغانستان میں منشیات فروشوں اور بیگار کیمپ والوںکو بیچ دیا گیا ہے۔ پتا نہیں فیروز زندہ بھی ہوگا یا نہیں؟‘‘ بابا برکت نے آہ بھری۔
زبیر ان کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔
…٭…
زبیر مدرسے سے اپنی تعلیم مکمل کرتا رہا۔ جہاد کی لگن اسے مدرسے میں درس سن سن کر لگی تھی۔ دل میں اس نے پکا ارادہ کرلیا تھا کہ یہاں سے وہ افغانستان کا رُخ کرے گا۔ جہاد کی تڑپ کے ساتھ بھائی فیروز سے ملنے کا خیال بھی شاید دل میں کہیں موجود تھا۔
اس دن امام صاحب نے جمعہ کا خطبہ جہاد کی فضیلت پر دیا تو زبیر تڑپ سا گیا۔ امام صاحب خطبے میں کہہ رہے تھے ’’اللہ کا کلام کہتا ہے کہ ’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں لڑنے کو نہیں نکلتے حالانکہ مظلوم لوگ، عورتیں اور بچے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال لے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی دوست اور مددگار بھیج۔‘‘
عورتیں ہوں دشمنوں کی قید میں اور مسلم چین سے بیٹھے رہیں؟ حالانکہ تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کہیں مسلمان عورت دشمن کی قیدی ہوجائے تو نفس اور مال سے جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر مشرق میں کوئی عورت دشمن کی قید میں چلی جائے تو اہلِ مغرب تک سب پر اس کا چھڑانا واجب ہے۔‘‘ پُرجوش مبلغ کی آواز دلوں میں جوش پیدا کررہی تھی۔ظلم کی اس سرزمین پر وہ اسلام کہاں ہے جو عدل کا نظام قائم کرنے کے لیے آیا تھا۔
کہیں نہیں… حالانکہ مسلم معاشرہ مسلمانوں کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے پانی اور ہوا۔ کیا کوئی انسان ان کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ نہیں۔ اسی طرح مسلمان بھی مسلم معاشرے کے بغیر پورا مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اسلامی معاشرے اور دارالاسلام کی تشکیل کے لیے کی جانے والی کوششیں جہاد ہیں، لیکن میرے بھائیو اور بیٹو! جہاد کا اعلیٰ ترین مقام قتال ہے۔ میدانِ جنگ جب موت کا خوف آنکھیں پتھرا دیتا ہے اور دل حلق میں آجاتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’اللہ کے راستے میں قتال کی خاطر ایک ساعت صف میں کھڑے رہنا ساٹھ سال تک نماز میں قیام سے بہتر ہے۔‘‘
زبیر نے اسی لمحے مسجد کے صحن میں بیٹھے بیٹھے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ اس کی منزل کہاں ہے۔
…٭…
صبح زینب نے زبیر کو اٹھایا تو اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں۔ فجر کی نماز کے لیے مسجد جاتے ہوئے اس نے دیکھا کہ شیر دل اور بچوں کے بستر خالی پڑے ہیں۔ زبیر نے زینب کو دیکھا۔
’’بھائی انہیں اذان کے وقت اپنے ساتھ لے گئے ہیں، آپ کو اٹھاتے اٹھاتے دیر ہوگئی‘‘۔ زبیر نے جلدی سے وضو کرکے جوتے میں پائوں ڈالا اور مسجد کی طرف بھاگا۔ اس کا دل مطمئن تھا۔ بلال اور ہلال بہت اچھے اور بہترین تربیت دینے والے سمجھ دار لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ اس کے دل میں بڑا سکون تھا۔
مسجد سے واپس آیا تو ناشتا تیار تھا۔ واپسی تو سب کی ساتھ ہی ہوئی تھی۔ بلال، ہلال گل روز اور مہروز کے ساتھ بڑے مگن تھے۔ ان کی کہانیاں قصے ختم ہی نہیں ہورہے تھے۔
’’چلو بچو! جلدی سے ناشتا کرو۔‘‘ صفیہ مامی نے سب بچوں کے آگے چائے کے پیالے رکھے۔ تنور میں بنی موٹی موٹی افغانی روٹی اور رات کا سالن، زبیر کے لیے دو انڈوں کا خاگینہ بھی بنایا تھا۔
’’بھابھی آپ نے تکلف کرلیا…‘‘
’’ارے زبیر بھیا! ہم غریب لوگ بھلا کیا تکلف کریں گے! بس جتنی استطاعت ہے اتنا تو کرنے دیجیے۔‘‘ زبیر نے الفاظ اور لہجے پر غور کیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں میرے بیوی بچے بوجھ تو نہیں بن گئے؟ اس نے غور سے شیر دل اور بھابھی صفیہ کو دیکھا، لیکن وہاںسادہ جذبوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
’’بھائی! مجھے آج دوپہر تک واپسی کے لیے روانہ ہونا ہے۔‘‘ زبیر کا ایک جملہ خوشی خوشی ناشتا کرتے سارے لوگوںکو افسردہ کرگیا۔ زبیر نے دل میں سوچا ’’یہ بات مجھے ابھی نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن بات جب زبان سے نکل جاتی ہے تو واپس نہیں آسکتی۔‘‘
’’زبیر تمہارا کام بڑا، تمہارے مقاصد عظیم ہیں، تمہیں بلا وجہ روکا نہیں جاسکتا، لیکن ایک درخواست ضرور ہے کہ ایک دن اور ہمارے ساتھ گزار لو تو اچھا رہے گا۔‘‘
’’نہیں بھائی! مجھے آنے کی تیاریوں کی وجہ سے، پھر سفر کے باعث پہلے ہی بہت دیر ہوگئی ہے۔ بس دوپہر کی نماز کے بعد نکل جائوں گا۔‘‘ شیردل خاموش ہو گیا۔
بچوں نے بھی خاموشی سے ناشتا ختم کیا۔ ناشتے کے بعد شیردل نے زبیر کو بچوں کے ساتھ اسکول آنے کے لیے کہا اور خود جلدی نکل گیا۔ ’’دراصل اسکول انہیں ہی کھولنا ہوتا ہے لہٰذا جلدی جاتے ہیں۔ بعد میں بچے تیار ہوکر جاتے ہیں۔‘‘ صفیہ بھابھی نے بتایا۔
تھوڑی دیر بعد چاروں بچوں کے ساتھ زبیر اسکول پہنچ گیا۔ سادہ سی عمارت تھی۔ اندر چونا کیا ہوا تھا لیکن باہر سے بغیر چونے کے تھی۔ دو کمروں پر مشتمل یہ اسکول تھا۔ زبیر وہاں سے واپس آیا تو بہت خوش تھا کہ اب اس کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ واپسی کی تیاری تو کچھ خاص کرنی نہیں تھی، بس نہا کر خط بنایا، ناخن وغیرہ کاٹے، ساتھ لے جانے والا ایک چھوٹا سا بیگ تھا جس میں ایک قلم، ڈائری اور ایک شلوار قمیص کا جوڑا تھا۔ ڈائری زیادہ تر خالی تھی، زبیر کو معلوم تھا کہ روسی سپاہی کبھی کبھی کسی بس کی بھرپور تلاشی لیتے ہیں، اس کے پاس کوئی بھی چیز قابلِ اعتراض نہ تھی، البتہ بیگ کے نیچے خفیہ خانے میں ایک چھوٹی پستول موجود تھی۔ کلاشنکوف جو ساتھ لایا تھا وہ اس نے شیر دل بھائی کو دے دی تھی۔
دوپہر میں بچے اسکول سے واپس آئے تو کھانا کھا کر زبیر نے واپسی کا ارادہ کیا۔ فاطمہ باپ کی گود میں چڑھی تو اترنے کا نام نہیں لے رہے تھی۔ زینب نے پیار سے گل جانہ کے ساتھ کھیلنے کا لالچ دیا تو بہ مشکل اتری۔ سب کو خدا حافظ کہہ کر زبیر نے زینب کی طرف دیکھا۔ اس نے ضبط کے ساتھ سارے آنسوئوںکو روکا ہوا تھا۔ وہ سردار ابراہیم خان کی بیٹی تھی، جہاد کی فضیلت اور اہمیت سے اچھی طرح واقف۔
’’میرے آنسو کہیں اس کا راستہ کھوٹا نہ کریں۔‘‘ زینب نے سوچا۔ ہر دفعہ زبیر کے جانے سے پہلے وہ دل میں یہی سوچتی تھی۔ بابا نے زبیر سے شادی ہی اس کا اسلام کی خدمت کا جذبہ دیکھ کر کی تھی۔ جہاد کی راہ کا سفر انہیں اتنا پسند تھا کہ اس کے راہی ’’نمازی زبیر‘‘ کو انہوں نے بغیر کسی حیل و حجت کے اپنی بیٹی سے بیاہ دیا تھا۔
زبیر نے جھک کر بیگ کندھے پر ڈالا، چاروں بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا، گل جانہ اور فاطمہ کو جھک کر پیار کیا اور ہاتھ ہلاتا ہوا یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ ’’مستقبل کے مجاہدوں کو خدا کے بعد شیر دل بھائی کے حوالے کیا۔‘‘
شیر دل بس اڈے پر اسے بس میں بٹھا کر واپس آگیا۔ زبیر کے لیے بس کا سفر یادوں کا سفر ثابت ہوا۔ سارا راستہ گزرے ہوئے دورِ حیات کی فلم کھڑکی کے شیشے پر چلتی رہی۔ ماں جی اور بابا کے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے عہد کیا تھا کہ اب کبھی اس گھر میں قدم نہیں رکھے گا۔ لیکن اس دن جب مسجد کے کھردرے پتھریلے صحن میں اس نے جہاد کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو سوچا کہ اللہ کے لیے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے سارے پچھلے حساب کتاب چکا دینے چاہئیں۔ ماں جی اور بابا نے اگرچہ اسے اپنے بچوں کے برابر نہ سمجھا لیکن پھر بھی اس کو کھلا پلا کر بڑا تو کیا۔ ان کا یہ احسان بھی کچھ کم تو نہیں۔ جب ساری دنیا اس کے لیے ختم ہوچکی تھی تو وہ اسے اپنے گھر لے گئے۔ اگر نہ لے جاتے تو شاید وہ گائوں کا کوئی مجذوب یا فقیر بن جاتا۔
’’دے دے بابا اللہ کے نام پر…‘‘ زبیر فقیر کی آواز پر ایک دم چونک گیا۔
کھڑکی کے پاس ایک ہٹا کٹا فقیر کھڑا تھا۔ گلے میں رنگ برنگی مالائیں، پیوند لگا لمبا کرتا اور سیاہ ٹوپی… اس کی تیز آنکھیں زبیر کو اپنے جسم میں گڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس نے جیب سے ایک سکہ نکال کر اس کے کشکول میں ڈالا۔ چھن کی آواز کے ساتھ سکہ کشکول میں گرا۔ فقیر نے ایک بار پھر زبیر کو دیکھا اور آگے چل دیا۔
یہ شہر کا آخری اسٹاپ تھا۔ اس کے بعد لمبا سفر تھا اور اگلا قصبہ کم از کم چھ گھنٹے کے بعد آنا تھا۔ زبیر نے باہر جھانکا، چائے کے کھوکھے کے باہر بہت سے مسافر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ڈرائیور اور کلینر بھی ان کے سامنے کھوکھے کے مالک کے ساتھ چائے کی دعوت اڑا رہے تھے۔ یہ اصول سارے ڈرائیوروں کو اچھی طرح یاد رہتا ہے کہ وہ جس ہوٹل یا کھوکھے کے قریب گاڑی کھڑی کریںگے، وہاں کا مالک وقت کے لحاظ سے کھانے یا چائے سے ڈرائیور اور کلینر کی مفت تواضع کرے گا۔
زبیر بھی بس سے اتر کر چائے پینے چل دیا۔ کھوکھے کے آس پاس اسے وہی فقیر ٹہلتا نظر آیا۔ چائے کی چسکی کے ساتھ ہی اسے پھر پرانی یادوں نے گھیر لیا۔ اسے یاد ہے کہ جب اس نے اپنے استاد کو اپنے جہاد کے ارادے سے آگاہ کیا تو ان کی آنکھیں کیسی چمک اٹھی تھیں۔ انہوں نے زبیر کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخراجات کی کوئی فکر نہ کرے، اس کے تمام اخراجات اب وہ خود اپنی ذاتی جیب سے ادا کریں گے۔
زبیر نے ان سے کچھ دن کی چھٹی لے کر پشاور کا ارادہ کیا تو انہوں نے بہ خوشی اجازت دے دی، بلکہ کچھ رقم بھی اس کے ہاتھ پر رکھی کہ وہ پشاور شہر سے اپنی پسند اور مرضی کا سوٹ اور جوتا خرید لے۔
پشاور میں ماں جی کے گھر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔
(جاری ہے)

حصہ