سید سعادت اللہ حسینی/ مرتب: اعظم طارق کوہستانی
تیسری قسط
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دین کا غلبہ مکمل فرمایا۔ سورہ صف کی اس آیت میں لیظہرہ کے الفاظ دلالت کررہے ہیں کہ یہاں اظہار دین کو نبی کے مشن اور مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہاں صرف اللہ کے ارادہ کا ہی اظہار نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اور مقصد بعثت کا بھی اظہار ہے۔ صرف غلبہ دین کے الہی ارادہ کا اظہار مقصود ہوتا تو نبی کی بعثت کے ذکر اور اس کے بعد، اظہار دین کے ذکر کے ساتھ لامِ تعلیل (لیظھرہ) کی ضرورت نہیں تھی۔ بے شک غلبہ دین اللہ ہی کا منصوبہ ہے، لیکن اللہ تعالی اپنے اس منصوبہ کو نبی کے ذریعہ مکمل کرنا چاہتا تھا، اسی لیے اس نے نبی کو مبعوث کیا۔ اسی وجہ سے اسے نبی کا مشن کہا جاتا ہے۔ اگر یہ نبی کا مشن اور اْن کا کام تھا تو نبی کے بعد آپ کی امّت کا کام کیوں نہیں ہوگا؟غامدی صاحب غلبہ دین کی سنت الہی کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں کہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اللہ تعالی اس سنت کی تکمیل اپنے تکوینی امر کے ذریعہ کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ جبریہ نے خدا کے تکوینی اور تشریعی احکام میں بڑا مغالطہ کیا تھا۔ زیر بحث فکر میں یہی مغالطہ غلبہ دین کی سنت کے معاملہ میں محسوس ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان آیتوں میں اِرسال رسول کا ذکر واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ اظہار دین کی سنت الہی، نبی کی جدوجہد کے ذریعہ پوری ہوگی۔ نبی اللہ کی رہنمائی میں لیکن اپنے آزاد ارادہ کے ساتھ اظہار دین کی جدوجہد کرتا ہے، فیصلے کرتا ہے، حکمت عملی بناتا ہے، جہا د کرتا ہے، معاہدے کرتا ہے، جہاں ضرورت ہو لڑتا ہے اور جہاں ضرورت ہو صلح کرتا ہے۔ دعوت، ہجرت اور جہاد کے مراحل سے گزرتا ہے۔ سیاسی حکمت عملی بناتا ہے اور اپنی تدبیروں سے، خدا کی مشیت کے تحت اس کی سنت کی تکمیل کرتا ہے۔ اللہ نے نبی کے اسوہ کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ آپ کا کام اب اس امت کو جاری رکھنا ہے۔ غلبہ دین کے مشن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کردینے اور امت کو اس سے مستثنی کردینے کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً اس لیے کہ دیگر اور نصوص ایسے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا غلبہ بعد کے زمانوں میں بھی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔
(دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو)
( تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور آنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں ، اُن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو وہ اِس سرزمین میں ضروراسی طرح اقتدار عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو اس نے عطا فرمایا تھا اور ان کے لیے ان کے دین کو پوری طرح قائم کر دے گا )۔
حدیث میں ہے:۔
الاسلام یعلوا ولا یعلی علیہ
(اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے ایا ہے، سرنگوں ہونے کے لیے نہیں )
امام مسلم نے اپنی صحیح میں کتاب الامارہ کے تحت ایک پورا باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے لاتزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لا یضرھم من خالفہم میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا اور اپنے مخالفوں پر غالب آئے گا۔ اسی طرح کا ایک باب امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ میں باندھاہے۔ ان ابواب میں کئی حدیثیں بیان کی گئی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہل حق کا ایک گروہ اسلام کے لیے جدوجہد کرتا رہے گا اور اسے غلبہ ملے گا۔ مثلاصحیح مسلم میں حضرت معاویہؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی گئی ہے۔ من یرداللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین ولا تزال عصابۃْ من المسلمین یقاتلون علی الحق ظاھرین علی من ناواھم الی یوم القیامۃ (جس شخص کی اللہ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دیتا ہے اور ہمیشہ ایک جماعت مسلمانوں کی حق پر لڑتی رہے گی اور غالب آئے گی ان پر جو ان سے لڑیں قیامت تک)۔
عقلی دلائل:۔
اس مختصر مقالہ میں تفصیلی شرعی دلائل کی گنجائش نہیں ہے۔ ضروری باتیں عرض کردی گئی ہیں۔ جو لوگ اور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیں وہ اس موضوع پر لکھی گئی بعض اہم کتابوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب تک جن کتابوں کے حوالے آچکے ہیں ان کے علاوہ، خصوصاً مولانا عروج قادری کی کتاب‘‘اقامت دین فرض ہے’’اور’’امت مسلمہ کا نصب العین‘‘ نیزمولانا صدر الدین اصلاحی کی کتاب‘‘فریضہ اقامت دین ‘‘ اور مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر‘ وغیرہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ہم اس موقع پر اس موضوع کو ایک اور پہلو سے یعنی عقل عام sense common کے پہلو سے بھی زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔
۱۔ دونوں معترض بزرگ یہ بات مانتے ہیں کہ اسلام نے اجتماعی امور سے متعلق تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ اور ان ہدایات کی تعمیل آج کے دور میں بھی ضروری ہے اور یہی انسان کی فلاح اور کامیابی کا خدائی نسخہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کے لیے ایک اجتماعی نظام کو پسند کیا ہے تو پھر آج بندوں کے درمیان اس کو متعارف کرانے، اور اسے جاری کرنے کا کیا انتظام ہے؟ ایک زمانہ میں نفاذ کا یہ کام اللہ نے اپنے رسول سے لیا تھا۔ اب اگر آج عام مسلمان اس کے نفاذ کی جدوجہد کے مکلف نہیں ہیں تو پھر یہ کام کس کے ذمہ ہے؟
یہ بات تو عقل عام کے خلاف ہے کہ خدا نے انسانوں کے لیے ایک مکمل نظام زندگی نازل کیا۔ بڑی وضاحت کے ساتھ اس کی تفصیلات بتائیں۔ انہیں محفوظ رکھنے کا بھی انتظام کیا۔ ایک زمانہ میں اپنے رسول کے ذریعہ اس کی تبلیغ و اشاعت اور اس کی تنفیذ کا بھی انتظام کیا، لیکن بعد کے ادوار میں انہیں انسانوں کے درمیان مقبول کرنے اور ا ن کے معاشروں میں جاری و ساری کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں کیا۔ یہ بات توکم از کم آج کے دور میں کوئی معقول اور پڑھا لکھا آدمی نہیں کہہ سکتاکہ کوئی اجتماعی نظام زندگی صرف اس کے تعارف اور پیشکش کے ذریعہ خود بخود نافذ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی اس انتہائی سادہ لوح مفروضہ میں یقین رکھتا ہے تو آج کا سارا علم سیاسیات اور علم سماجیات اس کی تردید و تغلیط کے لیے موجود ہے۔ ہر نظریہ اور نظام اپنے نفاذ کے لیے انسانی جدوجہد چاہتا ہے، اور ایسی جدوجہد چاہتا ہے جو اجتماعی ہو اور مطلوب نظام زندگی کو ہدف بناکر کی جائے۔ اگر صرف نظریہ اور اصولوں کی موجودگی کافی ہوتی تو قرآن کا نزول کافی تھا، رسول کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
انفرادی زندگی سے متعلق اسلامی احکام بھی انسانوں کی فلاح کے لیے ہیں اور یہی معاملہ اجتماعی زندگی سے متعلق احکام کابھی ہے۔ جس طرح شرک اور جھوٹ ایک فرد کے لیے نقصان دہ ہے، اسی طرح سود اور قوم پرستی اور انسانوں کی غیر مشروط خود مختاری، یہ انسانی معاشروں کے لیے نقصاندہ ہے۔ اللہ تعالی کو اگر اپنے بندوں کی فوز و فلاح مقصود ہے، اور صرف افراد کی نہیں بلکہ معاشروں کی اجتماعی فلاح بھی مقصود ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے نازل کردہ ان اصولوں کی تنفیذ کا کوئی انتظام ہی نہ کرے جو انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ( ہم یہاں اس بحث کو نہیں چھیڑ رہے ہیں کہ افراد کی اصلاح کا بھی ایک بڑا پہلو سماجی اور معاشرتی اصلاح سے ہے) اللہ تعالی اپنے دین کی ترویج و تنفیذ کا کام انسانوں ہی سے لیتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں اللہ نے اپنے بندوں سے دین کی نصرت کا مطالبہ کیا ہے۔ (ائے ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا۔ ) اللہ کے مددگار بننے کا حکم دیا ہے۔
(ائے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو)
جس کا مطلب اس کے سوااور کیا ہوسکتا ہے کہ دین کے معاملہ میں منشائے الہی کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جائے۔ اگر منشائے الہی یہ ہے کہ یہ دین زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی معاملوں میں انسانوں کا رہنما بنے، تو اس منشا کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہی دین کی نصرت قرار پائے گی۔ اسی جدوجہد کو اسلامی تحریکیں اقامت دین کی جدوجہد کہتی ہیں۔
انسانی معاشروں میں ہمیشہ ایسی قوتیں کارفرما رہی ہیں جو انسانی زندگی کی تنظیم گمراہ کن شیطانی اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ کیا یہ بات اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم کا حصہ ہوسکتی ہے کہ معاشرہ میں کمیونزم کی منظم تحریک جاری و ساری ہو، انتہاپسندانہ سرمایہ داری کے قیام و نفاذ کی منظم جدوجہد ہوتی رہے، نسائیت پرست، ہم جنس پرست اور فسطائی قوم پرست منظم ہوکر اپنے اپنے سیاسی و معاشی تصورات کے نفاذ کے لیے سرگرم رہیں لیکن خدا کا مکمل دین اور انسانی فوز و فلاح کا حقیقی ضامن نظریہ حیات صرف کتابوں میں بند رہے، یا ایسے حکمران کے انتظار میں راہ تکتا رہے جو ا ن احکام کی تنفیذ کو اپنی ذمہ داری سمجھے؟ یہ بات بالکل عقل عام کے خلاف ہے۔ اگر اللہ تعالی انسانوں کے لیے کسی مخصوص نظریہ حیات کو پسند کرتا ہے تو اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اس کی تنفیذ کے لیے جدوجہد کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سپرد کرے۔ یہ فطری بات ہے کہ یہ ذمہ داری انہی کے سپر د کی جائے گی جو اس نظریہ کے ماننے والے اور اس کے امین ہیں۔
(جاری ہے)
تعارف کتاب پردہ
مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔
’’پردہ ‘‘ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔
عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،’’پردہ ‘‘ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔
٭…٭
www.syedmaududi.info