ادب روبہ زوال نہیں بلکہ اظہار اور تفہیم کی اقدار بدل رہی ہے‘ سلمان صدیقی

786

نثار احمد نثار
اردو ادب کو روبہ زوال سمجھنا ایک نعرے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اس نعرے کے جواز اور بوسیدگی سے قطع نظر اس کی افادیت کا یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ اس سے معاشرے میں ادب کو غیر اہم سمجھنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی اہمیت کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ادب کو زوال آمادہ سمجھنا ایک ایسا نتیجہ ہے جسے بغیر چھانے پھٹکے اخذ کیا گیا ہے۔ ادب زندگی کا عکس ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ادب روبہ زوال ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ زندگی روبہ زوال ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ بحیثیت فرد اور زندہ قوم ایسا سمجھنا نہ صرف زندگی سے ہماری خوش گمانی کو مجروح کرے گا بلکہ اردو ادب کے ڈھانچے کو‘ جو ابھی اپنے سنِ بلوغت سے گزر رہا ہے‘ ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ واضح رہے کہ زبانوں‘ ان کے ادب اور تہذیبوں کے استحکام اور حقیقی ارتقا کے لیے بعض اوقات صدیاں بھی ناکافی ہوتی ہیں۔ سطح طور سے دیکھا جائے تو ایسا ہی نظر آئے گا کہ جیسے ادب روبہ زوال ہے مگر ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ کے مصداق بہ غور جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے بلکہ ہمارے ادبی معاشرے کا وہ ڈھانچہ روبہ زوال ہے جو ایک منجمد اور فرسودہ فکری ساخت کی حد درجہ پاسداری کی وجہ سے اپنی کشش کھو چکا ہے۔ ہم ادب کی ظاہری دلچسپی سے خط اٹھانے کو اپنے ذوق کی تسکین کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ مگر اس کی فکری ساخت‘ اس کی ہیئت کی تبدیلی‘ بدلتے عہد کے تناظر میں اس کی ساخت کی نو تعمیریت کے مباحث میں الجھنا اور اپنی تخلیقی قوت سے ادب کے لیے نئے فکری زوایے تلاش کرنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں اور نتیجتاً ایسی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ادب کو زوال پزیر سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ادبی تفہیم کے پرانے زاویے جدید ذہن کی تشفی کے لیے ناکافی ہیں۔ نئے ذہنوں سے ہم آہنگی کے لیے نئے تخلیقی زاویے پید اہونا ضروری ہیں۔ ایک تبدیل شدہ فکری‘ جذباتی اور زیادہ عملی تخلیقی تحریر نئے عہد کے مستقبل پرست ذہنوں کے لیے زیادہ قابل قبول ادبی ماحول پیدا کر سکتی ہے۔ تبدیلی کا عمل تیز تر ہو گیا ہے۔ زندگی کی سطح پر بھی اور اس کا عکس پیش کرنے والے ادب کی سطح پر بھی۔ الفاظ کے ذریعے خیالات کی ترسیل میں بھی زمانوں کی تبدیلی کے ساتھ ردوبدل جاری ہے۔
چند سال پہلے تک لفظ موبائل مجرموں کا تعاقب کرنے والی پولیس کی گاڑی کے لیے مخصوص تھا مگر اب یہ لفظ سن کر پہلے دستی ٹیلی فون کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ غور کرنے سے بہت سے ایسے الفاظ اور بھی مل سکتے ہیں جن کی معنویت حال ہی میں تبدیل ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ ہمیں ادبی اظہاریوں میں تبدیلی کی بنیاد بننے والی سماجی اور مادی تبدیلیوں پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
اردو ادبکا فکری ڈھانچہ فنی پرکاری‘ تخلیقی تشکیلات اور نفسیاتی رجحانات ابھی سو سال قبل کے سانچے سے پوری طرح باہر نکل کر نئے چیلنجوں سے نبرد آزما نہیں ہوسکے ہیں۔ ہماری نثر‘ ہماری تنقید ابھی تک نئے رجحانات کو قبول کرنے میں شش و پنچ کا شکار ہے۔ اس کے اسباب کا تعین کرنے کے لیے بہت سے عوامل پر بحث کی گنجائش نکل آئے گی مگر اس میں بنیادی عامل تعلیم کی کمی‘ مطالعے کا فقدان اور ادب کی بطور مضمون اہمیت سے لاتعلقی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق علوم یقینی طور پر بہت اہم ہیں‘ یہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کے لیے زندگی کس طرح آسان بنائی جاسکتی ہے۔ مگر ادب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے زندگی کیوں آسان بنانی چاہیے۔ اس انتہائی اہم جان کاری کے لیے ادب کے مضمون کا انتہائی اعلیٰ درجے کے تعلیمی کورس میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جانا اس خلاء کو پُر کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہمارے بہت سے مذہبی عالم جدید دور کے علمی فلسفہ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں اسی طرح ہمارے اکثر ادیب و شاعر بھی ادبی سطح پر فکری تغیرات‘ تازہ حسّی تجربات اور نووارد رویوں کے بنیادی اسباب سے اسی طرح لاعلم ہیں۔ ہم ادب کے پلیٹ فارم سے اپنی تخلیقی اپروچ کو سماجی‘ معاشرتی اور بدلتے انسانی رویوں سے ہم آہنگ کرکے اس طرح سے دیکھنے‘ سمجھنے اور ادبی اظہاریوں میں منعکس کرنے میں کامیاب نہیں رہے جس کا یہ بدلتا ہوا عہد متقاضی ہے۔ اردو ادب اور اس سے منسلک تہذیب روبہ زوال نہیں بلکہ عہد بدل رہا ہے اظہار اور تفہیم کی اقدار بدل رہی ہیں‘ تبدیلی کی اس رفتار کو محسوس کرنے اور اردو کی ادبی سماجیات کو اس سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادب کی موت کا اعلان کرنے والے آج ہم میں نہیں ہیں۔ ہم بھی ایک دن زندگی سے منہا ہو جائیں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ ادب پھر بھی زندہ رہے گا۔ کسی بھی شکل میں‘ کسی نئے جمالیاتی اور حسِی فلسفے کے ساتھ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اردو ادب کی سماجیات میں تبدیلی اس کی تہذیب کی مثبت تبدیلی کے تناظر میں ہوگی اور طاقتور قلم اس تبدیلی کو قابلِ رشک رُخ دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
آنے والے جدید تر عہد میں ناگزیر تبدیلی صرف محسوس کرنے کی چیز نہیں ہوگی بلکہ اپنی زندگی کو اس کے مطابق یا اسے اپنی زندگی کے مطابق ڈھالنا مجبوری ہوگی اور یہی اس شروع ہو چکے عہد کی تہذیبی اور فکری جنگ کا سب سے شدید پہلو ہے اور ادب کا پلیٹ فارم اس جنگ کا ہراوّل دستہ ہے۔ ان معاملات کو سرکاری سطح پر سمجھنے اور اس کی افادیت کو محسوس کرنے میں اکثر دیر ہو جاتی ہے۔ زبان و ادب کو تہذیب اور ثقافت کے فروغ میں معاون سمجھنے والے تازہ ذہنوں اور نسل نو کے منتخب ادیبوں اور دانشوروں سے اس صورت حال سے آگاہ رہنے اور اپنی زبان و تہذیب کی پاسداری کے لیے طاقتور حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ادب سیاسی نظریہ نہیں ہے کہ روبہ زوال ہو کر اپنی بقا کی جنگ ہار جائے گا یہ تو عکسِ حیات ہے جب تک زندگی اس کائنات میں سجی رہے گی ادب بھیاس عکس کو تصویر کرتا رہے گا۔ اس دوران یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ عصری رجحانات کی شدت اور وقت کی ناہمواری اس تصویر کے پس پشت کچھ مخصوص نظریاتی رویے استوار کرے جو سوچے سمجھے بھی ہو سکتے ہیں یہ کام اردو کے ادبی نبض شناسوں اور دانشوروں کا ہے کہ وہ اپنے معاشرے اور سماجی ڈھانچے پر ان رویوں سے مرقسم ہونے والے منفی اثرات کے مقابل‘ انسانی ذات کے اظہار کے نئے پیرائیوں کے تناظر میں مؤثر مدافعت پیدا کریں۔ الفاظ تاثیر کھو رہے ہیں۔ ادب فکری گہرائی رکھنے والے انوکھے پن کی تلاش میں ہے اور اردو شعر و افسانہ ماضی سے مختلف ایک نئے حال کے تجربے سے دوچار ہے۔ ہمارے ادیب کو اپنے تخلیقی ابال میں اسی حال کو بنیاد بنا کر مستقبل کی ادب کی تصویر کشی کرنی ہے اس عمل میں روایت ایک مخفی قوت کے طور پر اس کے ساتھ رہے گی۔ تقلید کی تاکید کے ساتھ نہیں۔

غریب شعرا کے لیے حکومتی سطح پر کسی پیکج کا اعلان کیا جائے‘ اختر سعیدی

کورونا وائرس نے ہر شعبۂ زندگی کو منجمد کر دیا ہے‘ لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں کہ اسی میں عافیت ہے لیکن ادب نواز دوستوں نے آن لائن مشاعروں کا اہتمام کرکے کچھ بیداری پیدا کی ہے کہ اب رابطے کا ایک یہی ذریعہ رہ گیا ہے اسی تناظر میں ادارۂ فکر نو نے ایک وڈیو لنک مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت بزرگ شاعر رفیق نگری نے کی۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نے عالمی طور پر تمام ممالک کو متاثر کیا ہے ترقی یافتہ ممالک بھی اس سلسلے میں لاک ڈائون پر مجبور ہو گئے ہیں لاک ڈائون سے طبی فوائد حاصل ہو رہے ہیں لیکن دیہاڑی دار طبقہ اور تاجر متاثر ہو رہے ہیں حکومت سندھ نے لاک ڈائون کے سلسلے میں اچھی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں۔ اختر سعیدی نے کہا کہ کورونا ایک وبا بن کر دنیا پر چھا گیا ہے اس وائرس کی ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہو سکی ہے اس پر کام ہو رہ اہے امید ہے کہ جلد ہی کوئی خوش خبری سامنے آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے زندگی رواں دواں ہو تب شعری چلتی ہے اس وقت ہر شخص پریشان ہے اربابِ سخن چاہتے ہیں کہ حکومت غریب شعرا کے لیے بھی کسی پیکج کا اعلان کرے اس سلسلے میں تمام قلم کاروں کو آواز بلند کرنی ہوگی۔ کراچی میں مختلف ادبی ادارے کام کر رہے ہیں وہ ادب کے لیے بے حد فعال ہیں لیکن ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ اس وقت وفاقی حکومت لوگوں کو ’’احساس‘‘ پروگرام کے تحت امداد دے رہے ہیں اور صوبائی حکومت بھی لوگوں میں راشن بانٹ رہی ہے لیکن غریب شعرا کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس وڈیو لنک مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ کسی نے کورونا پر نظر سنائی کسی نے حمد و نعت اور کسی نے غزل پیش کی۔ اس پروگرام کو بہت سے لوگوں نے انجوائے کیا۔ اس موقع پر صاحب صدر اور ناظم مشاعرہ کے علاہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ انورانصاری‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ عاشق حسی شوکی‘ علی کوثر‘ محمد علی اشرف‘ اکمل نوید‘ خالد رانا‘ محمود قیصر‘ زبیدہ خانم‘ سلمیٰ حسین‘ بلقیس بیگم اور ثریا دہلوی شامل تھے۔ آخر میں پاکستان کی ترقی اور کورونا وائرس سے نجات کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی گئیں۔

سلام گزار ادبی فورم کی آن لائن طری محفلِ سلام

سلام گزر ادبی فورم انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ماہانہ محفل سلام ردیف ’’تحریر‘‘ کے تحت بزم ابو طالب کے اشتراک سے 18 اپریل رات ساڑھے آٹھ بجے آن لائن منعقد کی گئی جس کی صدارت شہزاد گلفام نے کی۔ محمد علی وفا اور نیر اسعدی مہمانان خصوصی تھے‘ مہمان اعزازی راحیل تھی‘ بختار حسین خادم اور مسرت بتول نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس محفل سلام میں دنیا بھر سے شعرا کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور آن لائن ہزاروں مداحوں نے اس محفل کی پزیرائی کی۔ اس آن لائن محفل سلام میں شہزادہ گل نور‘ مجاہد حسین‘ قمر زیدی‘ علی زیدی‘ منہاج نقوی‘ بتول مسرت حسین‘ سراج حیدر‘ محمد عباس‘ خرم خلیق‘ رئیس احمد انصر‘ عاصم عباس‘ بختاور حسین خادم‘ مکرم حسین زم زم‘ نسیم کاظمی‘ عقیل عباس جعفری‘ پروفیسر مطلوب علی زیدی‘ سید حسن محسن‘ نسیم زیدی‘ سید قنبر علی‘ اسد علی اسد‘ قیصر عباس قیصر‘ سید باقر‘ راحیل بخاری‘ ممتاز فاطمہ‘ سید ابوطالب الحسینی‘ فرحت عابد‘ پروین حیدر‘ محمد علی وفا‘ نیر اسعدی‘ میر رضا‘ اصغر مووتی‘ ذیشان عابدی‘ ارتضیٰ جونپوری‘ ممتاز لکھنوی‘ آل شاہ ڈاکٹر ندیم نقوی‘ سرور الحسن اور اطہر رضوی نے طرحی کلام پیش کیا۔ اس موقع پر مقبول نے راقم الحروف سے ٹیلی فون پر کہا کہ ہم سلام گزار ادبی فورم کے تحت طرحی اور غیر طرحی مشاعرے منعقد کرا رہے ہیں یہ سلسلہ کراچی کے علاوہ پاکستان کے دوسروں شہروں تک پہنچ گیا ہے اس کا مطلب رثائی ادب کی ترویج و ترقی ہے۔ رثائی ادب اردو زبان و ادب کا اہم حصہ ہے۔ کربلا کا استعارہ غزل میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یزید ظلم و ستم کا نمائندہ ہے اور حضرت امام حسینؓ امن و سلامتی کے پیغامبر ہیں انہوں نے حق کی خاطر اپنی جان دے دی اور 72 آدمیوں نے کارنامہ انجام دیا کہ وہ آج تک زندہ و جاوید ہیں۔ محرم کا مہینہ آتے ہی تمام عالم اسلام میں حضرت امام حسینؓ اور ان کی رفقا کی شہادتوں کا ذکر بڑے پیمانے پر شروع کیا جاتا ہے‘ جلوس نکلتے ہیں‘ مجالس کا اہتمام ہوتا ہے اور مشاعرے بھی۔ ان تمام تحریکوں کا مقصد یہ ہے کہ حقانیت کا پرچار ہو اور ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اردو ادب کا غیر تحریری شدہ منشور بھی یہی ہے کہ شعرائے کرام مظلوموں کی حمایت کریں اور ظالموں کو بے نقاب کریں۔

’’کیا اردو زبان و ادب روبہ زوال ہے؟‘‘ اس موضوع پر ہم جسارت سنڈے میگزین میں آپ تحریر شائع کریں گے‘ آپ اپنا مضمون 0300-9271778 پر واٹس ایپ کیجیے۔
(انچارج صفحہ جہانِ ادب)

 

نعت رسول مقبولؐ

پروفیسر نوید سروش

سارے جہاں میں ختمِ نبوتؐ کی دھوم ہے
سردارِ انبیا کی ولادت کی دھوم ہے
ہر لب پہ ہیں صدائیں درود و سلام کی
بزمِ جہاں میں آج عقیدت کی دھوم ہے
حکمِ خدا سے توڑ دیے بت حضورؐ نے
اب تو صنم کدوں میں بھی وحدت کی دھوم ہے
اک دوسرے کی جان کے دشمن جہاں تھے لوگ
اُن وادیوں میں آج اخوت کی دھوم ہے
انوارِ مصطفیؐ سے منور ہے کائنات
ارض و سما میں سمع نبوت کی دھوم ہے
بھی سروشؔ نعتِ محمد رقم کرو
ہر سو نبیؐ کا ذکر ہے مدحت کی دھوم ہے

حصہ