الخدمت روشن منزل کا نشان

347

کورونا وائرس کے پہلے دن سے ہزاروں رضاکاروں کے ساتھ خدمت میں مصروف

کورونا وائرس نے ملک کے نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جہاں صنعتوں کا پہیہ رک گیا، وہیں ملک بھر کے باسیوں کے معمولاتِ زندگی کو بریک لگ گیا ہے۔ اس دوران حکومت نے جو اقدامات کیے وہ سب نے دیکھ لیے، لیکن پاکستان میں صفِ اوّل کی این جی او ’’الخدمت‘‘ کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ہم نے8 اکتوبر2005ء کو بھی الخدمت کو تاریخ رقم کرتے دیکھا تھا، اورآج 15سال بعد ہم پھر وہی تاریخی مناظر دیکھ رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی پہلے دن سے الخدمت نے نہ کسی کا انتظار کیا، نہ کسی توقف و تساہل کا مظاہرہ کیا، بلکہ فوری طور پر ملک وقوم کا درد محسوس کر تے ہوئے خدمت کے کام کا آغاز کیا۔ الخدمت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ملک بھر میں اپنے ہزاروں رضا کاروں کی کھیپ رکھتی ہے، اور رضا کار بھی وہ، جو ہر مشکل اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔
یہ بہت اچھا انداز تھا کہ الخدمت نے ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آپریشن شروع کیا، اور بڑے پیمانے پر لوگوں میں ماسک، ہینڈ سینی ٹائزر، ہینڈ واش اورکورونا سے بچاؤ کے لیے احتیاطی ہدایات پر مبنی ہینڈ بل تقسیم کیے، اور کورونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر سے متعلق بینر بھی آویزاں کیے۔
مرض بڑھتا گیا، الخدمت کی فلاحی سرگرمیاں بھی بڑھتی گئیں۔ الخدمت نے شہر میں قائم آئسولیشن مراکز اور درجنوں علاقوں میں جراثیم کُش ادویہ کا اسپرے کروایا، جبکہ کسی تفریق کے بغیر مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں، مندروں، فیکٹریوں، ملوں، بازاروں اور سرکاری و نجی اسپتالوں میں اسپرے کا کام کیا گیا۔
لاک ڈاؤن کے باعث بڑی تعداد میں دہاڑی دار اور مزدور طبقہ سڑکوں پر آگیا اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ الخدمت نے اُن پسماندہ علاقوں کا انتخاب کیا جہاں مزدور اور دہاڑی دار طبقہ رہتا تھا، ان جگہوں پر جاکر الخدمت کے رضاکاروں نے کام شروع کیا اور وہاں یومیہ سیکڑوں مستحقین میں پکا پکایا کھانا اور راشن تقسیم کیا، اور اس انداز میں راشن اورکھانا تقسیم کیا کہ ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سستی روٹی کے تنور قائم کیے گئے، جہاں شہریوں کو 5 روپے میں روٹی دستیاب ہے۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے کراچی کی دوکروڑ سے زائد آبادی متاثر تھی اور اب بھی متاثر ہے، اس مشکل گھڑی میں جب لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوئے، لوگ پریشانی اور اضطراب کا شکار تھے۔ یومیہ اجرت کما کر گزارا کرنے والوں کے گھروں میں حسرت و یاس اور مایوسی نے ڈیرے ڈال دیے تھے، الخدمت اُن گھروں تک پہنچی اور ان لوگوں کی مدد کی۔ یہ بڑے جذبے کی بات ہے کہ یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ کورونا وائرس کی وبا خطرناک ہے اور ایک دوسرے سے لگنے والی بیماری ہے، الخدمت کے رضاکاروں نے اپنی جان کی پروا نہیں کی اور لوگوں کی مدد کو اوّلین ترجیح دی۔
صدر الخدمت کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کورونا وائرس کے آغاز ہی میں قاضی سید صدر الدین کو ڈائریکٹر ریلیف Covd-19 مقرر کیا۔ ڈائریکٹر ڈائیگنوسٹک سروسز انجینئر صابر احمد اور ڈائریکٹر شعبہ ہیلتھ ڈاکٹر اظہر چغتائی کو شعبہ صحت کے حوالے سے ذمہ داریاں تفویض کیں، جبکہ انتظامی امور کی بہترین اور منظم انداز میں انجام دہی میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر راشد قریشی شروع دن سے ہی پیش پیش ہیں۔
الخدمت کی جانب سے انتہائی منظم انداز میں کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر خدمت کے کام جاری ہیں۔ اب تک لاکھوں گھرانوں کو راشن ان کی دہلیز پر پہنچایا جا چکا ہے۔ یومیہ بنیاد پر کچی اور پسماندہ آبادیوں میں تین وقت کا پکا پکایا کھانا بھی فراہم کیا گیا۔ الخدمت نے شہر بھر میں راشن مراکز قائم کیے ہیں جن میں سے بیشتر کا افتتاح حافظ نعیم الرحمن نے کیا۔
الخدمت کی جانب سے قائم ان راشن سینٹرز میں لاکھوں راشن بیگ نہ صرف تیار کیے گئے بلکہ وہاں سے مستحقین کے لیے روانہ کرکے ان کی دہلیز پر پہنچائے گئے۔ صدر الخدمت حافظ نعیم الرحمن نے مذہبی ہم آہنگی کی مثال قائم کرتے ہوئے گرجا گھروں کا دورہ کیا اور وہاں کے منتظمین کولاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والی مسیحی برادری کے لیے راشن فراہم کیا۔
الخدمت نے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا ڈیٹا بیس بھی مرتب کیا ہے، جسے فالو کیا گیا۔ الخدمت نے بازاروں کی بندش اور لوگوں کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں تک تازہ سبزیاں بھی پہنچائیں، جبکہ مرغی کا گوشت ہر فیملی تک پہنچانے کا کام شروع کیا ہے اور ابتدائی طورپر مرغی کا ہزاروں کلوگوشت تقسیم کیا گیا ہے، جب کہ یومیہ ہزاروں افراد میں مرغی اور گائے کے گوشت کی تقسیم کا عمل رمضان المبارک میں بھی جاری رہے گا۔
الخدمت نے اس دوران صحت کے شعبے میں بھی مثالی کام کیے ہیں، اور سب سے پہلے اپنے تمام اسپتالوں کی خدمات کوڈ19- کے پیش نظر حکومت کو پیش کیں اور کھلے دل سے کہا کہ اس کے تمام اسپتال ملک و قوم پر آنے والی مشکل گھڑی میں خدمت کے لیے تیار ہیں۔ اسپتالوں کو بڑے پیمانے پر حفاظتی کٹس (PPE) فراہم کی گئیں۔ ان اسپتالوں میں سرکاری اسپتال بھی شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتِ سندھ نے تھرپاکر میں صحت کی ناکافی سہولت کی جانچ کرتے ہوئے تھرپارکر میں قائم الخدمت اسپتال کو استعمال کیا اور وہاں آئسولیشن سینٹر قائم کیا، جبکہ الخدمت نے اپنے گلشنِ حدید میں قائم فریدہ یعقوب اسپتال میں بھی آئسولیشن سینٹر بنایا جہاں طبی عملہ اور پیرا میڈیکل اسٹاف خدمت کے لیے ہمہ وقت موجود ہے۔ خدمت کے اسی عمل کے دوران الخدمت کو ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی کورونا کے سبب شہادت کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ آپ مریضوں کے علاج کے دوران کورونا سے متاثر ہوئے اورکراچی کے ایک اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
الخدمت کے تحت ماہانہ بنیادوں پر سیکڑوں لوگوں کو راشن فراہم کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ہر سال رمضان المبارک میں راشن کی بڑی مقدار تقسیم کی جاتی ہے، جس سے مستحق گھرانوں کے لاکھوں ضرورت مند افراد استفادہ کرتے ہیں۔ مگر اس برس کورونا وائرس کی وجہ سے الخدمت نے بڑے پیمانے پر کام شروع کردیے تھے۔ خدمت کا یہ عمل رمضان میں بھی جاری وساری ہے۔
پوری دنیا میں کورونا سے اموات کے سبب لوگوں میں خوف طاری ہے، جب کہ وہاں معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ پاکستان میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں ہے، یہاں لوگوں میں موت کا خوف کم اور بھوک، غربت اور افلاس کا خوف زیادہ ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ہم سمجھتے ہیں کہ الخدمت ’’روشن منزل کا نشان ہے‘‘، جس کے مثالی کام منزل بہ منزل ملکی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ یہ الخدمت کے کاموں کی چھوٹی سی جھلک ہے۔ اس کے دیگر کاموں مواخات، کفالتِ یتامیٰ، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صاف پانی، تعلیم اور دیگر منصوبوں کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا۔ اس مشکل صورت حال میں جہاں الخدمت اپنے حصے کا کام کررہی ہے، وہیں معاشرے کے ہر ہر صاحبِ ثروت فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ الخدمت کا ساتھ دینے کے لیے آگے آئے اور مشکلات کا شکار لوگوں کی مدد کے لیے الخدمت کا دست و بازو بنے۔

حصہ