ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنا کر بے شمار امتیازی خصوصیات سے نوازا ہے اس کے لیے زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں مسخر کر دی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات بھی اس کو بخش دیے گئے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اپنی راہِ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان و فکر‘ اطاعت و معصیت‘ نیکی اور بدی کی راہوں میں کہ جس راہ پر بھی جانا چاہے‘ جا سکتا ہے۔ حق اور باطل‘ صحیح اور غلط جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کر سکتا ہے۔ خواہ وہ خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتا ہے۔ اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے اور یہ رائے بھی قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اوربرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔
انسان کی یہ خصوصیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے اس کے اعمال کا اور ان تمام نعمتوں کا‘ جو اس کو دی گئی تھیں‘ ان کا محاسبہ کیا جائے۔ ان سب اختیارات کی پوچھ گچھ کی جائے جو اس کو دیے گئے تھے اور اس احتساب کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر کیا ہے۔ یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم ہونے اور اس کے دفترِ عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے اور اس وقت تمام انسانوں کا وقت ِ عمل ختم ہو جائے کیوں کہ ایک فرد یا ایک قوم کے مر جانے پر ان اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑے ہیں۔ اس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا برے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار ہونے چاہئیں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طور پر ظاہر نہ ہوں لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا یا سزا دینا کیسے ممکن ہے۔
انسان اگر اپنے وجود سے باہر نظامِ کائنات پر غور کرے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو‘ جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے جس کا ایک ایک ذرہّ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمالِ درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے‘ جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے‘ جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام علوم و فنون خود اس بات پر گواہ ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کرکے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے‘ اُسے تلاش کرکے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کر سکا ہے ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے ہیں اگر ایک پتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا‘ کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جا سکتا تھا۔
اس کائنات کے نظام کا بغور مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ یہاں کوئی بھی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے تک وہ ختم ہو جاتی ہے۔ یہی معاملہ کائنات کا بھی ہے۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں‘ ایک وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں اور ایک مقررہ وقت پر ان کو ختم ہو جانا ہوگا۔ قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث ان فلسفیوں اور سائنس دانوں کی بات پر لوگ یقین کر لیتے تھے کہ دنیا ازلی اور ابدی ہے‘ مگر اب اللہ کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی بدولت لوگوں نے اپنا ووٹ خدا پرستوں کے حق میں ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہیں آئے گی۔ پرانی مادہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہّ فنا نہیں ہوسکتا۔ صرف صورت بدلی جا سکتی ہے مگر ہر تغیر کے بعد مادہّ‘ مادہّ ہی رہتا ہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ مگر اب سائنس کی بے پناہ ترقی اور جوہری توانائی کے انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط الٹ کر رکھ دی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ قوت مادہ میں تبدیل ہوتی ہے اور مادہّ پھر قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولا یہ عالم مادی اور ازلی ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو ہر صورت میں فنا ہو جانا ہے۔ اس مقررہ زندگی میں انسان معیاری زندگی گزار سکتا ہے۔ نافرمانی کی زندگی گزارنے سے جو تباہی قوموں پر آتی ہے وہ خدا کا ظلم نہیں ان کا اپنا اختیاری ظلم ہوتا ہے اور وہ اپنے برے انجام کا خود ذمہ دار ہے۔ خدا نے تو اپنی کتابوں میں اپنے انبیاء کے ذریعے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہر وقت انبیاء اور کتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت کو جانچ سکتا ہے۔ اس رہنمائی اور ان ذرائع سے اگر خدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا تو اس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دوچار ہونا پڑتا تب بلاشبہ ہر ظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ لیکن انسان نے تمام جتھہ بندیاں قوم‘ نسل‘ وطن‘ زبان قبیلہ برادری اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر خود بنائی ہیں۔ روزِ حساب یہ تمام جتھہ بندیاں ٹوٹ جائیں گی اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسری گروہ بندی ہوگی۔ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے یکسر انکار کرتے ہیں۔ آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی۔ انسان کی نظر میں انسان کو ملانے اور توڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظامِ زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں بستے ہوں اور کفر کی راہ اختیار کرنے و الے ایک دوسری ہی امت ہیں خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہو سکتی‘ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک جیساہو سکتا ہے۔ کافر نسل‘ وطن اور زبان کی بنیاد کے قائل ہیں جب کہ مسلمان نوع انسانی کو ایک نظریۂ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتے ہیں جو اسلام نے انہیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو قوائے نطقیہ یکساں عطا کیے ہیں نہ دماغ کی ساخت میں کوئی فرق ہے نہ منہ اور زبان کی بناوٹ میں۔ مگر زمین کے مختلف خطوں میں مختلف زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ ہر شخص کا لہجہ اور تلفظ اور طرز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ مادہ تخلیق ایک ہوتے ہوئے بھی بھی باپ بیٹے کی شکل‘ رنگ و روپ میں اختلاف ہوتا ہے۔ کوئی فرد دوسرے سے مشابہ نہیں حتیٰ کہ ایک درخت کے دو پتوں میں بھی مشاہبت نہیں پائی جاتی۔
خالق کائنات نے تمام انسانوں کو دینِ فطرت پر پیدا کیا۔ بخاری و مسلم میں آپؐ نے فرمایا ہر بچہ‘ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے‘ اصل انسانی فطرت پر پیدا ہوتا ہے‘ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی ، یہودی یا مجوسی وغیر بنا ڈالتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا۔ بعد میں مشرکین اپنی اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔ مسند احمِد اور نسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوںتک کو قتل کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا ’’لوگوں کو کیا ہوگیا کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔‘‘ ایک شخص نے عرض کیا ’’کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے۔‘‘ فرمایا ’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو اولاد ہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’ہر متعفن فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔‘‘ ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا ’’میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا‘ پھر شیاطین نے آکر ان کو ان کے دین سے گمراہ کیا اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھیرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔ اللہ کی صفت نہ کسی کو سونپی جاسکتی ہیں اور نہ اس کی الوہیت اور اختیارات میں شریک ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے میں یہ طاقت نہیں کہ انسان کی قسمت بنا سکے یا بگاڑ سکے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس کے غضب کا خوف دونوں قلب کے افعال ہیں‘ اسی قلبی کیفیت کو استحکام میں لانے کے لیے اقامت الصلوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ رجوع الی اللہ اور خوفِ خدا کو مستحکم کرنے کے لیے ہر روز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل کارگر نہیں ہے کیوں کہ ایمان و اسلام کا وہ پورا سبق جو قرآن نے انسان کو پڑھایا ہے‘ نماز میں اسے بار بار دہرانا پڑتا ہے۔ ایمان و اسلام سے جب کسی بندے کا تعلق کمزور ہونے لگتا ہے اُس وقت ’’نماز اور صبر‘‘ سے مدد ملی جاتی ہے۔ نوع انسانی کا اصل دین ’’دینِ فطرت‘‘ یعنی اسلام ہی ہے اسی لیے امیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں انسان کا دل خود ہی اسے پکارنے لگتا ہے کہ اصلی فرماں روائی کائنات کے مالک کی ہی ہے اور اسی کی مدد ان کی بگڑی بناسکتی ہے۔