حصہ اوَل
جماعت اسلامی ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کے حوالے سے ہم نے جناب نجیب ایوبی کی آنے والی کتاب جو قسط وار ہمارے سنڈے میگزین میں بعنوان ”برصغیر میں احیاء اسلام کی تحاریک“ شایع ہوتی رہی ہیں،سے جماعت اسلامی اور علامہ اقبال کے حوالے سے کچھ اقتباسات مضمون کی صورت میں یکجا کیے ہیں جو – علامہ اقبال کی برسی کے موقع پر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں-( –انچارج سنڈے میگزین -روزنامہ جسارت)۔
جنگِ عظیم اوّل اور جنگِ عظیم دوم کے بعد تو گویا عالمی منظرنامے کی کایا پلٹ گئی۔ یہ اٹھارہویں صدی کا اختتام اور انیسویں صدی کا ملاپ تھا، جس نے بڑے بڑے برج تلپٹ کرکے رکھ دئیے۔ سیاسی و جغرافیائی منظرنامے تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے تھے- نوآبادیاتی نظام کی زنجیریں ٹوٹ تو رہی تھیں مگر نئے جغرافیائی بلاک اور اتحاد بھی تشکیل پا رہے تھے- اسلام اگرچہ ہر دور میں ہی استعماری سازشوں کے لیے مرکز نگاہ رہا تھا، مگر ان تبدیلیوں کی تیز آندھی نے اسلام اور اسلامی نظریات کے لیے بھی چیلنج کھڑے کردئیے تھے۔
نہایت اختصار کے ساتھ اس منظرنامے کو اس طرح سمیٹا جا سکتا ہے کہ ”اسی دوران عالمی منظرنامے پر پہلی جنگ عظیم جس کی ابتدا 1914ء کو ہوئی۔ 11نومبر 1918ء کو یہ خونیں جنگ بند ہوگئی، لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔ اس جنگ کے اثرات ہندوستان پر بھی براہِ راست پڑے، اس لیے کہ یہاں کے باشندے بھی جبری طور پر اس جنگ میں جھونک دئیے گئے تھے۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، سلطنتِ ترکی اور بلغاریہ، اور دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی اور صلح کی درخواست کی۔ 28 جون 1919ء کو فریقین کے مابین معاہدئہ ورسائی ہوا۔ مسلمان دنیا پر اس کا بہت برا اثر پڑا۔ چونکہ ترکی جرمنی کا اتحادی رہا اس لیے اُسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا، اس طرح مسلمانوں میں قومیت کی بنیاد پر جنگ لڑی گئی، اور ترکی کے بہت سے عرب مقبوضات ترکی کے سلطان کے ہاتھ سے چلے گئے۔ بعد میں انگریزوں نے ترکی پر بھی سیاسی تسلط کی بدولت ترکی کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ انگریزوں نے اپنے آلہ کار کے طور پر کمال اتاترک کو ترکی کا والی بناکر اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنالیا۔ اسی جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگِ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباً ایک کروڑ آفراد کام آئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ ناکارہ ہوگئے۔ پہلی عالمی جنگ کے ٹھنڈا پڑنے کے ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ اور برصغیر میں سیاسی ہلچل مچ گئی۔ عرب مملکتوں میں انگریز اپنا قدم رکھ چکا تھا، جس کے سبب وہاں کی حکومتوں میں اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز ہوگیا- ترکی کی خلافتِ عثمانیه اپنے آخری انجام کو تھی۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کی نگاہیں خلیفتہ المسلمین پر تھیں۔ ہندوستان میں بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے منظرنامے کو بغور دیکھا جارہا تھا۔ بالآخر دم توڑتی ہوئی مسلم امہ کی خلافت کا مرکزی محور سلطنتِ عثمانیہ کا سورج بھی غروب ہوگیا۔
یہ وہ حالات تھے جن سے مسلم امت دوچار تھی۔ یہیں سے ایک اور نئی سیاسی کشمکش نے جنم لیا۔ سوچنے سمجھنے کے زاویے تبدیل ہونے لگے۔ ہندوستان کے منظرنامے پر بہت سی نابغہ روزگار ہستیاں سامنے آئین جن میں سرسید احمد خان، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبیداللہ سندھی، علامہ محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح، مہاتما گاندھی، رام پرساد بسمل، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، اور ظفر علی خان جیسی عظیم شخصیات تاریخ کے صفحات پر اپنا کردار نقش کرچکی ہیں۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ سیاسی بلوغت کے حوالے سے انیسویں صدی نے معراجِ کمال حاصل کرلی تھی۔ ان حالات میں سیاسی جدوجہد، انگریز سے آزادی اور آزاد مملکتوں کے قیام کے حوالے سے بھی انیسویں صدی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
تین قسم کی تحریکیں بیک وقت کام کررہی تھیں:
٭ معاشرے کی اصلاح اور دنیوی تعلیم کی ترغیب کے لیے سرسید احمد خان کی تحریک
٭ سیاسی محاذ پر انگریز سے آزادی کی تحریک۔ مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد، جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال
٭خلافتِ اسلامیہ کی بحالی کی تحریک، محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر
مگر جس اہم ترین خالص اسلامی ہمہ گیر نظریاتی تحریک کی ضرورت تھی اس کے لیے ابھی تک کوئی توانا آواز سامنے نہیں آئی تھی۔
اور یہ آواز کب اور کیسے بلند ہوئی اس بارے میں جاننے کے لیے اس اقتباس پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے:
”برصغیر ہند میں ایک نظریاتی جماعت کا ظہور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک فرد کے ذہن میں ایسے خیال کا جڑ پکڑنا اور پھر اس خیال کو عملی شکل دینا ایک عام انسان کے بس میں نہیں ہے۔ یہ شاید کائنات کے رب کی عنایت تھی کہ اس عظیم کام کے لیے اس شخص کے ذہن میں خیال نے جڑ پکڑا اور وہ اس کام کے لیے آمادہ ہوگیا۔ ایک نابغۂ عصر ہی ایسا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ جب یہ خیال اس انسان کے ذہن میں جنم لے رہا تھا اُس وقت اس کی عمر 17 سال تھی، اور اس کے اردگرد کیا ماحول تھا، یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔
روس میں زارِ شاہی کا نظام زمین بوس ہوچکا تھا اور کمیونسٹ انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ برصغیر ہند پر اس انقلاب کے اثرات پڑنا شروع ہوگئے تھے، نظامِ خلافت آخری ہچکیاں لے رہا تھا اور ہند میں خلافت تحریک چل رہی تھی، اور دوسری طرف ہند میں گاندھی جی کی ترکِ موالات تحریک زوروں پر تھی اور مسلمانوں کی بعض اہم شخصیات اس تحریک میں شریک ہوچکی تھیں۔ خود مولانا کی زبانی اس طرح بیان ہوا:
’’میں اُس وقت 17 سال کی عمر کا نوجوان لڑکا تھا، ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی یہ غم تھا کہ مسلمانوں کی ایک سلطنت جو دنیا میں باقی رہ گئی ہے، وہ مٹ رہی ہے۔ خلافت جیسی کچھ باقی رہ گئی تھی یعنی ترکوں کی سلطنت، وہ مٹ رہی تھی۔ خلافت جیسی کچھ بھی باقی رہ گئی تھی وہ دنیا کے مسلمانوں کو مجتمع کرسکتی تھی، لیکن وہ ختم ہوتی نظر آرہی تھی، اور مسلمانوں کے تمام مقدس مقامات خطرے میں پڑ گئے تھے، میں بھی اس تحریک میں ایک ادنیٰ کارکن کی صورت میں شامل ہوگیا۔‘‘
یہ خیالات اس نوجوان کے تھے، اور ہم نے دیکھا کہ ترکی کا نظامِ خلافت زمین بوس ہوگیا اور اتاترک نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یوں اس حصے میں عربوں کی نادانی نے ترک اور عرب کشمکش کو ابھارا۔ اس سازش میں عربوں نے برطانوی سامراج کا ساتھ دیا تھا، اور یوں برطانیہ اس حصے پر غالب آگیا۔
دوسری طرف برطانوی ہند میں خلافت تحریک کا خاتمہ ہوگیا، اور جو اتفاق ہندوئوں اور مسلمانوں میں پیدا ہوا تھا وہ ختم ہوگیا۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ’’انگریزوں نے ہندوستان میں آکر اپنے ملک پر قیاس کرتے ہوئے اس ملک کی آبادی کو بھی ایک قوم فرض کرلیا، اور اس مفروضے پر اپنے ملک کے نظام کے مطابق یہاں بھی جمہوری ادارے قائم کردیے ہیں۔ ہندو قوم کے لیے یہ بات سب سے زیادہ مفید تھی، کیوں کہ وہ اکثریت میں تھی، وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ایک قوم قرار دے کر جو جمہوری نظام بھی قائم ہوگا اس کا سارا فائدہ انہی کو ہوگا، اور آخرکار مسلمان ان کے ماتحت بن کر ایک طرح سے ان کے عملاً غلام بن جائیں گے، اور میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس وقت ہندوستان انگریزوں کے قبضے سے نکلے گا تو آزاد ہندوستان میں مسلمان آئینی تحفظات کی دستاویز کو ہاتھ میں لیے پھریں گے اور ہندو جو چاہیں گے، کریں گے۔ مسلمانوں کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ ہندو اکثریت کی دست برد سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
1924ء میں میرے تمام خدشات یک لخت سامنے آگئے، اور اپنی قومی قیادت پر سے میرا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ 1924ء میں ترکوں نے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کردیا، دوسری طرف ہندو مسلم اتحاد بھی ختم ہوگیا اور ہندوستان میں جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ اس کے بعد 1925ء میں سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کردی، 1926ء میں ایک مسلمان نے سوامی شردھانند کو قتل کردیا، اور مسلمانوں پر شدید حملے شروع ہوگئے۔ اس پر گاندھی بول اٹھا کہ ’’اسلام تلوار کا مذہب ہے۔‘‘
میں نے مطالعے کے بعد ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھی۔ حالات بدلتے چلے گئے۔ 1928ء میں ہندوستان میں عام خیال تھا کہ مسلمانوں کے بغیر کوئی تحریک نہیں چل سکتی، اور مسلمان بھی اس بھروسے پر تھے کہ کانگریس آزادی کے راستے پر ہمیں ساتھ لیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن 1929ء تک پہنچتے پہنچتے گاندھی نے مسلمانوں کی اس کمزوری کو بھانپ لیا کہ یہ قوم پراگندہ ہوچکی ہے اور اس کے اندر قیادت اور کوئی تنظیم باقی نہیں رہی ہے، اب میں صرف ہندوئوں کو لے کر انگریزی حکومت سے لڑ کر آزادی لے سکتا ہوں۔
قصہ مختصر عالمگیر اسلامی نظریاتی تحریک کا اعادہ کیا گیا۔ (ترجمان القران جلد10 صفحہ2۔ 13 …’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ سوم اور دوم)۔
’’1939ء میں مسلم لیگ نے زور پکڑا اور پاکستان کی تحریک اٹھنا شروع ہوگئی جو 1940ء تک قراردادِ پاکستان کی شکل اختیار کرگئی۔ اور میں اُس وقت دیکھ رہا تھا کہ اب مسلمان قوم خدا کے فضل سے ہندو قوم کے اندر جذب ہونے سے بچ گئی ہے، اس کے اندر دینی قومیت کا احساس اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ اب کسی نہرو اور کسی گاندھی کے بس کا یہ کام نہیں رہا ہے کہ ان کو ہندوئوں یا ہندوستانی قومیت کے اندر جذب کرسکے۔‘‘ اس کے بعد سید مودودیؒ نے کہا ’’اب جو مسئلہ میری نگاہ میں اہم تھا وہ یہ تھا کہ مسلمان قوم کو احساس دلایا جائے کہ اسلامی حکومت کیا ہوتی ہے اور اسے قائم کرنے کے لیے کس سیرت و کردار کی ضرورت ہوتی ہے، اور کس طرح کی تحریک سے وہ قائم ہوسکتی ہے، اور ایک اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی قومی حکومت میں اصولاً اور عملاً کیا فرق ہوتا ہے۔ اس غرض کے لیے میں نے وہ سلسلۂ مضامین لکھنا شروع کیا جو بعد میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ حصہ سوم کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے مضامین 1939ء سے 1940ء تک لکھے گئے۔ اس کا کچھ 1941ء کا لکھا ہوا ہے۔“
1940ء کی قرارداد کے بعد مولانا کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا اور انہیں اندازہ ہوگیا کہ ’’جس قسم کے عناصر تحریک پاکستان میں جمع ہورہے تھے اُن کو دیکھتے ہوئے میں یقینی طور پر سمجھ رہا تھا کہ یہ عناصر جمع ہوکر ایک ملک بنا سکتے ہیں، ایک قومی حکومت قائم کرسکتے ہیں، لیکن ان عناصر سے کبھی یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک اسلامی حکومت بنا لیں گے۔ اس تحریک میں جو لوگ پیش پیش تھے، جو اس تحریک کو چلا رہے تھے اُن کے کریکٹر کو دیکھتے ہوئے، ان کی زندگیوں کو دیکھتے ہوئے ان سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی تھیں! میں اندازہ کررہا تھا کہ یہ ایک ملک بنا سکتے ہیں لیکن اس کو ایک اسلامی حکومت نہیں بنا سکتے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کرلیا کہ ’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔
22 سال تک جو جو کچھ میں دیکھتا رہا تھا، جو میرے مشاہدات اور تجربات تھے، ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر میں نے جماعت کی تشکیل کی اور وہ تمام احتیاطیں ملحوظ رکھیں جو ان مشاہدات کی بنا پر ضروری تھیں، اور ہم نے جماعت اسلامی کا جو نصب العین قرار دیا اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام ’اقامتِ دین‘ تھا۔ اس کے ساتھ جو چیزیں میں نے جماعت کی تشکیل میں پیش نظر رکھی تھیں وہ یہ تھیں کہ جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہونی چاہیے جو نہ صرف عقیدے میں مخلص ہوں بلکہ اپنی انفرادی سیرت و کردار میں قابلِ اعتماد ہوں۔ میرے 22 سال کے مشاہدات یہ بتا رہے تھے کہ مسلمانوں کی جماعتوں اور تحریکوں کو جس چیز نے آخرکار خراب کیا وہ اچھے لوگوں کے ساتھ بہت سے ناقابلِ اعتماد لوگوں کا شریک ہوجانا تھا‘‘۔
(جاری ہے)