روبنسن کروسو کی کہانی اس وقت بہت خواب ناک اور پُر لطف لگتی ہے جب آپ دنیا جہان کی آسائشوں سے آراستہ شہر کے کسی گھر میں بیٹھے اسے پڑھ رہے ہوں۔
یہ ایک شخص کی کہانی ہے جس کا بحری جہاز طوفان کا شکار ہوکر تباہ ہو جاتا ہے اور وہ جزیرے پر کئی سال گزارتا ہے، جہاں اس کے لاتعداد حیرت انگیز تجربات ڈینل ڈیفو نے اپنے ناول میں درج کیے ہیں۔ ہر کوئی جب یہ ناول پڑھتا ہے، تو اس کی خوب صورت بھول بھلیوں میں ایسے کھو جاتا ہے کہ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ بھی کسی تنہا الگ تھلگ جزیرے پر جا نکلے، جنگلی جانوروں، تہذیب سے دور انسانی بستیوں اور وسیع و عریض گُھپ اندھیرے جنگلات میں کچھ دن گزار کر رنگینیوں میں لوٹ آئے۔
یکساں ماحول سے اکتاہٹ انسان کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔ غالبؔ جب یہ خواہش کرتا ہے کہ
۔’’رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو‘‘۔
تو غالبؔ کی یہ خواہش دراصل دنیا کے بکھیڑوں اور روزمرہ کی آفتوں سے نجات کے حصول اور دنیا کی مصیبتوں سے بھاگنے کے لیے ہوتی ہے، تب ہی تو اس نے کہا:۔
نے تیر کماں میں ہے نہ صیاد کمیں میں ہے
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
ایسے آرام اور اطمینان کی داستان نواب اکبر بگٹی سنایا کرتے تھے۔ نواب صاحب دائمی بے خوابی کا شکار تھے، لیکن ان کی یہ بے خوابی ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی، رات گئے تک ان کے گھر پر محفل سجتی اور اس کے بعد بھی وہ مطالعہ میں مشغول رہتے، شاید ایک یا دو گھنٹے نیند کرتے اور صبح ایک چاق و چوبند شخص کی طرح زندگی میں مگن ہوجاتے۔ آخری سالوں میں تو بالکل نہیں سوتے تھے۔ تھوڑی دیر ٹہلتے رہتے یا بستر پر لیٹے لیٹے کتاب پڑھتے، ٹیلی ویژن دیکھتے۔ لیکن خود سنایا کرتے تھے کہ جب پہلی دفعہ وہ اپنے چچا کے قتل کے الزام میں قید ہوئے تو جیسے ہی جیل میں ان پر پہلی رات آئی تو وہ اس قدر اطمینان سے سوئے کہ آنکھ نہیں کھلتی تھی۔ ایسی نیند کا معاملہ وہی ہے جو غالب نے کہا ہے کہ ’’تیر کمان میں لیے اپنی، کوئی ان کی تاک نہ تھا۔‘‘ بے خوفی کے عالم میں سکون کی نیند کا بستر انسان کے لیے ضرور دراز ہو جاتا ہے۔
تنہائی، علیحدگی، دنیا سے اکتاہٹ اور مکمل سکوت میں بسیرا عموماً ہر تخلیقی شخصیت کے خوابوں میں سجا ہوتا ہے۔ اقبال کی نظم ’’ایک آرزو‘‘ ایک ایسا منظر کھینچتی ہے کہ آدمی اس کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے، اک ننھا سا جھونپڑا ہو
لذت سرور کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
ہو ہاتھ کا سرہانہ، سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس میں جلوت، خلوت میں وہ ادا ہو
لیکن ان تمام آرزوؤں، خوابوں، امیدوں اور خواہشوں کے باوجود کوئی بہ خوشی دنیا سے بھاگ کر جنگل کی طرف نہیں نکلا۔ ریاضت، مجاہدے، تزکیے، تپسیا، گیان کی تلاش اور مخصوص چلیّ انسانی تاریخ میں موجود تو ہیں لیکن ان کے مقاصد میں خالصتاً بے غرض اور بے لوث تنہائی نہیں ہوتی بلکہ خالقِ کائنات سے رابطہ یا راز کائنات سے آشنائی کا لالچ شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے تمام مجاہدے اور ریاضتیں، تنہائی کی رومانیت اور لطف سے نا آشنا رہتے ہیں۔
تنہائی ازل سے انسان کی سرشت اور تخلیق میں نہیں ڈالی گئی، فرمایا ’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا ایک جوڑا بنایا تاکہ وہ اس سے راحت حاصل کرے۔‘‘ (الاعراف:189)۔
گویا اللہ نے راحت تنہائی میں نہیں بلکہ ملاپ میں رکھ دی، اسی لیے سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ساتھ ہی سیدہ حوّا تخلیق کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ امرالقیس اور ہومر سے لے کر غالبؔ و اقبالؔ تک‘ سب تنہائی کے خواب تو دیکھتے رہے لیکن کوئی اپنا بوریا بستر اٹھا کر ایک لذت گونا حاصل کرنے کے لیے جنگلوں اور جزیروں کی جانب روانہ نہ ہوا۔ لیکن رومان پرست شاعر اور تخلیق کار بستیوں میں بھی ایک اور طرح کی تنہائی اوڑھ لیتے ہیں۔ اس تنہائی کا ظاہر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ بس تخلیق کار اور شاعر کے دل و دماغ میں بستی ہے بقول ناصر کاظمی
دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ۔
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
مولانا رومؒ نے تو تنہائی کو معرفت کے خزانوں سے تعبیر کیا ہے:۔
ہر کجا ویراں بود، آنجا امیدِ گنج ہست
گنج ِحق را می نہ جوئی، در دلِ ویران چرا
ترجمہ: ’’جہاں کہیں بھی ویرانہ ہو وہاں خزانہ ملنے کی امید ہوتی ہے، تو پھر تو ویران دلوں میں حق کے خزانے کیوں تلاش نہیں کرتا۔‘‘۔
تنہائی، ویرانی، خاموشی، داخلی ہو یا خارجی انسان کی سرشت تخلیق اور فطرت سے مختلف ہے۔
۔’’آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ‘‘۔
(اقبال)
لیکن آج کورونا کی دنیا جس مسلسل اور مستقل تنہائی کی طرف دنیا کو آہستہ آہستہ لیتی چلی جا رہی ہے وہ کچھ عرصے میں ایک نیا انسان اور نیا ماحول تخلیق کر دے گی۔ ایک تیز رفتار، چہل پہل، رنگ و رونق اور رقص و سرود کے معاشرے کی آہستہ آہستہ موت واقع ہو رہی ہے اورایک مختلف دنیا ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ شاید صبح ازل والی پُرسکون، پُر لطف اور خاموش دنیا۔ وہی دنیا جسے اللہ نے بنی آدم کے لیے بنایا، سنوارا اور دل کش بنایا تھا۔ اس نے انسان کو یہاں رہنے، آباد ہونے اور اس دنیا کو برتنے کے لیے کچھ رہنما اصول دیے تھے۔ انسان نے ان تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر اس دنیا میں اپنا ہی ایک !!بے ہنگم آہنگ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ نے جھرنوں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ میں موسیقی، سُر اور لَے رکھی تھی، انسان نے بڑے بڑے آلاتِ موسیقی سے زمین پر بسنے والے جان داروں کا سکون برباد کر دیا۔ پوری دنیا ایک شان دار تصویر کی صورت تھی، نیلے آسمان پر تیرتے بادل، دیو قامت سرمئی اور سبز پہاڑ، قد رعنا کی طرح بلند چھاؤں چھڑکتے درخت، دامن میں سبزے کی بہار اور پھر سر ٹپکتے شور مچاتے یا سکوت سے گزرتے دریا اور ندی نالے۔ اس سارے منظر کو اس نے رنگین پھولوں، خوب صورت تتلیوں، پرندوں اور موج مستی کرنے والے جان داروں سے سجایا تھا۔ لیکن انسان نے اسے ایسا بھدّا، بدنما اور بدصورت بنایا کہ اس کائنات کے منظرنامے میں رنگ بھرنے والے پرندوں، جانوروں، پھولوں، سب ناپید ہوتے چلے گئے۔ سب کو تہذیب و ترقی کھا گئی۔
اللہ نے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو ہدایت نامے (Manuals) آسمانی کتابوں کی صورت بھیجے تھے، انسان نے انہیں ترک کیا، جس کے نتیجے میں خود بھی برباد ہوا اور اللہ کا یہ باغ بھی اجاڑ دیا۔ اللہ نے اپنے اس باغ کو ازسرنو اپنے ہدایت ناموں کے مطابق چلانے کے لیے کافی عرصے سے تنبیہ دے رکھی تھی۔ پہلی وارننگ 90 کی دہائی میں دی گئی جب ایڈز کا وائرس آیا جو بے احتیاط جنسی تعلقات سے پھیلتا تھا۔ دنیا میں نعرہ بلند ہوا ’’اپنے پارٹنرز تک محدود رہیے۔‘‘
اسی اخلاقیات کا تقاضا تو خالق کائنات نے کیا تھا دو دہائیوں تک اس کا خوف رہا، پھر انسان نے محفوظ جنسی تعلقات کا راستہ نکال مینوئل پرے پھینک دیا۔ لیکن اس بیماری سے اب تک ساڑھے سات کروڑ لوگ ایڈز کا شکار ہوچکے ہیں اور تین کروڑ بیس لاکھ لوگ مر چکے ہیں جب کہ تین کروڑ اسی لاکھ اس مرض کے ساتھ دنیا میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ لیکن اب لگتا ہے اللہ نے اپنے پورے ہدایت نامے پر عمل درآمد کروانے کا اعلان کردیا ہے اور ہیڈ ماسٹر کا ڈنڈا کرونا کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ کیا کچھ نہیں جو بند ہوگیا ہو اور شاید ایک طویل عرصہ اس خوف سے دوبارہ نہ کھل سکے۔ مساج پارلروں سے لے کر جسم فروشی کے اڈوں تک، رقص گاہوں سے لے کر کلبوں تک، شراب خانوں سے لے کر بازار کی رونقوں تک۔ مرد اور عورت کا آپس میں اختلاط اور میل جول تو دور کی بات ہے مرد اور مرد بھی باہم مصافحہ سے گئے۔
چہرے کا پردہ منع کرتے تھے کہ اس کے پیچھے دہشت گرد چھپ سکتے ہیں، اب اس کے پیچھے انسانیت کے محسن چھپے ہوتے ہیں۔ کہا تھا گھر میں بیٹھو، بازار سب سے بری جگہ ہے، اب خوف نے گھر تک محدود کردیا ہے۔ یوں لگتا ہے کورونا ایک ہیڈ ماسٹر یا تھانیدار ہے جس نے اللہ کی جانب سے دیے گئے ہدایت نامے کو سامنے کھول کر رکھا ہے اورجب بھی خلاف ورزی ایک حد سے بڑھنے لگتی ہے، جو کوئی بھی اس کی خلاف ورزی کرنے لگتا ہے وہ اس کی پکڑ میں آ جاتا ہے۔ چند دن کھانستا ہے، بخار ہوتا ہے، سانس اکھڑتی ہے اور دنیا سے رخصتی ہوجاتی ہے۔