’’کیا ہوا ارشد، بہت غصے میں لگ رہے ہو!‘‘
’’کہاں گئے تھے؟ کہاں سے آرہے ہو؟ پانچ بج گئے ہیں، قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، تمہیں پتا نہیں میں بہت سخت آدمی ہوں۔ ابھی ایف آئی آر کاٹ دی تو جیل جانا پڑے گا۔ یہی بھاشن سن کر آرہا ہوں۔‘‘
’’کہاں گئے تھے؟ کس کا بھاشن سن کر آرہے ہو؟ کچھ بتاؤگے بھی، یا اسی طرح غصہ کرتے رہو گے؟‘‘
’’تم بھی وہی سوال کررہے ہو جو سڑک پر کھڑے پولیس اہلکار کررہے ہیں۔‘‘
’’لگتا ہے آج تمہارا موڈ اچھا نہیں ہے، تبھی ایسی باتیں کررہے ہو۔‘‘
’’میرا موڈ تو اچھا تھا، لیکن ٹھیکے داروں نے خراب کردیا ہے۔‘‘
’’کیا ہوگیا ہے تمہیں، خیریت تو ہے! کبھی پولیس اہلکاروں کا نام لیتے ہو اور کبھی ٹھیکے داروں کو کوسنے لگتے ہو، اگرکوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ۔‘‘
’’ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں… شہر ہی نہیں، پورا ملک ہی مسائل کی زد میں آچکا ہے۔‘‘
’’کہانیاں سنانے سے بہتر ہے کہ اصل بات کی طرف آؤ اور اصل بات بتاؤ، اِدھر اُدھر کی نہ مارو۔‘‘
’’ماموں کے گھر گیا تھا، راستے میں پولیس اہلکاروں نے روک لیا، کہنے لگے: لاک ڈاؤن میں نرمی کا وقت ختم ہوچکا ہے اور تم اس وقت تک باہر تفریح کررہے ہو! عجیب قسم کی باتیں کررہے تھے، بلکہ جو منہ میں آیا بولے جارہے تھے، کہنے لگے: جسے بھی روکو کہتا ہے کہ انتقال سے آرہا ہوں۔ میں نے کہا میں تو انتقال سے نہیں آرہا، میں تو اپنے ماموں گھر سے آرہا ہوں۔ بولے: تم انتقال سے نہیں آرہے تو کیا ہوا؟ یہاں ہر دوسرا شخص کسی عزیزکی تدفین سے آنے کی خبر سناتا دکھائی دیتا ہے۔ تم ہی بتاؤ کتنی غلط بات ہے۔‘‘
’’اس میں کون سی غلط بات ہے! ہاں تمہارے ساتھ جو ہوا اچھا نہیں ہوا، اس کی مذمت کی جانی چاہیے، لیکن اس کا مقصد بالکل یہ نہیں کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے کی جانے والی تمام باتیں غلط ہیں۔ اکثرلوگ پولیس اہلکاروں سے بچنے کے لیے اسی طرح بہانے بناتے ہیں۔ جب سے کورونا وائرس آیا ہے، انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، وہ ہماری صحت کے لیے ہی یہ سب کچھ کررہے ہیں، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ حکومت کی بنائی گئی پالیسیوں کی حمایت کریں اور اداروں سے مکمل تعاون کریں۔‘‘
’’کورونا… کورونا… کورونا سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں، جہاں جاو،ٔ جس سے بات کرو بس کورونا وائرس کا ہی رونا روتا ہے۔‘‘
’’ظاہر ہے جب ایک وبا آئی ہے تو اس کی بات ہی کی جائے گی، اس سے بچنے اور لڑنے کی تدابیر کی جائیں گی۔ جانی نقصان کم سے کم ہوسکے اس کے لیے ہی سوچ بچار کی جائے گی۔ تمہارے کان پکیں یا زبان خشک ہو، کورونا وائرس پر ہی سننا اور بولنا پڑے گا۔‘‘
’’یہ اچھا وائرس ہے جو صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک سوتا ہے، اور شام پانچ بجے کے بعد لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ سارے پاکستان میں صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک تمام دکانیں کھلی اور کاروبار جاری رہتا ہے، رات بارہ بجے سے دن بارہ بجے تک سبزی منڈیاں بھی کھلی رہتی ہیں، اس دوران بھی وائرس کچھ نہیں کہتا۔ نامور سپر اسٹورز میں بھی کاروبار جاری رہتا ہے، وہاں بھی یہ بے اختیار ہوتا ہے، لیکن جوں ہی لاک ڈاؤن میں نرمی ختم ہو یہ وائرس لوگوں سے چمٹنے لگتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب… تم کہنا کیا چاہ رہے ہو… کیا کورونا وائرس حقیقت نہیں؟‘‘
’’یہ تو تم ہی جواب دو۔ اگر ہے تو لاک ڈاؤن میں نرمی کے اوقات میں کہاں چلا جاتا ہے؟ دیکھو آج کل شہر میں مچھروں کی بھرمارہے۔ دن ہو یا رات، مچھر کاٹ کاٹ کر برا حال کررہے ہیں، یہ الگ بات کہ دن کے مقابلے میں مچھروں کی تعداد رات میں زیادہ ہوجاتی ہے، لیکن اس کا مطلب بالکل یہ نہیں کہ اس دوران مچھر سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔‘‘
’’بہت بڑے فلاسفر ہو، تمہاری باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تم کورونا وائرس کو حقیقت نہیں مانتے، تمہارے نزدیک یہ افواہ ہے۔‘‘
’’میرے نزدیک ہی نہیں، بلکہ دکان داروں کے نزدیک بھی یہ بے کار بات ہے۔ دیکھتے نہیں کس طرح تمام بازار کھلے ہوئے ہیں، ہر چیز کی شاپنگ کی جارہی ہے، لوگ جوق در جوق بازاروں میں جارہے ہیں، خرید و فروخت زوروں پر ہورہی ہے۔ اگر کچھ بند ہے تو صرف فیکٹریاں… اس کے پیچھے بھی ایک راز ہے، بلکہ سازش ہے۔‘‘
’’کون سی سازش؟ ساری دنیا میں ہر شعبہ بند پڑا ہے، اور تم پاکستان میں بند ہونے والی صنعتوں کو سازش قرار دے رہے ہو!‘‘
’’سازش قرار دے نہیں رہا ہوں، بلکہ یہ سازش ہے۔ دیکھو اگر میں تھوڑی دیر کے لیے ہی یہ مان لوں کہ کورونا وائرس ہے، اور اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ سماجی رابطے ختم کرنا یعنی لوگوں سے میل ملاپ ختم کرکے اپنے آپ کو گھروں تک محدود کرلینا ہے، تو یہ فارمولا صرف فیکٹریوں اور مختلف سرکاری اداروں میں کام کرنے والوں تک ہی کیوں محدود ہے؟ بات سیدھی سی ہے، یہ سارا چکر چین اور امریکہ کا ہے، ان ممالک میں اس وائرس کی وجہ سے لوگ ضرور متاثر ہوئے ہیں، لاک ڈاؤن بھی ہوا ہے، تمام کاروبار اور صنعتی علاقے بھی بند ہیں، جس کی وجہ سے ان ممالک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان میں چلتے صنعتی پہیّے کو روکنا انتہائی ضروری تھا، ظاہر ہے جب دنیا بھر کے ممالک جہاں کورونا وائرس کے باعث صنعتیں بند ہیں، ایسی صورت میں پاکستان جیسے ملک کی مصنوعات کا عالمی منڈیوں تک پہنچنا ان ممالک کی معیشت کے لیے زہر قاتل تھا جو دنیا کے ٹھیکے دار ہوں۔ وہ بھلا کس طرح اور کیوں کر پاکستان کی معاشی ترقی کو ہضم کرسکتے تھے! لہٰذا جب اُن کی صنعتیں بند ہوئیں تو انہوں نے دنیا بھر کے میڈیا پر ایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جس سے کھلی صنعتیں بھی بند کرنا پڑ گئیں۔ یہ ساری جنگ معاشی جنگ ہے۔ بدترین حالات میں پھنسا ہوا گورا کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان جیسا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو، وہ ہم جیسے ملکوں کو غربت، افلاس اور بے روزگاری جیسے بڑے مسائل میں ہی جکڑ کر رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میری بات اب تمہاری سمجھ میں آگئی ہوگی۔‘‘
’’عجیب فلسفہ ہے تمہارا… پتا نہیں کون سے زاویے سے سوچتے ہو! جو ذہن میں آیا بولتے چلے گئے۔‘‘
’’تم نہ مانو، مجھے جو کہنا تھا کہہ دیا کہ سارا چکر لوگوں کو بے روزگار کرنے کا ہے۔ جتنی تیزی سے لوگ بے روزگار ہوں گے، اتنی تیزی سے ملک معاشی تباہی کی جانب بڑھتا جائے گا۔ اگر تم بے خبر ہو تو میں کیا کروں! میں تو صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں کورونا نہیں، یہ سارا چکر امریکہ اور چین کا ہے، اس لیے یہ لاک ڈاؤن بے کار ہے۔‘‘
’’میں بے خبر نہیں ہوں، سب جانتا ہوں۔ ہر صبح تمام اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں، میڈیا پر ہونے والے ٹاک شوز باقاعدگی سے دیکھتا ہوں، میں اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں کہ اگر کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے حکومت کی موجودہ حکمت عملی کے مطابق لاک ڈاؤن کی مدت بڑھتی ہے اور اسے تین مہینے تک بڑھایا جاتا ہے تو یہ ایک کروڑ افراد کی ملازمتوں کو خطرے سے دوچار کرسکتا ہے، اور ملک میں تین شعبوں کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے، جس کے باعث بے روزگاری کی شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان شعبوں میں بڑی اور درمیانی صنعتیں، ہول سیل و ریٹیل کاروبار، اور ٹرانسپورٹ کے شعبے شامل ہیں۔ بلکہ یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹری کی انتظامیہ نے ایک نوٹس جاری کرکے تمام اسٹاف کو مطلع کیا ہے کہ ان کی تنخواہوں میں دس سے پچاس فیصد کٹوتی کی جا رہی ہے۔ دس سے پچاس فیصد تک کٹوتی اسٹاف کی تنخواہوں کے لحاظ سے کی جائے گی جو اپریل، مئی اور جون کی تنخواہوں پر لاگو ہوگی۔ جبکہ کراچی کے ایک بڑے ٹیکسٹائل گروپ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے فیکٹری بند ہونے کے باعث تمام ملازمین کو بغیر تنخواہ کے چھٹی دی جارہی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ملازمتوں سے ہاتھ دھونے کی صورت میں عوام ماہانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی سے محروم ہوجائیں گے۔ جہاں تک کورونا وائرس کی وجہ سے کیے جانے والے لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی خراب معاشی صورتِ حال، اور اس کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے افراد کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے ریلیف پیکیج کے اعلان کا تعلق ہے جس کے تحت ملک میں ایک کروڑ سے زائد غریب خاندانوں کو نقد رقم کی صورت میں امداد دی جارہی ہے جو چار مہینے کے لیے بارہ ہزار روپے پر مشتمل ہوگی، اس بارے میں سارا پاکستان ہی جانتا ہے کہ چار مہینوں کے لیے ایک خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ رقم بہت کم ہے، ایک مہینے میں تین ہزار روپے کے ذریعے ایک خاندان کی کفالت بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں، لیکن تم ہی بتاؤ جب ساری دنیا کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے لاک ڈاؤن پر چلی گئی ہے تو ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ عوام کی زندگیاں زیادہ اہم ہوتی ہیں، حکمرانی عوام پر کی جاتی ہے۔ جب عوام محفوظ نہ ہوں تو حکمرانی کس بات کی! انسان زندہ رہ کر دوبارہ معاشی کامیابی حاصل کرسکتا ہے، تباہ حال معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے، لیکن انسانی زندگی دوبارہ نہیں مل سکتی۔ لہٰذا میرے نزدیک یہ وائرس ہے، اور اس وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات تسلی بخش ہیں، اور میرے خیال میں یہی اس وائرس سے بچنے کا طریقہ ہے اور یہی علاج بھی۔‘‘
………
اس وقت ساری دنیا کورونا وائرس سے نمٹنے کی تدابیر رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے شہریوں نے عجیب قسم کی بحث شروع کررکھی ہے۔ زیادہ تر لوگ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کورونا وائرس بھی کوئی چیز ہے، وہ اسے دشمن کی سازش یا افواہ قرار دیتے ہیں۔ سڑکوں اور بازاروں میں جاکر دیکھ لیں، لوگوں کی آمدورفت اور روزمرہ کے مشاغل میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ کورونا ان کے لیے کوئی مسئلہ ہے۔ ایسی صورت میں فقط یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران عوام کو کورونا جیسے موذی وائرس سے متعلق آگہی دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ خدارا اربابِ اختیار اس سنجیدہ صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے عوام میں بیداری پیدا کریں، تاکہ اس وائرس سے محفوظ رہا جاسکے۔