احفاظ الرحمٰن ایک عہدِ صحافت

670

سیمان کی ڈائری
حصہ اوّل
میرے لیے اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ جب عصرِحاضرکا ایک بڑا اور معتبر نام صرف اتنا ہی کہہ دے کہ ہاں میں انہیں جانتا ہوں تو اس سے بڑھ کر اور کیا انعام ہو سکتا ہے۔یہ وہ الفاظ ہیں جو زباں سے ادا تونہ ہوئے تھے لیکن انھیں سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے جناب احفاظ الرحمان صاحب کو سامنے رکھنا پڑے گا۔ غالباً 16 مئی 2015 ہفتے کی رات تھی۔ جب خالد معین بھائی اور میں پریس کلب سے نکل کر آرٹس کونسل پہنچے۔ وہاں احفاظ الرحمان صاحب کی کتاب‘‘سب سے بڑی جنگ’’کی تقریب رونمائی تھی۔ اس تقریب میں شہر کے تقریباً تمام دانشور، ادیب اور صحافیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریب کے اختتام پرسینئر صحافی اورشاعر فاضل جمیلی بھائی احفاظ الرحمان صاحب کے ہمراہ آرٹس کونسل سے رخصت ہو رہے تھے کہ خالد بھائی نے احفاظ صاحب کو استادِ محترم کہہ کر مخاطب کیا اور قریب پہنچ کر نہایت ادب سے اُن کے سینے سے جا لگے۔ میں بھی ان کی تائید میںاحفاظ صاحب کی قدم بوسی کوآگے بڑھا ۔اُنھوں نے مجھے گلے سے لگالیا۔ خالد بھائی نے احفاظ صاحب کو کتاب کی تقریب کی مبارکباد دی اورمزاج پرسی کے بعد میرا تعارف کرایا کہ یہ نوجوان شاعر سیمان نوید ہے۔میں بالکل احفاظ صاحب کے قریب تھا انھوں نے دوبارہ مجھے سینے سے لگایا اور خالد معین بھائی کی طرف مسکرا کرمیری طرف اشارہ کیا کہ جیسے کہا ہو ’’ہاں میں اسے جانتا ہوں‘‘۔طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ مزید رکے نہیں اور چلے گئے۔احفاظ صاحب کے جانے کے بعد بہت دیر تک خالد بھائی نے اپنے الفاظ میں مجھے اُن اشاروں کا مطلب بتایا کہ یہ تمہارے لیے بہت انعام کی بات ہے جو وہ تمہارے لیے کہہ گئے۔ وہ احفاظ صاحب جن سے مجھے کبھی ملنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا اور ملے تو اس مقام پر جب وہ بول نہیں سکتے تھے۔اس ملاقات سے قبل اور بعد میں بھی کئی بار میں نے کوشش کی کہ احفاظ صاحب سے ملاقات کر سکوں لیکن اُن کی بیماری کے سبب ایسا ہونا میری قسمت میں ہی نہیں تھا اور اب تو بالکل بھی نہیں…
گذشتہ ہفتے 12 اپریل کی شب یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ پاکستان کے معروف صحافی ادیب شاعر نقاداور ٹریڈ یونین رہنما احفاظ الرحمان انتقال کر گئے۔انہیں طبعیت کی خرابی کے باعث چند روز قبل کراچی کے ایک نجی اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔وہ کچھ عرصہ قبل گلے کے کینسر کی وجہ سے قوتِ گویائی سے محروم ہوگئے تھے۔بولنے کیلئے صوتی آلے کا استعمال کرتے تھے۔احفاظ صاحب کی دنیا سے رخصتی بھی ایسے وقت ہوئی جب پوری دنیا ایک موذی وبا(کورونا) کی لپیٹ میں ہے اور حکومتی ہدایت کے پیشِ نظر نمازِ جنازہ اور تدفین میں بھی مختصر افرادہی شریک ہو سکے۔ احفاظ الرحمان صاحب کا شمارملک میں جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کیلئے جدوجہد کرنے والے کلیدی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے کئی اخبارات میں اہم صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں۔ وہ کارکنوں کے حقوق کی ہر جدوجہد میں صف اول میں رہے اور کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آمرانہ دور میں انہیں آزادیٔ صحافت کی جدوجہد کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے چین میں بھی 16 سال کا عرصہ گزار اور ثقافتی انقلاب کے دوران بیجنگ میں فارن لینگویجز پریس میں کام کیاتھا۔قارئین کے لیے احفاظ صاحب کی رحلت پرمختلف علمی،ادبی اور صحافتی شخصیات کے تاثرات اپنے کالم میں شامل کیے ہیں جس کا حصہ اوّل پیش ِ خدمت ہے۔

خواجہ رضی حیدر

احفاظ الرحمان سے میرے تعلقات کا آغاز 1967میں ہوا اور ان تعلقات کا ذریعہ میرے ایک صحافی دوست اور افسانہ نگار نسیم شاد بنے تھے۔ میں روزنامہ حریت کراچی میں تھا۔روز پابندی سے پریس کلب جاتا تھا، لہاذا احفاظ الرحمان سے پابندی سے ملاقات ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں وہ افسانے لکھا کرتے تھے۔بعد میں شاعری کرنے لگے۔1970کے بعد اُن سے میرے نظریاتی اختلافات ہوگئے لیکن تعلقات میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوا ۔شاید اس کا سبب صحافت اور ادب سے ہماری وابستگی تھی۔ نعیم آروی اور شفیع ادبی کے علاوہ بہت سے صحافی تھے جو ادب و شعر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ میرے صحافتی استاد افسر آذر اور سینئر شاعر خالد علیگ کے علاوہ عبدالرؤف عروج بھی اُن افراد میں شامل تھے جو احفاظ الرحمان کے بہت قریب تھے۔احفاظ الرحمان جب روزنامہ جنگ کے میگزین ایڈیٹر ہوئے تو انھوں نے تحریک پاکستان اور قائداعظم کے حوالے سے نہ صرف میرے مضامین شائع کیے بلکہ غلام محی الدین سے کہہ کر مختلف موضوعات پر مجھ سے مضامین لکھوائے بھی۔جب وہ روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوئے تو عثمان جامعی کو مجھ سے رابطے پر معمور کردیا۔ یہ اُن کا اخلاص تھا جس سے نظریاتی اختلافات کے باوجود وہ کبھی دست بردار نہیں ہوئے۔ انھوں نے بہ حیثیت صحافی نام ور شخصیات کے انٹرویو بھی کیے۔ خصوصاً بزرگ صحافی ضمیر نیازی سے جب انٹرویو کیا تو مجھے بھی نیازی صاحب کے گھر بلالیا۔کیوں کہ ضمیر نیازی صاحب سے میرے بھی قریبی مراسم تھے۔ احفاظ الرحمان عامل صحافیوں کے حقوق کے لیے زندگی بھر جدو جہد کرتے رہے۔ عبدالحمید چھاپرا کے بعد شاید وہ دوسرے صحافی تھے جنھوں نے صحافیوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ آج وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی شخصی صفات اور صحافتی خدمات ہمیں ہمیشہ اُن کی یاد دلاتی رہیں گی۔

اطہرہاشمی

کہتے ہیں کہ جس شخص کی ہرکوئی تعریف کرے وہ یقیناوہ جنتی ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ ہرانسان اس کی تعریف کررہا ہے ،گواہ رہنا میں نے اس کو بخش دیا ہے۔یہی مسئلہ احفاظ الرحمان کے ساتھ ہے۔ میری اُن سے کوئی بہت گہری ملاقاتیں نہیں رہیں،سرسری ملاقاتیں تھیں۔اس کی وجہ یہی تھی کہ میں کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔گو کہ ہمارا اُن سے سیاسی، نظریاتی اختلاف اپنی جگہ لیکن اُس کے باوجودوہ بہترین صحافی اوراچھے میگزین ایڈیٹر تھے۔انھوں نے آزادیٔ صحافت اور صحافی ورکرز کے حقوق کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ۔میں نے ہر شخص سے اُن کے بارے میں تعریف ہی سنی ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ جنتی آدمی ہوں گے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد افسوس رہتا ہے کہ اُن سے طویل ملاقاتیں کیوں نہ ہوئیں۔یہی افسوس مجھے بھی ہے۔اللہ تعالٰی اُن کی مغفرت کرے۔ آمین

مقصود یوسفی

احفاظ الرحمان صاحب میرے لیے ایک بڑے محترم، سینئر،صحافی اور ایک بہت اچھے ٹریڈ یونینزتھے۔میں ان کے مقابلے میں صحافت میں بہت جونئیر ہوںلیکن میں نے انھیں نہایت ہمدرداور ایک شفیق انسان پایا۔ان کا رویہ اپنے جونئیرز کے ساتھ ہمیشہ مشفقانہ رہا۔جب کبھی کہیں بھی کسی جونئیرصحافی کو اُن سے مشورہ درکار ہوتا، وہ بہت پرخلوص انداز میں بہت محبت کے ساتھ اس کو مشورہ دیا کرتے تھے۔میں گو کہ نظریاتی طور پر ان سے متفق نہیں تھا اور صحافت کے جس کیمپ میں مَیں رہا،میرے سینئرز بھی اُن کے ساتھ متفق نہیں تھے۔ اس کے باوجود میرے اُن سے ذاتی تعلقات بہت اچھے تھے۔ہم پریس کلب کے انتخابات کی مہم کے دوران نکلا کرتے تھے اور ایک زمانے میں جب صحافی سوسائٹی،صحافی کالونی گلشن اقبال میں گھر گھر جایا کرتے تھے تواحفاظ صاحب کے گھر ضرور جاتے ۔احفاظ صاحب کا بڑا پن تھا کہ وہ ہمارے مخالف کیمپ میں ہونے کے باوجود اپنے گھر میںہمارے تمام لوگوں کی چائے سے ضیافت ضرور کرتے تھے اور چائے پلائے بغیر جانے نہیں دیتے تھے گو کہ انھیں پتا تھا کہ صبیح الدین غوثی کی قیادت میں آنے والا یہ وفداُن کے بنائے گئے پینل کے مقابلے میں الیکشن لڑے گا لیکن وہ ذاتی طور پر بڑے مہربان،بڑے اچھے اور مخلص انسان تھے۔وہ اُن صحافیوں کو پسند بھی کرتے تھے جو اصولی طور پر کسی دباؤ کے بغیر اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور ان کی یہی ایک شفقت تھی کہ جونئیرز کو آگے بڑھنے دیں ۔وہ ہمیشہ مددگار ثابت ہوئے۔انھیں کینسرکا عارضہ لاحق تھا اور انھوں نے بہت جواں مردی سے اس کا مقابلہ کیا۔روبہ صحت بھی تھے،اپنے فرائض بھی پابندی اور بڑی تن دہی سے ادا بھی کر رہے تھے ۔انھیں اپنیprofessional life پر بہت ملکہ حاصل تھا۔ان کے professional attitude کے بارے میں ،اُن کی قابلیت کے بارے میں کوئی کہیں بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ماشااللہ اپنے امور میں بالکل اپنی مثال آپ تھے۔اللہ تعالی انھیں غریقِ رحمت کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

اخلاق احمد

ؓٓٓبارہ اپریل کا دن اگر پاکستان میں صحافتی اقدار کی کچھ اہمیت ہوتی تو یہ دن صحافت کی اقلیم میں ماتم کا دن ہوتا۔کیونکہ یہ احفاظ الرحمن کے رخصت ہونے کا دن تھا۔میرے لیے اور میرے زمانے کے بہت سے صحافیوں کے لییے احفاظ بھائی۔صحافی، ادیب، شاعر، ٹریڈ یونین لیڈرتھے۔آج کل کے میڈیا میں صبح شام شور مچاتے، اپنے عشق میں اور چہرہ نمائی کے خبط میں مبتلا لوگ شاید جانتے بھی نہ ہوں کہ احفاظ الرحمن اور منہاج برنا اور نثار عثمانی کون تھے۔ جاننے کی ضرورت بھی بھلا کیا ہے۔ وہ زمانے گزر گئے جب صحافت کے وقار کی جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ صحافیوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے گرفتاریاں دی جاتی تھیں۔ کوڑے کھائے جاتے تھے۔ بھوک ہڑتالیں کی جاتی تھیں اور جیلیں کاٹی جاتی تھیں۔ اب تو دربار سے بلاوے کے اشارے کا امکان بھی نظر آئے تو لوگ ایک دوسرے کو روندتے، کچلتے، محل سرا کی جانب اندھا دھند بھاگتے نظر آتے ہیں۔احفاظ بھائی کینسر کے ساتھ ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد قوت گویائی کھو بیٹھے تھے مگر ان کے چہرے کی چمک، ان کی آنکھوں سے جھلکتا عزم وہی پہلے جیسا تھا۔ اسی عزم کے سہارے انہوں نے تحریکیں چلائیں، روپوشی کاٹی، قیدیں برداشت کیں، بے روزگاری سہی، لیکن ہمیشہ وہ کہا جو ان کے نزدیک سچ تھا،ہمیشہ اس راہ پر سفر کیا، جو دشوار تھی مگر اصولوں کی راہ کہلاتی تھی۔”احفاظ بھائی کی کتاب ”سب سے بڑی جنگ” میں پاکستانی صحافت کی سب سے بڑی اور ملک گیر تحریک کا احوال درج ہے جو 1977 میں شروع ہوئی تھی اور جس کے دوران سیکڑوں صحافیوں نے قید و بند کا، کوڑوں کا، ریاستی استبداد کا سامنا کیا تھا۔ احفاظ بھائی کے لئے نظریاتی سیاست بے حد اہم تھی۔ انہوں نے زندگی بھر روشن خیالی اور ترقی پسندی کے لئے جدوجہد کی تھی۔ احفاظ بھائی نے اپنی مرضی کی ایک ایسی زندگی گزاری جس کی آرزو تو سب کرتے ہیں لیکن جسے گزارنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہوتا۔ وہ اندر، باہر سے ایک ہی طرح کے آدمی تھے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔آمین

مظہرعباس

۔1978میں جب تحریک چل رہی تھی تو اس وقت ہم جامعہ کراچی میں شعبۂ صحافت کے طالبِ علم تھے۔اُس زمانے میں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ احفاظ الرحمان کون ہیں۔منہاج برنا صاحب اورنثارعثمانی صاحب کا نام سنا تھا۔تحریک کے بارے میں اخبارات میں ہم سنتے رہتے تھے۔شعبۂ صحافت کے زیر اہتمام جامعہ کراچی میں ہم اُن کی حمایت میں چھوٹا موٹا جلسہ کر لیتے تھے۔پھر جب 81میں مَیں آیا تو اُس وقت اُن کے ساتھ تحریک میں دریاں بچھانے کا ،بینرزلگانے کاموقع ملا۔میں نے دوستوں سے اُن کے بارے میں سن رکھا تھا کہ بہت سخت مزاج آدمی ہیں۔بات چیت میں گرم مزاج بھی آ جاتا ہے۔احفاظ صاحب کے ساتھ برسوں گزارتے ہوئے میں نے یہ چیز دیکھی بھی اور محسوس بھی کی لیکن اِن ساری چیزوں میں ایک چیز اُن میں پنہاں پائی کہ وہ بڑی strong commitmentکے آدمی تھے۔اُن کے اندرمیں نے لچک کم دیکھی۔وہ جب بات کرتے تھے اُس کے جواب میں اگر آپ ٹھوس دلائل نہ دیں تو بہت مشکل ہوتا تھا کہ انھیں convenienceکرسکیں ۔ احفاظ صاحب اپنے اصولوں پر آخری وقت تک کھڑے رہے ۔اُن کی کتاب’’سب سے بڑی جنگ‘‘نئے آنے والے صحافیوں کو ضرور پڑھنی چاہیے ۔ (جاری ہے)۔

حصہ