ام ایمان
پانچویں قسط
۔’’تاریخ کا طالب علم ہوتا بھی بے حد حساس ہے۔‘‘
زینب اور صفیہ بھی اپنی باتیں چھوڑ کر انہیں غور سے سن رہی تھیں۔
’’شیر دل بھائی! آپ اور کیا کرتے ہیں؟‘‘ زبیر نے معنی خیز انداز میں مسکرا کر پوچھا۔
’’زبیر بھائی! آپ ان کی مصروفیت کا حال مجھ سے پوچھیں۔ صبح دکان کھول کر ملازم لڑکے کے حوالے کرتے ہیں، پھر اسکول چلے جاتے ہیں اور باقی وقت میں مطالعے سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی اہم بات نہیں ہوتی۔‘‘
’’اچھا بھائی زبیر کچھ تم بھی اپنی سنائو۔ ابھی تک تو ہم اپنی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ شیر دل نے موضوع تبدیل کردیا۔
سب ہی زبیر کی طرف متوجہ ہوگئے۔ زبیر چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا ’’شیر دل بھائی! آپ تاریخ بتا رہے تھے لیکن میں آپ کو اُن لوگوں کے بارے میں بتائوں گا جو تاریخ بنا رہے ہیں۔‘‘
شیردل نے پہلو بدلا اور تکیہ سے ٹیک لگا کر ہمہ تن گوش ہوگیا۔
زبیر نے ایک گہری سانس لی اور بولا ’’انسان سمجھتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی اس کو طاقت بخشتی ہے، حالانکہ تعیش اور نعمتوں کی ریل پیل انسانی قوت کو اس طرح آہستہ آہستہ ختم کرڈالتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو۔ اس کے مقابلے میں زہد و فقر میں مست رہنے والے انسان بڑے سے بڑے حادثے کو ہنستے کھیلتے برداشت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
افغان قوم کی مثال ایسی ہی ہے۔ بے شمار مصیبتوں میں گھرے رہنے کے باوجود آنے والی اس سے بڑی مصیبت کی مزاحمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے برسوں سے دنیا نے ایسے صابر و قانع مجاہد نہ دیکھے ہوںگے۔ مجاہدین کے درمیان رہتے ہوئے مجھے کبھی سعیدؓ بن الصیب یاد آتے ہیں جن کی معذوری بھی انہیں جہاد سے نہ روک سکی۔ کبھی مقدادؓ بن الاسود، جن کا بھاری جسم انہیں میدانِ جہاد میں بوجھل نہ بنا سکا۔‘‘
’’زبیر ہمیں کسی مجاہد کا قصہ سنائو۔‘‘ شیر دل سراپا اشتیاق تھا۔
’’قدم قدم پر جہادِ افغانستان میں خدا کی مدد ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔ شیر دل! ایک دفعہ ہم دس مجاہدین کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔ رات زیادہ نہیں ہوئی تھی، روشنیاں چمک رہی تھیں، لیکن جب ہم دشمن کے کیمپ میں داخل ہوئے تو کسی نے ہم کو نہ دیکھا۔ ہم نے وہاں بہت سے روسی فوجیوں اور افسروں کو اپنا نشانہ بنایا اور اطمینان سے وہاں سے نکل آئے۔
اسی طرح ایک دفعہ ہمارے استاد امان اللہ دریائے کنڑ کے کنارے ایک گائوں ’’بشت‘‘ میں گئے۔ بشت میں روسی کثرت سے موجود رہتے ہیں، اس لیے اسے چھوٹا ماسکو کہا جاتا ہے۔ روسیوں نے امان اللہ کو پہچان کر اُن پر گولے برسانے شروع کردیے۔ اُس وقت وہ قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ اُن کے اردگرد گولے گرے لیکن انہیں کسی قسم کی گزند نہ پہنچی، اور غبار چھٹا تو قرآن پڑھتے ہوئے وہ وہاں سے صحیح سلامت نکل آئے۔‘‘
شیر دل حیرت اور اشتیاق سے زبیر کی باتیں سن رہا تھا۔ پھر اسے اپنے بڑے مجاہد بھانجوں کا خیال آیا۔ ’’زبیر! جمال اور کمال کیسے ہیں، انہیں تم کہاں چھوڑ آئے ہو؟‘‘
’’شیر دل! میں تمہارے بھانجوں کو اُن لوگوں میں چھوڑ آیا ہوں جو خدا کے پسندیدہ بندوں میں سے ہیں، جو انہیں زہد اور مشقت کی بھٹی میں پکاکر شیر ضیغم کی طرح بہادر بنا رہے ہیں۔‘‘
زبیر کا چہرہ جوش سے سرخ ہوگیا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر شیردل کو غور سے دیکھ کر بولا ’’مجھے بھی جلد واپس جانا ہے۔ میدانِ جہاد میں میرے حصے کا بہت کام ابھی باقی ہے۔ زینب اور بچوں کی فکر رہتی تھی، لہٰذا میں زینب اور بچوں کو آپ کے پاس کچھ عرصے کے لیے چھوڑ کر جارہا ہوں، ورنہ وہاں ہفتہ پندرہ دن میں ان کی طرف چکر لگانا ضروری ہوتا تھا۔ یہ آپ کے رہیں گے تو میں میدانِ جہاد میں زیادہ عرصہ اطمینان کے ساتھ رہ سکوں گا۔‘‘
شیردل نے چونک کر سر اٹھایا ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن زبیر یہ جگہ بھی اس قدر محفوظ نہیں رہی۔ میں تو خود چاہ رہا تھا کہ صفیہ اور بچوں کو پاکستان چھوڑ آئوں، پھر تمہارے تو رشتے دار بھی وہاں ہیں، یہ لوگ وہاں زیادہ محفوظ رہیں گے۔‘‘
…٭…
شیردل کی بات سے زبیر کو برسوں پہلے پاکستان میں اپنے خاندان میں گزارے ہوئے دن یاد آگئے۔ بچپن سے جوانی تک کوئی یاد بھی حسین نہ تھی۔ اس نے ماں جی اور بابا سے ہمیشہ جھڑکیاں کھائیں۔ اس سے بڑے تین بھائی اور دو بہنیں جنہیں اُس نے ہمیشہ اپنے اوپر حکم چلاتے ہی دیکھا تھا۔ پہلے تو وہ بہت شکایت کرتا تھا ماں جی سے کہ سب کے کپڑے اگر بنتے ہیں تو اس کا نیا جوڑا کیوں نہیں بنایا جاتا؟ بھائیوں کی اترن ہی اس کے حصے میں کیوں آتی ہے؟ اور ماں جی سختی سے ڈانٹتیں کہ ’’کیا یہ کپڑے پھینک دیے جائیں؟‘‘ زبیر نے ذرا ہوش سنبھالا تو اُسے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ وہ ان سے کچھ الگ ہے۔ بہت عرصہ وہ اپنے آپ کو ان کا سوتیلا بھائی سمجھتا رہا۔ وہ تو ایک دن جب بابا سے اس نے اسکول میں داخلے کے لیے بہت ضد کی تو انہوں نے اس کی حقیقت کھول ہی دی:
’’کیا تُو میرے بچوں کی برابری کرے گا! تجھے معلوم بھی ہے تُو کون ہے چھوٹی ذات کا؟ ارے کھلا پلا کر اتنا بڑا کردیا، کیا یہ کم ہے؟ خبردار آئندہ اسکول کا نام لیا۔‘‘
معصوم زبیر کی پھٹی پھٹی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ نہ گرا کہ خوف اور دہشت کے ساتھ ساتھ دکھ کا خنجر دل کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔ ’’اچھا! میں بابا کا کچھ نہیں، شاید ماں جی کا ہوں۔ شاید بابا میرے سوتیلے باپ ہوں۔‘‘
اس کو ماں جی سے کچھ پوچھتے بھی ڈر لگ رہا تھا۔ امید کا دھاگا بہت کمزور محسوس ہورہا تھا۔ لیکن ایک دن گھر کے کاموں سے فراغت کے بعد جب وہ ماں جی کی ٹانگیں دبانے بیٹھا تو ماں جی سے پوچھ ہی بیٹھا: ’’ماں جی! بابا کہہ رہے تھے کہ میں اُن کا بیٹا نہیں ہوں؟‘‘
ماں جی نے آہستہ سے ’’ہوں‘‘ کہا۔ ’’ہوں‘‘ کی یہ آواز زبیر کو برف کی طرف سرد اور نیزے کی اَنی کی طرح نوکیلی محسوس ہوئی۔ ’’تو ماں جی! کیا میں آپ کا بھی کچھ نہیں ہوں؟‘‘
ماں جی نے آنکھوں پر پڑا بازو ہٹایا اور اس کی جانب کروٹ لی ’’تجھے کیسا لگتا ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ (جاری ہے)۔