رمضان کی خاص تیاریاں کیسے اور کیا ہونی چاہئیں

1330

مریم شہزاد
ہر سال جب رمضان المبارک کی آمد آمد ہوتی تھی تو ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس کی تیاریاں شروع کردیتا تھا۔ مرد حضرات اپنے کاروبار کی طرف توجہ زیادہ کردیتے، تو خواتین سحر وافطار سے لے کر بچوں، بڑوںکے رمضان المبارک کے ملبوسات اور ساتھ ہی عید کی شاپنگ کے بارے میں بھی سوچنے لگ جاتی تھیں۔ سحری میں کیا بنے گا، افطاریوں کے لیے کیا سامان منگوانا ہے، کیا کیا چیزیں فریز کرکے رکھ لینی ہیں، کس کے کتنے جوڑے بنانے ہیں، عید پر کس کی جوتی زیادہ ضروری ہے، کس کو زیادہ کپڑوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تراویح کے لیے کس طرح کا انتظام کرنا ہوگا ، اور نہ جانے کتنی ہی پلاننگ اور کام روزمرہ کے معمولات کے ساتھ ساتھ دماغی طور پر بھی چلتے رہتے۔
جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تب تک ایک دو روزے گزر چکے ہوں گے۔ خواتین کی فکریں روزانہ کے حساب سے تبدیل ہورہی ہیں۔ اب رمضان کی تیاری نہیں بلکہ ’روزے کیسے گزریں گے‘ کا حساب کتاب دماغوں میں چل رہا ہے، کیونکہ اب کورونا کی وجہ سے جہاں گھریلو بجٹ آؤٹ ہورہا ہے وہیں ذہن میں یہ بھی چل رہا ہے کہ ایسا کیا کریں کہ گھر والوں کو صحت مند اور توانائی سے بھرپور سحری بھی کرائی جاسکے اور افطاری بھی، اور گھر کے کسی فرد کو روزہ رکھنا بھاری بھی نہ لگے، ساتھ ہی ساتھ اڑوس پڑوس اور مستحقین کو بھی روزہ افطار کرایا جا سکے۔
اس سلسلے میں کچھ خواتین سے بات چیت کی اور اُن کی رائے لی۔ آپ ان کے خیالات پڑھیں اور اس سے استفادہ کریں کہ ہم بھی کیا کرسکتے ہیں۔
ناظورہ صباء خالد ایک رسالے کی مدیر ہیں،کہتی ہیں: رمضان المبارک کے حوالے سے ہمیں اصولاً اور شرعاً تیاری رجب المرجب سے شروع کرنی چاہیے، جس کی صورت کچھ ایسی ہونی چاہیے کہ ہم دعاؤں کی طرف متوجہ ہوں، سب سے پہلے تو مسنون دعا کی کثرت کریں ’’اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان…‘‘
اس کے بعد اگر آپ دین کی تعلیم سے سیراب ہوچکے ہیں تو جس درجے میں بھی تعلیم وتعلم کا اہتمام کرسکتے ہیں، کریں۔ چاہے مدرسہ ہویا گھر، آپ وہاں تعلیم کا انتظام کریں۔ نماز، روزہ، تراویح اور قرآن پاک کے احکام ومسائل بیان کریں۔ اگر آپ دینی تعلیم پر عبور نہیں رکھتے تو یہ تمام دینی مسائل سیکھیں۔ اس کے علاوہ سحر و افطار کے لیے دسترخوان بڑھائیں ضرور، لیکن وقت کے ضیاع سے بچیں۔ باورچی خانے کو وقت کم دیں، عبادات کے لیے وقت زیادہ لگائیں۔ اللہ پاک ہم سب کو علم کی توفیق عطا فرمائے۔
ریما نور رضوان گھریلو خاتون ہیں، یہ شاعری بھی کرتی ہیں اور افسانے بھی لکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے تو ہم رمضان المبارک میں گھر کی تفصیلی صفائی ستھرائی کرتے تھے تاکہ ماہِ مبارک میں کام کا لوڈ کم ہو اور عبادت زیادہ سے زیادہ کرسکیں۔ مگر اِس سال تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ کب اور کون سا دن ہے۔ اب رمضان المبارک تقریباً شروع ہی ہوگیا ہے تو روز کا کام روز ہی ہوگا۔ بچت کے حوالے سے کہتی ہیں کہ اللہ پاک سب خرچے پورے کرانے والا ہے۔ ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ بلا ضرورت خرچ نہ کیا جائے بلکہ کسی مستحق کی مدد کردی جائے۔ تو ان شاء اللہ اِس سال بھی اللہ تعالیٰ ہی مدد فرمائیں گے۔
عالیہ زاہد نے پاکستان اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا ہے، پوزیشن ہولڈر ہیں اور اب نیشنل یونیورسٹی’’فاسٹ‘‘ میں لیکچرار ہیں۔ مہنگائی سے بہت نالاں ہیں، کہتی ہیں کہ تبدیلی کے اس ناقص دور میں مہنگائی نے کمر توڑدی ہے، اور دوسرا یہ لاک ڈاؤن… بس اتنا ہی کہوں گی کہ پہلے تو ذہن میں رمضان المبارک میں بچت کے حوالے سے بہت سی چیزیں آتی تھیں، مگر دین کی سمجھ آنے کے بعد سے خود کو بھی اور بچوں کو بھی سمجھاتے ہیں کہ سارا سال تو کھانا پینا چلتا ہی رہتا ہے، اس لیے رمضان المبارک کو غریبوں کا درد محسوس کرکے گزارنا چاہیے۔ اپنا بچپن یاد آتا ہے کہ افطاری میں کتنی چیزیں ہوتی تھیں، مگر اب فروٹ چاٹ میں فروٹ کم،کبھی سموسے تو کبھی سینڈوچ، بس تعداد کم کرکے معیار پر زور ہے۔ کسی چیز کا زیادہ فائدہ پتا چل جائے تو اسی کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔
وزیہ ظفر نے اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے، چکوال سے ان کا تعلق ہے، مصنفہ بھی ہیں۔ رمضان المبارک میں عبادت کا خاص اہتمام کرتی ہیں اور ایک شیڈول بناتی ہیں کہ کتنے قرآن پاک پڑھنے ہیں، کیا تسبیحات پڑھنی ہیں اور اِس سال تو اور زیادہ عبادات پر زور ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ رہا بچت کا سوال، تو کہتی ہیں: بچت تو سارا سال کرسکتے ہیں، رمضان میں دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے خود پر، بھائی بہنوں پر، عزیز و اقارب پر، بلکہ چرند پرند کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ غریبوں، مسکینوں اور آس پاس سب کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
رافعہ جبین نے ہوم اکنامکس میں بی ایس سی کیا ہے، کہتی ہیں کہ رمضان تو عبادات اور دعاؤں کا مہینہ ہے اور اِس سال تو دعاؤں کی زیادہ ضرورت ہے، اس کے لیے دنیاوی تیاری کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ جیسے عام دنوں میں کھانا پکتا ہے، تقریباً اسی طرح رمضان المبارک کا بھی شیڈول ہوتا ہے۔ بس افطاری کے لیے کوئی ایک چیز اضافی بنا لیتی ہوں جس سے بچت بھی ہوجاتی ہے۔
عدیلہ خاتونِ خانہ نے بالکل الگ بات کی کہ ان کے ہاں زیادہ تر ’’جَو‘‘ کا سالن بنتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ ڈش تلبینہ بناتی ہیں جو بہت طاقتور ہوتا ہے اور ساتھ ہی کس بھی فروٹ کا ملک شیک۔ رمضان سے پہلے ہی کوشش کی ہے کہ ضرورت مند لوگوں کو راشن دلوا دیں تاکہ ان کا رمضان بھی اچھا گزرے۔
فرح دیبا کہتی ہیں: اِس سال بھی ہر سال کی طرح پہلے ہی دعائیں اور سورتیں یاد کرلی ہیں، اس کے علاوہ سحر وافطار کا انتظام کرتی ہوں، کوئی چیز ذہن پر سوار نہیں کرتی کہ عبادات میں خلل ہو۔ اِس سال پیارے اللہ پاک کو راضی کرنا ہے تو اور خشوع وخضوع سے اس اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔
قارئین کرام! بے شک رمضان المبارک عبادات کا، استغفار کا مہینہ ہے، اور اس میں ہمارا مقصد اللہ پاک کی رحمتیں سمیٹنا ہونا چاہیے، اور دل کھول کر غریبوں کی امداد کرنی چاہیے۔ تمام دنیا کے انسانوں خصوصاً مسلمانوں کے لیے بہت بہت دعائیں کریں، اپنے رب سے معافی مانگیں۔ صرف اور صرف زبان کی لذت بڑھانے کے لیے نت نئی افطاریاں بنانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ رمضان اور عید کی تیاریاں بے شک کریں مگر ایسا نہ ہو کہ ’’سامان سو برس کا ہے اور پل کی خبر نہیں‘‘۔ اس لیے خیر مانگیے اور خیر سمیٹیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کہنے سے زیادہ عمل کرنے والا بنائے،آمین ۔

حصہ