مریم شہزاد
۔’’کیا ہوا آج بھی نوکری نہیں ملی؟‘‘ فارعہ نے عاشر کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاتا تھکے تھکے انداز میں باہر رکھے تخت پر بیٹھ کر گیا اور جوتے اتارنے لگا۔ مایوسی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
فارعہ نے تسلی دینے کی کوشش کی مگر کچھ سوچ کر چپ ہو گئی اور بات بدل کر بولی ’’چلو تم کپڑے بدل لو پھر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
فارعہ اور اشعر دونوں بھائی بہن تھے۔ فارعہ نے بی کام کرکے گھر کے کاموں کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا تھا اور عاشر ڈبل ایم اے کرکے اب نوکری کی تلاش میں جوتیاں چٹخارہا تھا۔ یوں تو یہ کہانی گھر گھر کی ہے مگریہ کہانی کچھ اور کہنا چاہ رہی ہے آگے چلتے ہیں۔
آج بھی انٹرویو کے بعد اُسے آس اور امید تھی‘ مگر ساتھ ہی یہ خدشہ بھی تھا کہ اسے یہ نوکری بھی نہیں ملے گی۔ وہ کپڑے بدل کر آیا تو امی اور فارعہ کھانے پر اس کا انتظار کر رہی تھیں۔ کھانا کھاتے ہوئے امی نے عاشر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’ایک بات کہوں…‘‘
’’یہ کیا بات کی امی آپ نے؟ آپ کو مجھ سے بات کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت ہے کیا؟ عاشر نے کہا۔
’’تم ابھی تھکے ہوئے آئے ہو اور بات تمہاری نوکری سے متعلق ہے اس لیے تم پریشان نہ ہو جاؤ۔‘‘
’’نہیں امی! آپ کوئی غلط تو نہیں سوچیں گی، ظاہر ہے آپ بھی پریشان ہیں، آپ کہیئے میں سن رہا ہوں۔‘‘
’’کل ایک کتاب میں ایک واقعہ پڑھا جس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ہمارے پیارے نبیؐ نے نوکری کے بجائے کاروبار کو پسند فرمایا ہے، تو تم کسی کاروبار کے لیے کیوں نہیں سوچتے؟‘‘
’’ کاروبار کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا؟‘‘ عاشر نے پوچھا۔ ’’اور پھر اتنی تعلیم کا کیا فائدہ؟‘‘
’’اصل میں ہم نے تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا سمجھ لیا ہے، ابھی تمہاری تعلیم کے لیے بھی تو ہم تم مل کر پیسے نکال رہے تھے نا، اگر تم اور تمہارے دو تین دوست مل کر چاہیں تو کم سرمائے سے بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔‘‘
’‘ اس کا مطلب ہے کہ یقینا آپ نے کوئی نہ کوئی کام بھی سوچ رکھے ہوں گے… ہیں ناں؟‘‘ عاشر نے کہا کہ وہ جانتا تھا کہ امی نے ضرور مکمل سوچ سمجھ کر اور تیاری سے بات کی ہوگی۔ اس کی اس بات پر امی بے اختیار مسکرا دیں۔
’’سوچا تو ہے… آج کل غور کرو تو کھانے پینے کی زیادہ تر دکانیں کھل رہی ہیں ہر طرف چائے پراٹھا،پیزا، برگر، فرائز بریانی یا پھر گلی گلی ٹیوشن سینٹر۔‘‘
’’یہ آن لائن بھی تو کام ہو رہے ہیں۔‘‘ فارعہ درمیان میں بولی۔
’’اب اتنے سارے آپشن موجود ہیں‘ ان میں سے سوچنا تمہارا کام ہے۔‘‘
’’بات تو سمجھ آرہی ہے۔‘‘ عاشر نے کہا اور پھر رات بھر سوچنے کے بعد اپنے دو دوستوں کو ساتھ ملا کر ’’کافی شافی‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی دکان کھول لی جس میں نئے طریقے کی اور چیزیں بھی متعارف کرائیں ۔
اگر ہماری نوجوان نسل تعلیم کو صرف نوکری کا حصول نہ سمجھے بلکہ تعلیم کو اپنے کاروبار کو ترقی دینے اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھانے پر زور دے تو یقینا بہت آگے جا سکتا ہے۔ چاہے ان کے والد درزی ہوں تو وہ ٹیلر شاپ، جنرل اسٹور کو سپر اسٹور، حجام کو ہئیر ڈریسر، کھلونوں کی دکان کو ٹوائے شاپ بناسکتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے والدین کے تجربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے کاروبار کو جدید خطوط پر آراستہ کریں اس میں ان کی بھی ترقی ہے اور ملک کی بھی۔