مریم صدیقی
ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی عموماً استقبال رمضان کے کلمات سن کر جو ذہن میں ایک خاکہ تیار ہوتا ہے وہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہوتا ہے۔ خواتین کی بات کریں تو نت نئی ریسیپیز اور مختلف پکوان بنانے کے حوالے سے تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں۔ کیا معاشرے میں رائج استقبال رمضان کا یہ طریقہ درست ہے؟ کیا رمضان کا استقبال ایسا ہی ہونا چاہیے؟ کیا یہ ماہِ رحمت اسی لیے آتا ہے کہ اسے بازاروں میں شاپنگ کرتے اور انواع و اقسام کے کھانے پکاکر گزارا جائے۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو اس ماہ کو پائے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو راضی کرلے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورے سال اس ماہ کا انتظار فرماتے۔ آپؐ رجب کے مہینے سے اپنی دعاؤں میں اس کا اضافہ فرماتے کہ ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان کے مہینے تک ہمیں پہنچا۔‘‘ (مسند احمد:2257) ۔
آپؐ یہ دُعا بھی فرماتے تھے ’’اے اللہ! مجھے رمضان کے لیے اور رمضان کو میرے لیے صحیح سالم رکھیے اور رمضان کو میرے لیے سلامتی کے ساتھ قبولیت کا ذریعہ بنادیجیے۔‘‘ (الدعاء الطبرانی، حدیث نمبر:839) ۔
ماہ صیام کا استقبال نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمایا کرتے‘ بلکہ اپنے اہل و عیال اور صحابہ کرام ؓ کو بھی تلقین فرماتے۔ رمضان اسلامی سن ہجری کا نواں مہینہ ہے۔ اس کو ’’سید الشہور‘‘ یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ یہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے۔ اسی مہینہ قرآن کریم کا نزول ہوا۔ اور روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جس کا ذکر رب تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ’’رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں، تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اتنے روزے اور دنوں میں۔ اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو‘‘۔ (سورۃ البقرہ، آیت (185 رمضان المبارک وہ تحفہ الٰہی ہے جو اس نے اُمتِ محمدیہ کو عطا کرکے ان پر احسان عظیم کیا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہر نیکی اور عبادت کا ثواب بڑھا کر ستر گنا کردیا جاتا ہے۔
ماہ رمضان جس کی ہرساعت میں اللہ کریم نہ جانے کتنے گناہ گاروںکو جہنم سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ روزہ اللہ کی پسندیدہ ترین باطنی عبادت ہے کیوں کہ انسان صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے ہی حلال اور طیب اشیا سے خود کو روکے رکھتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہارا رب فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہے اور روزہ کی عبادت تو خاص طورپر میرے لیے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (ترمذی۔ ابواب الصوم)
لیکن ہم اس سنہر ی موقع کو بھی غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں تو بھی برائے نام، وقت گزاری کے لیے فلموں‘ ڈراموں اور گانے باجوں سے دل بہلاتے ہیں۔ گویا روزے میں فقط کھانے پینے سے رکنا مقصود ہو۔ روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول اور تزکیہ نفس ہے لیکن جب یہ روزہ لعو و لعب میں گزرے گا تو اس کا مقصد کیوں کر حاصل ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اس کا بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو حاجت نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، جلد:2، ص: (279 معلوم ہوا کہ روزہ صرف فاقہ کرنے کا نام نہیں بلکہ تمام اعمالِ بد سے رکنے کا نام ہے۔ یہ تیس ایا م کے روزے انسان کو پورے سال صبر اور تحمل سے رہنے کا درس دیتے ہیں۔ لغو اور بری عادات سے چھٹکارا دلانے میں معاونت کرتے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو بندہ خدا کی راہ میں ایک دن روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے سے آگ دور کردیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم و ابن ماجہ) روزہ اس کے تمام آداب کے ساتھ رکھا جائے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہمارے گمان سے بھی کہیں زیادہ عطا فرمائے گا۔
زکوٰۃ یوں تو سارا سال ادا کی جاسکتی ہے لیکن چوں کہ رمضان المبارک میں ہر نیکی کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے تو عموماً لوگ اس ماہ میں ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ کوشش کریں کہ اپنی زکوٰۃ رمضان کے پہلے عشرے میں ہی ادا کردیں تاکہ مستحقین اپنے رمضان اور عید کا اہتمام مناسب انداز سے کرسکیں۔ ہم نہیں جانتے کہ اگلے سال جب ماہ رمضان آئے گا تو ہم اس کی رحمتیں اوربرکتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کے لیے موجود ہوں گے بھی کہ نہیں۔ اس لیے ہمیںجو موقع میسر ہے اسے غفلت کی نذر نہ کرتے ہوئے عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے، غریب اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔ حسب توفیق صدقات کرکے رضائے الٰہی حاصل کرنے کی تگ و دو کرنی چاہیے۔
اس ماہ مبارک میں رب تعالیٰ کے حضور خصوصی دعا کیجیے کہ وہ ہمیں اس عالمی وبا سے نجات عطا فرمائے۔ یہ وبا جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے اپنوں کو نگل رہی ہے اور عالم تو یہ ہے کہ ہم کوئی دلاسہ کوئی تسلی کے دو حروف ان کو نہیں دے سکتے۔ یہ وبا ہے جو نہ امیر غریب دیکھ رہی ہے نہ بچہ بوڑھا۔ ہمیں اس کے شر و آفت سے فقط خدائے پروردگار کی رحمت محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس ماہ مبارک میں اپنے رب کو منالیجیے، گڑگڑا کر، ہاتھ اٹھا کر، سجدے میں گر کر، رو رو کر اس کی رضا طلب کرنی چاہیے تاکہ وہ ہمارے اعمال کے سبب آنے والی اس آزمائش کو ہم سے دور فرمادے۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو‘ آمین۔