تصور اقامت دین پر اعتراض

1456

سید سعادت اللہ حسینی
مرتب: اعظم طارق کوہستانی
اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ اقامت دین کے تصورات پر جو تنقیدیں بعض مسلم دانشوروں کی جانب سے ہوئی ہیں ، اْن کا جائزہ لیا جائے۔ یہ تنقیدیں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں ہیں کہ سیاست او ر اجتماعی معاملات میں اسلام بھی کوئی رہنمائی کرتا ہے یا کرتا بھی ہے تو آج کے زمانہ میں اس کی پیروی لاز م ہے۔ عصر حاضر کے سیکولر افکار سے متاثر یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ اسلام سمیت تمام مذاہب کا دائرہ، افراد کی ذاتی زندگیوں تک محدود ہے۔ اجتماعی معاملات میں مذہب کی دخل اندازی فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے اور یہ مذہب کا دائرہ کا ر بھی نہیں ہے۔ اسلام کے وہ احکام جن کا تعلق ریاست کے انتظام اور پالیسی سے یا قانون سازی سے ہے، وہ ایک مخصوص دور کی ضرورتوں کے لیے تھے۔ آج اْن تعلیمات سے روشنی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اْن کی ہو بہو پیروی نا تو ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ اس مقالہ میں ہم اس اعتراض کو زیر بحث نہیں لائیں گے، یہ اعتراض علیحدہ سے تفصیلی تجزیہ چاہتا ہے۔ اس مکتب فکر کا ذکر میں نے اس لیے کردیا کہ آگے کے مباحث میں اس کا حوالہ آئے گا۔
آج ہمارے پیش نظر مسلمان اہل علم کا وہ طبقہ ہے جو اسلام کی جامعیت اور اجتماعی زندگی سے متعلق اس کی تعلیمات کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ لوگ مانتے ہیں کہ اسلام نے ریاست کا تصور بھی دیا ہے، ریاست کے لیے قوانین بھی تجویز کیے ہیں ، اور یہ احکام، اسلام اور اسلامی شریعت کا جز ہیں لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ ان احکام کا تعلق عام مسلمانوں سے نہیں ہے۔ اس کے مخاطب حکمران ہیں۔ اگرکسی کو حکومت او ر اختیار مل جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قانون سازی اور ریاست کے نظم و انصرام میں اللہ کے احکام کی تعمیل کرے لیکن عام مسلمان، جنہیں حکومت یا اقتدار حاصل نہیں ہے، وہ نہ ان احکام کے مخاطب ہیں اور نہ وہ اس کے مکلف ہیں کہ ان احکام شریعت کی تنفیذ کے لیے کوئی اجتماعی جدوجہد کریں۔ ان کافریضہ بس ذاتی زندگیوں میں اور سماج کے جن امور پر انہیں اختیار حاصل ہے، ان میں خدا کے احکام کی تعمیل تک محدود ہے۔ آج کے اجلاس کے داعیوں نے مجھ سے سناپسس میں خاص طور پر مولانا وحید الدین خان اور جناب جاوید احمد غامدی کے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لیے کہا ہے۔ ان دونوں حضرات کے نقطہ نظر کا خلاصہ، میری سمجھ کے مطابق، یہی ہے۔
اقامت دین کیا ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم اس نقطہ نظر کا جائزہ لیں ، اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اختصار کے ساتھ اقامت دین کے بارے میں تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا جائے۔ جماعت اسلامی ہند کے دستور کی دفعہ ۴میں جماعت کا نصب العین اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کا نصب العین اقامت دین ہے، جس کا حقیقی محرک صرف رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے۔
اس نصب العین کی تشریح اس دفعہ میں اس طرح کی گئی ہے:
’’اقامتِ دین میں لفظ دین سے مراد وہ دینِ حق ہے جسے اللہ رب العالمین اپنے تمام انبیا کے ذریعے مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں میں بھیجتا رہا ہے اور جسے آخری اور مکمل صورت میں تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نازل فرمایا، اور جو اَب دنیا میں ایک ہی مستند، محفوظ اور عنداللہ مقبول دین ہے اور جس کا نام ’اسلام‘ ہے۔ یہ دین انسان کے ظاہر و باطن اور اْس کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی گوشوں کو محیط ہے۔ عقائد، عبادات اور اخلاق سے لے کر معیشت، معاشرت اور سیاست تک انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے، جو اس دائرے سے خارج ہو۔ یہ دین جس طرح رضائے الٰہی اور فلاحِ آخرت کا ضامن ہے اسی طرح دنیوی مسائل کے موزوں حل کے لیے بہترین نظامِ زندگی بھی ہے، اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی صالح اور ترقی پذیر تعمیر صرف اسی کے قیام سے ممکن ہے۔ اس دین کی اقامت کا مطلب یہ ہے کہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس پورے دین کی مخلصانہ پیروی کی جائے اور ہر طرف سے یکسو ہوکر کی جائے۔ اور انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں میں اسے اس طرح جاری و نافذ کیا جائے کہ فرد کا اِرتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل سب کچھ اسی دین کے مطابق ہو‘‘۔
دستورِجماعت کی دفعہ پانچ اس نصب العین کے حصول کے لیے اختیار کیے جانے والے طریقہ کار سے بحث کرتی ہے۔ اس کے درج ذیل جملے قابل توجہ ہیں:
’’جماعت اپنے تمام کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی اور کبھی ایسے ذرائع یا طریقے استعمال نہ کرے گی، جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہو۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پر امن طریقے اختیار کرے گی۔ یعنی وہ تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی۔ ‘‘
ان دفعات میں خاص طور پر درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:
۱۔ اقامت دین کا مطلب صرف ریاست کی سطح پر اسلامی احکام کانفاذ نہیں ہے بلکہ پوری زندگی میں اسلام کی پیروی ہے۔ اس میں ریاست بھی شامل ہے اور اس کے ساتھ افراد کا اللہ سے تعلق، ان کے جذبات و داعیات، ان کی عبادات، ان کے اخلاق اور سماج سے متعلق تمام امور و معاملات بھی شامل ہیں۔
۲۔ دین کا قیام یا زندگی کے تمام گوشوں میں اسے جاری و نافذ کرنے کا کام زور زبردستی کے ذریعہ انجام نہیں پائے گا بلکہ لوگوں کی ذہن سازی یا رائے عامہ کی تربیت کے ذریعہ انجام پائے گا۔
یہ باتیں جماعت کے دستور سے بھی واضح ہیں اور مولانا مودودی کے افکار میں بھی بڑی وضاحت کے ساتھ ان باتوں کی تکرار ملتی ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں درج ذیل قسم کی باتیں ہم کو کثرت سے ملتی ہیں :
حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیرو اقع نہ ہو، کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ عمر ابن عبدالعزیز جیسا فرما نروا جس کی پشت پر تابعین و تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لیے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دین داری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کرسکے۔ یہ اس وقت کاحال ہے جب ایک شخص کی طاقت بہت کچھ کر سکتی تھی۔۔ اسلامی انقلاب بھی صر ف اسی صورت میں برپا ہوسکتا ہے جب کہ ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذ ہنی، اخلاقی، نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت ور جدو جہد سے بدل ڈالے۔
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔
کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے… لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماوں ) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں ، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی۔
’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحہ کے ذریعے سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلد بازی ہی کی ایک صورت ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے سے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے۔ اخلاق سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب بھی پیش آئیں اْن کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پائیدار اور مستحکم ہوگا، جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما بھی ہوجائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اْسی راستے سے وہ مٹایا بھی جاسکے گا۔ ‘‘
یہ اقتباسات ہم نے اس لیے نقل کیے تاکہ بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ واضح رہے کہ تحریک اسلامی اور مولانا مودودی کے نزدیک اقامت دین کا مطلب اور اس منزل تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اقامت دین صرف حکومت کی تشکیل یا تبدیلی کا نام نہیں ہے۔ یہ افراد او ر سماج کی ہمہ گیر اصلاح کا نام ہے۔ ریاست کی تشکیل کا ہدف بھی یقیناً اس میں شامل ہے لیکن اقامت دین کا تصور صرف ریاست کی اصلاح تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ اقامت دین کا اصل ہدف ہے۔ اقامت دین کا جو تصور ان عبارتوں سے واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت لوگوں کے سامنے پیش کی جائے گی۔ لوگ اس کے قائل ہوں گے، اور ان کے ذہن، اخلاق اور رویئے اس دین سے ہم آہنگ ہوں گے تو اس کے نتیجہ میں مثالی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے راہ ہموار ہوگی اور رائے عامہ کی تربیت کے نتیجہ میں ریاست بھی اسلامی رنگ اختیار کرے گی۔ اقامت دین کا ہدف جب بھی حاصل ہوگا، دعوت دین اور پر امن طریقہ سے رائے عامہ کی تربیت کا نتیجہ ہوگا۔
(جاری ہے)

تعارف کتاب :۔خلافت وملوکیت

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک تاریخ ساز انسان کی حیثیت سے معروف و متعارف ہیں۔ اُنھوں نے مسلمانوں کے فکر و عمل کو اسلام کے تقاضوں کے مطابق صحیح سمت عطا کی ہے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدوجہد کے نئے رخ متعین کیے ہیں۔ مولانا کی دعوت انقلابی، ان کا پیغام حیات آفریں اور ان کا کام ہمہ گیر ہے۔ فکر و نظر کا کوئی گوشہ ، سعی و عمل کی کوئی جولان گاہ ایسی نہیں جو مولانا کے افکار و نظریات سے متاثر نہ ہو۔ وہ چونکہ ایک ہمہ گیر انقلاب کے داعی ہیں اِس کے لیے اُنھوں نے پوری زندگی کو خدا پرستی کی بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست بھی چونکہ دین کا ہی ایک حصہ ہے، اس لیے مولانا نے سیاسی اور دستوری مسائل پر بھی بڑی بڑی شرح و بسط کے ساتھ فکر انگیز بحث کی ہے اور اسلامی نظامِ حیات کے حقیقی خدوخال کو بڑے عمدہ انداز میں نمایاں کیا ہے۔
سیاست حیاتِ انسانی کا ایک نہایت اہم شعبہ ہونے کی حیثیت سے ہر دور میں انسانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ مگر دورِ جدید میں زمان و مکان کے سمٹ جانے کی وجہ سے ہئیت حاکمہ کی قوت میں چونکہ غیر معمولی اضافہ ہوا، اس لیے نظم اجتماعی میں سیاست کی حیثیت بہت بڑھ گئی ہے اور دور جدید کا کوئی شخص، خواہ اس کا تعلق کسی شعبۂ زندگی سے ہو اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ مولانا نے اس موضوع کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر زیر نظر کتاب تحریر فرمائی ہے۔ جس میں اسلامی نظام حکومت جسے دینی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ہے کہ اہم گوشوں کو بڑی خوبی کے ساتھ نمایاں کرتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ نظام ملوکیت سے کس طرح اور کس لحاظ سے ممیز و ممتاز ہے۔
٭…٭
www.syedmaududi.info

حصہ