یمن کے صحت کیمپ سے ایک خط

347

منال ابو قائد
( یمنی خاتون صحافی)
۔’’جب سے ہیضے کی وبا یمن میں پھیلی ہے، تقریباً ڈیڑھ ملین لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں میری ماں بھی شامل تھیں۔
اپریل 2018ء کی بات ہے، میں ایک چھوٹی سی کرسی پر بستر نمبر 7 کے سرہانے بیٹھی تھی جو کہ حدیدہ شہر میں موجود اسپتال کا ایک بھرا ہوا ہیضہ وارڈ تھا۔ حدیدہ شہر یمن میں موجود ایک پورٹ شہر ہے۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میں ایک بھیانک خواب دیکھ رہی ہوں، یا پھر یہ سب ایک ڈرائونی فلم کا سین ہے۔ میں اپنی کمزور ماں کو بستر میں یوں بے خبر پڑا ہوا دیکھ کر اپنے دل میں بے پناہ درد محسوس کررہی تھی۔ ان کو ہیضہ ہوگیا تھا۔ اتنے میں برابر والے بستر میں موجود ایک مریضہ نے کروٹ بدلی اور میں نے دیکھا کہ بستر کے بیچ میں ایک سوراخ ہے۔ پہلے تو میں سمجھی کہ بستر ٹوٹا ہوا ہے، مگر پھر مجھ پر انکشاف ہوا کہ وارڈ میں موجود ہر بستر اسی طرح کا ہے، اور ہر سوراخ کے نیچے ایک بالٹی رکھ دی گئی تھی جو کہ وقتاً فوقتاً وارڈ کا اسٹاف خالی اور صاف کرکے رکھ جایا کرتا تھا۔
اب سوچتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر چیز بہت جلدی میں ہوئی۔ ایک شام میں یمن کے شہر صنعا میں بیٹھی ہوئی تھی کہ میری امی کی کال آئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا پیٹ شدید خراب ہوگیا ہے اور دوائی سے بھی طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اس کی اگلی صبح میرے بھائی کی کال آئی کہ امی کی طبیعت خاصی خراب ہوگئی ہے رات بھر میں، اور میں ان کو ایک پرائیویٹ اسپتال لے جارہا ہوں۔ جب اسپتال والوں کو اندازہ ہوا کہ امی کو ہیضہ ہوگیا ہے تو انہوں نے اسپتال میں داخل کرنے سے صاف انکار کردیا اور بھائی کو اُس میڈیکل اسپتال میں جانے کا مشورہ دیا جو کہ پورے ملک میں ایک ہی ہے جو ہیضے کا علاج کرتا ہے، اور اس کی طبی سہولیات وہاں موجود تھیں۔ یہ اسپتال التھاورا اسپتال ہے۔
میں بھاگی بھاگی حدیدہ شہر پہنچی، راستے بھر یہ محسوس ہورہا تھا کہ کہیں مجھے دیر نہ ہوجائے۔ سات گھنٹوں کے روڈ کے سفر کے بعد آخرکار میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ جنگ کی وجہ سے شہر کے تقریباً تمام راستے بند تھے، اگر ائر پورٹ کھلے ہوتے تو یہ سفر آدھے گھنٹے میں کٹ جاتا۔ دوپہر تک میں اسپتال پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ پہلے تو گارڈ نے مجھے اندر داخل ہونے نہیں دیا، کیوں کہ ہیضہ پھیلنے والی بیماری ہے، اس لیے باہر کے لوگوں کے وارڈ میں جانے پر پابندی تھی۔ مگر میرے رو رو کر التجا کرنے پر اُس نے اجازت دے دی۔ اسٹاف نے میرے ہاتھ کلورین کے پانی سے دھلوائے، پھر مجھے خواتین کے ہیضہ کیمپ میں لے گئے۔
میں نے کیمپ میں داخل ہوتے ہی اپنی ماں کو تلاش کیا۔ مجھے ان کا بستر وارڈ کے آخری کونے میں مل گیا۔ وہ بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی رونا شروع کردیا اور کہنے لگیں:
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے، میں باتھ روم نہیں جا پاتی، میں ایک بچے کی طرح ہوگئی ہوں جو خود کو کنٹرول نہیں کرسکتا۔‘‘
میں نے ان کو تسلی دے کر بہ مشکل چپ کرایا، کیوں کہ مجھے تو ان کی حالت اور وارڈ کا منظر دیکھ کر خود بھی رونا آرہا تھا۔ مجھے کھولرا یعنی ہیضے کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں سوائے اس کے کہ یہ ایک خطرناک مرض ہے جس سے موت واقع ہوسکتی ہے۔ جب 2016ء میں یہ وبا شہر میں پہلی بار داخل ہوا تو ہمیں خبردار کیا گیا کہ ہر چیز دھو کر کھائیں، خصوصاً پھل اور سبزیاں اچھی طرح سے دھوئیں اور اپنے پانی کے برتنوں اور ٹینکیوں کو کلورین کے پانی سے صاف کرتے رہیں۔ مگر جنگ کی حالت میں یہ کہاں ممکن تھا! جنگ چلتی رہی، شہر کے شہر تباہ ہوتے رہے، تمام کام رک گئے اور شہروں میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت ہوگئی۔ ایسے میں صفائی کا کس کو دھیان تھا! بیماریاں پھیلتی رہیں اور لوگ لقمۂ اجل بنتے گئے۔
پہلے پہل تو ہیضے کے مریضوں کو کیمپ میں ٹینٹ لگا کر اسپتال سے دور رکھا گیا، کیوں کہ اسپتال میں اس کے علاج کی طبی سہولیات مہیا نہیں تھیں، مگر پھر جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی، اسپتال کی انتظامیہ کو ہوش آیا اور انہیں ان کیمپوں کو باقاعدہ وارڈ کی شکل دینی پڑی۔ جب سے یہ بیماری پھیلی ہے، یمن میں تقریباً ڈیڑھ ملین افراد اس کا شکار ہوکر مر چکے ہیں، صرف حدیدہ شہر میں ایک سال کے دوران چالیس ہزار مریض اسپتالوں میں داخل ہوچکے ہیں، اور بدقسمتی سے ان میں میری امی بھی تھیں۔
پہلے پہل تو امی نے مجھے وارڈ میں رکھنے سے صاف منع کردیا۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں مجھے بھی یہ بیماری نہ ہوجائے۔ ان کا خیال تھا کہ حاملہ ہونے کی وجہ سے میرا دفاعی نظام کمزور ہے۔ پھر انہوں نے ایک طرف اشارہ کرکے مجھے ایک حاملہ لڑکی دکھائی جس کا وارڈ میں علاج چل رہا تھا، وہ بے چاری نقاہت کے مارے ٹھیک سے دوا بھی نہیں لے پا رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ایک نرس سے پوچھا کہ ہیضے کا علاج کتنے دن تک چلتا ہے؟ تو معلوم ہوا کہ تین سے دس دن تک یہ بیماری رہ سکتی ہے۔ یہ مریض کے دفاعی نظام پر ہے جو کہ حاملہ خواتین، بوڑھوں اور بچوں میں کمزور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی میں نے اپنی امی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ میں اور میری بہن باری باری امی کے پاس موجود رہتیں۔ میں دن کے وقت امی کے ساتھ رہتی، جب کہ رات میں میری بہن رہتی۔ ہمارے لیے دن رات مریضوں کو اس جان لیوا بیماری سے لڑتے ہوئے دیکھنا ایک تکلیف دہ امر تھا۔ یہ بیماری نہ صرف ان کے جسم کو کمزور کررہی تھی بلکہ ان کے حوصلوں کو بھی کھا رہی تھی۔ تیسرے دن میری امی کی طبیعت بگڑنے لگی، کیوں کہ انہوں نے الٹیوں کی شدت کے باعث دوا اور کھانا کھانے سے انکار کردیا تھا۔ اصل میں پچھلی رات انہوں نے اس حاملہ لڑکی کو جس کا نام مریم تھا، دورے پڑتے ہوئے دیکھ لیے تھے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں نے جان توڑ کوشش کے بعد اس کی حالت کو بہتر کیا تھا۔ میری بہن نے بتایا کہ پوری رات امی کی نظریں مریم سے چپکی رہیں، ایسا لگتا تھا کہ میری امی نے مریم کے درد کو اپنے لیے محسوس کرلیا ہے۔ میں نے مریم اور امی دونوں کی طبیعت کی بہتری کے لیے دعائیں کرنا شروع کردیں۔ شام تک مریم کی طبیعت بہتر ہونے لگی اور رات میں ہم نے معجزہ ہوتے دیکھا جب مریم خود بستر سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی، وہ لڑکھڑائی مگر اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور اپنے پیروں پر چل کر باتھ روم جانے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے زندگی کی امید دیکھی۔ میری امی مریم کو اپنے پیروں پر کھڑا دیکھ کر اتنی خوش ہوئیں کہ رونے لگیں۔
جو لوگ اصل میں اس معجزے کی وجہ تھے، وہ اسپتال کا اسٹاف اور نرسیں تھیں جو تمام خطرات اور بیماری کی ہولناکی کے باوجود اپنے پیشے سے محبت کرتے ہیں اور خدمت کا عظیم جذبہ رکھتے ہیں۔ وارڈ میں نرسیں چوبیس گھنٹے موجود رہتی تھیں۔ بارہ بارہ گھنٹے صرف ڈیڑھ سو ڈالر کے لیے ڈیوٹی دیتی رہتیں جو کہ ان کی کوششوںکا ایک ادنیٰ سا نذرانہ ہے۔ وہ صبح سے شام تک اپنے پیشے سے انصاف کرتیں حالانکہ مرض ان کو بھی لگ سکتا تھا، اور ہر روز تقریباً پانچ نئے مریض وارڈ میں داخل ہوتے، مگر اس سب کے باوجود نرسیں اور اسٹاف مریضوں کی دیکھ بھال میں لگے رہتے۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب اگلے دن ڈاکٹر نے بتایا کہ میری امی کی طبیعت اب بہتر ہے اور انہیں اسپتال میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لیے یہ بہت تسکین کا باعث تھا اس ہیضہ وارڈ سے زندہ بچ نکلنا، جس کے لیے میں نے شکرانہ ادا کیا۔
جنگ نے ہمیں تباہ کردیا اور موت کے بہت سے راستے قریب سے دکھائے، جبکہ زندگی کی بہت چھوٹی امید باقی رکھی۔ میں نہیں چاہوں گی کہ کوئی بھی اس درد سے گزرے جو ہمیں سہنا پڑا، مگر میری یہ بددعا ہے کہ جن لوگوں نے یہ جنگ شروع کی، اُن کو بھی اتنا ہی درد سہنا پڑے جتنا انہوں نے معصوم بچوں، ہزاروں عورتوں اور مردوں پر بم برساکر انہیں درد اور تکالیف دیں۔ ان کو اس بات کا جواب دینا پڑے گا۔

یمن میں ہیضے کی وبا، 913 افراد ہلاک

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس وبا سے یمن میں 9 لاکھ 69 ہزار 537 افراد متاثر ہوئے، جن میں سے913 ہلاک ہوچکے ہیں۔ یمن میں ہیضے کی وبا سے سالِ رواں کے دوران اب تک 913 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ اس وبا سے متاثرہ 25.5 فیصد تعداد 5 سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ الحدیدہ، عب، زمار اور صنعا میں شدید بارشوں کے بعد اس وبا کے مزید پھیلنے کا خطرہ ہے۔

کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے

ڈاکٹر عزیزہ انجم

کورونا کی وبا پھیلی ہوئی ہے
نہ جانے کیا بلا پھیلی ہوئی ہے
اتر آیا زمیں پر زرد موسم
اداسی کی گھٹا پھیلی ہوئی ہے
چمن ویران ہوتے جا رہے ہیں
عجب قاتل ہوا پھیلی ہوئی ہے
بہت ہی خوف کا عالم ہے ہر سو
کہ ہر جانب قضا پھیلی ہوئی ہے
سماجی فاصلہ رکھنا ہے لازم
سزائے ناروا پھیلی ہوئی ہے
ملاؤ ہاتھ نہ اک دوسرے سے
عداوت کی ادا پھیلی ہوئی ہے
خدا ناراض ہے انساں سے شاید
فضاؤں میں صدا پھیلی ہوئی ہے
الٰہی اپنے بندوں پر کرم کر
یہی اک التجا پھیلی ہوئی ہے

حصہ