عبداللہ علی
صوبہ سندھ کی ۴ تحصیلو ں پر مشتمل مشہور ضلع ’تھر پار‘کر کا نام میں نے ریگستان، قحط سالی ، خشک سالی اور اس جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ دُنیا کے ساتویں بڑے صحرا کے طور پر ہی سنا تھا۔ہاںعید الاضحیٰ کے موقع پر بھی مختلف’تھری جانور‘ یعنی تھر پارکر سے آنیوالے جانوروں کے تعلق سے بھی سُن رکھا تھا۔کچھ عرصے قبل کی بات ہے ایک رات میرے ابو نے گھر فون کر کے مجھے تیار ہونے کا کہا باقی تفصیل میری امی کو بتا دی۔ میری سمجھ نہیں آیا کہ کہاں،کیوں تیار کروا رہے ہیں اتنی رات کو۔میں نے امی سے خوب سوال کیے لیکن انہوں نے کہا کہ تیار ہوجاؤ تفصیل ابو سے ہی پوچھ لینا۔ کچھ دیر میں ابو گھر آئے اور مجھے ایک بیگ میں چادر، پانی کی بوتل، ساتھ لے کر بائیک پر رواں دواں ہو گئے۔میرے باقی بہن بھائی بہت متجسس اور وہ بھی ساتھ جانے کی ضد کرنے لگے لیکن اُن کو امی نے سنبھال لیا۔ہم رات12بجے گھرسے نکلے اور عائشہ منزل کے قریب دُعا فائونڈیشن کے دفتر پہنچے۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہم یہاں سے ابو کے ساتھی صحافی دوستو کے ہمراہ تھر پارکر کے لیے روانہ ہونے جا رہے ہیں۔اندرون سندھ کاپہلا سفر تھا اور جب پتہ چلا کہ ہم تھر پارکر جا رہے ہیں تو اور بھی خوشی ہوئی۔کوئی رات ڈیڑھ بجے گاڑی آئی۔میںجا کرسب سے پیچھے والی سیٹ پر براجمان ہوگیا۔ وہ بڑی سیٹ تھی اس لیے مجھے اطمینان تھا کہ میں ٹانگے پھیلا کے بیٹھوں گا لیکن پھر مزید دو ساتھی میرے برابر میں آگئے ۔دونوں سے تعارف اچھا ہو گیا ایک تھے فیصل بھائی،یہ تھے سیلفیزلینے کے ماہر،انہوں نے بتایا کہ وہ فوجی ٹریننگ بھی لے چکے ہیں۔دوسرے تھے حسن بھائی یہ بڑے کام کے آدمی تھے،ان کے بیگ میں سوئی دھاگے سے لے کر دنیا جہاں کی چیزیں پائی جاتی تھیں۔دونوں مزاجاً نہایت خوش اخلاق اور ملنسار تھے ۔آتے ہی فیصل بھائی نے سیلفیاں لینا شروع کر دیں اور ہم گھل مل گئے۔
ہمارا سفر شروع ہوا اُن کے علاوہ ہمارے سفر میںدعا فاونڈیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم، نیاز عالم، عامر خان ، پرویز بھائی کے علاوہ ابو کے دوستو میںڈاکٹر ظفر ،شبیرسومرو،سید نبیل اختر ، سید جواد شعیب شریک سفر تھے۔ ہائی ایس مکمل بھر چکی تھی ۔ نیند کے غلبہ کی وجہ سے میں بیگز کو ایک قطار میںلگاکر کے سونے کی کوشش میں لگ گیا۔کچھ دیر آنکھ لگی پھرگاڑی رکنے پر حسن بھائی نے اٹھایا کہ چلو چائے سے تازہ دم ہو جاؤ۔ کراچی سے باہر نوری آباد کے قریب ہائے وے کے ایک ہوٹل میں بیٹھ کر ہم سب چائے ، تعارف اور گپ شپ سے تازہ دم ہو ئے ۔موسم بہت اچھا تھا نہ انتہائی سردی نہ انتہائی گرمی ۔رات کے کوئی ساڑھے تین بج رہے تھے فیصل بھائی کی سیلفیاں دیکھ کر اس سفر کی یادگار کے لیے میں نے اپنی ڈائری نکالی اور سفر کی یادداشتیںلکھنا شرو ع ہو گیا۔کچھ دیر مزید آرام کے بعد6بجے فیصل بھائی نے نماز فجر کے لیے اٹھایا۔ہم میر پور خاص کے قریب تھے ، نماز فجر کے بعد پھر روانہ ہوئے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد عمر کوٹ میں داخل ہوئے ۔چونکہ رات کی تاریکی چھٹ چکی تھی اسلیے علی الصبح سندھ کی دیہی زندگی کا منظر دیکھنے کا موقع ملا ۔یہ والا سفر ہمارا ہائی وے کے مقابلے میں قدرے شہر کے اندر ہی سے ہوا تھا۔یہاں اندازہ ہوا کہ دیہا ت کے لوگ کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں، اور ہم اتنی نعمتوں کے باوجود کتنے شکوے کرتے ہیں۔عمر کوٹ کے ہوٹل میں تازہ پراٹھے چائے کے ساتھ ناشتہ مجھے بلکہ سب ہی کو بہت پسند آیا ۔نیند تو نہیں آ رہی تھی کھڑکے سے خوبصورت مناظر اور ساتھ ساتھ حسن بھائی اور فیصل بھائی کے ساتھ مختلف موضوعات پراچھی گفتگو چلتی رہی ۔اب سفر میںآہستہ آہستہ صحرائی علامتیں نظر آناشروع ہو گئی تھیں اور پیچھے بیٹھے ہم تینوںحسن بھائی کے چپس اور ان کے واقعات کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہے ۔ 10بجے ہم تھرپارکرکی ایک تحصیل ڈاہلی کے گوٹھ بگل پہنچے جہاںدُعا فائونڈیشن کا تیار کردہ ایک فش فارم ہمارا منتظر تھا۔450فٹ کی گہرائی سے پانی نکالا گیا تھا۔ماشااللہ۔۔ ریگستان میں سے پانی نکل رہا تھا۔بہت بڑا سا سولر بجلی کے حصول کا پینل لگا کر بجلی کی موٹر سے پانی زیر زمین سے کھینچا جا رہا تھا۔مچھلیوںکی افزائش کے لیے بنائے گئے گڑھے میںیہ پانی بھرا جا رہاتھا، میں نے پہلی بار یہ سب ہوتے دیکھا اور خوب لطف اُٹھایا۔ڈاکٹر فیاض اس دوران تمام شرکاء سفر کواس کی معلومات دے رہے تھے۔ میں، حسن اور فیصل بھائی تصاویرکھینچنے میں مصروف ہو گئے۔ہم سب کے لیے بہت اچھا تجربہ تھا۔پانی کے لیے گڑھے کے اوپر بڑا سا پلاسٹک بچھایا گیا تھا، ابھی مچھلیاں نہیں ڈالی گئی تھیں پانی کی بھرائی جاری تھی۔ڈاکٹر فیاض نے بتایا کہ ہمارا مقصد عوام کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ خود اپنے لیے روزگار کا بندو بست کر سکیں۔ اس کے لیے وہ مختلف اداروں سے معلومات اور تحقیق کے بعد اس طرح کے تجربات کرتے ہیں جو کہ اس سے پہلے کسی نے نہیں کیے۔ عام طور پر لوگ غریبوںکو راشن ، پانی کا کنواں ، دوائی وغیرہ دینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں لیکن یہاں کے عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلیے تاکہ وہ کسی چیز کے محتاج نہ رہیں ایسے کاموں کی ضرورت ہے۔میرے ابو نے بتایا کہ اس وقت دعا فاؤنڈیشن وہ پہلی تنظیم ہے جو اس انداز سے خدمت کا کام کر رہی ہے۔
یہاںسے ہم آگے روانہ ہوئے اور ایک گاؤں پہنچے ۔وہاں کے بچے ہمیںخوشی اور حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔مقامی لوگوں نے جو پہلے سے ہمارے منتظر تھے ہمارا بہت اچھااستقبال کیا۔یہاں ہماری ہائی ایس کھڑی کر دی گئی اور ہمارا سفر2 جیپوں میںمنتقل ہو گیا گویا یہ ایک اسٹاپ تھا آگے کا رستہ ہماری گاڑی کے لیے مناسب نہیں تھا اسلیے جیپ کا انتخاب کیا گیا۔کوئی پون گھنٹے کا سفر تھااور اس سفر میں تھر پارکر کی زندگی کو جیپ کی کھڑکی سے دیکھنے کا موقع ملا۔یہاں نہ کوئی بیکری تھی، نہ تندور ، نہ جنرل اسٹور، نہ سڑک ، نہ بجلی، نہ بلند عمارتیں ،نہ ٹریفک۔کہیں بکریاں چرتی نظر آتی تو کہیں بچے بھاگتے نظر آتے۔ کہیں پانی کا مٹکا اٹھائے خواتین ، چھوٹے چھوٹے گھاس پھوس ولکڑی کے بنے گھر تھے۔گاڑی میں سوار میرے ابو مجھے بار بار متوجہ کرتے کہ دیکھو ، غور کرو کہ یہ بھی ایک زندگی ہے۔ڈاکٹر فیاض عالم بڑے زبردست انداز سے ہمارے سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔انہوں نے تھر کے مسئلوں اور غربت کے بارے میں بتایا کیونکہ وہ یہاں کئی سالوں سے آرہے تھے۔ انہوں نے بتایا کے تھر کے لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ ڈبل روٹی کیا ہوتی ہے ۔ یہ صبح نماز پڑھ کرچائے پی کر نکل مویشیوںکے ساتھ یا کسی کام کاج کے لیے نکل جاتے ہیں۔خواتین پانی لینے چلی جاتی ہیں ۔بکری، اونٹ، گائے،مرغیاں پالتے ہیں اور ان سے حاصل دودھ، گوشت، سفر،انڈوں سے ہی گزاراکرتے ہیں۔یہاں کے مور بھی بہت مشہور ہیں جو اکثر بارش کے بعد نظر آتے ہیں۔عوام پینے کے پانی کے لیے خاصی تکلیف اٹھاتے ہیںاور دور دراز سے بھر کرلاتے ہیں۔کئی سماجی تنظیموں نے بورنگ، کنواں وغیرہ کھدوائے لیکن وہ وقت کے ساتھ سوکھ گئے ۔ہم جس علاقے میں جا رہے تھے یہاں دُعا فاؤنڈیشن کے علاوہ کوئی نہیں پہنچ سکا تھا۔یہاں بارش کم ہوتی ہے لیکن جب ہوتی ہے تو پورا علاقہ سر سبزو شاداب ہو جاتا ہے۔ہمارے میزبان شھاب الدین سمیجو تھے جووہاں جماعت اسلامی کے بھیذمہ دار تھے ، ہم انہی کی زمینوں پر پہنچے ۔یہ حصہ تھرپارکر کا بالکل آخری کوناگوٹھ سخی سیار تھابلکہ پاکستان کا بھی کیونکہ ہمیں بتایاگیا کہ سامنے ہی پاکستانی سرحد تھی یعنی چند منٹ کے سفر کے بعد بھارتی فوجی چوکیاں شروع ہو جاتی۔
اب یہ تھا دعا ایگرو فارم یعنی تھر پارکر کاوہ شاہکار جسے دیکھنے ہم اتنی دور پہنچے تھے ۔ دعا فاؤنڈیشن نے ان زمینوں پر کاشت کاری کااپنی نوعیت کا پہلا کامیاب تجربہ کیا تھا۔پانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے ایک طریقہ ’ڈرپ اریگیشن ‘ اختیار کیا گیا ۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس میں فصلوں کو دیا جانے والاپانی ضائع بالکل نہیں ہوتا ۔مجھییہ دیکھ کرخوشی اور حیرت ہوئی کہ انسان خلوص نیت سے کوشش کرکے ریگستان میں بھی ہریالی لا سکتا ہے۔یہاں بھی 200فٹ گہرا ئی سے بذریعہ سولر پینل بجلی کی موٹر لگا کر پانی ایک بڑے سے ٹینک میں جمع کیا گیاتھا وہاں سے زمینوں تک بذریعہ پائپ پہنچایا جا رہا تھاجس کے کونے پر ڈرپ لگائی گئی تھیں۔ہمارے سامنے بیر کی تیار فصلیں تھیںاور پیڑ سے توڑ کربیر کھا نے کا لطف بھی اٹھایا۔ڈاکٹر فیاض نے تفصیل بتائی اور دکھایا کہ یہاں کھجور، زیتون، زیرہ، گندم، خربوزہ ، ٹنڈے ، ککڑی کی فصلیں بھی اگائی گئی ہیں جو اپنے وقت پر تیار ہونگی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ دنوں قبل ہونے والی بارش کے اچھے اثرات ہوئے اور اتنے ککڑی و ٹنڈے اُگے کے گاؤں میں مفت تقسیم کیے گئے۔ ڈاکٹر فیاض نے بتایا کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تو لوگ اُنہیں دیوانہ کہہ رہے تھے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے جو آج تک نہیں ہوا لیکن اللہ کی مددو کرم سے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ کراچی میں رہتے ہوئے مجھے بیر زیادہ اچھا نہیںلگتا کیونکہ اس میں کیڑا نکل آتا لیکن یہاں کا بیر مجھے بہت پسند آیا اس کا ذائقہ بھی منفرد تھا۔ہم سب نے وہ بیر کھائے اور ایگرو فارم میں خوب گھومے۔ شہاب بھائی نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل سندھ میں ٹڈی د ل نے جو تیار فصلوںپرحملہ کیا تھا اُس سے یہاں بھی کئی پودوںکو نقصان پہنچایا جس پر بروقت کوشش سے قابو پالیا گیا۔ اس دوران فیصل اور حسن بھائی نے اپنے فیس بک چینل کے لیے خصوصی ویڈیو بنائی ، باقی صحافی حضرات بھی انٹرویو لیتے رہے اور ہم تصاویر بنواتے رہے۔
3بجے ہم واپس نکلے اور گاؤں میںآئے، بھوک زوروں پر تھی،صبح ناشتہ اور یہاںکچھ بیر ہی کھائے تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ کچھ بھوک اور برداشت کرلیتا ہوں واپسی پر کھا لیں گے کھانا ،مگر یہاںشہاب بھائی نے ہمارے لیے بڑا اچھا ظہرانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ہمیں اوطاق میں بٹھایا اچھی طرح منہ ہاتھ دھو کر ہم دستر خوان پر بیٹھے۔جہاں پر سبزی، گوشت ، چاول سے ہماری اچھی تواضع کی گئی۔ہمارے لیے میزبان نے ایک بکرا ذبح کیا تھااور اُس کے تمام اعضاء بشمول ’سر‘کو روایتی انداز میں بنا کرہماری خدمت میں پیش کیا۔پھر ہم نماز ظہر وعصر ادا کرنے گوٹھ کی مسجد گئے۔دعا فائونڈیشن نے گوٹھ کے مکینوں کے لیے ایک مدرسہ و مسجد بھی تعمیر کرائی تھی تاکہ لوگوں کی دینی تعلیم وتربیت کا سلسلہ بھی جاری رہے۔نماز کے بعدڈاکٹر صاحب نے ہمیں مدرسہ کا دورہ کرایا۔ڈاکٹر ظفر اقبال نے ایک چھوٹے طالب علم کا انٹر ویو بھی کیا ،جس نے شاہ عبدالطیف کے کئی ا شعار، تلاوت قرآن سنا ئی ۔
اب ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا،جیپوںمیں روانہ ہوئے۔ہائی ایس تک پہنچے ،میزبان شہاب بھائی اور ان کے ساتھیوکو الوداع کہا ۔کراچی کی جانب سفر شروع کیا،سب تھک چکے تھے ۔ میںڈوبتے سور ج کی روشنی میں تھرپارکر کے نظاروں کو اور ڈائری میں سفر کی یادد اشتوں کو محفوظ کر تا میں خود بھی سو گیا۔مغرب و عشاء کی نماز کے لیے ابو نے اٹھایا۔عمر کوٹ کے دہانے پر ایک اچھے سے ہوٹل پر ہم نے چائے پی اور آگے بڑھے ۔ سب کو اب یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ کراچی کتنے بجے پہنچیں گے ۔شام سے امی کے فون آ رہے تھے کہ کب پہنچیں گے کیونکہ ہم جہاں گئے تھے وہاں تو موبائل کے سگنل ہی نہیںآتے تھے ۔ہم اپنے سفر کے تجربات آپس میں بانتتے رہے ویسے مجموعی باتوں میں سب سے زیادہ باتیں ترکی کی ڈرامہ سیریز ’دیریلش ارطغرل ‘ اور اس کے بعد’کرولوس عثمان‘پر ہوتی رہیں جو میرا ، میرے ابو اور ان کے زیادہ تر دوستوکا پسندیدہ موضوع تھا۔رات 12بجے ہم ٹنڈو اللہ یار کے ہائی وے ہوٹل سوپر مدینہ پر رات کا کھانا کھایا اور پھر سفر شروع ہو ا جو رات 3بجے دعا فاؤنڈیشن کے دفتر پر ختم ہوا۔کہنے کو تویہ کوئی27گھنٹے کا سفر رہا لیکن مجھے اس سفر میں زندگی کا ایک اہم سبق سمیت بہت کچھ جاننے ، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔میں دُعا کرتا ہوں کہ تھر پارکر کے لوگوں کی زندگیوں میں دعا فاؤنڈیشن کے تجربات خیر اور برکت کے دروازے کھولے ۔اللہ تو خوش ہوگا ہی ساتھ ہی ہمیں بھی انسانیت کوخدمت کے ذریعہ دین سے جوڑنے کاسبق ملا۔اقبال نے اس مقصد کے بارے میں واقعی درست کہا ہے کہ