احساسات اور موجودات کے پیراڈوکس

540

سلمان ثروت

اکثر شعرا اپنی تخیلا تی دنیا اِس دنیاسے کہیں دور بساتے ہیں اور اگرانہیں اِسی دنیا میں پڑاؤ ڈالناہی پڑے تو وہ کسی دشت یاصحرا کا انتخاب کرتے ہیں مگر ذوالفقار عادل آپ کی شاعری تو آپ کے گھر ، اُس کے آنگن اور دیواروں، آپ کے شہر ،اُس کی گلیوں اوردرختوں سے جنم لیتی ہے، مثال کے طور پر:۔

دیواروں کو، دروازے کو، آنگن کو
گھرآنے کی عادت زندہ رکھتی ہے

یہ میز، یہ کتاب، یہ دیوار اور میں
کھڑکی میں زردپھولوں کے انباراور میں

پیڑوں سے بات چیت ذراکررہے ہیںہم
نادیدہ دوستوںکا پتاکر رہے ہیںہم

بات دراصل یہ ہے کہ سائنسی نقطہ ٔنظر سے جاندار اور بے جان میں کی گئی تفریق شعری تخیل پہ صادرنہیںآتی۔مجھے تویہ درودیوار، میزکرسی، سنگ وخشت الغرض تمام اشیاء جیتی جاگتی ہستیاں معلوم ہوتی ہیں۔ میں اِن سے بات کرتا ہوں یہ مجھ سے ہم کلام ہوتی ہیں ۔ یہ میری خوشیوں میں شامل ہوتی ہیں میں اِ ن سے دکھ دردبانٹتاہوں۔ یہ آپ سے بھی باتیںکریں گی آپ ذراان کی طرف توجہ توکریں۔

کسی دیوار پہ نظریںتو جماکر بیٹھو
ورنہ تاحشر نہیںنقش اْبھرنے والا

گفتگو سے نکل آتے ہیں ہزاوں رستے
ذرادیوار کی سنیے ذرااپنی کہیے

جہاں تک بات ہے دوسری دنیاؤں کی تو صاحب شاعر اس دنیاکے کب ہواکرتے ہیں، میں بھی نہیں ہوں مگر کیا کریں کہ:

بس خاک پڑ گئی ہے بدن پر زمین کی
ورنہ مشابہت تو مری آسماں سے ہے

اور جو خاک مرے بدن پر پڑی ہے اس دھول کے حصار میں میری روح اور میرا ذہن بھی ہے۔

تو ذوالفقار صاحب کیا اسی دھول کے حصار نے آپ کی شاعری میں الجھاوے بْنے ہیں جیسے:۔

نکلاہوںشہرِخواب سے ایسے عجیب حال میں
غرب میرے جنوب میں ہے شرق میرے شمال میں

خواب ادھورے رہ جاتے ہیںنیندمکمل ہونے تک
آدھے جاگے آدھے سوئے،ٖغفلت بھرہشیاری کی

جناب یہ جو زندگی ہے نا، کسی اُلجھاوے سے کم نہیں، پھراس زندگی کا کائنات سے تعلق ، یہ بھی ایک اُلجھاوا ہے۔ اور پھر زندگی کے وہ پہلو جو موجودات سے ماورا ہیں، یہ سب ایک اُلجھاوا ایک معما ہی تو ہیں۔ میں اپنی شاعری میں اِنہیںسلجھانے کی سعی کرتا ہوں۔ سوالات رکھتاہوںاور جوابات ڈھونڈتا ہوں

بطور آئینہ دیکھاجہاں تلک دیکھا
بطور عکس تو بس آئینہ دکھائی دیا

نیند کو نیند میں کیا سمجھیں ہم
خواب کو خواب میں کیا فرض کریں

باغ اپنی طرف کھیچتاتھا مجھے، خواب اپنی طرف
بینچ پرسورہاہوںمیں دونو ں کا جھگڑاچکاتا ہوا

یہ جنگل باغ ہے عادل، یہ دلدل آبجوہے
کہیںکچھ ہے جسے ترتیب میں لانا پڑے گا

یہ ترتیب کی خواہش کیا ہے ذوالفقار عادل آپ کی شاعری میں۔ بے ترتیبی ایک درد، ایک خوف یا ایک حسرت کی صورت میںہمیں جابجا نظر آتی ہے۔ مثلاً:۔

اپنی مرضی سے سب چیزیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں
بے ترتیبی نے اس گھرمیںاتنی جگہ بنالی ہے

سارا باغ اُلجھ جاتا ہے ایسی بے ترتیبی سے
مجھ میں پھیلنے لگ جاتی ہے خوشبو اپنی مرضی سے

آپ نے اپنے سوال کا جواب تو میرے شعروں سے ہی دے دیا۔ بے ترتیبی میرے لیے ایک ایسا مشاہدہ یا تجربہ ہے جو مجھے مضطرب کیے رکھتا ہے۔ اگر میں بے ترتیبی کی وضاحت کروں تو یوں ہوگی کہ حد ِاعتدال سے تجاوز کا نام بے ترتیبی ہے۔

چیخ نہیں سکا کبھی آگ نہیں لگا سکا
جلتا رہا ہوں رات دن آتشِ اعتدال میں

نہیں ذوالفقار صاحب آپ کے اس جواب سے میری تشفی نہیںہوئی کیونکہ یہ شعر تو بے ترتیبی کی حسرت لیے ہوئے ہے جب کہ آپ کی شاعری میں توترتیب کی حسرت نظر آتی ہے۔اب اس شعر ہی کو دیکھ لیجیے:۔

سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گے
اب کونے میں ڈھیر لگا ہے باقی کمرہ خالی ہے

ویسے بھی آپ کی شاعری میں حسرت کا رنگ نمایاں ہے

ایسی خوشی کے خواب سے جاگا کہ آج تک
خوش ہوکے سو سکا نہ کبھی سو کے خوش ہوا

ہر حسرت پر اک گرہ سی پڑجاتی تھی سینے میں
رفتہ رفتہ سب نے مل کر دل سی شکل بنالی ہے

آپ جسے حسرت کہہ رہے ہیںمیں اسے خواہش کہتا ہوں۔ اور پھر جن حسرتوں بلکہ خواہشوں سے میرا دل بنا وہ میرے کیا کا م آیا آپ نے وہ نہیں دیکھا:۔

یہ ایک داغ ہے دل پر کہ ایک روزن ہے
اسی سے خواب اسی سے خدادکھائی دیا

اصل میں حسرت اور خواہش میں ایک بنیادی فرق ہے حسرت کا تعلق ماضی سے جب کہ خواہش کا تعلق مستقبل سے ہے۔ چیزوں کو ترتیب میں لانے کی خواہش میرے لیے ایک شعری تقاضہ ہے۔ کیوں کہ جب اشیا میں ترتیب آجاتی ہے توازن آجاتا ہے تو وہ بذاتِ خود شاعری بن جاتی ہیں ۔ میں تو بس اُن کا مشاہدہ کرتاہوں ، اور اپنے اظہار میں لاتا ہوں۔ ترتیب تو ایک ٹرانس کا نام ہے ایک دلکش حسین منظر، جہاں وقت بھی ٹھہرجائے:۔
چرچ کی سیڑھیاں وائلن پر کوئی دھن بجاتا ہوا
دیکھتا ہے مجھے اک ستارہ کہیں ٹمٹماتا ہوا
آ وازوں کی بھیڑ میں اک خاموش مسافردھیرے سے
نامانوس دھنوںمیںکوئی ساز بجاتا رہتا ہے
ایسے ملی وہ شب مجھے
جیسے کسی سخن کو داد
واقعی ذوالفقار صاحب یہ اشعار تو ایک ٹرانس میں کہے گئے ہیں۔ یہ وہ شعر ہیں کہ اگر ان تشریح کی جائے تو مزہ زائل ہوجاتا ہے، اِن سے بس سرشار ہوا جاتا ہے یہ ایک خاص احساس کے ساتھ منظر کشی کرتے ہیں۔ لیکن اِن میں کیا احساس کارفرما ہے یہ بھی ایک معما ہے۔
خیر! اب آخری بات، آپ کی شاعری میں دیواروں کو ذکر بارہا آتا ہے ۔ یہ دیواریں مختلف استعارے تو بنتی ہیں مگر ایک مستحکم علامت نہیں بنتیں۔ مثال کے طور پر:۔

اک عمر اپنی اپنی جگہ پرکھڑے رہے
اک دوسرے کے خوف سے دیوار اور میں
جانے کیا باتیں کرتی ہیںدن بھر آپس میں دیواریں
دروازے پر قفل لگاکرہم تو دفتر آجاتے ہیں

ہم سے گریہ مکمل نہیںہوسکا
ہم نے دیوار پر لکھ دیامعذرت

مجھے اس بات کا پہلے سے احساس تھا کہ قارئین دیوار کے استعارے کو کئی خانوں میں رکھ کر دیکھیں گے۔اس بات کے جواب میں میرا سوال یہ ہوگاکہ کیا آئینہ کو آپ مختلف معنوی زاویوں میں دیکھتے ہیں اگر نہیں تو دیوار کو کیوں۔ گھر ، دیوار ، آنگن ، کھڑکی ، یہی موجوجات تو میری شعری اساس ہیں ۔ میںآپ کو کیسے سمجھاؤں کہ اِن اشیا سے میرا تعلق کس طرز کا ہے ۔ خیر چھوڑئیے کچھ باتیں اَن کہی اچھی لگتی ہیں وگرنہ یہ ملال رہتا ہے:

بہت سنا گیا مجھے، بہت سنا دیا گیا
ہزار سال بعد بھی ہزار داستاں ہوں میں

دیکھنے والی آنکھیں ہیں اور دیکھ نہیں پاتی کچھ بھی
اس منظر میں جانے کیا کچھ آتا جاتا رہتا ہے

کسی نے جھانک کے دیکھا تھا اُس دریچے سے
میں اپنے آپ سے باہر کھڑا دکھائی دیا

دکھائی دیتا ہے تصویر جاں میں دونوں طرف
ہمارا زخم ذرا مندمل بنایا جائے

ڈوالفقار صاحب اِن اشعارمیںاحساس کی سطح حزن اور کیف کے مابین نظر آتی ہے ہم شاید پھر ایک پیراڈکس میں پھنس گئے۔ خیراِن پیراڈوکس کا سلجھانا اتنا آسان نہیں ۔ چلیں پھر کبھی اِن پر مزیدگفتگو ہوگی ، کیوں کہ ابھی وقت کافی ہو گیا ہے ۔ بس اجازت لینے سے پہلے آپ سے آپ کا پسندیدہ شعر سنا چاہوں گا۔ مجھے تو آپ یہ شعر بہت پسند ہے، اتفاقاً یہ شعر بھی ایک پیراڈوکس ہے

شب بھر دن کا بوجھ اْٹھایا،دن میں شب بیداری کی
دل پردل کی ضرب لگائی ایک محبت جاری کی

چلیں آپ کی فرمائش ہے تویہ شعر سن لیجیے شاید مجھے اپنے اس شعر سے زیادہ لگاؤ ہے

بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ہے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں تھا جتنی آگ جلالی ہے

******

یہ سوچ کر کہ اُس کی جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے

شہزاد احمد

عارف نظیر

کہوں کس سے کہ دھندلائے ہوئے ہیں
جو منظر آنکھ پر چھائے ہوئے ہیں
کنارے سے کنارے تک ہے وحشت
ندی کے راگ گھبرائے ہوئے ہیں
کچھ ایسے خواب جن سے ڈر رہا ہوں
گزشتہ رات سے آئے ہوئے ہیں
کبھی تو بھی ہماری سمت آتا
تری جانب تو ہم آئے ہوئے ہیں
خلوص دل سہی تیرا تبسم
مگر ہم چوٹ تو کھائے ہوئے ہیں
نجانے رات کون آئیگا چھت پر
ستارے شام سے آئے ہوئے ہیں
مقدس ہم صحیفے ہیں جو شاید
ہزاروں بار جھٹلائے ہوئے ہیں
ہمارا ذکر ہو تو جان لیجو
تری محفل میں ہم آئے ہوئے ہیں
بڑے دانا ہیں جی دشمن ہمارے
مگر ضد پر ابھی آئے ہوئے ہیں
رقیبوں پر بھی ہے نظر عنایت
کرم ہم پر بھی فرمائے ہوئے ہیں
ہمارا بن کے تو بھی تو رہا تھا
ترے ہم بھی کبھی ہائے ہوئے ہیں
سکون و امن وقتی ہی رہا ہے
مسلسل خوف کے سائے ہوئے ہیں
دماغی عارضہ لاحق ہے تم کو
کئی دل ہیں جو گھبرائے ہوئے ہیں
ہمیں عارف گلوں سے نسبتیں تھیں
مگر کانٹوں میں گنوائے ہوئے ہیں

حصہ