سید عتیق الرحمن
دنیا میں کوئی بھی قوم تین بنیادی اصولوں کو اپنائے بغیر ترقی نہیں کرسکتی، پاکستان کی بنیاد رکھنے والے قائد اعظم محمدعلی جناح ؒنے بھی اہلِ پاکستان کے لیے ہمیشہ کامیابیوں کی نوید تین زیریں اصولوں کو اپنانے پر متعین کردی۔ پہلا اصول ایمان، دوسرا اتحاد اور تیسرا تنظیم ہے۔
عہد رسالت مآبؐ سے لے کر آج تک‘ جہاں جہاںمعرکہ آرائی ہوئی یا کسی بھی آسمانی و زمینی آفت و مصیبت سے امت دوچار ہوئی‘ انہی اصولوں کو اپنا کرہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے نقصان ہمیشہ برعکس حالات میں ہوا، اب سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ان تین چیزوں کو اپنانا ہے؟ ہماری پہلی اور بنیادی چیز ایمان ہے اس کا تقرر اس طرح سے کریں کہ ہمارے دل کو یہ یقینِ کامل ہر وقت رہے کہ یہ ’’وبا‘‘ ہمارے اللہ کی جانب سے ہے‘ وہی کارسازِحقیقی ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کون سا کام، کون سی چیز، کس لمحہ، کتنی ضروری ہے۔ ہم نے اپنے دماغ میں اٹھنے والے اوہام کو بھی یہ اجازت نہیں دینی کہ وہ ہم پر مسلّط ہو کر ہم سے ہمارا عقیدہ، اعتقاد اور توکل چھین سکیں۔ اب ہم نے سنت رسول ؐ کا احیا کرنا ہے۔ طہارت، پاکیزگی اور زندگی کے روز مرہ معمولات میں میل جول کو بھی عین سنت کے سانچے میں ڈھالنا ہے۔ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کسی مصیبت یا مشکل میں دو نوافل ادا فرماتے اور اس کی تلقین فرماتے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ اس طریقۂ کار کو اپنا کر نجات کی سندحاصل کرسکتی ہے۔ دوسرا اہم ترین اصول اتحاد ہے، جس میں برکتوں کے خزینے چھپے ہیں۔ اتحادکی طاقت قوموں کو زوال سے نکالنے اور بامِ عروج تک پہنچانے میں لازم حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی بھی منزل، کوئی بھی کامیابی اس کے بغیر ممکن نہیں۔
تاریخ میں دیکھا جائے تو جب بھی مشکل وقت میں اعلان کیا گیا کہ اُمتِ مسلمہ کا ایک ایک فرد اسلام اور اپنی بقا کی خاطر اپنا مال لے کر حاضر ہوجائے‘ تو تاریخ کے صفحات چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ہر فرد اپنا تن، من، دھن سب کچھ لے کر حاضر ہوجاتا۔ مہاجرین اور انصار کی خوش گوار اور مضبوط مثال ہر عام و خاص کے سامنے ہے۔ پاکستان کی بات کیجیے تو عمران خان نے شوکت خانم اسپتال بنانے کے لیے جھولی پھیلائی تو مائوں نے زیورات تک دے دیے اور یہ سلسلہ صرف شوکت خانم تک ہی نہ رہا، جب بھی کسی نے پکارا قوم نے اخوت کی مثال قائم کی، عبدالستار ایدھی کی ایدھی فائونڈیشن سے لے کر مسلم ہینڈز تک اور اس طرح کی سینکڑوں تنظیمیں اس قوم کے جذبہ مواخات پر چل رہی ہیں۔
اسی طرح آج بھی اتحاد کی اسی دولت کو اپنائے رکھنے اور مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے یہ بات ثابت کرنی ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا احیا ء اچھے طریقے سے جانتے ہیں۔ ہم نے بتانا ہے کہ ہمارا قرآن سے کیا رشتہ ہے جو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت پھیلائو۔‘‘ ہمیں انتشار سے نکل کر ایک پرچم تلے متحد ہونا ہے، ایک ایسی خوشگوار فضا قائم کرنی ہے جو پوری دنیا میں ایک بار پھر ہمارا یہ پیغام پہنچا سکے اور یہ سب اُسی صورت ممکن ہے جب ہم وقت بے وقت اذان دینے کی وجہ دریافت کرنے کے بجائے مل کر ’’اللہ اکبر‘‘ ’’اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے صرف اپنے ملک و ملت کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے پیامِ امن لے کر اٹھیں۔
تیسری اہم چیز ہے تنظیم، یعنی نظم و ضبط۔ یہ بھی ملک و ملت کر ترقی‘ اس کی فلاح اور درپیش مسائل میں اہم کردار اداکرتی ہے، آج کل جن حالات کا ہمیں سامنا ہے اس میں جو نظام بنایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ملک سے باہر نہیں جاسکتے، گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں، غیر ضروری ملاقاتیں ملتوی کردیں، اسکول، کالج اور ایسی ہی بہت سی ہجوم کا باعث بننے والی جگہوں کو مقفل کریں، یہ تمام چیزیں بہت ضروری ہیں اور دینی نقطہ نظر سے بھی ثابت ہیں۔ ایسے میں ہم سب پر اپنے امیر کی اطاعت، یعنی حکومت وقت کے دیے گئے لائحہ عمل کی اطاعت لازم ہے ۔
اس وقت اللہ سے دوری، غفلت اور ناچاقی یہ سب چیزیں مل کر ہمارا شکار کر رہی ہیں‘ ایسے شکاری کو مات دینے کے لیے اتحاد، ایمان اور تنظیم کا سبق دہرا کر ہمیں فتح یاب ہونا ہے۔ مزید یہ کہ حالات اللہ کے کرم سے قابو میں آنے کی پوری امید ہے اور یہ خوف بھی لاحق ہے کہ نہ جانے کب تک اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑے کیوں کہ ایمان ’’خوف‘‘ اور ’’امید‘‘ کے درمیان ہے اس لیے ان دونوں چیزوں سے مفر نہیں۔ پیغام یہ کہ اپنے آپ کو امید کے ساتھ ساتھ مزید ایسے حالات کے لیے تیار رکھیے اور ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ان تین چیزوں کو لازمی اپنائیے۔ اپنی جان سے، اپنے مال سے، اپنی دُعا سے اور اپنی نیک تمنائوں سے اس ملک و ملت کی مدد اور حفاظت کا وقت ہے ۔