کورونا پر سوشل میڈیا ڈس انفارمیشن

389

کون کہہ سکتا تھا کہ دُنیا ایسا لاک ڈاؤن منظر بھی پیش کرے گی۔ ایک انسان مر جائے گا اور اُس کی لاش کا آخری دیدار بھی اُس کے قریبی سگے رشتے دار نہیں کر سکیں گے ۔ لوگ چاہیں گے مساجد میں با جماعت نماز پڑھنا لیکن نہیںجا سکیں گے ۔لوگ قرابت داروں کے پاس جانا چاہیں گے لیکن نہیں جا سکیں گے ، بے پناہ دولت سامنے ہو گی لیکن اُس سے ایک برگر تک نہیں منگوا سکیں گے۔پوری دنیا گھومنے کی سکت ہوگی لیکن گھر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔لوگ کسی گرجاگھر، مندر یا اللہ کے گھر یعنی بیت اللہ کی آغوش چاہیں گے لیکن افسوس کہ وہ در بھی بند ملے گا۔ اِنسان کے پاس بظاہر وقت ہی وقت ہوگا لیکن کچھ نہیں کر پائے گا وہ بھی اُسے کم ہی لگےگا۔
ٹوئٹر پرآئے دن کشمیر کے لاک ڈاؤن کی یاد دلائی جاتی ہے تو شاید’ اُس ‘کے ایک عشیر کا اندازہ ہوتا ہے ۔ موجودہ صورتحال کو سوشل میڈیا پر اہلیان مقبوضہ کشمیر پر ظلم کے خلاف دیگراقوام کی خاموشی کا نتیجہ یا بد دعا قرار دیا گیا۔تحریک لبیک کی جانب سے بار بار ٹوئٹر پر متوجہ کیا جاتا رہا ، کبھی مظلوم کشمیریوں کی آہ قرار دیا تو کبھی نے موازنہ کروانے کی کوشش کی کہ وہ تو 5اگست2019سے ( 8ماہ) اِس سے بدترین لاک ڈاؤن کا شکار ہیںجس میں فون، انٹرنیٹ تک کی بندش بھی شامل ہے۔اسی طرح کوروناکے علاج کےلیے بھی تحریک لبیک نے ’ ڈیم فنڈ کورونا کے علاج کے لیے ‘ کے ہیش ٹیگ کے سے بھی مہم چلائی۔ اس سے قبل ’ کورونا کا علاج رجوع الی اللہ ‘ سے بھی سوشل میڈیا پر متحرک نظر آئے۔ اسی طرح سندھ میں نماز جمعہ کےلیے مساجد کی جبری بندش اور پھر موذن، امام و دیگر کی گرفتاریوں پر مفتی منیب الرحمٰن کا متحرک کردار بھی سوشل میڈیا پر تحسین سمیٹتا نظر آیا۔
اس کے ساتھ ساتھ کورونا لاک ڈاؤن کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فلاحی تنظیموں کی جانب سے ،افراد کی جانب سے عوامی خدمات کا سلسلہ و غریبوں تک راشن و اسپرے کی سہولیات کی فراہمی کا سلسلہ بھی سوشل میڈیا پر داد سمیٹتا نظر آیا۔شروع میں جو لوگ اس بات پر تنقید کر رہے تھے کہ لوگ ٹرالیاں بھر بھر کے خریداری کر رہے ہیں دوسروں کا خیال کریں اب وہ سب لوگ ’تقسیم ‘کے لیے اتنا زیادہ سامان مارکیٹ سے خرید لائے کے دال، آٹے کی ایسی مصنوعی شارٹیج ہوئی کہ روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھنی شروع ہو گئیں۔ دالیں، چینی، آٹا ،مصالحے اس کی بدترین مثالیں ہیں ۔ اس کا اثر براہ راست اُن لوگوں پر پڑا جو اپنے گھر الوں کا چولہا جلانے کی کوشش بھی کرنا چاہیں تو مشکل میں پڑ جائیں ۔حکومت تو اپنے ہی چکروں میں لگی ہے ، کسی کو ہوش نہیں تنظیموں کو تو چند ہ مل رہا ہے اب آٹا 60روپے کلو ملے یا 70اُنکی جیب سے کونسا خرچ ہو رہا ہے یہ سوال تو اُس شخص کا ہے جواپنی محدود کمائی سے بغیر کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے 20دن پہلے ایک کلو مونگ کی دال 200روپے کی خرید کر لایااور اب جب لینے گیا تو290روپے کلو ہو چکی تھی۔چینی لینے گیا تو 70سے85ہو چکی تھی ۔
ویسے پورا سوشل میڈیا چھان ماریں، ایک بات تو سب کہہ رہے ہیں کہ استغفار کیا جائے ، دُعا مانگی جائے، اپنے رب سے تعلق مضبوط کیا جائےرجوع الی اللہ کیا جائے ۔لیکن آخر کونسی غلطی سرزد ہوئی ہے ؟ ایسا کیا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے نہ عمرے قبول نہ حج، جتنی بھی بھری مساجد تھیں ، باجماعت نمازیں تھیں سب کو اللہ نے لینے سے انکار کر دیا۔ اتنی سخت ناراضی کی وجہ کیا ہے؟ جان لیں کہ وبائیں دُنیا میں پہلے بھی پھیلتی رہی ہیں ہر دور میں وارد ہوتی رہی ہیں ملکوں ملکوں سب کی صورتحال مختلف رہی ہے۔ شاہنواز فاروقی کہتے ہیں کہ انسان اپنے نقطہ نظر کا اسیر ہوتا ہے ، جیسااُس کے سوچنے کا اسٹائل ہوتا ہے یا جو چشمہ اُس کی سوچ پر لگا ہوتا ہے وہ ویسا ہی سوچتا ہے اور نتائج اخذکرتا ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ جب ابتدا میں اسے چینی وائرس کہہ کر سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا تو یکایک دُنیا بھر میں چینیوں کے خلاف متعصب رویہ سب نے دیکھا ، اسی طرح سوشل میڈیا پر جب اِس سے متعلق خبروں نے خوف کے دائرے میں بات کی تو دُنیا بھرمیں عجیب خوف کی لہر نے سب کو چکرا دیا حالانکہ امریکہ و یورپ سمیت کئی ممالک میں ایسی وبائیں اس سے قبل بھی پھیل چکی تھیں۔ اس ضمن میں سو سال قبل اسپین میں فلو کی وبا جس سے لاکھوں لوگ مرے تھے اُسکی بھی یادگاریں شیئر کی گئیں، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔یوں اگر ہم بحیثیت مسلمان سوچیں تو بلا شبہ یہ ’وائرس ‘ہم پر ایک عذاب ، تنبیہہ اِلٰہی کی صورت وارد ہوا ہے اور اُس نے ہمیں ہی نہیں دنیا کی تمام طاقتور ، متکبر اقوام کو بھی ہلا دیا ہے۔بطور مسلمان ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ منافقت کالبادہ اوڑھ کرہم نے کیا کوتاہیاں برتی ہیں ، کیسی روگردانیاں کی ہیںجو ہم اس صورتحال سے گزر رہے ہیں؟مغرب کی غلامی، مادہ پرستی، سود ی معیشت، عریانی فحاشی ، ظلم و ناانصافی، جہاد و قرآن سے دور جیسے عوامل معمولی جرائم نہیں ہیں۔بے چاری تبلیغی جماعت پر لوگ فضول میں غصہ نکالتے رہے ۔ یہاں تو پھر بھی لاک ڈاؤن مناسب وقفے سے بتا کر کیا گیا، بھارت میں جو بدترین صورتحال ہے اس وقت وہ ناقابل بیان ہے ۔وہاں جو مسلمانوں خصوصاً وہاں کے تبلیغی اجتماع کے شرکائ کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ سوشل میڈیا پر سب نے مذمت اسکی لیکن مودی مافیا عددی اکثریت کی وجہ سے چھائی رہی کیونکہ انہوں نے اپنے ملک میں تبلیغی یا مسلمانوں کو کورونا وائرس پھیلاؤ کا ذمہ دار قرار دے کر از خود ایک طرف کر دیا تھا۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں بے شمار سماجی تجربات سے دُنیا گزر رہی ہے ۔یو ٹیوب، ۔نیو یارک ٹائمز کی ۸ مارچ کی رپورٹ میں سوشل میڈیا کے اثرات کے ذیل میں عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر کے الفاظ یہ ہیں کہ
، We’re not just fighting an epidemic۔ we’re fighting an infodemic۔
رپوٹ مزید کہتی ہے کہ ’اس سے قبل یعنی سوشل میڈیا ہی کے دور میں ہم نے ڈینگی، ای بولا، سوائن فلو اور زیکا وائرس کے پھیلاؤ کو بھی دیکھا۔ آہستہ آہستہ عالمی ادارہ صحت و دیگر مستند اداروں کے علاوہ صحت عامہ کے لیے کام کرنے والی این جی اوز بھی اس قابل ہوئی کہ ڈس انفارمیشن کے دور میں سماجی میڈیا کے استعمال کو مثبت سمت دے سکیں تاکہ غلط اور گمراہ کن خبروں کے پھیلاؤ کو روکا اور مستند خبروں کا ذریعہ ظاہر کیا جا سکے۔‘ اسی طرح ایک اور اہم بات
“I see misinformation about the coronavirus everywhere. Some people are panicking, and looking to magical cures, and other people are spreading conspiracies,” said Austin Chiang, a gastroenterologist at Jefferson University Hospital in Philadelphia.
یہ تو ہم نے خود پاکستان میں بھی دیکھا ، میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کورونا کی ابتدا میں ہی یہ بات کہی جا رہی تھی کہ جتنے مریض نہیں اُس سے زیادہ ماہرین پیدا ہو چکے ہیں جو اس کے اتنے اور ایسے علاج بتا رہے ہیں کہ ڈاکٹرز خود پریشان ہو چکے ہیں۔ ویسے ڈاکٹرز کے لیے بھی اس ضمن میں اہم مشورہ ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال محدود کر دیں تو اُن کے مریضوں کے لیے بہتر ہوگا۔بات یہاں نہیں رُکی بلکہ سوشل میڈیا سے یہ بات بھی لوگ سامنےگوگل کے مطابق اس وقت کورونا ، کووڈ2019، سارس سے متعلق سب سے زیادہ سرچ تلاش ہونے والے الفاظ تھے اور ان کا تناسب اتنا زیادہ تھا کہ دو ماہ میں موسیقی، ویڈیو، ٹرمپ جیسے الفاظ سے کہیں زیادہ سرچ کیا گیا لفظ تھا جس نے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ۔ گوگل کے ڈیٹا ایڈیٹرٹیم کے رکن سائمن راجرز کےواکس کو دیئے گئے انٹرویو کے مطابق:
This is huge search volume by any measure. I haven’t seen anything like this.People are not panic searching,” Rogers said. “People are looking for reliable info like, ‘How long should I wash my hands?
اسی طرح کورونا اور سماجی میڈیا پر لوگوں کی دلچسپیوں اور من گھڑت خبروں کے تناظر میں دو اہم بیانات من و عن پیش ہیں
In a statement to The Times, Taiwan’s foreign minister, Joseph Wu, blamed China’s “internet armies” for the deluge of falsehoods, though his office declined to elaborate on how he came to that conclusion.
Throughout this whole epidemic, people have really liked conspiracy theories,” Ms. Chen said. “Why is it that during epidemics people don’t choose to believe accurate scientific information۔
ویسے سوشل میڈیا پرلوگوں کی زیادہ تر دلچسپی اس کے علاج سے متعلق رہی، جو جو ٹوٹکے بتائے گئے ، جو جو علاج بتائے گئے وہ سب نشر ہوتے رہے ۔ ہمارے دوست فواد نے تو ایک مشہور مقرر علامہ ضمیر نقوی سے اس ضمن میں علاج پر مبنی کتاب بھی لی۔ اس کے بعد علامہ دوبارہ سوشل میڈیا پر مقبول ہوئے جس میں انہوں نےکہاکہ ’ جن بدمعاش لڑکوں کو شرارتیں کرنی ہوں وہ اپنی حسرت نکال لیں اور اپھر اپنا انجام دیکھیں، یہ تو ہوگا۔

حصہ