مفتی ضیاء الرحمٰن فاروقی
کورونا وائرس (COVID-19)اس وقت عالمی مہلک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔کرہ ارض کا ہر ملک اس سے نبردآزما ہے۔اس غیر یقینی صورتِ حال میں کورونا وائرس سے کیا، کیوں، کیسےاور کس طرح کے نہ ختم ہونے والے سوالات نےجنم لیا ہے۔پوری دنیا ٹکٹکی باندھے اسلام کے آگے سرنگوں ہے کہ وہ اس کا کوئی بھی مستقل و دیرپا حل نکالے۔
آئیے ہم قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ”کورونا“ اصل میں ہے کیا، اور اس سے بچنے کی کیا کیا صورتیں اسلام تفویض کرتا ہے۔
کورونا :۔
کورونا (corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام ”کورونا وائرس“ رکھا گیا ہے۔(وکی پیڈیا)۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ اور عذاب ہے اور یہ زمانہ قدیم میں نافرمان قوموں پر نازل ہوتا تھا۔ اسے عربی زبان میں رجز، طاعون اور وبا کہا جاتا ہے،جس کا معنیٰ ہے: ہر وہ بیماری جو معمول کی بیماریوں سے الگ ہو اور جو متعدی ہو۔
اسباب ووجوہات : ۔
بنیادی طور پر تو اس کا سبب ایک ہی ہے اور وہ ہے ”اللہ کی نافرمانی“۔ لیکن کچھ خاص نا فرمانیاں ایسی ہیں جن پر اللہ نے عذاب اور پکڑ کی دھمکی دی ہے،جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ داخل ہو جاؤ اس بستی میں، اور یہاں سے فراوانی کے ساتھ جیسے چاہو کھاؤ لیکن (نعمت کے دوام کےلیے) کہتے رہو کہ اے اللہ ہمارے گناہ معاف فرما، تو ہم تم میں سے جو گناہگار ہیں اُن کے گناہ معاف کردیں گے، اور جو نیک ہیں اُن کے اجر میں اضافہ کریں گے۔لیکن ظالموں نے وہ بات ہی بدل ڈالی جو ان سے کہی گئی تھی، تو ہم نے ظالموں پر آسمان سے عذاب (وبائی بیماریاں )نازل کیا ان کی نافرمانی کی وجہ سے“(سورہ بقرہ: 58۔59)سورہ اعراف میں ہے کہ :”ان کے ظلم کی وجہ سے“ (جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے)۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جب تمہارے اندر پندرہ بداعمالیاں پیدا ہوجائیں گی تو پھر عذاب آنا شروع ہوجائے گا :(1)غریبوں کے مال کو بڑے لوگ اپنی جاگیریں بنائیں گے۔ (2)امانت کو لوگ مالِ غنیمت کی طرح استعمال کریں گے۔ (3) زکوٰۃ دینے کو لوگ خسارہ سمجھیں گے۔ (4)تعلیم دنیوی مقاصد کے لیے حاصل کی جائے گی۔ (5) بندہ بیوی کی اطاعت کرے گا۔ (6) والدہ کی نافرمانی کرے گا۔ (7)دوست کو قریب کرے گا۔ (8) والد کو دور کرے گا۔ (9)مسجدوں کا تقدس شور شرابے کی وجہ سے ختم ہوجائے گا۔ (10)قبیلے کا سربراہ فاسق آدمی بن جائے گا۔ (11)قوم کا سربراہ کمینہ آدمی بنایا جائے گا۔ (12)بندے کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی۔ (13) گانا بجانا عام ہوجائے گا۔ (14)شراب نوشی عام ہوجائے گی۔ (15)بعد والے لوگ قدیم زمانے کے لوگوں کو برا بھلا (یعنی قدامت پسندی کا طعنہ) کہیں گے۔
جب یہ سب باتیں ہونے لگیں گی تو تم سرخ آندھی کا انتظار کرو۔ زلزلہ، زمین میں دھنسنا اور صورتوں کا بگڑنا اور آسمانی پتھراؤ اور دیگر نشانیاں جو مسلسل یکے بعد دیگرے ظاہر ہونے لگیں گی۔“ (ترمذی،حديث 2210)۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی قوم میں خیانت ظاہر اور کھلم کھلا ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کے دل میں اس کے دشمنوں کا خوف اور ڈر ڈال دیتا ہے۔ اور جب کسی قوم میں زنا کاری پھیل جاتی ہے تو اس قوم میں بکثرت اموات ہونے لگتی ہیں۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے تو اُس قوم کی روزی کاٹ دی جاتی ہے۔ اور جو قوم ناحق فیصلہ کرنے لگتی ہے تو اُس قوم میں خوں ریزی پھیل جاتی ہے۔ اور جو قوم عہدشکنی اور بدعہدی کرنے لگتی ہے اُس قوم پر اُس کے دشمن کو غالب و مسلط کردیا جاتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ باب تغیرالناس)
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:”اس وقت کیا ہوگا جب پانچ چیزیں تم میں پیدا ہوجائیں گی؟ اور میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ تم میں پیدا ہوں یا تم ان (پانچ چیزوں) کو پاؤ (وہ یہ ہیں):۔
1-بے حیائی: جسے کسی قوم میں عَلانیہ (ظاہراً) کیا جاتا ہو تو اس میں طاعون اور وہ بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو ان سے پہلوں میں نہیں تھیں۔
2- جو قوم زکوٰۃ سے رک جاتی ہے تو وہ (درحقیقت) آسمان سے ہونے والی بارش کو روکتی ہے، اور اگر جانور نہ ہوتے تو ان پر بارش برستی ہی نہیں۔
3- جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط سالی، رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہوجاتی ہے۔
4- امراء جب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے بغیر فیصلے کرتے ہیں تو اُن پر دشمن مسلط ہوجاتا ہے جو اُن سے اُن کی بعض چیزوں کو چھین لیتا ہے۔
5- جب اللہ کی کتاب اور نبیﷺ کی سنت کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں جھگڑے پیدا کردیتا ہے“۔ (الترغیب،ج:3،ص:169)
علاج اور تدارک :۔
اصل علاج اور تدارک تو اس کا یہ ہے کہ جن بداعمالیوں کی وجہ سے یہ وبا آتی ہے ان کو چھوڑا جائے، اور واپس اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی کی طرف آیا جائے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب لوگ اپنی حالت تبدیل کرتے ہیں تو میں بھی اپنا فیصلہ تبدیل کرتا ہوں۔ قرآن و حدیث کے اندر مذکور بداعمالیوں میں کون سی بدعملی ہے جو کہ اس وقت ہمارے معاشرے کے اندر موجود نہیں ہے!
ہمیں چاہیے کہ اللہ کی طرف توجہ کرکے گناہوں کی معافی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا تہیہ کریں۔ اللہ کی طرف مستقل رجوع سے ہمیشہ کا سکون و اطمینان اور دنیا و آخرت کی کامیابی یقینی ہے۔ قرآن پاک کی موجودگی میں کسی بھی مسلمان کا پریشان ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ اللہ سے دوری اور اسلامی نظام سے بغاوت کی وجہ سے آج ہر طرف خوف و ہراس، بھوک وافلاس اور پریشانی ہے۔ کورونا وائرس سمیت دیگر بیماریوں و پریشانیوں سے نجات اور آزمائش سے نکلنے کا واحد حل ”رجوعِ الی اللہ “ہے۔
توبہ و استغفار:۔
ہم سب کو انفرادی و اجتماعی طور پر گناہوں سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے رب العالمین کی رضا، فرماں برداری اور خوشنودی کی طرف آنا ہوگا، یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے۔ حکومت بھی اپنی اصلاح کرے۔ فحاشی و عریانی اور رشوت و حرام خوری کے نقصانات اور اللہ کے قانون کی خلاف ورزی کی پریشانیوں سے قوم کو آگاہ کریں۔ ہر فرد دوسرے کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دے۔ اپنی ذات سے توبہ و استغفار اور رجوعِ الی اللہ کا آغاز کریں، اللہ کی راہ میں خرچ کریں، غرباء و مساکین کی مشکلات حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔ حکمرانوں کے رجوعِ الیٰ اللہ کرنے سے پوری قوم اللہ کی طرف رجوع کرے گی۔ اس طرح اللہ کی رضا و خوشنودی پوری قوم کو میسر ہوگی۔
لہٰذا من حیث القوم بھی اور من حیث الفرد بھی ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا چاہیے اور اپنے گناہوں پر ندامت اور اجتماعی و انفرادی توبہ کرلینی چاہیے۔ دعاؤں، ذکر و اذکار اور وظائف سے کام چلانا برا کام نہیں ہے، لیکن جب بیماری کا سبب معلوم ہو تو پہلے اس وجہ اور سبب کو ختم کرنا چاہیے، پھر اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے دعائوں اور وظائف سے کام لینا چاہیے۔
مثلاً کسی جگہ مُردار پڑا ہوا ہے جس کی بدبو ہر طرف پھیل رہی ہے، تو لوگ اس سے بچنے کے لیے کیا کریں گے؟ کیا وظیفے پڑھیں گے؟ ذکر و اذکار کریں گے؟ نہیں، بلکہ سب مل کر اس کو ہٹانے کی کوشش کریں گے، ساتھ ساتھ دعا بھی کریں گے، تاکہ اس کے مضر اثرات سے ہم محفوظ رہیں۔
لہٰذا ہم حکومت اور ڈاکٹروں کی احتیاطی تدابیر اور علمائے کرام کے وظائف کے قائل ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ جن بداعمالیوں کی وجہ سے یہ وبا آتی ہے وہ سب ہمارے اندر موجود ہیں۔ فی الفور ان کے ازالے کی کوشش اور عملی اقدامات کیے جائیں :
مثلاً: (1)اسلامی نظام کا اعلان۔ (2)نظام صلوٰۃ کا اعلان۔ (3)سود پر پابندی۔ (4)رشوت پر پابندی۔ (5) فحاشی و عریانی پر پابندی۔ (6) ظلم و استحصال کے نظام کا خاتمہ۔ (7)زکوٰۃ و عشر کا فعال نظام۔ (8) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا نظام۔ (9) جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیت و سہولت کاری۔ (10)مظلوموں کی امداد و فریاد رسی وغیرہ وغیرہ… اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں پر ندامت اور کثرت کے ساتھ استغفار کا اہتمام۔
قرآن کریم میں اللہ نے دو چیزوں کے ہوتے ہوئے عذاب نہ آنے کا وعدہ فرمایا ہے، جن میں سے ایک چیز اٹھ گئی ہے اور ایک چیز بچی ہوئی ہے: (1) جب تک آپ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہوں۔ (2) اور جب تک لوگ استغفار کریں گے۔
لہٰذا اب یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ آپ ﷺ ہمارے درمیان اب نہیں ہیں، لیکن یہ دوسری چیز ہمارے پاس اور ہمارے اختیار میں ہے، لہٰذا ہمیں کثرت کے ساتھ استغفار کرنا چاہیے۔
آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: ”جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ہر مشکل کو آسان کردیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو۔ اس لیے جماعت اسلامی عین شرعی تقاضے کے مطابق رجوعِ الی اللہ کی تحریک چلا رہی ہے، لیکن کچھ لوگ اس نازک موقع پر بھی قوم کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جو کہ انتہائی قابلِ نفرت اور قابلِ مذمت ہے۔
احتیاطی تدابیر:۔
احتیاطی تدابیر اختیار کرنا عین شریعت کا تقاضا ہے۔کچھ وبائی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو متعدی بیماریاں کہلاتی ہیں۔
لہٰذا اس حوالے سے جتنی احتیاطی تدابیر ممکن ہوں قوم کو اُن سے آگاہ ہونا، اور انہیں بروئے کار لانا چاہیے۔ ایک دفعہ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام جارہے تھے، راستے میں سرغ کے مقام پر فوجی دستوں کے چند سربراہان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ شام میں ایک وبائی بیماری پھیلی ہوئی ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ شروع والے مہاجروں کو بلاؤ۔ انہوں نے بلایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا کہنا ہے کہ شام جانا چاہیے یا نہیں؟ تو ان کا اس میں اختلاف ہوا، کسی نے کہا کہ جانا چاہیے اور کسی نے منع کیا۔ تو آپ نے پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ جاکے انصار کو لے آؤ۔ جب وہ ان کو لے آئے تو ان کی رائے میں بھی اختلاف پایا گیا، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو لے کر آؤ جنہوں نے فتح مکہ کے قریب والے زمانے میں ہجرت فرمائی ہے۔ وہ ان کو لے کر آئے تو سوائے ایک دو کے سب نے فیصلہ دیا کہ آپ شام نہ جائیں۔ تو امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں سے واپسی کا فیصلہ کیا، اس پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اگر یہ بات آپ کے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی تو میں اسے سزا دیتا، لیکن اے ابو عبیدہ ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں (یعنی یہ دونوں اللہ کی تقدیر ہے)۔ اے ابو عبیدہ اگر آپ اپنے اونٹوں کو کسی وادی میں لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ ویرانی ہے اور دوسری جگہ ہریالی ہے اورآپ اپنے اونٹوں کو ہریالی کی طرف لے جاتے ہیں تو کیا یہ تقدیر سے بھاگنا ہے ؟ بلکہ یہ دونوں اللہ کی تقدیر ہے۔یہ گفتگو چل رہی تھی کہ اتنے میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے جوکہ کسی حاجت کے لیے گئے تھے، فرمانے لگے کہ مجھے اس مسئلے کے بارے میں معلوم ہے، میں نے نبی اکرمﷺ سے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں کوئی بھی وبا پھیلی ہو تو وہاں نہ جاؤ،اگر آپ وہاں ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور وہاں سے واپس آگئے۔(مؤطا امام مالک )۔
اسی طرح حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ طاعون وہ وبائی بیماری ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر تم سے پہلے نازل ہوئی تھی، لہٰذا اگر تم وہاں پر ہوتو بھاگو نہیں، اور اگر باہر ہوتو وہاں جاؤ نہیں۔( مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد )۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺ نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے، اور اسے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے رحمت بنایا ہے، پس جو کوئی مسلمان طاعون میں مبتلا ہوجائے پھر ثواب کی امید رکھ کر اس پر صبر کرے اور اسی بستی میں ٹھیرا رہے اس یقین کے ساتھ کہ اسے وہی مصیبت پہنچے گی جو اللہ نے اس کے لیے مقدر کررکھی ہے، تو ایسے مومن کے لیے شہید کے برابر اس کا اجر ملے گا۔ (بخاری شریف)۔
لہٰذا احتیاطی تدابیر اختیار کرنا عین شریعت کے مطابق ہے۔
عذاب یا ابتلاء:۔
عذابِ الٰہی جب آتا ہے تو وہ صرف بد عمل لوگوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اچھے برے سب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :”اور اس عذاب سے ڈرو جو صرف ظالموں تک محدود نہ ہوگا۔“ نیک لوگوں کے لیے اور اُن لوگوں کے لیے جو ان کے سدھار کا ذریعہ بنتا ہے، آزمائش کہلاتا ہے۔ اور جو لوگ اس سے عبرت اور نصیحت حاصل نہیں کرتے اُن کے لیے عذاب ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر صبر کرنا اور عبرت و نصیحت حاصل کرنا، اپنے گناہوں پر ندامت کی طرف پلٹنا ہمارا فرض ہے، پھر اگر اس سے موت بھی واقع ہوجائے تو وہ شہادت کہلائے گی۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ”مطعون بھی شہید ہے۔“ (یعنی جو طاعون کی بیماری کی وجہ سے مرجاتا ہے تو وہ شہید ہے۔)۔
پاکستان کے تمام اربابِ اختیار ہوں یا اقتدار، ان کا جرم دنیا کے دیگر ملکوں کے ظالموں سے ایک درجہ اس لیے زیادہ ہے کہ وہ اللہ کے باغی ہیں اور پاکستان بناتے وقت اس سے کیے گئے عہد سے پھر چکے ہیں، اس لیے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ”کورونا وائرس“ واقعی اللہ کا عذاب ہے تو وہ اس سے اُس وقت تک نہ بچ سکیں گے جب تک اپنے عہد کی جانب نہ پلٹ آئیں اور اپنی طاقت اللہ کے دین کو نافذ کرنے میں نہ لگا دیں۔
وظائفِ مسنونہ
اگر صبح و شام ان وظائف کا اہتمام کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز ہم نہ صرف یہ کہ کورونا، بلکہ ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ رہیں گےّ
(1) آیۃ الکرسی، روزانہ صبح و شام، تین مرتبہ۔
(2)سورۃ الاخلاص، ﴿تین مرتبہ ﴾۔
(3)سورۃالفلق، ﴿تین مرتبہ ﴾۔
(4)سورۃالناس، ﴿تین مرتبہ ﴾۔
(5) بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ تین مرتبہ ﴾۔
(6) أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿تین مرتبہ۔
(7) لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ۔۔۔ ﴿40 مرتبہ پڑھیں گے تو ان شاء اللہ حفاظت ہوگی ﴾۔