کورونا کی آڑ میں

625

کہنے والے کہتے ہیں کہ نئے کورونا وائرس (Covid-19)کا کسی مذہب، فرقے، رنگ، نسل، سیاسی نظریے یا فلسفیانہ مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک عالمگیر وبا ہے جس نے رنگ، نسل، مذہب اور جنس و عمر دیکھے بغیر سب کو بیک وقت اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اس وقت مسلمان ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر میں لادین ممالک میں اس وبا سے متاثر ہونے والوں اور ہلاک شدگان کی جو تعداد سامنے آرہی ہے اس نے عالمگیر سطح پر ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔
آج سے ایک سو دو سال قبل 1918ء میں اسپینش انفلوئنزا کی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف لاشوں کے انبار لگادیے تھے۔ دو سال کے عرصے میں اس انفلوئنزا نے دنیا بھر میں کم از کم پچاس ملین افراد کی جان لے لی تھی۔
ہوسکتا ہے اِس وقت بھی مذہب اور جغرافیے کی بنیاد پر اس وبا کو دیکھا جارہا ہو۔ مگر یہ بات ضرور سامنے آئی کہ مذہب اپنے ماننے والوں کو احتیاط سے نہیں روکتا، اور احتیاط کے نام پر مذہبی شعائر کو ترک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی ہی نہیں رہتا۔
معاشرے کی تباہی و بربادی میں کسی ایک خاص عمل کا ہی حصہ نہیں ہوتا، بلکہ مجموعی اعتبار سے اللہ کے بنائے ہوئے نظام سے روگردانی اور ”میرا جسم میری مرضی“ جیسے غیر منطقی (illogical) نظریات کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ اس وبا کے مغربی ممالک میں اتنی تیزی کے ساتھ پھیلنے اور اموات کی شرح کا سب سے اہم پہلو تو یہ ہے کہ ان ممالک میں جنسی بے راہ روی، آزادانہ جنسی اختلاط، خاندانی نظام کا نہ ہونا، یہاں تک کہ جنسی اختلاط جانوروں اور محترم رشتوں کے درمیان قائم رکھنے پر بھی کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، تو ایسے معاشرے کے زندہ رہنے کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔
مغربی دنیا میں ”میرا جسم میری مرضی“ محض ایک سلوگن کے طور پر نہیں بلکہ معاشرتی بے راہ روی کے کئی برس سے قائم نظام اور جنرل پریکٹس کی بنیاد پر گھڑا گیا ہے۔ جس معاشرے میں مرد کا مرد سے اور عورت کا عورت سے جنسی تعلق قائم رکھنا انفرادی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر قانونی سرپرستی میں چل رہا ہو، جنسی تسکین کے لیے انسان اور جانور میں تمیز تو دور کی بات محترم رشتوں کی پاس داری بھی نہ کی جائے تو اس معاشرے کے تحفے ایڈز، اور دیگر مہلک ترین جان لیوا امراض کی صورت میں ہمارے سامنے لائے جاتے رہے ہیں۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ ہم اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر کریں۔
اب اگر مسلمان ممالک بھی اس وبا کی زد میں آئے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے کہ ہم نے ایسے بدبودار نظام کے خلاف اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہاں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کے معاملات ہیں۔
اسلامی ممالک میں بھی جنسی بے راہ روی کو بڑھاوا دینے والے، اور اسلامی تعلیمات کے منافی قوانین بن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام کے خلاف قرارداد کو اسمبلی میں پیش کرنے سے روک دیا جاتا ہے، زنا جیسے قبیح و مکروہ فعل کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے ”بالرضا جنسی تعلق“ کو جائز قرار دلوایا گیا، اور مجال ہے کہ عوام نے اپنا کوئی مشترکہ احتجاج ریکارڈ کروایا ہو۔ اِکا دُکا کسی گوشے سے چند نحیف آوازیں اٹھیں جنہیں حکومتِ وقت نے خاموش کروا دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آئے دن کی گستاخیاں معمول بن چکی ہوں اور گستاخی کرنے والوں کو پارلیمنٹ اور حکومت کی مشترکہ سرپرستی بھی حاصل ہو تو… تو ایسے بگاڑ زدہ معاشرے میں اللہ تعالیٰ من و سلویٰ تو اتارنے سے رہا۔
الحمدللہ ہمارے پاکستانی معاشرے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ انفرادی اعتبار سے ہم اپنے اوپر مغربی اور لادین نظریات کو کسی بھی قیمت پر برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ختمِ نبوت کے حوالے سے کوئی بھی حکومتی سازش سامنے آئی اسے بے نقاب کیا جاتا رہا، عریانی و فحاشی کے سیلاب اور مغربی ثقافتی یلغار کے آگے بھی بند باندھا جاتا رہا، اور اسلامی قوانین میں رد و بدل کو بھی آسانی سے معاشرے نے ہضم نہیں کیا۔ مگر اس سب کے باوجود مجھے ڈر لگتا ہے کہ ہماری غالب اکثریت نے اپنے اوپر جس قسم کے حکمران مسلط کیے ہیں، کہیں یہی جرم ہمارے لیے آزمائش نہ بن جائے۔ اس لیے کہ ان ہی حکمرانوں نے درپردہ سازشوں کے ذریعے مغربی افکار اور مغرب کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اب تک فعال ترین کردار ادا کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ آج سے پہلے کبھی بھی پارلیمنٹ ہاؤس میں فاحشہ عورتوں کی اس طرح نمائش نہیں کی گئی جیسی اب ہورہی ہے۔ شراب کی بوتلوں کا بوریوں کی صورت میں کچرا کنڈی میں پھینکا جانا اس سے پہلے کبھی خبروں کی زینت نہیں بنایا گیا۔ پارلیمنٹ میں شراب پر پابندی کے بل کی مشترکہ طور پر مخالفت، حکمرانوں کی تخلیے میں کی جانے والی خرافات، کھلم کھلا بے ہودگی پر مبنی ڈرامے بیس چینلوں پر چلنا، ٹی وی پر نشر ہونے والی اذان پر پابندی، اور زنا کی ترغیب جیسے عنوانات پر ڈرامے بنانا… یہ عوام کا نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کا ایجنڈا رہا ہے۔
یقین جانیں آج جب لکھنے بیٹھا ہوں تو ذہن میں عجب سی کھچڑی پک رہی تھی کہ کس موضوع پر بات کروں۔ سچ پوچھیں تو ذہن میں تو یہی تھا کہ پاکستان میں کورونا کی آڑ میں جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے اسے موضوعِ گفتگو بنایا جائے، لیکن اس سے پہلے کہ میں اس پر کچھ لکھتا، بے اختیار وہ لکھتا چلا گیا جو اوپر آپ پڑھ چکے ہیں۔
ان ابتدائی راز و نیاز کے بعد آجاتے ہیں اصل موضوع کی جانب، کہ ہمارے حکمران کورونا کی وبا کی آڑ لے کر چالاکی کے ساتھ جو گیم کھیل رہے ہیں اس پر بات کی جائے۔
مان لیا کہ ہمارا کپتان بہت ایمان دار ہے، اسے کرپشن سے دشمنی کی حد تک نفرت ہے۔ مگر میرے سلطان! چینی کی واردات پر تو آپ نے کمال کا سخت ایکشن لیا۔
یہ کیا کہ آپ نے چینی و گندم مافیا کو بے نقاب کرنے کا اعلان تو کیا، مگر جب رپورٹ میں آپ ہی کی کابینہ کے دو معتبر ترین نورتن سامنے آئے تو پریشان ہوگئے، اور اتنی ”سخت سزا“ تجویز کی کہ انہیں ایک عہدے سے ہٹاکر مال بنانے کے لیے دوسرا قلم دان تھما دیا۔ ماضی میں بھی آپ اپنے درجنوں وزیروں کے ساتھ قلم دانوں کا تبادلہ فرماتے رہے ہیں۔ اور تو اور آپ کرپشن پر اتنے ”غصے“ میں دکھائی دئیے کہ ”نندی پور پروجیکٹ“ کے ملزم بابر اعوان کو مشیر، اور سپریم کورٹ کے نامزد ملزم اعظم سواتی کو وزیر مقرر کردیا۔ اللہ بچائے آپ کے غصے سے… جس میں سراسر نقصان عوام کا، اور سو فیصد فائدہ آپ کی کرپٹ ترین مافیا کا ہوتا ہو۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین نے آپ کی تیسری شادی کی سال گرہ پر ڈیڑھ کروڑ کی قیمتی گاڑی تحفے میں دی تھی، تو اس کے باوجود آپ نے اُن کو کیوں سزا دے دی؟
جیسے ہی ہمارے سلطان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، انہوں نے حسبِ عادت تاریخی یوٹرن لیتے ہوئے ان کے بزنس کو عظیم الشان سبسڈی (مراعاتی پیکیج) دینے میں ایک دن کا بھی تامل نہیں کیا۔ اب آپ کچھ بھی کہتے رہیں، یوتھیے تو اس کو بھائی چارہ کہتے ہیں!
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ چینی، آٹا بحران رپورٹ کے آفٹر شاکس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی سیاسی فضا میں شدت بڑھ گئی ہے۔ اگر وزارتوں اور کرسیوں کی تبدیلی ہی رگڑا ہے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کو رگڑا لگا ہے۔ خسرو بختیار سے فوڈ سیکورٹی کا قلمدان لے کر اقتصادی امور کی وزارت دے دی گئی ہے، یعنی ”بیٹا پہلے کم کما رہے تھے، اب کھل کر کماؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ“ پروگرام پر عمل کرتے چلے جانا۔
جہانگیر ترین جو سپریم کورٹ سے مجرم کی سند حاصل کرنے کے بعد بظاہر کسی حکومتی عہدے پر نہیں تھے، ان کو بھی عہدے سے ہٹادیا گیا، یعنی اب وہ غیر اعلانیہ ”ٹاسک فورس برائے زراعت“ کے سربراہ نہیں رہے۔ اگر جہانگیر ترین اپنا ہیلی کاپٹر کابل حکومت کے حوالے نہ کرتے تو کبھی بھی ان کی کمپنی کو مراعات نہیں ملنی تھیں۔ آدھی سے زیادہ پارلیمنٹ جہانگیر ترین کی زرخرید ہے، وہ اگر چاہتے تو میرے سلطان کی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی تھی۔
تادمِ تحریر سلطان کی کرپٹ مافیا بے نقاب ہونے کے بعد زیادہ فائدے میں دکھائی دے رہی ہے، اس لیے کہ ان کو مال بنانے کے لیے زیادہ بڑا میدان حوالے کردیا گیا ہے۔ واہ رے سلطان… تیرا انصاف!
اس حوالے سے ہمارے ایک محترم دوست آفتاب مضطر صاحب کے دو اشعار پیش خدمت ہیں:۔

عدلِ جہانگیر اور خسرو
جاری ہے لوگو فائدہ اٹھاؤ
لے لو خوب ہے اب موجود
آٹا چینی موت کے بھاؤ

کورونا فنڈز کے حوالے سے عالمی امداد اور پیکیجز کے بعد سے میرا سلطان کسی کے قابو میں نہیں آرہا۔ امداد کے نام پر آنے والی رقم کہاں چلی گئی، کسی کو نہیں معلوم۔ البتہ چائنا سے ملنے والی کورونا ٹیسٹ کٹس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ شوکت خانم کو دے دی گئی ہیں۔
ہر خاندان کو بارہ ہزار روپے ٹرانسفر کرنے والے ناک میں راکٹ کا دھواں مار کر مست پڑے ہیں۔
احساس پروگرام میں ہر مستحق کو بارہ ہزار کی رقم کا اعلان ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے، مگر موبائل ایپ جام ہوچکی ہے۔ احساس پروگرام کے نام پر پیسے بٹورنا کوئی سلطانِ اعظم سے سیکھے۔
دس لاکھ ٹائیگرز کے لیے ٹی شرٹوں کی قیمت فی بنیان ایک ہزار روپے۔ اب اس کو ضرب دے دیجیے دس لاکھ سے!
کسی کو امداد ملے نہ ملے، میرے سلطان کو ہر ایس ایم ایس پر سات روپے ملیں گے۔ 8171 پر SMS کرتے ہی آپ کے فون سے 7 روپے کٹیں گے، 10 کروڑ میسج 7 ارب روپے کے بنتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود حساب لگا لیجیے (لاک ڈاون میں آپ کا وقت مزے سے کٹ جائے گا)۔
کورونا کو اتنا خطرناک ثابت کیا جارہا ہے کہ مرنے والے کی میت کو دفنانا، جنازہ پڑھنا سب کچھ ہی مشکل تر بنادیا گیا۔ اس پر ڈبلیو ایچ او کو وضاحت کرنی پڑی کہ مرنے والا نہ تو چھینکتا ہے، نہ ہی کھانستا ہے، پھر کیوں اس کا خوف بٹھایا جارہا ہے! میں تو کہتا ہوں کہ مرنے والوں سے وائرس نہیں پھیلتا جتنا نقصان زندہ کرونائی سلطان اور کورونائی کابینہ سے قوم کو لاحق ہے… اس کی فکر کیجیے۔
میرا سلطان صرف کرکٹ کا سلطان نہیں بلکہ اقتصادیات کا بھی سلطان ہے۔ اپوزیشن تو سلطان کی ہر اچھی بات سے جلتی ہے۔ اب دیکھیں ناں جب پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا… یعنی دیوار کے ساتھ لگ چکا تھا، میرے سلطان نے ٹیکہ لگایا اور ایک ہی جست میں ڈالر 114 سے 166 روپے تک پہنچ گیا۔
آٹا چینی بحران سے حکومت کے خزانے میں راتوں رات ڈالروں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔
اس گیم میں سلطان نے سب کو شریک رکھا ہے۔ سلطان کو حکومت میں لانے والی رئیل اسٹیٹ مافیا تھی جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی صورت میں اب بھی سلطان کے ساتھ ہے۔ سلطان دوستوں کو نہیں بھول سکتا… جس جس کا کوئی نقصان ہوا ہے وہ اب رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرلے، کیونکہ ہمارے سلطانِ اعظم نے ان کے کالے دھن کو سفید کرنے کی قانونی اجازت دے دی ہے۔
اب رہ گئیں کورونا وائرس کے خلاف امدادی سرگرمیاں اور لاک ڈاون کا شکار ہونے والے سفید پوش ملازموں، مزدوروں اور مستحق خاندانوں کی مدد… تو اس کام کے لیے الخدمت، جماعت اسلامی، اور سیلانی، ایدھی جیسی رفاہی تنظیمیں تو موجود ہی ہیں جو سلطانی حکومتوں کے کالے کرتوتوں کے باوجود اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں۔
مگر یہ نہیں بھولنا ہے کہ سلطانی مافیا کو سروں پر مسلط کرنے والے کوئی اور نہیں ہم ہی ہیں۔ اس اجتماعی غلطی کی معافی تو مانگنی ہی ہوگی۔ ان شا اللہ اس وبا سے بھی اللہ صرف اپنے نیک بندوں کے طفیل پاکستانیوں پر اپنا فضل فرمائے گا۔

حصہ