ہم بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا

770

قدسیہ ملک
جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن نے کورونا وائرس کی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں اپنی 300 ایمبولینس، 53 اسپتال اور 10 جدید لیبارٹریاں حکومت کے حوالے کی ہیں۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار گھر گھر راشن کی تقسیم میں مصروفِ عمل ہیں۔
آئیے میں آپ کو الخدمت کے کچھ کارکنان سے ملواتی ہوں۔ ایسے نفوس سے جماعت اسلامی الخدمت بھری پڑی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر سومرو 1956 – 2020ء: ڈاکٹر فیاض عالم بتاتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی ہی سے جوش، جذبہ اور اسلام کے غلبے کی دھن اور قائدانہ صلاحیت عبدالقادر سومرو نے اپنے والد سے ورثے میں حاصل کی۔ ان کے والد حیدر بن محمد سومرو جماعت اسلامی کے رکن اور مبلغِ اسلام تھے۔
زمانہ طالب علمی میں عبدالقادر سومرو کی نظامت میں جمعیت کا پینل شاندار فتح سے ہم کنار ہوا۔ لوگوں کی بڑی تعداد عبدالقادر بھائی کو نہیں جانتی، کیونکہ وہ میڈیا کے تماشوں سے دور رہ کر کام کرنے پر یقین رکھتے تھے- کئی سال پیما کی مرکزی شوریٰ میں بھی رہے۔ سمندر کی طرح خاموش اور پُرسکون رہ کر کارہائے نمایاں انجام دینے والے سچے تحریکی فرد تھے۔ الخدمت فریدہ یعقوب اسپتال کا کروڑہا روپے کا پلاٹ انہی کی ذاتی کوششوں سے ملا تھا۔ انہیں اپنے مریضوں کی صحت اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی، اور یہ اندازہ تو کسی کو بھی نہیں ہوسکتا کہ ان کے پاس مزید خواب دیکھنے کے لیے وقت تھا بھی یا نہیں؟
اے کورونا کی وبا تُو نے مسیحائوں کے لشکر کا بڑا قیمتی شہسوار گرادیا۔ اللہ انسانوں کو توفیق دے کہ تجھ پر قابو پاسکیں۔ بموں اور میزائلوں کی ایجادات سے باز آجائیں۔ زمین کو پھولوں اور خوشبوئوں سے بھرنے کی فکر کریں۔ سرخ گلاب کا ایک پودا کاش ہم بھی ڈاکٹر عبدالقادر سومرو کی قبر کے سرہانے لگا سکیں، اور کتبے پر لکھ سکیں کہ ”یہاں انسانیت کا ایک خادم آرام کررہا ہے“-
یہ ہیں سابق یوسی ناظم شاہ فیصل عبدالواسع بھائی، جن کے خوبصورت نوجوان 20 سالہ بھائی کو ایک لسانی تنظیم نے اس پاداش میں موت کی نیند سلادیا کہ وہ اپنے شہر، اپنے علاقے، اپنے لوگوں، اپنے وطن، اور اس میں بسنے والے ہر انسان سے محبت کرتا تھا۔
اس سفاکانہ موت کے باوجود یہ خاندان ذرہ بھر بھی اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ پوری قوت، توانائی، ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنا تمام مال و اسباب، اپنے وسائل، اپنی جوانیاں، اپنا سب کچھ آج بھی جماعت اسلامی اور اس وطنِ عظیم کو دینے کے لیے مستعد اور تیار و کامران کھڑا ہے۔ مسائل اور مشکلات نے ہر دور میں اس خاندان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ بھائی کی شہادت کے دس سال بعد جب جواں سال بھتیجا اسلام آباد اجتماعِ عام میں جاتے ہوئے اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوا تھا تو قاضی حسین احمد خود ان کے گھر تشریف لائے اور اس گھرانے کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ کیونکہ ان کے والدِ محترم مولانا محمد عبدالعزیز نے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ بیٹا! جماعت اسلامی سے کبھی کچھ لینے کی نہیں، ہمیشہ جماعت کو دینے کی نیت کرنا۔ ایسے ہی خاندانوں اور ان پُرعزم نفوس سے الخدمت بھری پڑی ہے۔
یہ ہے شاہ فیصل ٹائون کا سابق یوسی ناظم اور اس کی ٹیم ،جو جماعت کے مخلص کارکنان پر مشتمل ہے۔ شاہ فیصل ٹاؤن کی گلیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ ہر مصیبت کی گھڑی میں بلا تمیزِ رنگ و نسل، فرقہ، ذات اور مسلک کے، اس نے ہمیشہ نعمت اللہ خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر وہ کام کیا جو خلقِ خدا کو فائدہ پہنچا سکے… چاہے وہ اجتماعی قربانی ہو یا نوجوانوں کے لیے کرکٹ اور فٹ بال ٹورنامنٹ کا انعقاد… حلیم پارٹی ہو یا سیرت النبیؐ کانفرنس۔ مصطفیٰ کمال کے دور میں منتخب ہوئے اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہر مشکل میں عوام میں رہ کر کام کیا، اور آج تک کررہے ہیں۔ اللہ انہیں ہمیشہ ان کے عظیم، روشن، اقرباء پروری سے پاک اور حب الوطنی سے سرشار تمام مقاصد میں کامیاب کرے، آمین۔
اندرون سندھ میں سماجی و مذہبی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن نے مساجد کے ساتھ ساتھ مندروں میں بھی کورونا کے پیش نظر کیمیکل اسپرے کیا۔ سکھر میں بلاتفریق راشن بانٹنے کے ساتھ ساتھ مساجد، مندروں اور امام بارگاہوں میں کورونا وائرس سے بچاؤ کےلیے کیمیکل اسپرے کرنے میں مصروف ہے۔ رہنما الخدمت فاؤنڈیشن محمد زبیر کا کہنا تھا کہ شہر کی کئی مساجد، مندروں اور امام بارگاہوں میں اسپرے کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
غیر مسلموں نے بھی ایسے کام کو بہت سراہا اور ان کو مسیحا قرار دیا۔ والمیکی مندر کے پجاری پیارے لال کہتے ہیں کہ بہت اچھا کام ہے، اور ان لوگوں کی مہربانی جو یہاں آئے۔ سندھ صوفیوں اور اولیائے کرام کی دھرتی ہے۔ اس تنظیم کا کام انسانی بھائی چارے کا بڑا پیغام ہے۔
خواجہ سرا بھی ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں، اس حقیقت کو ہم جھٹلا نہیں سکتے، لیکن انہیں ماں باپ، بہن بھائی، بلکہ اردگرد کے لوگ بھی قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ والدین، بہن بھائیوں، رشتے داروں اور معاشرے کی ستم ظریفی کا شکار ہیں، اور پے درپے محرومیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو انہیں ہر موڑ پر احساس دلاتا ہے کہ خواجہ سرا صرف گھر گھر مانگنے، ناچنے گانے اور لوگوں کی ہوس کا نشانہ بننے کے لیے ہی پیدا ہوتا ہے۔ خوشیوں، تعلیم، صحت، شیلٹر اور ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہوتے ہیں۔ صورت حال یہاں تک سنگین ہوتی ہے کہ ایسے افراد اپنے وجود کو باعثِ شرمندگی اور ناکارہ سمجھتے ہیں اور بس۔
اسی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں امیر جماعت اسلامی نے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا پہلے ہی آئیسولیشن کا شکار ہیں، حالیہ لاک ڈاؤن ان پر بھاری گزرے گا۔ جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ انہوں نے خواجہ سراؤں کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ کسی قسم کی مدد کے لیے اپنے علاقے میں قائم جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے دفاتر سے رابطہ کریں۔ سراج الحق کے اس پیغام کو پورے پاکستان میں پسند کیا جارہا ہے۔ ٹویٹر پر جماعت اسلامی کے ناقدین نے بھی سراج الحق کے اس اقدام کو دل سے سراہا اور اس کا اظہار کیا ہے۔
ملک کے مختلف شہروں، قصبوں، دیہات، اضلاع اور علاقوں میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی ایک ٹویٹ پر الخدمت فاؤنڈیشن نے اس نادار طبقے کو راشن تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ الخدمت کے ضلعی صدر منظر خٹک نے ڈیرہ اسماعیل خان میں خواجہ سراؤں میں راشن تقسیم کیا، اس موقع خواجہ سراؤں میں آٹا، چینی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تقسیم کی گئیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن کتے، بلیوں اور خوراک کی تلاش میں بےحال پرندوں کے لیے بھی خوراک کا انتظام کرنے میں مصروف ہے۔ ایک تصویر میں الخدمت کے کارکنوں کے چہرے نظر نہیں آرہے، لیکن یہ بھوکے ہجوم کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ یعنی یہ فوٹو سیشن نہیں ہے، سچ مچ امداد کی جارہی ہے، اور یہ ہجوم کن بھوکوں کا ہے؟ انسانوں کا نہیں… کتوں کا۔ یعنی صرف انسانوں ہی کو نہیں، جانوروں کو بھی مدد دی جارہی ہے۔ ریاست مدینہ کی بات یاد آئی جب فاروق اعظمؓ نے کہا تھا کہ بھوک پیاس کی وجہ سے کوئی کتا بھی مرتا ہے تو ذمہ دار میں ہوں گا۔
اس وائرس نے انسانیت کو دُکھی کردیا ہے، اور یہ دُکھ نظر آرہا ہے۔ لیکن انسانیت سے زیادہ ’’حیوانیت‘‘ د،کھی ہے، اور اس کے دُکھ کسی کو نظر بھی نہیں آرہے۔ کتے اور بلیاں اپنی خوراک کے لیے انسانوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ انہیں کھلانے والے سخی تو آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں۔ جو کچرا انسان پھینکتا ہے، اسی میں ان کا رزق چھپا ہوتا ہے۔ ہوٹلوں کے باہر، ڈھابوں کے آس پاس، شادی ہالوں کے سامنے، قصاب کی دکانوں پر تختوں کے نیچے ان کتے بلیوں کے ہجوم ہوتے ہیں۔ یہ ساری جگہیں اجڑ گئیں، انہیں تھوڑا بہت دینے والے لاک ڈائون میں محصور ہوگئے۔ کسی اخبار میں ان کی خبر نہیں چھپتی۔ ٹی وی پر ان کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ ایسے میں الخدمت کے کارکنوں کی یہ تصویر بے یقینی سے دیکھی جاسکتی ہے۔
آج سراج الحق صاحب کی ٹویٹ نظر سے گزری جس میں وہ قلیوں کا ذکر کررہے تھے۔ ان کی ٹویٹ کچھ اس طرح کی تھی: ”آج لاہور ریلوے اسٹیشن پر جاکر قلیوں کی صورت حال معلوم کی۔ افسوس ہوا کہ صرف دو ہزار قلیوں کےلیے بھی حکومت کے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے! ٹرینیں بند ہیں مگر معدہ چلتا ہے۔ ان کے گھروں میں بچے ہیں، انھیں بھی بھوک ستاتی اور پیاس لگتی ہے، دوائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن ان کا خیال رکھے گی۔“
یہ ادارہ 1990ء سے بطور رجسٹرڈ این جی او کام کررہا ہے۔ آج اس کا دائرہ کار آفات سے بچاؤ، صحت، تعلیم، کفالتِ یتامیٰ، صاف پانی، مواخات پروگرام اور دیگر سماجی خدمات تک پھیل چکا ہے۔ الخدمت کو خدمتِ خلق کی ایک نمایاں تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اور اس کا سب سے بڑا سرمایہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہزاروں رضاکار ہیں جو نیک نیتی سے بے سہارا اور ضرورت مند لوگوں کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ادارہ مکمل طور پر خودمختار، غیر سرکاری اور غیر سیاسی ساکھ کا حامل ہے۔ الخدمت فاونڈیشن کی جانب سے کی جانے والی تمام تر خدمات تنظیم کے خصوصی اصول و ضوابط کے تحت سر انجام دی جاتی ہیں۔ پاکستان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں کام کرنے والی کسی مذہبی یا سیاسی تنظیم کا اس ادارے سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ دنیا بھر میں الخدمت کو دیئے جانے والے عطیات صرف اور صرف فلاحی اور سماجی امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس وائرس کی شکل میں مملکت ِ پاکستان پر آنے والی آفت میں سراج الحق کی ہدایت کے مطابق جماعت کا ہر کارکن الخدمت کے کارکن کی حیثیت سے ہر ممکنہ خدمات ادا کرتے ہوئے عوام کو بلاتخصیصِ رنگ، نسل، مذہب، ذات، مسلک اور فرقہ… اس مشکل سے نکالنے میں ہمہ تن مصروفِ عمل ہے۔ ہر کارکن اپنے اردگرد ایک ادارے کے طور پر کام کررہا ہے۔
اسی لیے تو 35 سال سے شوبز سے وابستہ مزاح نگار، مصور، اداکار، ڈراما و اسکرپٹ رائٹر، شاعر، مصنف اور ٹی وی میزبان انور مقصود بذریعہ ٹویٹ فرماتے ہیں: ”جماعت اسلامی وہ غریب رشتے دار ہے جو ہر مشکل میں سب سے آگے مدد کو ہوتا ہے۔ اور ہم ہرخوشی میں اس کو فراموش کردیتے ہیں“۔
صحافی انصار عباسی نے جنگ میں کالم کے بعد اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ”الخدمت فائونڈیشن کے کارکنوں نے اگر مساجد کی صفائی کی، وہاں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے اسپرے کیا، تو وہ مندروں، گوردواروں، چرچوں وغیرہ کو بھی اسپرے کرتے نظر آئے۔ مقصد یہ تھا کہ چاہے کسی کا کوئی بھی مذہب ہو، اس وائرس سے انسانیت کو بچانے کے لیے سب کی خدمت کرنی ہے“۔
ایسے وقت میں جب وطنِ عزیز نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے، الخدمت خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر جس طرح عوام کی خدمت کررہی ہے… بعید نہیں کہ اگر کسی اور قوم میں ایسے مخلص لوگ موجود ہوتے تو وہ ہمیشہ ان محسنوں کو یاد رکھتی۔ لیکن ہماری قوم کا تو المیہ ہی یہی ہے کہ وہ اپنے محسنوں کو جلد بھول جاتی ہے۔ اللہ اس قوم کو ایسی محب وطن تنظیموں کو سمجھنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اے قوم تُو دے مل کے اگر ساتھ ہمارا
ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا

حصہ