جب ہر دن ایک نئی تاریخ رقم ہورہی تھی!!۔

845

ریحانہ افروز
محترمہ عائشہ منور کے گھر کی با لائی منزل پر واقع اِن کے دفتر میں جماعتِ اسلامی حلقۂ خواتین کی ذمہ داران جمع تھیں۔ درس و تذکیر کے بعد یہ مرحلہ درپیش تھا کہ الخدمت گروپ کی خواتین کونسلرز کی ذمہ دار کون ہوں، جو دیگر امور کو بھی دیکھیں اور ویمین اینڈ پولیٹیکل افئیر میں ناظمِ کراچی کے ساتھ کو-اورڈینیٹ بھی کریں۔ محترمہ فیض النساء مرحومہ افغانی صاحب کے کونسل کی ممبر رہ چکی تھیں، اب نعمت اللہ صاحب کے کونسل کی بھی ممبر تھیں۔ انہوں نے میرا نام تجویز کیا اور یوں میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود نظم نے فیصلہ دے دیا۔
مقامی حکومتوں کے نظام میں بنیادی اہمیت کونسلر کی تھی، اس کے ذریعے یونین کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر پاکستان بھرسے 40 ہزار خواتین سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں داخل ہوئیں۔ اِن میں سے80 فیصد پہلی بار سیاسی عمل میں شامل ہوئیں۔اگست کا مہینہ-قیامِ پاکستان کا مہینہ-وہاں حسنِ اتفاق یہ کے نظامت کا حلف بھی محترم نعمت اللہ خان صاحب نے 13 اگست 2001 کی ایک خوبصورت شام باغِ جناح کے سرسبز لان میں احساسِ ذمہ داری سے برستی آنکھوں کے ساتھ اٹھایا۔ یہ دن شہرِکراچی کی تاریخ میں ایک یادگار و بے مثال دن کا اضافہ کرگیا- جب عزیمت اور جذبوں کی نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی تھی، جماعتِ اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنان اپنی محنتوں کوثمربار ہوتے دیکھ رہے تھے، خواتین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ دن اللہ کی عظمت اور کبرئیائی کا دن تھا—ہاں—جب مملکتِ خداداد پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہوگی تو حکمرانِ وقت ایسے ہی حلف اٹھائیں گے۔۔۔ایک جھلک اللہ نے ہمیں دکھائی—بارش کی رم جھم اور آنسوؤں کی برسات میں یہ ایک پُروقارتقریب تھی اور پھر جادہ و پیماں ہوتا ہے کارواں ہمارا۔۔۔۔۔!۔
جماعتِ اسلامی کراچی کے کارکنان و ذمہ داران کی پوری ٹیم میدانِ کار میں اتری۔ جہاں گراس روٹ لیول تک ہماری رسائی ہے وہیں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین بھی الحمداللہ جماعت کے پاس موجود ہیں۔ جس کی بدولت تمام امور بہت مہارت سے انجام پائے۔ امانت، دیانت، میرٹ اور شفافیت کا سلوگن لےکر نعمت صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ میدان کار میں اترے۔
گویا پوری جماعتِ اسلامی کراچی کے ذمہ داران نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ محترم نعمت اللہ خان اک سائبان تھے—گھنا شجر ِسایہ دار—وقت کی کڑی دھوپ میں ہمت، حوصلے اورمسکراہٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔ نعمت اللہ خان صاحب سے میرے کئی رشتے ہیں۔ وہ میرے والد اور ماموں کے انڈیا کے پرانے دوستوں میں سے تھے، تحریکی وابستگی اپنی جگہ تھی اور وہ میرے شوہرکے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے اور بھائی بھی ایسے کہ خاندان کے تمام معاملات اُن کے مشورے سے طے پاتے تھے۔ پورے خاندان میں وہ بھائی صاحب کہلاتے تھے میں بھی اُنہیں بھائی صاحب کہتی تھی۔ یہ بڑا حسنِ اتفاق تھا کہ اِس رشتے اور تعلق کے حوالے سے میرے لیے کام کرنا آسان ہوگیا تھا، گھر والے بے فکر ہوتے تھے کہ بھائی صاحب کے ساتھ ہیں اور میں اپنے پروجیکٹ پر بات کرکے منوا بھی لیتی اور منظوری بھی کروا لیتی۔ مثلاً وہ اکثر کہتے ریحانہ یہ ہر پروگرام میں تم اتنا ریفریشمنٹ رکھ لیتی ہو؟ میں کہتی کہ پھر بجٹ تو پورا استعمال کرنا ہے نا، مہمانوں کی تواضع کر سکتے ہیں تو ضرور کریں اور وہ مسکرا کر میری فائل پہ دستخط کر دیتے! بھائی صاحب میرے اتالیق بھی تھے۔ بھائی صاحب کے ساتھ کام ایک اعزاز بھی تھا اور ایک ٹریننگ بھی۔ وہ ایک کامیاب وکیل تھے، اسکا فائدہ یہ ہوا کہ وہ کام شروع کرنے سے پہلے اس کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے، بےشمار سوالات کرتے اور پھر فائل پر دستخط کرتے۔
منسٹری آف ویمن ڈیویلیپمنٹ کے تحت اسلام آباد کنونشن ہال میں فاطمہ جناح صدارتی ایوارڈ کی تقریب تھی، صدارت اس وقت کے صدر پرویز مشرف کر رہے تھے، اسلئیے انتہائ سخت چیکنگ تھی۔ مجھے چونکہ کمپئیرنگ کرنی تھی اس لئے صرف ایک پین اور ڈائری کی اجازت ملی تھی اس کو بھی ہر طرح سے چیک کیا گیا۔ اس کنونشن میں بہترین کونسلر کا گولڈ میڈل مسفرہ جمال کو اورلٹریسی کے شعبے میں بیٹھک اسکول کے حوالے سے جو کام عائشہ سید صاحبہ نے کیا اس کو سراہا گیا اور ان کو گولڈ میڈل دیا گیا۔ورینہ گرافِن (جرمن کونسل جرنل) نے نعمت اللہ صاحب سے ایک ملاقات کی جس میں پاکستانی خواتین کی زبوں حالی پر بہت رنج و غم کا اظہار کیا تو بھائ صاحب نے میری اور مسفرہ جمال کی ذمہ داری لگائی کے جاکر ان سے ملاقات کرو۔ ہم نے جرمنی کے سفارت خانے جاکے ورینہ سے ملاقات کی۔ دو ڈھائی گھنٹے کی ملاقات کا حاصل یہ تھا کہ اسلام عورت کو جو مقام دیتا ہے اور احترام کے جس درجے پر فائز کرتا ہے، مغرب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا! البتہ پاکستان میں جہاں کہیں عورت مسائل کا شکار ہے اس کی وجہ جہالت اور غربت ہے اور غربت کی بڑی وجہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ خود ورینہ کی اپنی زندگی بڑی مظطرب اور تنہائی کا شکار تھی انہوں نے اپنے بارے میں جو بتایا وہ انتہائی تکلیف دے بھی تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ اُن کی پوری زندگی خانہ بدوشوں والی زندگی ہے، ان کو کوئی سائبان میسر نہیں تھا اور اس پر وہ خاصی ڈپریسیڈ تھیں۔ ہماری ساری گفتگو سے وہ بہت متاثر تھیں اور شکرگزار بھی تھیں اور حیران بھی تھیں کہ اسلام خواتین کو کس طرح تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مسفرہ جمال نے ان کو تحفے میں ایک کتاب دی۔ Islam; The Alternative (Murad Hofmann)۔
یہ بہت بڑی حقیقت ہے جس کی گواہی ہر گزرتا دن دے رہا تھا کہ اہلیانِ کراچی پر ترقی و کامیابی کے نئے در کھل رہے تھے۔ ہمت، عزم اور حوصلے کے ساتھ، بے حد کم وسائل کے باوجود بے شمار پروجیکٹس کو کامیابی سے مکمل کیا۔ تعمیرِ کراچی پروگرام میں 29 بلین کی سرمایہ کاری کی جس میں شہر کے تمام بڑے اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا۔ وہیں City Institute of Heart Diseases کا نایاب تحفہ دیا جس پر ڈاکٹر صمد نے کہا کہ اگر مذہب مجھے اجازت دیتا تو میں شہر کے ہر چوراہے پر نعمت اللہ خاں کا مجسمہ لگواتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بلاامتیاز مذہب اور سیاسی وابستگی کے بھائی صاحب کے عقیدت مند تھے، ماما پارسی کی میڈم مستری ہوں یا نزہت ولیم—کاؤس جی ہوں یا فاطمہ ثریا بجیا—ذاتی طور پر ملنے آتے، اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کرتے اور بے پناہ اعتماد اور عقیدت کا اظہار کرتے۔
دیگر کاموں کے ساتھ بھائی صاحب نے اپنے وژن کے مطابق شعبۂ تعلیم کو بہت توجہ دی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تعلیم کے مد میں بجٹ کا 30 فیصد رکھا گیا۔ مفت کورس، اسکالرشپ اور میڈل دیے گئے۔ پرانے کالجز کو بہتر بنایا گیا، 32 نئے کالجز کھولے گئے، ہر کالج کی عمارت بہترین تھی، طلباء موجود تھے مگر بڑا سوالیہ نشان اساتذہ کا تھا کہ کہاں سے آئیں گے؟؟؟ اور ان کی تنخواہ کیسے ادا کی جائے گی کیونکہ وفاقی اور صوبائ سطح پر نئ ملازمتوں پر پابندی لگی ہوئ تھی!
نارتھ ناظم آباد بلاک ”کے“ کے کالج کا افتتاح ہوا، اہل محلہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ وہاں کی پرنسپل محترمہ نزہت بڑی فکر مند تھیں، افتتاحی تقریب کے دوران میری نظر شرکاء خواتین پر پڑی۔ کئ خواتین بہت قابل اور ویلفیئر کا کام کرنے والی نظر آئیں، اسی وقت ان سے اپیل کردی کہ کالج کو آپ کی ضرورت ہے، جو رضاکارانہ اپنا وقت دیں۔ اس پیشکش کے نتیجے میں امِّ روما، ثریا مصباح صدیقی اور رقیہ منظر جیسی کئ قابل خواتین نے فوراً اپنے آپ کو پیش کردیا!
نارتھ ناظم آباد بلاک ”کے“ کے کالج میں رضا کارانہ ٹیچرز کا تجربہ کامیاب رہا۔ اس کو دیکھتے ہوئے ناظمِ کراچی نے اخبار میں اشتہار دیا جس کا بہت غیر متوقع اور حوصلہ افزا جواب ملا۔
ہزاروں کی تعداد میں ایم-بی-اے، ایم۰فل، فورسز کے ریٹائرڈ افسران، لیکچرارز اور پروفیسرز کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان کے تقرر کیلئے سیلیکشن بورڈ قائم کیا گیا جس کے ذریعے امیدواران کو سیلیکٹ کرکے اپائنٹمنٹ لیٹر دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت میں غیر معمولی اور جذبوں کو گرما دینے والی مثال تھی—ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!!
ان رضا کار اساتذہ نے بہترین تعلیمی ماحول اور امتحانی نتائج دئیے۔ کراچی شہر کی 20 سٹی کونسلرز نے ناظمِ کراچی کی جانب سے دئیے گئے صوابدیدی فنڈ سے مشترکہ طور پر سٹی ویمن لائبریری کمپلیکس کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا پراجیکٹ تھا جس میں خواتین کے لیے Skill Development Center, Hostel, Legal Aid Center , Auditorium, Research cell, Counselling Clinics, Gym غرض یہ کے تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے پلان کی گئی تھیں۔ اس کمپلیکس کا سنگ بنیاد 19 جنوری 2004، بروز پیر نعمت اللہ صاحب نے رکھا۔ افتتاحی تقریب کی کمپئیرنگ معروف میڈیا پرسن؛ صفیہ ملک نے کی، بیگم محمود شام، نرگس رحمان، اکرم خاتون، عزرہ جمیل—غرض یہ کہ تمام شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئ تھی۔ خواتین تنظیموں اور میڈیا کی طرف سے اس پراجیکٹ کو بہت پزیرائ ملی مگر بعد میں یہ منصوبہ بھی قبضہ مافیا کی نظر ہوگیا۔
اسلام آباد میں فاطمہ جناح ایوارڈ میں شرکت کے بعد خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی کراچی میں ایسی معروف خواتین کو ایوارڈ دیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے معاشرے کی تعمیر میں ایک کنٹریبیوشن ہے۔ بھائ صاحب کے ساتھ یہ آئیڈیا ڈسکس کیا اور فوری منظوری مل گئ۔ یوں ”ڈاٹرز آف کراچی“ کے عنوان سے ”فرئیر ہال“ میں ایک یادگار پروگرام کیا جس کی صدارت نعمت اللہ خان صاحب نے کی۔ اس وقت صادقین آرٹ گیلیری کی قرآنی آیات سے مزین چھت کے نیچے ایسی تمام خواتین موجود تھیں جن کو نظریاتی جماعت کی حکمرانی کا یہ منظر دکھانا بہت ضروری تھا۔ صادقین گیلیری کی سو سال سے زائد قدیم لکڑی سے بنی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے یہ خیال آتا تھا کہ بھائ صاحب بعض دفعہ رمضان میں بھی یہ مشکل سیڑھیاں دو دو دفعہ اترتے چڑھتے—سبحان اللہ!!۔
بھائی صاحب کی حسِ مزاح بہت زبردست تھی۔ سِوک سینٹر کے وسیع کوریڈور کے ایک سرے پر بھائ صاحب کا آفس تھا اور دوسرے سرے پر میرا۔ ایک دفعہ مجھے بلا کر کہتے ہیں؛ آپ آج کل کہاں گھوم رہی ہیں؟؟! یہ کہ کر مجھے اخبار دکھایا، میں اخبار دیکھ کر حیران رہ گئ جس میں سرخی لگی ہوئ تھی کہ چئیر پرسن ایجوکیشن ریحانہ افروز بیرونِ ملک دوروں پر رہتی ہیں۔ مجھ فوراً یاد آگیا یہ اخبار تو وہی ہے جس کے فون پر میں نے معزرت کی تھی اور بعد میں آنے کو کہا تھا۔
سِوک سینٹر کے آڈیٹوریم میں نعمت اللہ صاحب کے زیرِ صدارت پروگرام تھا۔ میں بھائ صاحب کے آفس گئ کہ آپ آجائیں، انہوں نے اپنے دونوں پیر دکھائے جن پر بے حد سوجن تھی اور مرہم لگا ہوا تھا، کہنے لگے-چپل پہن کر چلوں گا-لے چلو گی…!!؟ یوں انہوں نے تکلیف کے باوجود پروگرام میں شرکت کی! اسی طرح ”اے-آر-وائی“ سے لائیو ٹڑانسمیشن تھی، بڑی مشکل سے وقت نکالا تھا، جب اسٹوڈیو پہنچے سیٹ لگا ہوا تھا بھائ صاحب بہت تھکے ہوئے تھے اور نیند کا غلبہ بھی تھا ۔۔۔ میں دل ہی دل میں فکر مندی سے دعا کر رہی تھی مگر جیسے ہی کیمرا لائیٹس آن ہوتی ہیں تو اللہ کی رحمت سے بھائی صاحب نہایت چاک و چوبند، پر سکون چہرے کے ساتھ اینکرز کے طوفانی سوالات کا بہترین جواب دینے لگتے ہیں! بلکہ کچھ عرصے پہلے تک جب بولنا بہت کم کردیا تھا مگر جب بھی تحریکِ پاکستان کی بات ہوتی یا کوئی اہم بات پوچھتی تو بہت صائب جواب ملتا تھا۔
ماضی کا ہر ورق روشن اور درخشاں ہے۔ لکھنے بیٹھی تو قلم ہاتھ میں لیے سوچتی رہی کہ کہاں سے لکھوں۔۔۔!! ہر دن ایک تاریخ ساز دن تھا، روز ایک نئے اور کامیاب تجربے سے گزرتے تھے۔ کراچی کی شاہراہوں، فلائ اوورز اور برجز سے لے کر کچی آبادیوں، ٹھیلوں، کیبنز اور چڑیا گھر تک ہر پہلو اور ہر عنوان سے کام کیا گیا! ہم نے چڑیا گھر کا دورہ کیا، دوسری تمام ضروریات کے علاوہ وہاں پر کئ پنجرے خالی پڑے تھے۔ شیروں کی بھی کمی محسوس ہوئی۔ غرض فائل تیار کر کے متعلقہ ذمہ داران کے ساتھ بجٹ بنایا۔ فائل بھائ صاحب کے پاس گئی، کہنے لگے تم اتنا بڑا بجٹ بنا کر لائ ہو۔۔اس میں سے کچھ کام تو بغیر سرمائے کے بھی ہوسکتے ہیں۔ پھر انہوں نے ندیم اقبال کو فون ملایا “بھئی سیم زو والے تمہارے دوست ہیں، ان سے بات کرواؤ کہ کراچی چڑیا گھر کو کچھ تحفہ دیں، اُن کے نام کی تختی لگوا دیں گے۔“ شیروں کے حوالے سے بتایا کہ لاہور چڑیا گھر کے دو ذمہ داران سابقینِ جمعیت میں سے ہیں، اِن سے شیر منگوا لیے اور خود اسٹیشن جا کر ریسیو کیے۔

یاد ہے تم کو اندھیرا تھا بستی میں
ہم جو آئے تو دئیے ہمارے ساتھ آئے

تمام مصروفیات کے باوجود رشتے نبھانے کا فن جانتے تھے۔ سٹی گوورنمنٹ کے ابتدائ ماہ میں مجھے حج کے لیے جانا تھا۔ صبح ہم نے بھائی صاحب کو خدا حافظ کہ دیا تھا مگر رات گئے اپنے گارڈز کے ہمراہ چلے آرہے ہیں۔ جاوید صاحب سے ساری تیاری کی معلومات لیتے رہے—بچوں کا پوچھا کہ نانی کے پاس رہیں گے؟ اور کب روانگی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔! ایسے بڑوں کی سرپرستی سے بہت حوصلہ ملتا ہے۔ ان کے گھر کے دروازے سب کےلیے کھلے رہتے اور انواع و اقسام کے کھانوں سے سجا دسترخوان سب کےلیے حاضر رہتا۔
ایسا بھی اتفاق ہوا کہ میں صبح کوئی فائل لے کر ناشتے سے پہلے ان کے گھر چلی گئی، تو ماشاءاللہ سعادت مند اولاد میں سے کوئی موزے پہنا رہا ہے، کوئی موبائل لیے کھڑا ہے، بڑی دونوں بہوئیں؛ صباحت اور عفت ناشتہ کروا رہی ہیں۔
بڑی بھابھی(طاہرہ نعمت اللہ) کے انتقال کے ٹھیک 26 برس بعد بھائی صاحب کا انتقال ہوا اور دونوں کی تدفین کا دن 26 فروری تھا۔ بڑی بھابھی ایک بے مثال رفیقۂ حیات تھیں۔۔۔ جو رات گئے جب بھائی صاحب آتے، اسی وقت دودھ سے گوندھے آٹے کی تازہ اور گرم روٹی بنا کر دیتیں۔ بڑی بھابھی نے جماعت کے اکابرین کی جو تواضع کی اسکی گواہی قاضی حسین احمد(مرحوم) نے ان کی تدفین کے موقع پر دی۔یہ ان کی تربیت تھی کہ آج ماشاءاللہ سات بیٹے اور دو بیٹیاں؛ افشاں اور لبنہ، اور ان کی اولادیں—ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ وسیم اقبال کے ساتھ آخری عمر میں انہوں نے رہنا پسند کیا کہ وہ بڑے بیٹے ہیں۔ ندیم اقبال تحریک سے وابستہ ہیں اور ایک وسیع حلقۂ احباب رکھتے ہیں۔ بھائ صاحب سب بچوں کے ہاں جا کر رہتے اور واپس اپنے ہیڈ کوارٹر میں آجاتے۔
یہ بھی اللہ کی طرف سے تھا کہ انتقال سے کچھ عرصے قبل ان کی پوتی(ندیم کی بیٹی) کا نکاح، پھر رخصتی، پھر ان کی بھانجی (ناہید) کے بیٹے کی شادی اور بڑی بھانجی(ڈاکٹروسیمہ) جو مشتاق یوسفی کی بہو ہیں ان کی بیٹی کا نکاح—ان حوالوں سے خاندان کے لوگوں کی باہم ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ندیم کی بیٹی کی رخصتی پر تو جماعتِ اسلامی کے اکابرین اور کراچی جماعت کے ذمہ داران کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ بھائ صاحب ویل چیئر پر تھے، سب سے مصافحہ کر رہے تھے کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ سب انتظامات الوداعی ملاقات کے ہیں۔۔۔۔!
نعمت اللہ خاں صاحب دارِ فانی سے کوچ کر گئے!؟ کیا یہ خبر سچ ہے؟ نہ اسپتال میں داخل ہوئے نہ ہی طبیعت بگڑی۔ وہ عموماً رات بھر جاگتے تھے اور بار بار کہتے تھے گاڑی نکالو—مجھے خدمت کرنے جانا ہے۔۔۔! ایک دن قبل وسیم سے کہا مجھے کلمہ پڑھا دو، کلمہ پڑھا اور رات کو بہت مدت بعد گہری نیند سوئے۔ صبح حسبِ معمول بیدار ہوئے، غسل کیا تو کچھ نڈھال لگے- فوراً بیڈ پر لٹایا—اور فرشتۂ اجل روانگی کا پروانہ لے کر آگیا- جس منزل کی جستجو میں پوری زندگی لگا دی، اپنے پیارے رب کی عبادت ایسے کی کہ جب تھکن زیادہ ہوتی تو اپنے بیڈ پر نہیں سوتے کے تہجد پر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔۔رات کو فرش پر سوتے! ستر برس کی عمر میں راہِ وفا میں وہ برق رفتاری دکھائی کہ دنیا حیران رہ گئی!
انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھی۔ ساتھی بہت محتاط ہو کر فون پر پوچھ رہے تھے کہ نعمت اللہ صاحب خیریت سے ہیں؟ کیا یہ خبر سچ ہے؟! اور یہ خبر سچ نکلی۔۔۔۔۔ خاندان والوں نے کنفرم کردیا۔۔۔میڈیا پر بریکنگ نیوز چلنے لگی….دل و دماغ کی جو کیفیت تھی کچھ بھی یقین کرنے کو دل آمادہ نہیں تھا! یا الٰہی یہ کیا ہوگیا۔۔۔!! نارتھ ناظم آباد سے ڈیفنس تک کے سفر میں صبر کا دامن بار بار ہاتھ سے چھوٹ رہا تھا۔ میڈیا نے بھائی صاحب کے گھر کے باہر ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ بے شمار چینلز کی گاڑیاں ان کے گھر کی پہچان بن گئی تھیں۔ مرد و خواتین جوق در جوق پہنچ رہے تھے۔
ایم اے جناح روڈ پر نمازِ جنازہ بہت ہی اہم فیصلہ تھا۔۔یہاں ہزاروں کارکنان اور شہریوں کے لیے شرکت آسان ہوگئی۔ اہلیانِ کراچی نے جس طرح نماز جنازہ میں شرکت کرکے—اپنے آنسوؤں سے تر چہروں کے ساتھ —اپنی گوائیاں اللہ کے حضور دیں ہیں….یہ بڑے نصیب کی بات ہے!!! ۔
محترم نعمت اللہ صاحب تحریک کا گراں مایہ سرمایہ تھ—-انہوں نے حکومت و حکمرانی امانت و دیانت—خدمت و محنت—شفافیت و میرٹ پر ایسا سبق پڑھایا جو ہمیشہ قافلۂ تحریک کے لیے مشعل راہ بنے گا۔ وہ پہاڑی کے چراغ تھے- ایک انقلاب آفریں شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی زندگی کا سفر شہادتِ حق اور اقامتِ دیں کی جدو جہد سے مزین تھا!!!۔
فادخُلِى فِيىْ عِبٰدِى وَادْ خُلِىٰ فِىْ جَنّتِیْ (سورۂ فجر ۲۹،۳۰)۔
شامل ہوجا میرے نیک بندوں میں، اور داخل ہوجا میری جنت میں!۔

حصہ