نثار احمد نثار
سہ ماہی ادبی مجلہ دھنک رنگ کا منور ہاشمی نمبر قابل ستائش اقدام ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی مختلف جہتوں پر سیر حاصل گفتگو کی جائے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ایک شعری نشست میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ کسی کے فن اور شخصیت کو کتابی شکل میں محفوظ کرتے ہیں وہ بھی قابلِ قدر کام ہے۔ اس سلسلے میں سہ ماہی ادبی رسالہ دھنک رنگ کے تمام اراکین مبارک باد کے مستحق ہیں۔
سہ ماہی ادبی مجلہ دھنک رنگ کسی تعارف کا محتاج نہیں‘ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اس ادارے کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔ اس رسالے کے سرپرست اعلیٰ حسین امجد‘ مدیر اعلیٰ دائود تابش اور مدیر سجاد حسین سرمدی ہیں۔ راقم الحروف کو یہ رسالہ بذریعہ ڈاک مارچ 2020ء کو ملا ہے اس مجلے میں ڈاکٹر منور ہاشمی کے فن اور شخصیت کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر منور ہاشمی عہد ساز شخصیات میں شامل ہیں‘ آپ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو زبان و ادب سے محبت کرنے والوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ شاعری‘ تنقید‘ صحافت اور بالخصوص اقبالیات کے حوالے سے آپ کی خدمات کا اعتراف ہر فورم پر کیا جا چکا ہے۔ آپ کا اصل نام سید منور شاہ ہے جب کہ قلمی نام منور ہاشمی ہے۔ آپ نے علامہ اقبال کے فن و شخصیت (اقبالیات) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ آپ ساہیوال میں پیدا ہوئے۔ آپ گورنمنٹ آف پاکستان اور نجی اداروں کی اہم پوسٹوں پر بھی اپنی صلاحیتوںکا لوہا منوا چکے ہیں۔ انتہائی مصروف زندگی کے باوجود آپ پرورش لوح و قلم کر رہے ہیں۔ آپ کا علمی‘ تنقیدی‘ شعری اور صحافتی سرمایہ قومی ورثہ ہے۔ آپ کی تصانیف و تالیفات میں سورج کا صحرا‘ کربِ آگہی‘ نخلستان‘ پری دیس کی یاد‘ بے ساختہ‘ لوح بھی تُو قلم بھی تُو‘ نیند پوری نہیں ہوئی‘ عملی صحافت‘ غزل اے غزل انتخابِ مومن‘ فیضِ اقبال اور تجزیات شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر آپ کے علم و فن پر تحقیقی مقالات لکھے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ حکومت کی طرف سے آپ کو محسنِ اردو‘ خادمِ اردو‘ سفیر علم و ادب اور اردو ادب کا شیخ سعدی کے خطابات ملے۔ اس کے علاوہ مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے بھی اب تک 12 ایوارڈز آپ کو مل چکے ہیں۔ یہ تمام ایوارڈز بہت اہم اداروں کی جانب سے دیے گئے ہیں۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائرپورٹ لاہور کا نام رکھنے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔
منور ہاشمی مختلف اخبارات و رسائل سے بھی وابستہ رہے ہیں جن میں گروپ ایڈیٹر پاکستان گروپ آف نیوز پیپر‘ سینئر سب ایڈیٹر نوائے وقت‘ ڈپٹی ایڈیٹر روزنامہ زمانہ کوئٹہ‘ ایڈیٹر انچیف ماہنامہ دنیائے اسلام اردو‘ ایڈیٹر روزنامہ میزان کوئٹہ‘ ایڈیٹر انچیف القلم جدہ‘ سعو دی عرب شامل ہیں۔ آپ کی نگرانی میں چودہ پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں اس وقت آپ ناردن یونیورسٹی نوشہر میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنز کے عہدے پر فائز ہیں۔ آپ ان دنوں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسمبلی ڈیم روڈ اسلام آباد میں رہائش پزیر ہیں۔ سہ ماہی دھنک رنگ نے آپ کے بارے میں منور ہاشمی نمبر نکال کر ایک قابل تحسین کام کیا ہے۔ یہ مجلہ ایک دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر منور ہاشمی کے بارے میں ڈاکٹر فہمیدہ تبسم کہتی ہیں کہ منور ہاشمی انتہائی زندہ دل‘ خوش گوار مزاج شخصیت ہیں جو بھی ان سے ملتا ہے ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسحاق وردگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ہاشمی کی زنبیل میں علم و ادب کا گم شدہ علمی ورثہ ہے جس کو وہ کھلے دل و دماغ سے علم وادب کے خواہش مندوں تک منتقل کر رہے ہیں۔
مظہر شہزاد خان کہتے ہیں کہ منور ہاشمی ایک سچے کھرے مسلمان اور محب وطن انسان ہیں ان کی شاعری میں بھی جابجا محبتوں کا اظہار ملتا ہے۔ عشق رسولؐ ان کا محورِ حیات ہے۔ فرخندہ شمیم نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی کے زورِ تحقیق اور میدانِ نقد و نظر کا مرکزی دھارا غزل سے پھوٹتا ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے دس بہترین غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ پروفیسر عابد علی خٹک کہتے ہیں کہ منور ہاشمی ایک مایہ ناز ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ شعر و فن میں بھی معتبر ہیں ان کا اندازِ بیاں‘ اسلوب اور لب و لہجے میں ایک استاد شاعر مضمر ہے۔ اعجاز خاں ساحر نے کہا کہ منور ہاشمی اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں اور علم و فن کے مسافروں کے لیے نشانِ منزل ہیں۔ شاہد نعیم کہتے ہیں کہ منور ہاشمی کے فیضان علم و ادب کا سمندر رواں دواں ہے‘ عوام الناس اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ محسن بخاری کہتے ہیں کہ منور ہاشمی اپنے چہرے ہی سے ایک علمی و ادبی شخصیت نظر آتے ہیں۔ مزاح‘ ظرافت اور حاضر جوابی میں بھی آپ کا جواب نہیں۔
حمیرا جمیل نے لکھا ہے کہ انہیں اپنے شہر کی کوئی بھی علمی‘ ادبی یا ثقافتی محفل منور ہاشمی کے بغیر ادھوری لگتی ہے‘ وہ دوسروں کو آگے بڑھاتے ہیں اور خود پس پردہ رہ کر کام کرتے ہیں کہ یہی ایک قابل قدر معلم کا تقاضا ہے۔ سعادت حسن آس کہتے ہیں کہ منور ہاشمی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور زندگی کے مختلف حلقوں میں مشہور و معروف ہیں۔ گل بخشالوی کہتے ہیں کہ منور ہاشمی علم و ادب کا خزانہ ہیں وہ صرف شاعر نہیں بلکہ معاشرے کے زخموں کو نثر بھی لکھتے ہیں کالم نگاری‘ تبصرہ نگاری کے میدان میں بھی ان کے مضامین ہمارے لیے سود مند ہیں۔ معراج الدین منتظر کہتے ہیں کہ منور ہاشمی ایک قادر الکلام شاعر ہونے کے حوالے سے بے شمار نو آمیز شعرا کی رہنمائی کر رہے ہیں‘ وہ علامہ اقبال اور میر تقی میر کے پیرو کارو ہیں اس کے علاوہ وہ جہالت کے اندھیروں میں علم و آگاہی کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ سجاد حسین سرمد نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی اساتذہ علم و فن کی صف میں ایک معتبر نام ہے‘ فی البدیہ گفتگو اور قلم برداشتہ اشعار میں بھی ملکہ رکھتے ہیں یہ لوگوں کے دلوں میں اترنے کا فن جانتے ہیں اسی لیے ہر طبقۂ فکر میں ہر دل عزیز ہیں۔ ڈاکٹر نثار ترابی نے لکھا کہ منور ہاشمی کی غزل کلاسیکی روایتی شاعری کی اس سمت اپنا وجودِ معانی کھولتی ہے جہاں خرد افروزی کے چراغ جلتے ہیں‘ ان کے ہاں موضوعاتی رنگا رنگی بھی ہے اور فکر و خیال کا تنوع بھی۔ ان کی نعت گوئی غلو سے پاک اور سیرت مصطفیؐ کی آئینہ دار ہے۔ ڈاکٹر مقصود جعفری کہتے ہیں کہ ڈاکٹر منور ہاشمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں‘ بے باک صحافی‘ دانشور اور ادبی نقاد بھی ہیں۔ وہ پانچویں جماعت سے شعر کہہ رہے ہیں‘ اب تک وہ ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کر چکے ہیں اور اہل ادب سے داد وصول کر چکے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر خدا نہیں مل سکتا‘ وہ اپنی نعت میں شمائل مصطفی اور سیرت مصطفی کے مضامین سجاتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد حسین ہادی کہتے ہیں کہ منور ہاشمی کے ہاں اتنی رومانیت موجود ہے جتنی کہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے اس کے ساتھ ان کے ہاں ذاتی مشاہدات و تجربات بھی نظر آتے ہیں‘ ان کے ہاں جدیدیت موجود ہے اور قدیم شعرا کی ترجمانی بھی۔ افتخار عارف کہتے ہیں کہ منور ہاشمی کی غزل کامیاب و کامران ہے لیکن ایک نعت گو کی حیثیت سے بھی ان کے ہاں اخلاصِ نیت اور جذبی کی شدت فنی تقاضوں سے آمیز ہو کر تہذیبِ نعت کی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتی ہے۔ وہ محاسنِ ہنر مندی کی پاسداری میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ ڈاکٹر فہمیدہ تبسم کہتی ہیں کہ منور ہاشمی کی عمومی وجۂ شہرت غزل گوئی ہے لیکن ان کی نعتوں میں عشق محمدیؐ کی کیفیت و سرمستی نمایاںہے وہ امت محمدی کے دکھوں کا بیان بارگاہ رسالت میں کرنے کے بعد سرور کائنات محمد مصطفیؐ سے مدد کے طالب ہیں۔
پروفیسر ضیا الرحمن نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی چوں کہ غزل کے شاعر ہیں لہٰذا ان کی تمام نعتیں غزلیہ ہیئت میں لکھی گئی ہیں جن میں احساسات کی رنگا رنگی اور نعت کی فکری و فنی خوبیاں بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ عثمان ناظر کہتے ہیں کہ جب ہم ڈاکٹر منور ہاشمی کی نعتیہ شاعری سنتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ سیرت رسولؐ کی روشنی میں جگمگا اٹھتے ہیں‘ ان کے کلام میں جاذبیت‘ دل کشی‘ روانی‘ ترنم اور برجستگی پائی جاتی ہے۔ ناصر زیدی کی رائے میں منور ہاشمی نے اپنے سینے میں حبِ رسولؐ کو رچا بسا رکھا ہے‘ ان کے اشعار میں حضوری اور دردِ فرقت کی کیفیات ساتھ ساتھ ملتی ہیں۔ عقیدت‘ محبت اور والہانہ پن ان کے لفظوں سے عیاں ہے جب کہ فنی اور شعری اسلوب ان کا اپنا ہے‘ وہ زود گو اور قادرالکلام شاعر ہیں۔ شمیم جے پوری کے نزدیک منور ہاشمی رسمی طور پر نعت نہیں کہتے بلکہ یوں لگتا ہے کہ نعت ان کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ وہ عشق نبیؐ میں ڈوب کر نعت کہتے ہیں‘ ان کے ہاں فن کی پختگی بھی ہے اور فکر کی گہرائی بھی۔ ڈاکٹر ریاض احمد کی رائے ہے کہ منور ہاشمی کی نعت عقیدت اور عشق رسولؐ کے لازوال جذبوں کی عکاس ہے۔ سید ضمیر جعفری (مرحوم) نے منور ہاشمی کے شعری مجموعہ ’’بے ساختہ‘‘ کے دیباچے میں لکھاہے کہ منور ہاشمی ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد محترم عبداللطیف شاہ مجروح کا شمار لسانیات کے فاضل‘ قدیم گو میں ہوتا ہے لیکن غزل میں منور ہاشمی کا ڈکشن اپنا ہے یہ ہمارے شعرا کی موجودہ نسل کی پہلی صف کا شاعر ہے۔ پروفیسر فارغ بخاری نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی کی غزل میں نئے لہجے کی کھنک اور تھیکے اسلوب کی کرشمہ سازی ہر قاری کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے منور ہاشمی کے بارے میں ڈاکٹر اسلم فرخی کا ایک مضمون نشر ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ منور ہاشمی کے شعری مزاج میں بے ساختہ پن ذاتی واردات اور تجربات کی گہرائی نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں سچائی کا اظہار ہے اور نیا پن بھی ان کی شاعری غزلوں کا ایسا مہکتا ہوا گلدستہ ہے جو نظر نواز بھی ہے اور مشام جاں کو معطر کرنے کا ذریعہ بھی۔ ڈاکٹر عطش درانی نے سہ ماہی ان شا حیدرآباد شمارہ نمبر 10-11 میں منور ہاشمی کے لیے ایک مضمون لکھا تھا جس کے مطابق منور ہاشمی شاعری کو ذریعہ عزت نہیں گردانتے وہ اپنے ہنر کو یوں لوگوں سے چھپا کر رکھتے ہیں جیسے کوئی جرم کر بیٹھے ہوں‘ وہ کہتے ہیں:۔
کہاں یہ تیرا ہاشمی‘ کہاں یہ شعر و شاعری
کسی نے نام لکھ دیا ہے شاعروں کے درمیاں
٭
گوشۂ عافیت ہے گمنامی
کوئی میرا پتا نہ لے جائے
منور ہاشمی کا یہ الفعالی جذبہ ان کی شاعری میں در آیا ہے‘ یہ من و تو کا امتیاز بھی برقرار رکھنا جانتے ہیں۔ انہیں اپنی اَنا کا ادراک ہی‘ یہ ایک مثالی انسان کی تلاش میں سرگرداں بھی ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی معاشرے میں اچھائیاں پھیلانا چاہتے ہیں اور برائیوں کا خاتمہ کرنا بھی لازمی سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی (بھارت) نے لکھا ہے ہے کہ منور ہاشمی اپنی Involvement کے بارے میں ہمیشہ صاف اور واضح رہنے کی کوشش کرتے ہیں وہ Indigement values کو Reading for values سے الگ رکھنے میں فکر کے نظام اور آرٹ کے اہرام تعمیر کر رہے ہیں‘ ان کے ہاں ایک اچھا ادبی اور ثقافتی تجزیہ Quality of life کو بیان کرنا ہے ان کی غزلوں کی چمک اور جذبہ پیغامِ حیات میں مضمر ہے۔ یہ قنوطی شاعر نہیں ہیں بلکہ انہیں فن کی بلندی اور استواری کا خیال رہتا ہے۔ ڈاکٹر محمود الرحمن کہتے ہیں موجودہ دور میں جن حوصلہ مند شاعروں نے کشتِ غزل کی آبیاری میں نام پیدا کیا ہے ان میں منور ہاشمی پیش پیش ہیں۔ شبنم شکیل نے کہا کہ منور ہاشمی ایک ایسا شاعر ہے جو غزل کو مکمل طور پر میسر ہے اور غزل اس کی پہلی محبوبہ ہے‘ دونوں کی ملاقات پر محبت کے پھول کِھلتے ہیں۔ ڈاکٹر احسن جمال (بھارت) کے نزدیک منور ہاشمی کا یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے آسان الفاظ میں مشکل باتوں کو شاعری بنا کر پیش کیا ہے جس میں تغزل اور شعریت اپنے عروج پر ہے۔ ڈاکٹر سید قاسم جلال نے کہا کہ منور ہاشمی کی شاعری سلگتے جذبات اور مرتعش افکار کی ساحرانہ عکاس ہے۔ انہوں نے آج کے انسان کی محرومیوں‘ مجبوریوں اور دکھوں کی داستانیں پُر تاثیر لفظوں میں بیان کی ہیں تاکہ معاشرے کے معمار ان کا حل تلاش کریں۔ اکرم کنجاہی نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی کی غزل میں جو افسردگی ہے وہ ان کے داخلی کیفیات کی غماز ہے تاہم ان کے ہاں رومانی کیفیت بھی رواں دواں ہے اور تصور کے موضوعات بھی ان کے کلام کاحصہ ہیں۔ شجاعت علی راہی نے منور ہاشمی کے لیے کہا کہ انہیں نہ تو لفظون کا میلہ لگانے کا عارضہ لاحق ہے اور نہ ہی جدیدت اور علامت کے گورکھ دھندوں میں مبتلا ہونے کا خبط ہے‘ وہ عام فہم اور سیدھے سادے الفاظ میں اشعار کہتے ہیں‘ ان کے اور قاری کے درمیان ابلاغ کا مسئلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس کہتے ہیں کہ منور ہاشمی کی غزلوں میں وہ سارے رنگ موجود ہیں جو کسی بھی اعلیٰ ترین شاعری میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر حمیرا اشفاق کہتی ہیں کہ منور ہاشمی کی غزل تصورِ عشق‘ رومان پرور جذبات اور گہرے مفاہیم کی حامل ہے۔
ڈاکٹر نذر عابد لکھتے ہیں کہ منور ہاشمی نے لمحۂ موجود کی تلخیوں کے ساتھ ساتھ آنے والے زمانوں کے خوش گوار احساسات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر محمد امجد عابد نے لکھا ہے کہ منور ہاشمی کی شاعری زندگی کی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے لیکن اس میں جذبات کی دل آویز موسیقی بھی موجود ہے۔ پروفیسر کلیم احسان بٹ کہتے ہیں کہ منور ہاشمی کی شاعری کا امتیازی وصف اس کی سادگی ہے وہ کبھی الجھا ہوا‘ غیر ہمور اسلوب اختیار نہیں کرتے اور سہل ممتنع کے ذریعے اپنا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پیغام باآسانی قاری تک پہنچ جائے۔ ڈاکٹر تحسین بی بی نے کہا کہ منور ہاشمی کی ساری شاعری اپنی زمین سے منسلک ہے۔ معاشرے کے مسائل ان کی شاعری کا محور ہیں۔ ڈاکٹر کنول بتول کے نزدیک منور ہاشمی نے نثری نظم کا کوئی تجربہ نہیں کیا تاہم انہوں نے اپنی غزل میں ایسی تازگی‘ خوش بیانی اور شگفتگی پیدا کر دی ہے کہ ان کا نام اردو ادب میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ ڈاکٹر منور ہاشمی کے اشعار میں کوئی فنی اور عروضی خرابی نہیں پائی جاتی ان کے اشعار میں شعری بُنت‘ گہرائی اور گیرائی بہ درجہ اتم موجود ہے۔ ڈاکٹر شمائلہ مہرین‘ پروفیسر ثمینہ گل‘ ڈاکٹر صنم شاکر‘ پروفیسر ابرار خٹک‘ جنید آذر‘ حمیرا جمیل‘ راج محمد آفریدی‘ اورنگ زیب‘ نوید ملک‘ حافظ حیات‘ محمد بلال اسلم‘ مظہر عباس‘ نیلم بہادر‘ شمسہ نورین‘ ڈاکٹر امجد پرواز‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ پروفیسر سلیم خلجی‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ ڈاکٹر سید محمد سلیم‘ ڈاکٹر توصیف تبسم‘ خاور چوہدری‘ ندیم افضال‘ پروفیسر رابعہ تبسم‘ ڈاکٹر اے ایم چشتی‘ ناصر زیدی‘ انور مسعود‘ علامہ ابوالوفا حجازی نے بھی دھنک رنگ کے منور ہاشمی نمبر میں ڈاکٹر منور ہاشمی کو خراج تحسین پیش کیا ہے اس کے علاوہ منظوم خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سعادت حسن آس‘ ڈاکٹر محمد حیدر‘ آفتاب ترابی‘ محمد مختار علی‘ شوکت جمال‘ حبیب صدیقی‘ محمود ناصر‘ عزیز طارق‘ شمسہ نورین‘ حسن امجد شامل ہیں۔
راقم الحروف نے ڈاکٹر منور ہاشمی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور کچھ سوالات کیے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت غزل سب سے زیادہ لکھی جارہی ہے۔ ڈاکٹر ہاشمی نثری نظم کے مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ادب کو اخلاقیات اور مذہبی حدود کا پابند ہونا چاہیے۔ بے لگام ادب زہر قاتل سے کم نہیں۔ آج کے نقاد اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نہیں نبھا رہے۔ نعت نگاری میں تنقید کی گنجائش موجود ہے غیر شرعی باتیں نعت کے لیے مناسب نہیں۔ ترقی پسند تحریک ایک نظریاتی ڈراما تھا جس کے پیچھے غیر ملکی نظریات کار فرما تھے تاہم اس تحریک سے اردو نظم اور افسانے کو فروغ حاصل ہوا۔ اس وقت ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے بیشتر قلم کار حکومت کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اردو زبان کے عملی نفاذ میں بیورو کریسی رکاوٹ بن رہی ہے۔