خاطرِ معصوم

356

اسامہ میر
سلیم احمد کی “غالب کون؟” اور “نئی نظم اور پورا آدمی” کے بعد واقعتاً کوئی تنقید کی کتاب پڑھنے کو ملی تو وہ یہ “خاطرِ معصوم” ہے، جس میں غزل اور مثنوی پر جو سیر حاصل گفت گو ہے ،ایسی گفت گو کرنے والے شاید کم ہی ہوں، خوشی کی بات کہ ایک افسانہ نگار جس نے پوری اردو شاعری کی روایت کو گھول کر پی لیا تھا، اس کی کتاب ہے، افسوس کہ شعر کہنے والا بھی ایسی نگاہِ خاص نہیں رکھتا، جس طرح “غزل” کے حصے میں ضمیر الدین احمد نے حسرت پر کام کیا ہے، اللہ اکبر، کہ حسرت کے شعری پیرائے کو مکمل بیان کر دیا ۔
بد قسمتی سے ہمیں نصاب میں مثنوی “سحر البیان” اور “گلزارِ نسیم” پڑھائی تو جاتی ہے مگر کیسے، یہ تمام اردو ادب کے سنجیدہ طالب علم جانتے ہیں کہ مثنوی کے اہم حصے کو چھپا کر، دیو مالائی کہانی کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے
حصہ ء مثنوی کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بات آشکار ہوئی کہ محبوبہ کی لعن طعن یا تردد و مزاحمت بھی ایک خاص قسم کی جمالیات رکھتی ہے ،مثلا

لاکھ منت کرو بلائیں لو
وہ نہیں ہوگا تم جو سمجھے ہو

بہرحال یہ ایک بہترین کتاب ہے، نئے لکھنے والو کے ساتھ، سینئر کو بھی پڑھنی چاہیے جو کہ غزل گوء شعراء تو ہیں، مگر غزل میں کتنے پھیکے پن سے، قبلِ اختلاط کے یا دورانِ اختلاط کے یا بعدِ اختلاط کے تمام مناظر نظم کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کی جمالیاتی حس ماتم کرتی ہے ۔
اس کتاب کے شائع ہونے پر، “شہرزاد” کے لئے مبارکباد تو بنتی ہے، میری استدعا ہے کہ اس کا دوسرا ایڈیشن بھی بہت جلد منظر عام پر آنا چاہیے
2 “پانی کا لمس”
بسا اوقات شعر کی کتاب کا نام، اس قدر بھاری ہوتا ہے کہ کتاب کے اندر شاعری بہت ہلکی ہوتی ہے، اور کبھی نام بہت سطح کا ہونے کے باجود شعر کا معیار بہت بلند ہوتا ہے، دو روز گزرے محمد علی منظر صاحب نے اپنا دوسرا مجموعہ عنایت فرمایا، “پانی کا لمس” نام بہت اچھا ہے، اسی کومل احساس کے ساتھ محمد علی منظر کی شاعری ہمارے سامنے آتی ہے، کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کہیں عتیق احمد جیلانی نظر آئے تو کہیں احمد مشتاق کی جھلک دکھائی دی، اچھی بات تو یہ ہے کہ جیسے عتیق جیلانی اور احمد مشتاق نے زبان کے ساتھ کھیل نہیں کھیلا بالکل اسی طرح محمد علی منظر کے ھاں مجھے کہیں ظفر اقبالیاں نظر نہیں آئیں، بہت اچھی شاعری ہے، کتاب شاندار آراستہ ہو کر ہمارے سامنے آئی، کتاب کا نام جتنا اچھا ہے بالکل ویسے ہی سعید الدین صاحب کی خطاطی کا بھی جواب نہیں
کچھ شعر پڑھیے

اس کو نسبت کی خاک زادوں سے
خاک اندر اتر گیا ہے دل
فلک پر چار سو چھایا اندھیرا
نشانِ صبحِ خوش آثار گم ہیں
ہر ایک چیز مری دسترس سے باہر تھی
سو چشمِ نم لئے بازار سے نکل آیا
اتنی شفاف فضاء اتنا مہکتا ہوا دن
میرے ہونٹوں سے تری حمد و ثناء آتی ہے
کچھ دن خزاں بہار دکھا کر چلے گئی
اک روشنی چراغ میں آکر چلے گئی
میں بہہ رہا تھا اس کے بدن کے بہاؤ میں
اک تیز چیخ مجھ کو جگا کر چلے گئی
عشق کوچے میں تھے جواں کتنے
میر جیسا نہ کوئی آن رہا

دو باتیں اور
1، “سحابِ سبز اسے رکھے گا اپنے سائے میں
چمن کو آئے گا جب وہ خرام کرتے ہوئے”
یا تو اس شعر میں بہت بڑا سقم نمایاں ہے یا ٹائپنگ کی غلطی ہے.
2، آپ نے ایک مصرع اتنا خوبصورت کہا کہ دل خوش ہوگیا
“ہم کو ان سے کہیں بچھڑنا تھا” ع
یہ ہے اصل زبان کی لطافت مگر ایک جگہ آپ ایک اور مصرع کہتے ہیں
“اس سے وعدہ کیا پر نہیں مل سکا” ع
ان سے وعدہ، زیادہ بہتر لگتا
3 “دھوپ کے پار”
نت نئے قوافی ڈھونڈ نکالنا، انوکھی ردیف بنا کر پھر عجیب و غریب بحر وجود میں لانے کے بعد، توڑ جوڑ کر مصرع بنانا، پھر مصرعے پر مصرع لگانا، فن کاری تو ہو سکتی ہے، شاعری نہیں ہو سکتی، دلاور علی آذر کے توسط سے “دھوپ کے پار” پڑھنے کا موقع ملا، یہ شعری مجموعہ سحرتاب رومانی کا چوتھا شعری مجموعہ ہے، زود گوئی سنجیدہ شاعر کے لئے آپ اپنا دشمن ہونا ہے، کہ وہ اپنی زود گوئی کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہوتا ہے کہ مجبورا خود کو دہرانا پڑتا ہے ،جیسے اسی کتاب میں مجھے ایک جگہ نظر آیا

دین داری کر رہے تھے
ہوشیاری کر رہے تھے
کہاں اب دین داری ہو رہی ہے
سراسر ہوشیاری ہو رہی ہے

بہرحال. ایک آدھ ہی اچھا شعر پڑھنے کو مل سکا، علاوہ اس کے چار یا آٹھ مجموعے آنے کے بعد شاعر نہیں کھلتا، بہت تھوڑے کلام میں بھی اپنا آپ دکھا جاتا ہے اگر وہ سچا ہے تو، جیسے کہ محبوب خزاں
“دھوپ کے پار” میں یہ شعر اچھا لگا

تمہیں یہ شہر بسانے کی کیا ضرورت تھی
تمہیں تو اپنے قبیلے کا فرد ہونا تھا

حصہ