پہاڑوں کے بیٹے

415

ام ایمان
تیسری قسط
نیچے وادی میں جگہ جگہ جھاڑیاں اور سبزہ تھا۔ بڑے بڑے سایہ دار درخت بھی تھے، لیکن زیادہ نہیں، دوچار ہی تھے۔ نیچے تک پہنچ کر سارے جانور مزے سے چرنے لگے۔ ہلال نے اپنے بازوئوں میں اٹھائے ہوئے میمنے کو زمین پر رکھ دیا۔ وہ نیچے اترتے ہی چھلانگیں مارتا اپنی ماںکے پاس جا پہنچا جو قریب ہی گھاس چر رہی تھی۔ اس نے اپنے سر اور گردن سے رگڑ رگڑ کر اسے پیار کیا اور پھر گھاس کھانے میں مشغول ہوگئی۔
بلال اپنے مخصوص درخت کے نیچے پڑے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ ہلال لکڑیاں جمع کرتا دور نکل گیا۔
اتنے میں ایک جہاز تیزی سے پہاڑوں کے اوپر سے گزرا۔ بلال گڑگڑاہٹ کی آواز سن کر پہلے ہی آسمان کی طرف نظریں لگائے ہوئے تھا۔ جب تک جہاز نظر آتا رہا، بلال آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ اچانک جہاز سے دھواں نکلنے لگا اور پھر وہ سرخ آگ کے دھکتے ہوئے گولے میں تبدیل ہوگیا۔ پھر وہ تیزی کے ساتھ زمین کی طرف آنے لگا، پھر ایک زوردار دھماکہ ہوا اور جہاز دور پہاڑوں کے پار کہیں غائب ہوگیا۔
جہاز کی گڑگڑاہٹ اور دھماکے کی آواز نے کچھ دیر جانوروں کو ہراساں رکھا، پھر تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ گھاس چرنے میں مشغول ہوگئے۔
ہلال دور سے لکڑیاں بڑی سی جھاڑی پر رکھ کر کھینچتا چلا آرہا تھا۔ چہرہ سرخ تھا۔ جوش سے یا مشقت کے باعث، پھولی ہوئی سانس سے بولا ’’بھیا! تم نے جہاز دیکھا؟ وہ روس کا تھا ناں؟ ضرور مجاہدوں نے گرایا تھا… ہے ناں؟ شاید کمال بھائی یا جمال بھائی نے گرایا ہو؟‘‘
ہلال کے سوال پر بلال مسکرانے لگا ’’تم بالکل بے وقوف ہو، ابھی تو جمال اور کمال بھائی تربیت حاصل کررہے ہیں۔‘‘
’’کیا پتا جہاز گرانے کی ہی تربیت حاصل کررہے ہوں۔‘‘ ہلال ابھی بھی بضد تھا کہ یہ کارنامہ بھائیوں کا ہی ہوگا۔
بدخشاں کا یہ دور دراز کا گائوں جہاں زندگی بڑی پُرسکون تھی اور ملک بھر میں ہونے والی جنگ کا اثر ابھی یہاں تک نہیں پہنچا تھا، کبھی کبھار کوئی ہوائی جہاز اس طرح گڑگڑاتا گزرتا تو سبھی لوگ اِدھر اُدھر آڑ میں چھپنے کے بجائے گردن اٹھا کر دور تک اس کو دیکھتے رہتے۔ لیکن یہ پہلا جہاز تھا جس کو اس علاقے کے لوگوں نے یوں آگ کا گولہ بن کر گرتے دیکھا۔
سورج نے جیسے ہی واپسی کے سفر کا آغاز کیا، بلال نے بھی واپسی کا ارادہ کیا اور اپنے جانوروں کو جمع کرنے کے لیے آواز نکالی ’’ہو ہو ہو… ہو ہوہو!‘‘
بلال کی آواز پر دور دور تک بکھری بکریاں اپنے میمنوں اور گائے اور اپنے بچھڑے کے ساتھ بلال کی طرف آنے لگیں۔ ذرا دیر میں وہ سب ایک جگہ جمع ہوگئے۔ بلال نے آگے بڑھ کر سب جانوروں کے سروں اور گردنوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔
ہلال نے لکڑیوں کا گٹھا بنا لیا تھا۔ اپنا کام مکمل کرکے وہ درخت کی چھائوں میں پتھر کو تکیہ بنائے آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ جانوروںکی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر بھائی کو دیکھا۔ ’’بھیا گھر جانا ہے؟‘‘
’’ہاں آج جلدی چلتے ہیں، بابا آئے ہوئے ہیں ناں، ان سے محاذِ جنگ کے قصے سنیں گے۔‘‘
بھائی کی بات سن کر ہلال کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ تجسس کے مارے جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ سفید بکری اپنے میمنے کے ساتھ اس کے پاس سے گزری تو اس میمنے کو پیار کیا، لیکن اب اس کا ارادہ اسے اٹھانے کا نہ تھا۔ خشک لکڑیوں کو لے کر اسے اوپر جانا تھا۔ زبیر نے زینب کو سفر کی تیاری کے لیے کہہ دیا تھا۔
…٭…
بلال اور ہلال گھر کے پاس پہنچ کر رک گئے۔ بلال نے جانوروں کو باڑے میں بند کیا اور ہلال نے کوٹھڑی میں خشک لکڑیوں کو قرینے سے ترتیب دیا۔ پھر دونوں گھر میں داخل ہوئے۔
زبیر نے آگے بڑھ کر دونوں کو پیار کیا اور سینے سے لگایا۔ ’’آگئے میرے جوان‘‘۔
دونوں، باپ کو گرنے والے جہاز کی تفصیل سنانے کے لیے بے چین تھے، لیکن زینب نے ان کو غور سے دیکھا۔ ماں کی نظر کا مطلب دونوں جانتے تھے، لہٰذا انہوں نے ہاتھ منہ دھونے کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا۔ ہلال جلدی سے ہاتھ منہ دھو کر آیا اور زبیر کے پاس تخت پر بیٹھ کر نمک مرچ کے ساتھ جہاز گرنے کے واقعے کی تفصیلات بتانے لگا۔
زبیر پوری دل چسپی کے ساتھ کہانی سن رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں بلال بھی آگیا۔ وہ ہلال کی لمبی کہانی کی رنگ آمیزیاں سن سن کر مسکرانے لگا۔
’’پھر پتا ہے کیا ہوا؟‘‘
زبیر نے نفی میں سر ہلایا۔’’کسی مجاہد نے میزائل مارا اور روسی جہاز دھڑ دھڑا جلنے لگا۔ میرا خیال ہے وہ مجاہد ضرور جمال یا کمال بھائی میں سے کوئی ہوگا۔ ہے ناں…؟‘‘ اس نے تائیدی نظروں سے بھائی کی طرف دیکھا۔
’’کیا پتا جہاز میں خرابی ہوگئی ہو، تم کو کیسے پتا چلا کہ کسی مجاہد کا میزائل لگا ہے، اور وہ بھی جمال یا کمال بھائی کا؟‘‘ ہلال نے چھیڑنے کے انداز میں اعتراض اٹھایا۔
’’جی نہیں…! اگر جہاز میں خرابی ہوتی تو پہلے دھواں اٹھتا، لیکن جہاز تو یک دَم سے آگ کا گولہ بن گیا تھا۔ ضرور کسی مجاہد نے ٹھیک ٹھیک نشانہ لگایا تھا۔‘‘
کھانے کے دوران زبیر نے بچوں کے ماموں شیر دل کے گھر چلنے کی خوش خبری سنائی تو دونوں بہت خوش ہوئے۔ ایک تو پہلی دفعہ گائوں سے باہر جانے کا خیال، پھر ماموں شیر دل کے بیٹے گل روز اور مہروز سے ملنے کی خوشی، ہلال اور بلال گل روز اور مہروز کے ہی تقریباً ہم عمر تھے۔
’’لیکن بابا میرے چوزوں اور میمنے کا کیا ہوگا؟‘‘ فاطمہ نے انتہائی تشویش سے کہا۔
’’انہیں ہم ہاشم چاچا اور زرغونہ چاچی کے پاس چھوڑ دیں گے، اور پھر جب تم واپس آئو گی تو انہیں دیکھ کر حیران ہوجائو گی کہ آخر یہ اتنے بڑے بڑے کیسے ہوگئے۔‘‘ زبیر نے فاطمہ کو بہلایا۔
فاطمہ باپ کے پاس بیٹھی تھی، اس کی ٹھوڑی زبیر کے گھٹنے پر ٹکی تھی۔ ابھی بھی اس کی افسردگی ختم نہ ہوئی تھی۔
’’بابا! آپ ہمیں میدانِ جہاد کے قصے سنایئے ناں۔‘‘ بلال اور ہلال دونوں باپ کی طرف متوجہ ہوگئے۔ زبیر نے زینب کی طرف دیکھا، وہ بھی مارے اشتیاق کے قریب آبیٹھی تھی۔ زبیر نے مسکرا کر ان سب کا اشتیاق دیکھا اور پھر بولا ’’بچو! پہلے یہ بتائو کہ ہم یہ جہاد کیوں کررہے ہیں؟‘‘
’’اس لیے بابا کہ روسیوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کررکھا ہے۔‘‘ ہلال جلدی سے بولا۔
زبیر نے خاموشی کے ساتھ سوالیہ نظروں سے بلال کی طرف دیکھا۔ وہ اس سوال کا جواب اُس کے منہ سے بھی سننا چاہتا تھا۔
’’بابا! یہ جنگ ہم اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہمارا دین خطرے میں ہے، یہ روسی کافر ہمیں بھی اپنے ساتھ کافر بنانا چاہتے ہیں، اور اسی لیے انہوں نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے۔‘‘ بلال نے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ زبیر کے سوال کا جواب دیا۔
’’شاباش میرا بیٹا! یہی اصل بات ہے کہ ہم یہ جنگ قوم اور ملک کے لیے نہیں، اپنے دین کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اللہ کی راہ میں لڑنا ہی دراصل دین کی حفاظت کی جنگ ہے۔ میدانِ جہاد میں دشمنوں کا مقابلہ کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ لوگوں میں سے بہترین لوگ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ’’وہ جو اللہ کے راستے میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرتے ہیں۔‘‘ میرے بچو! جہاد مجاہد کی زندگی ہوتا ہے۔ وہ اس کی روح اور خوشبو ہوتا ہے۔ مجاہد جہاد کے میدان میں ایسے خوش رہتا ہے جیسے مچھلی سمندر میں۔ شہادت ہر مجاہد کی تمنا ہوتی ہے۔ اسی تمنا کے لیے وہ اپنا آرام و چین قربان کرتا ہے۔ اپنی جان پر مشقت برداشت کرتا ہے۔ وہ پوری پوری رات جاگ کر گزارتا ہے کہ اس کے بھائی اطمینان سے سوسکیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ان کی ہمتیں اور حوصلے جوان رکھتا ہے کہ ’’اللہ کے راستے میں ایک روز کا پہرہ پوری دنیا اور جو کچھ اس کے اوپر ہے، اس سے بہتر ہے۔‘‘
زبیر کا چہرہ دبے دبے جوش سے تمتمانے لگا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوا تو کسی نے بھی اس خاموشی کا پردہ چاک نہ کیا۔ سب ہی زبیر کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ زبیر کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد دوبارہ بولا ’’میرے بچو! آج میں تمہیں ’’نوراللہ‘‘ کی کہانی سناتا ہوں، جو عمر میں شاید تم سے بھی کچھ چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘ (جاری ہے)۔

حصہ