والدین آرٹس پڑھنے سے کیوں روکتے ہیں؟۔

738

صبا احمد

عجب ہے والدین کا فلسفۂ تعلیم
سائنس خاص ہے اور آرٹس عام

ہم نے اپنے والدین اور دادا دادی کو ہمیشہ یہ کہتے سنا کہ ہمارا بھتیجا بھائی، بھانجا، چچا اور تایا بہت پڑھے لکھے تھے، بے۔اے۔پاس تھے۔ امی ابو آج فلاں رشتے دار کے گھر مبارک دینے جا رہے ہیں کیوں کہ ان کے بچوں نے بڑے اچھے نمبروں سے گریجویشن مکمل کیا ہے۔
آج آرٹس صرف لڑکیوں کے لیے مختص کر دی گئی ہے مگر لڑکے اسے نہیں پڑھتے-ستم ظریفی یہ کہ والدین بھی منع کرتے ہیں کہ اس میں تمہارا کیا مستقبل ہوگا بلکہ والدین اب لڑکیوں کو بھی پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کی طرف یہ کہہ کر راغب کر رہے کہ لڑکیاں لڑکوں سے کسی طرح کم نہیں،بہتر مستقبل کے لیے اعلی تعلیم آرٹس نہیں۔
اندلس اورغرناطہ میں مسلمانوں نے جو جامعات بنائی تھیں اُن میں قرآن حفظ کروایا جاتا‘ فقہ کا علم اس کے علاوہ سائنسی علوم پڑھائے جاتے، کیمیا ، طبیعات، علم حیوان ونباتات، ریاضی اور فلکیات۔ مسلمانوں کی دنیا پر حکومت ختم ہوئی، انگریزوں کا دور آیا۔ انہوں نے یونیورسٹیاں بنائیں۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے جن ملکوں پر قبضے کیے۔پھر سائنسی علوم کو شاخوں میں تقسیم کیا انسانی نسلوں کی طرح تفریق کردیا۔سائنس کی علوم ڈاکٹر اور انجینئر، ماہر معاشیات یعنی تجارت، کاروبار اور بنکنگ کو پرو فیشنل کا نام دیا۔
جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی‘نئی نئی ایجادات ہوئیں‘ علوم کو شاخوں میں تقسیم کیا تو بی اے کو آرٹس اور بی ایس سی سائنس کو اہمیت دی جانے لگی اور آرٹس کا معیار گرا دیا گیا کہ وہ لوگ بی اے کرتے ہیں جو سائنس پڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ معاشرے میں ان کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ استاد یا کلرک کی نوکری تک مختص کردیے جاتے۔کامرس والوں کو بھی بنک‘ میں حساب کتاب کے حوالے سے نوکری مل جاتی ہے۔ ایم بی اے ،آئی۔سی۔ایم۔ا ے ، بی بی اے۔اور بہت سی دوسری ڈگریاں نکل آئی ہیں۔
معاشرے میں مادہ پرستی سرائیت کر گئی ہے۔ تعلیم محض زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور معاشرے میں اونچا مقام حاصل کرنے کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔ سوچ کا محور اور نظریے بھی بدل گئے ہیں اور والدین چاہتے ہیں کہ خاندان اور معاشرے میں ہمارے بچوں کا مقام اونچا ہو، کسی سے پیچھے نہ رہیں۔بعض اوقات اسی چکر میں بچہ تعلیم سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔
ضروری نہیں کہ اولاد سائنس کے میدان میں ترقی کرسکتی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اسے آرٹس کے مضامین زیادہ پسند ہوں اور اچھی طرح سمجھتا ہو اور ترقی کر کے آگے بڑھ جائے، اتنا ہی کمائے جتنا کہ سائنس کے مضمون میں ڈگری لینے والا کما رہا ہو۔ ہم اس طرح نہ صرف بچے کی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ وقت اور عمر بھی۔اسے ان مضامین کو پڑھنے دیں، جس میں اس کو آسانی ہو تاکہ وہ معاشرے کے لیے کارگر ثابت ہوسکے۔
مغرب میں مضمون بچہ اپنی پسند کا منتخب کرتا ہے۔وہاں ووکیشنل ایجوکیشن کو بھی ترجیح دی جاتی ہے۔ علم وہنر کی اگر بات کریں تو مغرب کی طرح اب پاکستان کے لوگ بھی پسند کرتے ہیں۔
سائنس کے علوم میں تعلیم حاصل کرنا اسٹیس سمبل بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کچھ لوگوں نے سروے کیا کہ 50فیصد لوگ پروفشنل تعلیم کو فوقیت دیتے ہیں‘ 30 فیصدکامرس یا معاشیات جبکہ20 فیصدآرٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔علم خود اپنی ذات میں روشنی ہے۔علم ذہن کے دریچوں کو نہ صرف کھولتا ہے بلکہ ذہنی سطح اور سوچ کے دائرے بھی متعین کرتا ہے۔ کردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آج کی ترقی مشینوں کی ایجادات، میڈیکل کے میدان، انجینئرز دوسرے الفاظ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ معاشیات اور آرٹس کی اہمیت اب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ کچھ نادان لوگ کہتے ہیں کہ آرٹس کے مضا مین کی تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ جیسے کوئی بچہ ذہنی وجسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے پھر اس پر خاص توجہ دینے سے وہ خاندان اور معاشرے کے لیے فعال بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جیسے ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں بنائی، اسی طرح ہر انسان کو مختلف ذہانت ، خصوصیات اورتوانائی عطا کی ہے۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ تاکہ ہر انسان اپنے حصے کا کام کرے اور اس دنیا کا کارخانہ چل سکے۔ سب لوگ ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر اور سائنس دان نہیں ہو سکتے۔ مختلف علوم اور پیشوں سے انسان ایک دوسرے کے کام آتا ہے اور معاشرے کو بھی ضرورت ہے۔
والدین اورمعاشرے کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے احباب جیسے مصوروں،شاعر،قلم کاروں کوآج بھی سراہا جاتا ہے۔ اپنے ادب اور ثقافت کو نہ صرف زندہ رکھتے ہیں بلکہ کتابی شکل میں محفوظ کر دیتے ہیں اور کتنے سودمندی ثابت ہوتے ہیں۔
احمد صاحب کوچنگ میں پڑھاتے ہیں اور نجی کالج میں پرو فیسر بھی ہیں،گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے دو ہم جماعت ساتھیوں نے سائنس چھوڑی اور بی اے میں آپشنل حساب رکھا اس میں ایم۔ اے کیا اب ان کی طرح پروفیسر ہیں۔ شروع میں ان کے والد سائنس چھوڑنے پر ناراض تھے لیکن جب اس نے بی اے میں حساب میں ٹاپ کیا تو ان کو اپنی سوچ پر افسوس ہوا اور بیٹے کے فیصلے کو سراہا۔ ہو سکتا ہے وہ سائنس کے مضمون میں اتنے نمبر نہ حاصل کرتا۔
اسی طرح ایک دوست نے انگلش اور اسلامیات میں ایم اے کیا اور ٹاپر رہے۔نجی کالج کی ایک پروفیسر نے پری انجینئرنگ کے بعد اردو میں ماسٹر کیا اور آج وہ اچھے عہدے پر فائز ہیں۔ شہناز صاحبہ ہماری کلاس کی سب سے ذہین طالبہ سمجھی جاتی تھیں، پری میڈیکل میں 90 فیصدکے بعد انہوں نے اپنے شوق اور دلچسپی کے باعث بی اے اور ایم اے کیا‘ اس کے والدین نے دیکھا کہ بیٹی کی دلچسپی نہیں تو انہوں نے بھی نہیں روکا۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہم پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا مرد اور عورت پر یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ علم کے دروازے ہم پر کھول دیے گئے۔ہمارے نبی ؐ نے علم کا شہر اورخلیفہ حضرت علی کرم وجہ اللہ کو علم کا دروازہ کہا ہے اور قرآن تمام علوم کا مجموعہ ہے۔اس میں ہر علم کو مثالوں سے اور واقعات سے سمجھایا گیا ہے۔عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

حصہ