سید سعادت اللہ حسینی
ان فی ذلک لآیات للمتوسمین(۵۷) و انھا لبسبیل مقیم (۶۷) ان فی ذلک لآیۃ للمؤمنین۔
اس واقعہ میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو صاحب فراست ہیں۔اور وہ علاقہ (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) گزرگاہ عام پر واقع ہے۔اس میں سامان عبرت ہے ان لوگوں کے لئے جو صاحب ایمان ہیں۔
(اس وقت جو صورت حال درپیش ہے) وہ انسانی تاریخ کی منفرد صورت حال ہے۔ پہلی دفعہ پوری انسانی دنیا بیک وقت تعطل کی شکا ر ہے۔ایسا عالمگیر خوف و ہراس پہلے کبھی انسانی دنیا پر نہیں چھایا۔ عالمی جنگوں نے بھی تباہی لائی تھی لیکن اس وقت خوف صرف دشمن کا تھا لیکن اب تو ہر انسان دوسرے انسان سے گھبرارہا ہے۔ ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیوں کے باوجود پوری بنی نوع انسان قدرت کے ایک ہلکے اشارے کے آگے کتنی بے بس ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار (اے بصیرت والوں عبرت حاصل کرو)۔
یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد بے شک دنیا بدل جائے گی،انسانی زندگی کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہوگا۔یہ مشکل دور بہر حال گزرجائے گا اور اس کے بعد ہمارا سامنا ایک نئی دنیا سے ہوگا۔یہ نئی دنیا کیسی ہوگی؟ اس پر بھی ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس عالمگیر آفت سے ملنے والے اسباق ساری انسانیت کے لیئے کیاہیں اور ہم کیسے ان اسباق کی طرف دنیا کو متوجہ کرسکتے ہیں۔ اس پر آئندہ بات ہوگی لیکن اس وقت خاص طور پر امت مسلمہ کے لئے حاصل ہونیوالے اسباق پر بات کریں گے۔
بے شک مصیبتیں، تنبیہ اور وارننگ بھی ہوتی ہیں۔چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ”اَوَلا یرون انھم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتیں ثم لا یتوبون و لا ھم یذکرون‘ (کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں (۵۲۱) مگر اس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ کوئی سبق لیتے ہیں (سورہ توبہ) بہر کیف ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وبا کے پیچھے اللہ کی کیا منشا ہے۔لیکن ایسے واقعات ہم سب کے لئے تنبیہ ہیں۔ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے،انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔نیز اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کیاخیر پیدا کرنا چاہتا ہے، یہ بھی ہمارے غورو فکر کا خصوصی موضوع بننا چاہئے۔ایک بات یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس واقعہ کے ذریعہ امت کے بہت سے رویو ں کی اصلاح اور امت کی تربیت کا سامان بھی فراہم ہورہا ہے۔
اجتماعی آفتوں کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتاہے کہ اس سے قوموں کی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ چلتا ہے۔آفت کے ان چند دنوں میں امت مسلمہ کی بالخصوص ہندوستان کے مسلمانوں کی خوبیوں و خامیوں کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے، اس میں کچھ باتیں متاثر کن ہیں۔مثلاً امت کی دینی شعائر سے جذباتی وابستگی کی جو کیفیت اس دوران سامنے آئی ہے وہ قابل ستائش ہے۔اگر شعور کی صحیح تربیت ہوجائے تو انشاء اللہ یہ جذبات امت کا بہت بڑا اثاثہ ہوں گے۔یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ امت مسلمہ کے شعور کی صحیح تربیت نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ان پاکیزہ جذبات کا نہ صرف یہ کہ تعمیر ی استعمال نہیں ہوسکا بلکہ کبھی ان سے نقصان بھی ہوجاتا ہے۔
امت کی کمزوریاں اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق
پہلا سبق: دین کا صحیح شعور اور اجتہادِ فکر
اسلام اصلاً اللہ کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے۔شریعت میں احکام کی ایک خاص ترتیب ہے، ان کے مقاصد ہیں۔انہیں نظر انداز کرکے صرف احکام کے ڈھانچے پر توجہات مرکوز ہوجائیں تو دین کی روح ختم ہوجاتی ہے۔چنانچہ نماز ّ(آفتاب کے طلوع، غروب اور زوال کے وقت)اور روزہ (سال کے پانچ دن)جیسی عظیم عبادات سے بھی بعض وقتوں میں منع کیا گیا ہے۔ اس ممانعت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اصل مقصود عبادتوں کے مراسم نہیں بلکہ اللہ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔شریعت میں انسانی جانوں کی بڑی قیمت ہے، اسی لئے ہمارے علماء نے موجودہ حالا ت کے پیش نظرنماز گھروں میں ادا کرنے کو کہا ہے۔یہی دین اور دین کے مزاج کا تقاضہ ہے لیکن توجہ دہانی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد اس کے لئے تیار نہیں ہے، یہ ناقص دینی شعور کی علامت ہے۔کورونا کی اس آفت کے دوران امت کی کمزوری بھی نمایاں ہوئی ہے اور اس کی اصلاح و تربیت کا سامان بھی پیدا ہواہے۔ان چند دنوں میں امت کو دین کی روح کی طرف متوجہ ہونے کا موقع ملا ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ آئندہ دین کے صحیح شعور کو جگانے کے لئے کوشش کی جائے۔
الحمد للہ اس دوران پوری دنیا میں ہمارے علماء نے اسلام کے اجتہادی مزاج کا مظاہرہ کیا ہے۔تحریکات اسلامی نے ہمیشہ اجتہاد فکر پر زور دیا ہے۔انہوں نے دین کے مزاج اور اس کی روح کا بھی لحاظ رکھا، مقامی حالت پر بھی نظر رکھی اور متعلقہ سبجیکٹ کے ماہرین سے مشاورت بھی کی۔جس وقت جن علاقوں میں ماہرین نے ابتدائی درجے کی احتیاطی تدابیر کا مشورہ دیا،ہمارے علماء نے اسی سے متعلق ہدایات جاری کیں اور جہاں ماہرین نے مکمل لاک ڈاؤن کی ضرورت سمجھی، ہمارے علماء نے نماز،جماعت اور جمعہ سے بھی عام لوگوں کو روکا۔یہ ایک غیر معمولی صورت حال تھی۔اگر ہمارے علماء اس جدید مسئلے کا حل فقہی مسلکوں کی قدیم کتابوں میں ڈھونڈتے رہتے تو شاید لاکھوں لوگوں کی موت کا سبب بنتے لیکن انہوں نے الحمد اللہ ایسا نہیں کیا۔ان حالات میں جس بصیرت کا مظاہرہ ہوا، اگر وہ اجتماعی طور پر ہمارے اندر پیدا ہوجائے تو انشا ء اللہ اس سے بھی امت کے احوال میں بہت بڑا اور خوشگوار انقلاب آئے گا۔کورونا کی وبا کے بعد امت کی دینی قیادت میں یہ انقلابی تبدیلی آنی چاہئے کہ جس بیدار مغزی اورسرعت و تیزی کا مظاہرہ اس مصیبت سے نجات پانے کے معاملہ میں کیا، آئندہ امت کے مستقل مسئلوں کو حل کرنے میں بھی کرے۔
دوسرا سبق: علمی اور سائنسی رویوں کا ہے
سائنس دراصل فطرت کے اُن اٹل قوانین کو سمجھنے کی کوشش کانام ہے جنہیں قرآن نے سنت اللہ کہا ہے (فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا۔الآیۃ) یعنی تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے،الخ۔قرآن نے جگہ جگہ عقل کا استعمال اور فطرت کے ان اٹل اصولوں کی کھوج کرنے کی تعلیم دی ہے۔ اس دوران ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے بھی ایسے رویے سامنے آئے جو عقل عام کے سراسر خلاف ہیں۔ہم اس دین سے تعلق رکھتے ہیں جو عقل کو بہت زیادہ اہمیت دیتاہے اور اسی وجہ سے یہ دین علم و تحقیق کے نہایت شاندار دور کے آغاز کا سبب بنا تھا۔
دنیا کو اس سے کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ ماضی میں آپ کیا تھے اور آپ نے کیا کیا تھا؟جو کچھ آپ کے بزرگ کرگئے، وہ انسانیت کی مشترک میراث بن گیا۔دنیا یہ دیکھتی ہے کہ آج آپ کیا کررہے ہیں؟ کوروناکا علاج ڈھونڈنے میں آپ کی کیا حصہ داری ہے۔حصہ داری بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا مزاج وہی ہو جو قرآن پیدا کرنا چاہتاہے، اللہ کی نشانیوں اور اس کے بنائے ہوئے قوانین فطرت پر آزادانہ غورو فکر کا مزاج۔
غیر علمی مزاج کی اہم علامت، علم اور اہل علم کی ناقدری ہے۔کسی مضمون کو سمجھے بغیر ہم میں سے ہر ایک اپنے ادھورے مطالعہ کی بنیاد پر ہر مسئلہ پر نہ صرف رائے زنی کرنے لگتا ہے بلکہ اپنی رائے پر اصرار بھی کرتا ہے۔ہمارے تصورات،دنیا کے احوال کو دیکھنے کا اور ہمارا مخصوص نقطہ نظر،ہمارے لئے ٹھوس سائنسی دلیلوں اور ماہرانہ شہادتوں سے بھی زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہوجاتے ہیں۔ تعلیم کا کم سے کم نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ہمارے اندر ماہرین کی اہمیت اور ماہرانہ آراء کو مناسب مقام دینے کا شعور پیدا ہو۔یہی دین کی بھی تعلیم ہے۔
تیسرا سبق: ڈسپلن اور اپنی عادتوں پر قابو پانے کی صلاحیت کا ہے
قرآن میں توبہ کو کامیابی اور سربلندی کے لئے درکار ایک اہم صفت قرار دیا گیاہے۔(یٰقوم استغفرو ا۔الآیۃ) ”اے میری قوم کے لوگوں، اپنے رب سے معافی چاہو“۔ (Change) بدلاؤ اور(Status Quo) پرانے نظام سے نکلنے کی صلاحیت کا نام توبہ ہے۔(Flexibility and Changeability)۔لچک اور تبدیلی کا نام توبہ ہے۔ خود کا احتساب کرنے، اپنی غلطی کو محسوس کرنے اور اپنے آپ کو بدلنے کی صلاحیت کا نام توبہ ہے۔جس دن کہا گیا کہ شراب حرام ہے تو مدینہ کی نالیوں میں شراب بہنے لگی۔نسلوں سے شراب کے عادی لوگوں کو شراب چھوڑنے میں صرف ایک سیکنڈ لگے۔یہ توبہ کی صلاحیت ہے۔آج ساری امت سمجھتی ہے کہ شادیوں میں فضول خرچیاں صحیح نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے لئے اس رواج کو بدلنا مشکل
ہوتا ہے۔اس دوران ہماری کمزوری ابھر کر سامنے آئی کہ اپنے رویوں کو مشکل حالات میں بھی ہم بدل نہیں پاتے۔
چوتھاسبق:مسائل کے حل کے لیے منظم اور منصوبہ بند جدوجہد کا ہے
کورونا کی مصیبت پر قابو پانے کے لئے دنیا نے جس طرح کوشش کی ہے،وہ بھی ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے۔ ذہانت، مہارت نئے راستوں کی کھوج، اس کے لئے مختلف قابلیتوں کا ایک جگہ جمع ہونا، ان کے درمیان تال میل اور اجتماعیت، تنظیم اور منصوبہ بندی، ہورہی تبدیلیوں کو نوٹ کرنا اور اس کے مطابق اپنی اسٹریڈجی بدلتے رہنا،قربانیاں دینا جان لڑا دینا ،یہ سب صفات کسی مشکل کا سامنا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
امت مسلمہ بھی دنیا کو بہتر بنانے کا مشن اپنے سامنے رکھتی ہے۔اسے بھی دنیا سے بہت سے وائرس ختم کرنے ہیں۔ظلم و زیادتی، نسل پرستی،فرقہ پرستی کے وائرس، استحصال بغاوت،فحاشی اور بداخلاقی کے وائرس۔لیکن ان وائرسوں کا مقابلہ رٹی رٹائی تقریروں سے نہیں ہوگا۔آپ ذرا تصور کیجئے کہ اگر اس وائرس کا مقابلہ کرنے میں دنیا کے سارے سربرآوردہ لوگ،مائیکروبایولوجی کی قدیم کتابوں سے پڑھ پڑھ کر جگہ جگہ تقریریں کرتے گھومتے تو کیا وائرس ختم ہوتا؟دنیا سے برائیوں کے خاتمہ کا ہمارا عزم بڑا ہے لیکن عملی اپروچ یہی ہے۔ ہمیں ایک بہتر دنیا کو بنانے کے لئے منظم کوشش کرنی ہوگی، اعلیٰ درجے کے ماہرین جمع کرنے ہوں گے اور ان سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔
عزیزان گرامی، اس آفت نے انسان کی بے بسی اور لاچاری کو واضح کیا ہے۔ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔اس سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔ ذکر، دعا، تلاوت، پوری امت میں خدا سے تعلق کی روح پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔لیکن ان اسباق کو بھی سمجھنا چاہیے۔ہم سب امت کو ان اسباق کی طرف متوجہ کریں اور کوشش کریں کہ ہم خود کو بدل کر نئی طاقت و قوت اور نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں۔