کورونا کا سبق

768

تنویر اللہ
کورونا کیا ہے یہ کیسے آیا یہ انسان کا بنایا ہوا ہے یا قدرتی ہے ان رازوں کی پرتیں تو کُھلتی رہیں گی اور نہ جانے دنیا کس نتیجے پر پہنچے گی۔ لیکن یہ طے ہے کہ دنیا اب ویسی نہیں رہے گی جیسی کورونا سے پہلے تھی، آج جو کورونا کو جھیل جائیں گے وہ آئندہ نسل کو بتائیں گے کہ کورونا سے پہلے دنیا ایسی نہ تھی جیسی اب ہے۔
طوفان نوح کے بعد یہ دوسرا ایسا بڑا واقعہ ہے جس نے دنیا کے اتنے بڑے رقبے کو متاثر کیا ہے،اب تک کورونا سے جتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں اس سے بہت زیادہ ہلاکتیں تو پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن اتنی تیزی سے، اتنے بڑے رقبے میں، ایک ہی وقت میں، ایک سی صورت حال یہ دوسری بار ہورہا ہے۔
۱۱/۹ کے واقعے نے بھی دنیا کو بدل دیا تھا، دنیا یونی پولر بن گئی تھی یعنی امریکا دنیا کی واحد قوت بن گیا تھا، اب وہ واحد قوت بھی گھٹنے ٹیکے نظر آرہی ہے، کورونا نے بتا یا کہ ایک اقتدار ان سب سے بالاتر ہے، جس کی کوئی سرحد نہیں جس کے سامنے سب بے بس ہیں صرف اس دنیا پر ہی نہیں بلکہ ساری کائنات اور ساری مخلوقات پر اس کا حکم چلتا ہے باقی سب حکمرانیاں اس کے آگے ہیچ ہیں۔
کورونا سے متعلق بہت سی سازشی تھیوریز، افواہیں دنیا بھر میں گردش کررہی ہیں کیا پڑھا لکھا کیا ناخواندہ کیا امیر کیا غریب کیا بوڑھا کیا جوان، کیا ڈاکٹر کیا حکیم، کیا وید سب کورونا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں طرح طرح کے ٹوٹکے، احتیاطیں بتا ر ہے، لیکن سب محض اندازوں پر بات کررہے ہیں اور کسی کے اندازے اور دعوے کی عمر چوبیس گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی، بتایا گیا کہ یہ وائرس پھیپڑوں کے بجائے اگر معدے میں چلا جائے تو مرجائے گا لیکن چند گھنٹوں میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ معدے میں جاکر بھی تباہی مچائے گا، کسی نے بتایا کہ موسم بدلتے ہی یہ وائرس گرمی سے مرجائے گا لیکن فوراً ہی اس کی تردید آگئی کہ اس وائرس پر گرمی سردی کا کوئی اثر نہیں ہوگا، امریکا کے صدر ٹرمپ نے بتایا کہ اس کا علاج کلوروکوئن سے ہوسکتا ہے لیکن فوراً ہی ان کے ساتھ کھڑے اُن ہی کے ساتھی نے اس کی تردید کردی۔
دنیا اس وقت بے بسی کی انتہا پر کھڑی ہے، امیر، غریب، طاقت ور کمزور سب بے بس ہیں، اسی طرح گھر، ہسپتال، عبادت گاہیں، ریل گاڑی، ہوائی جہاز، امراء کے محلات، غریب کی جھونپڑی، حکمرانوں کے قلعے سب غیر محفوظ ہیںکسی کو بھی اس وباءسے مفر نہیں ہے۔
اسی طرح کورونا کی آمد سے پہلے امریکا کا صدر دنیا کا طاقت ور آدمی شمار کیا جاتا تھا، وہی طاقت ور آدمی ٹرمپ بڑی بے بسی سے اپنے انٹرویو میں گڑگڑا رہا تھا کہ ہمیں اپنے کاموں پر واپس جانا چاہیے، عوام واپس اپنے کاموں پر جانا چاہتے ہیں، اگر ہم نے اپنے کام شروع نہیں کیے تو ہمارے کاروبار ختم ہوجائیں گے، ہماری عوام کی ملازمتیں ختم ہوجائیں گیِِ، ہم تباہ ہوجائیں گے ، اگر ہلاکتیں ایک لاکھ کے اندر رہتی ہیں تو یہ ہماری کامیابی ہوگی، جنہوں نے ساری دنیا کو تاراج کررکھا تھا اُن کا یہ حال ہوگیا ہے، ٹرمپ اپنے عوام سے کہہ رہا کہ آپ اپنے سماجی رابطے کم کردیں، آپ ہاتھ نہ ملائیں، آپ بار بار ہاتھ دھوئیں، لیکن اپ کو کاموں پر واپس جانا چاہیے، ساری دنیا کو اپنے اشارے پر چلانے والوںکو کورونا نے بے بسی کا شہکار بنا دیا ہے۔
ہم سنتے تھے اور مانتے بھی تھے کہ اللہ کے لشکر ہیں لیکن ہر بات کی سند مانگنے والے کا یہ خیال تھا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں کیسے لشکر، کہاں کے لشکر ہمیں تو نظر نہیں آتے، اللہ کے لشکر نظر تو اب بھی نہیں آرہے لیکن ان کے ہونے سے انکار کی کسی میں مجال نہیں ہے۔
کورونا نے بڑے پیمانے پر اتفاق رائے پیدا کیا ہے، مثلاً سب ایک زبان ہیں کہ جو جہاں ہے وہ وہاں بند ہوجائے لہذا تمام مذاہب کی عبادت گاہیں کو تالے لگ گئے ہیں، سماجی رابطے ختم کرنے کی تاکید کی جارہی ہے لہذا سب ایک دوسرے سے دور رہنے میں ہی زندگی کو تلاش کررہے ہیں میاں،بیوی، بہن، بھائی چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی کوشش کررہے،جن مساجد میں نماز ہورہی ہے تو وہاں نمازی گنے چنے ہیں، نماز کی صف بندی میں فاصلہ رکھا جارہا ہے خدشہ ہے کہ اس سال حج کے موقع پر بیرونی دنیا سے لوگوں کو آنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
اب تک مہنگے ہسپتال اور بیرون ملک علاج کے لیے جانا سرمایہ داروںکا شوق ہوا کرتا تھا اس وائرس نے مہنگے ہسپتال اور بیرون ملک جانے کی اہمیت ختم کردی ہے کیوں کہ ملک کے اندر اور باہر مہنگے اور سستے ہسپتال سب جگہ خطرہ ایک سا ہوگیا ہے بلکہ باہر کی دنیا کو اس وائرس نے زیادہ متاثر کیا ہے۔
اس وائرس کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلیج سے لوکل ویلیج کی طرف واپس جاتی نظر آرہی ہے۔
اس وائرس نے جدید، مہذب، تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ انسانی حقوق کے علم برداروں کی قلعی کھرچ دی ہے وہاں لوٹ مار کے جو مناظر نظر آئے غریب ممالک اس سے محفوظ ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ اچانک سب چیزوں کی اہمیت ختم ہوگئی ہے، گاڑی کون سے ماڈل کی ہے، پہنے کو کتنے جوڑے ہیں، کہاں گھومنے پھرنے جانا ہے، امریکا کا ویزہ کیسے لگے گا، کلاس میں سب سے زیادہ نمبر لینے ہیں، فلاں کے گھر سے زیادہ بڑا اور خوب صورت گھر بنانا ہے، اس کا بچہ میرے بچے سے آگے کیوں نکل گیا، اچھا ٹرانسفر پوسٹنگ کیسے لیں، ایک لحمے میں سب زیرو ہوگیا، وہی ہوا وہی ہے آسمان وہی ہے سارے ائرپورٹ بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن جہاز ایسے ہو گئے ہیں جیسے زمین گڑھ گئے ہوں سارے مناظر، تمام شراب خانے، کیسنو، عیش وعشرت کا ہرسامان اپنی جگہ پر ویسے کا ویسا موجود ہے لیکن کوئی وہاں جانا نہیں چاہتا، استعمال کرنے والے بھی موجود ہیں بنانے والے بھی موجود ہیں لیکن اتنی چھوٹی مخلوق جو نہ نظر آتی ہے اور نہ اُس میں خود کوئی زندگی ہے اس نے زمین اور آسمان پر سب کچھ روک دیا ہے، یہ ہے انسان کا اختیار اور اس کی طاقت۔
اس صورت حال میں قناعت اور ایثاربہترین راستہ ہے، لینے والا اپنی ضرورت کے مطابق یا اس سے کم پر گُزارہ کرلے اور اپنے حق میں دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کو شش کرے تو برکت کی ایسی بارش ہوگی کہ ہر ایک جی بھر کر سیراب ہوگا۔
ہمارا ایمان ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں تھا یعنی عدم سے وجود میں آیا ہے اور دنیا کی یہ زندگی ہمیشہ کی زندگی کا مختصر حصہ ہے ہمیں یہاں سے رخصت ہوکر دائمی زندگی کی طرف جانا ہے لہذا ہمارے لیے موت ایک دنیا سے دوسری دنیا کو منتقل ہونے کا نام ہے ، موجودہ وباء میں ہمیں پوری احتیاط کرنا چاہیے، ماہرین کی ھدایات پر عمل کرنا چاہیے، حکومت جو پابندیاں لگا رہی ہے ان کو ماننا چاہیے اور اس کے بعد ہر خوف پریشانی خدشات سے آزاد ہوجانا چاہیے، خوف اور خدشات اپنے اور دوسروں کے لیے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں، جس چیز یا واقعے کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے بس میں نہیں ہے اسے اللہ کے حوالے کردینا چاہیے، یہی اطمینان کا سبب ہوگا۔
سوشل میڈیا نے ایسے براڈکاسٹرز کی بہت بڑی فوج تیار کردی ہے جو بلاتحقیق اور بلا ضرورت افواہوں کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں، ریٹنگ کے چکر میں مین اسٹریم میڈیا بھی یہی کررہا ہے، مثلاً غرناطہ کی مسجد پانچ سو سال بعد اذان کے لیے کھول دی گئی، برطانوی پارلیمنٹ میں اذان دے دی گئی، تبلیغی، شیعہ وائرس پھیلا رہے ہیں، اس طرح کی چیزوں کو آگے بڑھانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات یاد رکھیں ’’کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھائے‘‘۔
کورونا نے ہمیں کئی سبق دئیے ہیں۔
مثلاً سادگی طرز زندگی اس وائرس کا ایک سبق ہے، کورونا کوروکنے کے لیے نہ ویکسین ہے اور نہ ہی اس کے علاج کے لیے کوئی دوا ہے، اسے صرف انسانی جسم کے اندر موجود بیماری سے لڑنے والی قوت سے شکست دی جاسکتی ہے جیسے عام زبان میں قوت مدافعت یا امیون سسٹم کہتے ہیں، سادہ زندگی ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے۔ امپورٹیڈ فوڈ، چپس، برگر، دیر سے سونا، نیند کا پورا نہ ہونا انسان کے مدافعتی نظام کے لیے مہلک ہے۔
جب کہ اس وائرس کا ایک سبق صفائی بھی ہے، صفائی کسی کی صحت کا معاملہ ہوگا ہمارے لیے یہ صحت سے پہلے ایمان کا حصہ ہے کورونا وائرس مارنے کے لئے ورلڈ ہیلتھ ارگنائزشن وڈیو کلپ میں ہاتھ دھونے کا طریقہ سکھا رہا ہے جو ہوبہو وہی ہے جس طرح ہم وضو شروع کرتے ہوئے ہاتھوں کو دھوتے ہیں، دن میں پانچ بار وضو ہفتے میں ایک بار جمعہ کے دن غسل کورونا کی یاددھانی ہے۔
یہ ہے اس دنیا اور زندگی کی حقیقت اب سے پہلے اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا تو ایک بے جان کیڑے نے پریکٹیکل سے سمجھا دیا ہے، خوب سمجھ لیں،اللہ کی مہربانی سے یہ وقت تو نکل جائے گا خدشہ ہے کہ اس کے بعد ہم وہیں کے وہیں جا کھڑے ہوں گے۔
اس وائرس نے دنیا کے امیر ترین اور طاقتوروں کو زمین پر لٹا دیا ہے اس تباہی میں بعض لوگ اپنی فائدہ تلاش کررہے ہیںان کے خیال میں مسلمانوں کے عروج کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے، ممکن ہے یہ وائرس باغیوں کے لیے اللہ کی تنبہہ ہو، ممکن ہے کہ اس واقعے کے نتجے میں دنیا میں بڑے پیمانے پر ری شفلنگ ہوجائے، بڑے چھوٹے ہوجائیں طاقتورں کو لگام پڑجائے لیکن یہ نہیں سمجھنا چاہیے اس وائرس کے ذریعے اللہ ہاتھ پکڑ کر دنیا کی قیادت مسلمانوں کو دے دے گا۔ اس کے لیے ہمیںخود کچھ کرنا ہوگا قاعدہ یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی خامیوں پر نہیں بلکہ اپنی خوبیوںپر زندہ رہتا ہے اور فروغ پاتا لہذا اس وبا کے نتجے میں اس قدرتی ہونے والی ری شفلنگ پر ہمیںاپنی جگہ بنانی چاہیے اور اپنے اندر بحیثیت مسلمان، بحیثیت فرد اور قوم وہ خصوصیات پیدا کرنی چاہیے جو کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔

حصہ