پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ آج تک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس سے کم از کم 17سو ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دوسری طرف اس وائرس کے سبب ہونے والی بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد بھی ایک لاکھ 66 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
اس وقت کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکا ہے جہاں متاثرین کی تعداد ایک لاکھ65 ہزار اور ہلاکتوں کی تعداد 3200 کے قریب ہے، سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں جن کی تعداد 11600 ہے۔ جرمنی میں متاثرین کی تعداد67 ہزار جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 645 ہے۔ اسپین میں ہلاکتوں کی تعداد 7716 تک پہنچ گئی۔ اٹلی اور اسپین میں ہلاکتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں اب تک 1408 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ امریکی ریاست نیویارک میں کورونا وائرس سے صورتِ حال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ امریکا کے بعد اٹلی میں بھی کورونا وائرس کے مریض ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔
روس نے کورونا وبائی مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 1836 تک پہنچنے کے بعد پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 30 مارچ سے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ زمبابوے میں تین ہفتے کا لاک ڈاؤن نافذکردیا گیا ہے جہاں کورونا وائرس سے ایک شخص ہلاک جبکہ 6 مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ جارجیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رات کا کرفیو اور دن کو قرنطینہ عام نافذ کردیا گیا۔ اس طرح تقریباً ہر ملک آفت زدہ ہے، ہر فرد اس وبا کے ہاتھوں پریشانی اور خوف میں مبتلا ہے۔ کیا صحت مند اور کیا بیمار، کیا بوڑھا، بچہ، جوان، خواتین اور پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والا عملہ، چاہے اس کا تعلق انتظامی امور سے ہو یا وہ ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف سے ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا گھر گھر راشن تقسیم کرنے والی سماجی تنظیموں کے رضا کار… سب کے سب اس کڑے نازک وقت اور آزمائش کی گھڑی میں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حالات الحمدللہ اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنے پڑوسی ممالک اور یورپی ممالک میں دکھائی دیتے ہیں، لیکن اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے بالاتر ہوکر موجودہ وبا کی لہر کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہیے۔
اس وبا کی سنگینی کا اندازہ دیانت داری اور سنجیدگی کے ساتھ لگانا ہوگا، کیوں کہ جن ممالک نے اس وباکو معاشی اور سیاسی ساکھ خراب ہونے کے خوف سے دنیا سے چھپائے رکھا تھا اُن ممالک میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں یکایک مریض نکل آئے، جیسا کہ ایران، سعودی عرب اور امریکا سمیت کئی یورپی ممالک… مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ خوف ناک تباہی اور بربادی۔
پاکستان میں اگرچہ اس بیماری کے نتیجے میں ابھی تک سرکاری طور پر رجسٹرڈ کیسز کی تعداد وہ نہیں ہے جتنی توقع کی جارہی تھیں۔ اس میں خوشی سے زیادہ ہولناکی دکھائی دے رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حقائق قوم سے چھپائے جارہے ہوں؟ یا پھر دوسری بات یہ بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ کیا ہمارے سرکاری اداروں نے اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو مناسب انداز میں چیک بھی کیا ہے کہ نہیں؟ کیوں کہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ یہ بیماری ہمارے ملک اور ہماری فضا کی جینز میں شامل نہیں ہے، یہ باہر سے درآمد وبا ہے جو کہ مغربی ممالک اور پڑوسی ممالک سے پاکستان آنے والوں کے ساتھ پہنچی اور ایک دوسرے سے مستقل منتقل ہورہی ہے۔ اس حوالے سے ہماری وزارتِ داخلہ اور وزارتِ صحت کو کم از کم ایک پیج پر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہماری حکومت کے یہ دونوں شعبے مجرمانہ غفلت و لاپروائی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا آج کا بیان ہے کہ پاکستان میں مشتبہ کیسزکی تعداد 17ہزار331 ہے جبکہ گزشتہ24 گھنٹوں میں کورونا مریضوں کی تعدادمیں اضافہ ہوا۔ اس بیان کے باوجود ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو دی جانے والی سہولتوں کا کیا معاملہ ہے؟ اس بارے میں ابھی مجھے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پیرا میڈ اسٹاف نے آگاہ کیا کہ جناح اسپتال کراچی میں نرسز اسٹوڈنٹس جو کہ ہاسٹل کی رہائشی ہیں، ان میں سے درجنوں کورونا وائرس میں مبتلا ہوچکی ہیں، ان کے لیے ابھی تک کوئی حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا جاسکا۔ سب کو الگ کمروں میں رکھنے کے بجائے ہاسٹل رومز میں ساتھ رکھا ہوا ہے۔ اس میڈیکل اسٹاف کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی آچکی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ دیگر شہروں کا بھی ہے جہاں دو تین ڈاکٹر اور پیتھالوجسٹ کورونا کا شکار ہوچکے ہیں۔
اب آجائیں وزارتِ داخلہ کی جانب، کہ ان کی لاپروائی عروج پر ہے۔ کل ہی کی خبر تھی کہ اب بھی کوئٹہ کے اندر پڑوسی ملک سے مسافروں کی چھبیس بسیں شہر میں داخل ہوئی ہیں، اور یہ بات بھی رپورٹ ہوچکی ہے کہ ان بسوں کے مسافروں نے احتیاطی طور پر لیے جانے والے کورونا ٹیسٹ کے دوران کورونا ٹیم کو مار کر بھگا دیا۔ اس کو نادانی سمجھا جائے یا بدمعاشی؟ اگر نادانی ہے تو یہ ایک سنگین غلطی ہے جس پر حکومتی اہلکاروں کو نوٹس لینا چاہیے تھا، اور اگر بدمعاشی ہے تو کس کی ایما پر؟
آج ہی ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے تسلیم کیا کہ قُم اور ایران کے دیگر حصوں میں کورونا وائرس کے پھوٹنے کے بعد سے ہزاروں زائرین کی مدد کی گئی اور ان دنوں ایران اور افغانستان سے 90 ہزار افراد پاکستان میں داخل ہوئے۔ کیا ہمارے وزیراعظم اس بات کا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ ایرانی و افغان مسافروں کو یہ مدد سرحدوں پر قرنطینہ میں رکھ کر پہنچائی گئی تھی یا معاملہ ’’مک مکا‘‘ کی صورت میں طے پایا؟ اگر 90 ہزار مسافر پاکستان میں سیاسی یا انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر داخل کروا ہی چکے ہیں تو بھائی پھر نزلہ صرف ’’تبلیغی جماعت‘‘ پر کیوں گرایا جارہا ہے؟
اب آجائیے مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ’’ہنگامی اقدامات‘‘ کی طرف۔ معذرت کے ساتھ، ایک ماہ سے جاری اس جنگ میں معاملہ تقریروں اور خوش کن اعلانات سے آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چپقلش اپنی جگہ موجود ہے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بنیاد پر خبریں چلائی جارہی ہیں۔ وزیراعظم صاحب پے درپے قوم سے چار مرتبہ خطاب کرچکے ہیں۔ اپنی ہر تقریر میں پچھلی تقریر کی وضاحت کرتے ہیں اور قوم کو ایک نیا ’’لالی پاپ‘‘ دے کر چلے جاتے ہیں۔ ان کی ’’پُرمغز تقریروں‘‘ میں لالی پاپ کے سوا غریبوں، مزدور طبقے اور مستحقین کو ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے۔
’’فورس بنائیں گے، رجسٹریشن کروائیں گے، لوگ آن لائن فارم بھریں گے، ہم بارہ ہزار روپے کا راشن ڈلوائیں گے، ان کے اکاؤنٹ میں رقم خود بہ خود منتقل ہوجائے گی، ہماری فورس گھر گھر پہنچے گی‘‘۔
وزیراعظم صاحب! لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے نام کے ساتھ وزیراعظم نہ لکھا کریں، آپ کو وزیراعظم لکھنا ایسا ہی ہے جیسے-11 W کے پیچھےF-16 لکھا ہوا ہو۔
قوم پندرہ دنوں سے گھر میں بیٹھی ہے۔ روزگار ختم ہوچکا۔ مزدور، دکان دار، خوانچہ فروش، راج مستری، رکشا، ٹیکسی ڈرائیور، ملازمت پیشہ، ہوٹلوں میں دہاڑی پر کام کرنے والے… سب کے سب انتظار میں ہیں کہ کب آپ کا وعدہ وفا ہوگا؟ کب راشن ملے گا؟ کب چیک تقسیم کیے جائیں گے؟ عوام راشن مانگ رہے ہیں اور آپ انہیں بھاشن دے رہے ہیں! آخر ایسا کب تک چلے گا؟
سچ کہا ہے کسی نے: جو آج تک مانگتا چلا آیا ہو وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے؟ اس نازک وقت میں بھی لوگوں سے ہی پیسے مانگ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے کورونا امدادی پیکیج کے نام پر سو ارب روپے کی امداد کب اور کس طرح عوام میں منتقل ہوگی؟
خان صاحب! آپ اگر واقعتاً سنجیدہ ہیں تو آپ کو کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مشکل حالات میں ایک عام شہری کو ریلیف کیسے ملے؟
1۔گندم کی امدادی قیمتِ خرید میں اضافہ اور آٹا مل کی سبسڈی میں اضافہ… آٹے کی قیمت 25 روپے کلو مقرر کی جائے۔
2 ۔ چینی کی قیمت 35 روپے فی کلو مقرر کی جائے۔
3۔ پیٹرول 60 اور ڈیزل 50 روپے لیٹر کیا جائے۔
4۔ گھریلو صارفین کے لیے آئندہ 3 ماہ تک 300 یونٹ فری، جبکہ اس سے زائد پر6 روپے یونٹ، کمرشل یونٹ 8 روپے، اور تجارتی 7 روپے کے حساب سے وصول کیے جائیں۔ گیس کے صنعتی اور تجارتی دونوں صارفین کو بھی تین ماہ تک آدھی قیمت پر گیس فراہم کی جائے۔ دال، خوردنی تیل، تیل کے بیج کی درآمد پر سبسڈی دی جائے، اس کو متوازن کرنے کے لیے اشیائے تعیش، 1600 سی سی سے بڑی نان کمرشل گاڑیوں، ڈبل کیبن پر ڈیوٹی کی شرح بڑھائی جاسکتی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں روزافزوں اضافے کا اثر عام آدمی پر پڑنے سے روکنے کے لیے جان بچانے والی ادویہ جیسے انسولین، بلڈ پریشر،کینسر، دل اور گردے کے امراض کی ادویہ کے خام مال کی درآمد پر ڈالر ریٹ سبسڈائزکیا جائے۔
پوچھیے اپنے دائیں بائیں والوں سے کہ چین سے جو امدادی سامان اور دس ہزار ٹیسٹ کٹس جو کورونا کے لیے مختص تھیں، وہ کہاں چلی گئیں؟ قیمتی ماسک کس کے اسپتال سے فروخت کیے جارہے ہیں؟ کے الیکٹرک اور سوئی گیس کمپنیاں اپنے بل مؤخر کیوں نہیںکررہیں؟ جن کا کام خدمت کرنا ہے وہ اب بھی کسی کی جانب دیکھے بغیر خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔ سماجی تنظیمیں، رفاہی ادارے خاص طور پر جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیم الخدمت، سیلانی، چھیپا، ایدھی فائونڈیشن اور ان جیسے دیگر ادارے اپنے بل بوتے پر ہی میدان میں نکلے ہوئے ہیں نظم و ضبط کے ساتھ، بھرپور منصوبہ بندی اور سلیقے سے، کسی کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر۔ ان کا کام دکھائی دے رہا ہے… یہ راشن دے رہے ہیں، بھاشن نہیں۔