جانے کس کی بد دعا لگی ہے زمانے کو

691

قدسیہ ملک
کرونا وائرس سے متعلق مریضوں اور اموات کا ریکارڈ جمع کرنیوالی ویب سائٹ ورلڈ او میٹرز ڈاٹ انفو کے مطابق چین کے شہر ووہان سے دنیا بھر میں پھیلنے والے انتہائی مہلک مرض کے شکار افراد کی تعداد 7 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ گئی، اب تک ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد مریض صحت یاب ہوچکے جبکہ 5 لاکھ 72 ہزار سے زائد متاثرین اب بھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، پانچ فیصد سے زائد تقریباً ساڑھے 29 ہزار مریضوں کی حالت تشویشناک ہے، دنیا بھر میں ہر دس لاکھ میں 98.8 افراد متاثر اور 4.7 ہلاک ہورہے ہیں۔
سماء نیوز کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس سے اموات 36 ہزار 900 سے بھی تجاوز کرگئیں۔30مارچ تک مزید 2873 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ امریکا میں مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 56ہزار اور دنیا بھر میں 7 لاکھ 70ہزار سے بڑھ گئی ہے۔اسپتالوں میں پونے 6 لاکھ مریض زیر علاج ہیں۔جن میں سے ساڑھے 29 ہزار کے قریب متاثرین کی حالت تشویشناک ہے۔ اٹلی میں بھی تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی۔صرف اٹلی میںکورونا وائرس سےاب تک 11591 ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
صرف ایک دن30 مارچاٹلی میں 812، اسپین 537، برطانیہ میں 180، امریکا میں 287، ایران میں 117، نیدر لینڈز 93، بیلجیئم 82، سوئٹزر لینڈ 48، آسٹریا 22، پرتگال 21، سویڈن 36 اور جرمنی میں 19 مریض ہلاک ہوچکے ہیں۔چین کے شہر ووہان میں رواں سال 22 جنوری کو پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی تھی۔جس کے بعد سے دنیا بھر میں تقریباً 200 ممالک میںیہ مرض پھیل چکا ہے۔ اب تک سب سے زیادہ اٹلی میں 10 ہزار 779، اسپین 7 ہزار 340، چین میں 3034، ایران میں 2757، فرانس 2606 اور امریکا میں 2600 ہلاکتیں رپورٹ ہوچکی ہیں، برطانیہ 1415، نیدر لینڈز میں 864، بیلجیئم 513، سوئٹزر میں 333 افراد موت کا شکارہوچکے ہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1650 سے تجاوز کر چکی ہے، اب تک یہاں 20 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، 50 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ ملک بھر میں قائم قرنطینہ اور آئسولیشن سینٹرز میں اب بھی ہزاروں مشتبہ مریض موجود ہیں، جن میں اکثریت ایران سے آنے والے زائرین کی ہے۔عالمی ادارء صحت نے اب کرونا covid-19 کوعالمی وباء قرار دے دیاگیاہے۔
دنیا میں اب تک ڈیڑھ ارب لوگ گھروں میں بند ہوکررہ گئے ہیں۔بہت سے ممالک میں انٹرنیشنل ائیرپورٹس بند کردیئے گئے ہیں۔اس وائرس نےپوری دنیا کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب کرنا شروع کردیئے ہیں۔ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے بین الاقوامی سیاحت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور عالمی اسٹاک مارکیٹس سنہ 2016ء کے بعد بدترین بحران سے دوچار ہوئی ہیں۔
یورپی سیاحتی کمپنیوں کے حصص تیزی کے ساتھ کم ہو رہے ہیں۔اسی طرح کورونا وائرس کے باعث اٹلی میں میلانو اسٹاک ایکسچینج سخت دباؤ میں ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کو ساڑھے تین سو ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ اگر یہ سلسلہ مزید اسی طرح جاری رہا تو عالمی ترقی میں دو فیصد کمی ہو سکتی ہے جس کے بعد کم آمدنی والے ممالک کے لیے معاشی بحران شائد اس وباء سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو۔
میرے پاس کچھ تصویریں ہیں جو بلکتی روتی سینہ کوبی کرتی ماتم کناں ہیں۔میں نے انہیں البم سے نکالااور ان کی خوںچکاں آہ فغاں سنی جو میں اپنے تمام پڑھنے اور سننے والے قاریئن کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔
یہ کشمیرہے۔جس میں کرفیو کے بعد سے اب تک تقریباً ایک لا کھ سے زیادہ افراد بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے یہ وہی کشمیر ہے جہاں بھارت نے ایک کڑوڑ تیس لاکھ لوگوں کو آرٹیکل 370 لگا کر سات ماہ سےمحصور کررکھاہے۔
اروند مشرایورپی یونین کے نمائندے ہیں وہاپنے کشمیر کے دورے سے متعلق بیان کرتے ہیں”یوروپین یونین دیشوں کےنمائندوں کے کشمیر دورےپر میں ان صحافیوں میں سے ایک تھا جن کوکشمیر جانے اور جاکر کوریج کی اجازت ملی تھی۔تب میرا ایک قریبی دوست بلال احمدڈارجو ماس کمیونیکیشن پی جی کے وقت کا دوست تھا، اس سے ملنے کے لیے اس کے گھر جانےکی صرف پانچ منٹ کی اجازت مل گئی تھی۔واپسی پر اس کی بہن نے جلدی جلدی مجھ سے جوباتیں کہی تھی اس کی باتیں سن کر میں کئی دن سو نہ سکاتھااور وہ باتیں آج آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں جو نفیسہ نے کہا” کسی جگہ پر سات مہینے سے کرفیو ہو، گھر سے نکلنا تو دور جھانکنا بھی مشکل ہو، چپے چپے پر آٹھ نولاکھ آرمی تعینات ہو،انٹر نیٹ بند،موبائل بند ہو،لینڈ لائن فون بند ہو، گھروں سے بچے،جوان اور بوڑھے ہزاروں بے قصوروں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں،سارے بڑے چھوٹے لیڈر جیل میں ہوں، اسکول، کالج، دفترسب بندہوں!کیسے زندہ رہیں گے لوگ؟ان کے کھانے پینے کا کیا ہوگا؟بیماروں کا کیا ہوگا؟کوئی سوچنے والا نہیں ہو،آدھی سے زیادہ آبادی ڈپریشن اور ذہنی بیماریوں کی شکار ہوچکی ہو،بچے خوف زدہ ہوں،مستقبل اندھیرے میں ہو،ظلم وستم کی انتہا ہو،اور روشنی کی کوئی کرن نہ ہو،کوئی سدھ لینےوالانہ ہو،پوری دنیا خاموش تماشادیکھ رہی ہو۔ہم نے سب سہہ لیا، خوب سہہ رہے ہیں، لیکن اس وقت دل روتا ہے، تڑپتا ہے جب یہ سنائی پڑتاہے کہ وہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ”اچھا ہوا ان کے ساتھ یہی ہوناچاہیے تھا!””پر میں نے ان لوگوں کےلیے یا کسی کے لیے بھی کبھی بدعا نہیں کی، کسی کا برا نہیں چاہا بس ایک”دعا”کی ہے تاکہ سبھی لوگوں کواور پوری دنیاکوہمارا کچھ تو احساس ہو!اوروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی”!جب میں نے پوچھا”کیا دعا کی بہن آپ نے؟”تو اس نے اپنی دعا روتے ہوئے مجھے بتائی۔اس نے کہا”اے اللہ جو ہم پر گزری ہے کسی پر نہ گزرے بس مولا تو کچھ ایسا کردینا، اتنا کردیناکہ پوری دنیاکچھ دنوں کے لیے اپنے گھروں میں قید ہوکر رہنے کو مجبور ہوجائے سب کچھ بند ہوجائے، رک جائے!شاید دنیا کو یہ احساس ہوسکے کہ ہم کیسے جی رہے ہیں”پھر اس نے کہا” اروند بھائی آپ دیکھنا میری دعا بہت جلد قبول ہوگی”۔
یہ شام ہے۔جس کی ایک تصویر میں دس سالہ بچے کی میت کو دفنانے کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔ اس کے دوستوں نے میت کاندھوں پر اُٹھا رکھی ہے۔ اس کے کلاس فیلو احتجاج کر رہے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر درج ہے: ’’اقوامِ متحدہ نے دونوں آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟‘‘ ایک تصویر میں ایک بوڑھی خاتون، اپنی گود میں دو زخمی بچیوں کو لئے پریشان وحیران کھڑی ہیں۔ پس منظر میں بمباری سے وسیع علاقے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اس کے گھر سے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ بوڑھی خاتون بڑی حسرت سے اپنے گھر کو دیکھ رہی ہے جو جل رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے اس کا سارا خاندان شہید ہو چکا ہے۔ صرف یہ دو نواسیاں یا پوتیاں باقی رہ گئی ہیں۔ وہ بوڑھی خاتون زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ’’منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ایک تصویر ہسپتال کی ہے، لیکن بمباری سے یہ اسپتال بھی تباہ ہو گیا اور نتیجے میں بیمار بچے بھی شہید ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’’یونیسیف‘‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میںیہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ شام میں جاری تنازع کی وجہ سے وہاں کے 80 لاکھ بچوں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ خطرات لاحق ہیں۔ صرف شام میں 23 ستمبر 2014 سے لے کر 30 ستمبر 2019 تک امریکہ کے فضائی حملوں میں 14,022 افراد کی موت ہو ئی شامی ریزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق شام میں کُل معصوم عام شہریوں کی اموات کی تعداد 586,100 ہے۔5.6 ملین سے زیادہ مہاجرین ملک چھوڑ کر چلے گئے اور 6.1 ملین لوگ بے گھر ہو گئے۔
یونیسیف رپورٹ کے مطابق 2011ء سے اب تک صدر بشارالاسد کی حکومت کے بیرل بم حملوں اور گولہ باری سے 11 ہزار سے زائد بچے شہید ہو چکے ہیں۔شامی بچوں کو تشدد، قید و بند، اغوا اور جنگ میں جبری طور پر استعمال کئے جانے سمیت پونے 3 ہزار قسم کے مظالم کا سامنا ہے۔ 20 لاکھ بچے ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں لڑائی کی وجہ سے امداد کی فراہمی بہت مشکل ہے۔ پورے ملک میں تاحال بچوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
سال 2015 کی وہ تصویر تو آپ کو یاد ہی ہوگی جس میں ترکی کے ایک ساحل پر اوندھے منہ مردہ حالت میں پڑے تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی تصویر جب دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی تو اسے دیکھ کر پوری دنیائے انسانیت لرز کررہ گئی تھی۔لیکن اس کے چند دنوں فقط چند دنوں بعد ہی پوری دنیا نے باآسانی اس تصویر میں ہونے والے بھیانک ظلم کو یکسر نظر انداز کردیاتھا۔
پھرایلان کردی کے اس المناک واقعہ کے دو سال بعد اب ایک اور شامی بچہ کی تصویر نے دنیائے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔اس میں اس بچہ کی تصویر کریم نامی شیر خوار بچہ دو ماہ کا تھا جب گزشتہ جمعہ کو مشرقی غوطہ میں حکومتی افواج کی بمباری کے نتیجے میں اپنی ایک آنکھ سے محروم ہوگیا تھا، جبکہ اس حملے میں اس کی ماں ہلاک ہوگئی تھی۔ اس حملے سے بائیں آنکھ سے محرومی کے ساتھ ساتھ جزوی طور پر اس کی کھوپڑی بھی دب گئی تاہم یہ بچہ کرشماتی طور پر زندہ بچنے میں کامیاب رہا۔
“کچھ عرصہ قبل ایک شامی بچے نے مرنے سے پہلے کہا تھا “میں اوپر جا کر اللہ کو سب بتاؤں گا، سآخبر الله بكل شيء”۔ ایک صحافی کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے، اللہ نے اس بچے کی شکایت سن لی۔
2003یہ عراق کی تصویر ہے۔جس میں امریکہ اور برطانیہ نے اعراق اور صدام حسین پر الزام لگایا کہ وہ دنیا میں تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہے ہیں اسی بے بنیاد الزام کی وجہ سے شروع ہونے والی اعراق امریکہ جنگ میں بھی اعراقی شہریوں کی اموات کی تعداد لگ بگ سات لاکھ پچاس ہزار کے قریب ہے۔
یہ افغانستان کی تصویر ہے۔امریکہ نے افغانستان میں بھی اسامہ بن لادن کو بہانہ بنا کر جنگ مسلط کر دی اور اس جنگ میں بھی تقریباً ایک لاکھ سے زائد معصوم لوگ جن میں بوڑھے بچے جوان عورتیں مرد سب شامل ہیں،مارے گئے۔
عالم اسلام میں اس وقت کشمیر، فلسطین، بوسنیا، فلپائن، برما، صومالیہ، اریٹیریا اور کوسوواکے مسلمان شدید مظالم کا شکار ہیں۔ UNOجس کا مقصد ہی دنیا میں امن و امان کا قیام تھا۔ امریکہ کیلونڈی وکنیز کا کردار اد کر رہی ہے۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لئے اسرائیل کو اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے بھارت کو تھانیدار کا کردار سونپ دیا ہے۔
یہ سب مظالم ہوتے دیکھ کر بھی آج کا مسلمان چین کی بانسری بجارہاتھا۔سب ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہاتھا۔طاغوت کی اطاعت کررہاتھا۔تو اللہ رب العالمین نے تمام دنیا کے باشندوں کواس ظلم کی پاداش میں گھروں میں مقید کردیا۔میرا اللہ بڑی طاقت و قدرت والا ہے۔وہ تو مچھرسے وقت کے فرعون کو،ننھی سی ابابیلوں سے ابرہہ کے مضبوط ہاتھیوں کواور 313 کے لشکر سے ہزار کے لشکر کو شکست دینے والا ہر شے پر قادر ہے۔وہ تو بس کن کہتاہے اور فیکون ہوجاتاہے۔اس رب العالمین کی مانیے۔اپنے تمام معاملات اس کے سپردکیجئے۔اس کو اپنا سب کچھ سونپ دیجیے۔ظالم کا ساتھ چھوڑ کر مظلوم کے دست و بازو بن جایئے۔مظلوم کا ساتھ دینے والے اور ظالم کو للکارنے والے بن جایئے۔ضرور اب بھی ابابیلیں اتریں گی۔ضرور فرشتوں کا نزول ہوگا۔رب پر یقین و محکم رکھیئے۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطاراب بھی

حصہ