۔”وبا کے دنوں میں شاعری”۔

2793

اسامہ امیر
کوئی بات یا کوئی چیز، کوئی سانحہ یا واقعہ جس کے اثرات عام زندگی پر تو پڑتے ہیں مگر تخلیق کار پر کیا گزرتی ہے، تخلیق کار ہی جانتا ہے، میر نے یونہی نہیں کہا تھا کہ
“ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیا کے”
پوری تباہی سامنے تھی میر کے، اسی طرح غالب پر کیا اثر ہوا ہم سب جانتے ہیں اور اقبال کے ساتھ بھی، بس یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ایک سچے تخلیق کی زندگی میں گریز کرنا نہیں لکھا ہوتا، اور یوں بھی مشرق کے رہنے والے جنہوں نے فرنگی کی ہتھیلی پر سانسیں لیں، اس کے لئے تو بہت مشکل ہے کہ وہ انحراف کر جائے. بلکہ وہ اپنی قوم کا مقدمہ لڑتا ہے ،اور یہی وقت بھی ہوتا ہے ایک تخلیق کار کے لئے کہ وہ مکمل ابھر کر سامنے آجاتا ہے
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارے ادب نے بڑے اثرات قبول کئے، اسی کے بعد اردو میں نثری نظم کی بنیاد رکھنے کے لئے کاوشیں ہوئیں، نظمیں اردو میں ترجمہ بھی ہوئیں ،اسی طرح نائن الیون کے بعد ہمارے ادب کا منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آیا، ویسے اس وقت بھی ہم خاص قسم کے مزاحمتی دور سے گزر رہے ہیں مگر افسوس اس کا ادارک ہمیں کچھ وقت گزر جانے کے بعد ہوگا کہ ہم نے بہت سی چیزیں ضائع کر دیں، جنہیں ہم بیان کر سکتے تھے،
اس وقت بنی نوع انسان کن مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اور کنتی جانیں گنوا رہی ہے، دن بہ دن تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، ایسا وائرس جو سب کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے کون نہیں جانتا
صد حیف کہ یہ ایسا غیر جمالیاتی ہے کہ غزل میں لانے کی کاوشیں، غزل کی بہ جائے مزاح کی طرف دھکیل دیتی ہیں ،کیوں کہ غزل کے لئے اپنی روایت کے ساتھ جڑا رہنے بہت ضروری ہے اور اس کا کچھ تقاضے بھی بڑے سخت ہیں، مثلا رحمن فارس کا شعر، سوا دو منٹ کی ہنسی کے کچھ نہیں
“‏سب کچھ جو چمکدار ہو ،سونا نہیں ہوتا
‏ہر چھینک کا مطلب تو ، کرونا نہیں ہوتا”
اس وائرس کے جو اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس میں بڑی اچھی نظمیں پڑھنے کو ملیں مگر کچھ نظمیں سوائے مشقت کے کچھ نہیں جیسے، سدرہ سحر عمران کی نظم ” وبا کے دنوں میں موت کی ریہرسل” بے ربط لکیروں کے سوا کچھ نہیں، البتہ ایک دو لائنیں بڑی معنی خیز ہیں مگر اٹھان رکھنے کے باوجود مکمل نظم میں وہ لائنیں کسی اونچائی سے گرتی ہوئی محسوس ہوئیں
عدنان محسن کی نظم نے جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، جس کی تہہ میں اتنی اداسی بھری ہوئی ہے کہ پڑھنے والے کو فرار ممکن ہی نہیں، مُسلسل ہجر، عدنان محسن کی نظم پڑھتے ہوئے شدت سے احساس ہوا کہ شاعری کا انتظار ہی شاعر کی بقاء ہے، شاعری زبردستی کا نام نہیں، نظم کا آخری حصہ ملاحظہ ہو.
“وبا کے دن ہیں
میں مانتا ہوں
یہ دُکھ بھری رات کا سفر ہے
جواب کی جستجو میں چلتے ہوئے سوالات کا سفر ہے
مگر مجھے کوئی ڈر نہیں ہے
کہ مجھ کو درپیش ہجر کی رات کا سفر ہے”
نظم “on death bed” حیران کن حد تک جمالیات لئے ہوئے ہے، اور اس پر اختلاط نہ ہونے کے سبب مایوسی نے مزید گہرائی پیدا کر دی ہے ،اس کی بنت سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی برگزیدہ شخصیت کی نظم ہے لیکن یہ نظم، فاطمہ مہرو کی ہے، جو کہ نوجوان نسل میں خوش گوار اضافا ہے، نظم کے چند ٹکڑے ملاحظہ ہوں
“موت ہمیں
گلیوں گلیوں
ڈھونڈتی رہے گی
اور ہم اِس سے آنکھ مچولی کھیلتے
بہار کے بچے کُھچے لمحے
گزارنے کی سعی میں
ایک دوسرے کو لمبی فون کالز پر
بوسوں کے تبادلوں کے منصوبے
ترتیب دیتے رہیں گے”
“پھر بھی ہم اپنے محبوب کو
بسترِ مرگ پر
جنونی خطوط لکھنے سے باز نہ آئیں گے
ہم چاہیں گے
کوئی شدید پیاس کا مارا ہمیں
شیشے کے پار سے جھانکتا رہے
چاہتا رہے”
“ہم چاہیں گے
کوئی یار ہمارا
یہاں وہاں سے نظر چُرا کر
آنکھ مارتے ہو
ایک سُلگا سگرٹ ہماری طرف اچھال دے”
خمار میرزادہ کی غزل کا میں ویسے ہی مداح ہوں، اس پر ان کی وبا کے دنوں میں نظموں نے مزید حیران کر دیا ہے، نظمیں انتہائی جاندار ہیں اور مکمل بیانیہ کے ساتھ اپنی حیثیت مسلم رکھتی ہیں، ایک نظم کا آخری حصہ ملاحظہ ہو
“محبت دائمی قربت سے بے گانہ
فقط چہرہ چھپائے جسم ڈھانپے کانپتے ہونٹوں سے
اک شامِ دعا کے ساتھ ڈھلتی ہے
وبا جب آنکھ ملتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
سلمان ثروت کی نظم “سیلف میڈ لوگوں کا المیہ” نے یا اور دیگر نظموں نے جو اثر قائم کیا ابھی تک برقرار ہے اس کے علاوہ “قرطینہ 1″ نے عجب رقت طاری کر دی، نظم کے شروع ہوتے ہی فلم چلنے لگتی ہے جس میں سوائے خالی دنوں کے کچھ نہیں، خوف اور اداسی کی لہریں اتنی تیز ہیں کہ بہہ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں، کچھ ٹکڑے ملاحظہ ہوں
‘خود کو زندہ رہنے پر اُکسانے کا عمل
اب روزانہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے”
“کچھ ادھوری نظموں کو
یک دم امید سی ہو چلی تھی
لیکن مَیں کیا کروں
مَیں دن میں کئی بار ہاتھ دھوتا ہوں
اور اِن نظموں پر پانی ڈال آتا ہوں”
آخر میں کی ایک نظم جو کہ بہت پسند آئی چاہتا ہوں آپ لوگ بھی مکمل پڑھیں، موجودہ صورتحال کا اندازہ لگائیں اس نصیحت کت ساتھ کہ خدارا سنجیدہ ہوجائیں کہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں
ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ۔
ہم ہاتھ نہیں مِلائیں گے
یہ وقت دِلوں کو ملانے کا ہے
ہم نے تنہائی اوڑھ لی
اور انسانیت کی اکائی کو سرھانا بنا لیا
ہم سفر نہیں کریں گے
جب تک ہمارے صندوق
خوبصورت تحائف سے تہی ہیں
حاجت سے زیادہ خریدیں گے نہ بیچیں گے
کہ دکانیں اور بازار
فراوانی سے بھرے رہیں
بغیر ضرورت گھروں سے نہیں نکلیں گے
کہ شاہراہیں،میدان اور باغ جلد آباد ہوں
اگر ضروری ہوا تو
کسی خاموش کونے میں مریں گے
کہ زمین ہمارے بعد بھی گیتوں سے گونجتی رہے
خدا سب کو اپنی امان میں رکھے، خدا حافظ۔

ڈاکٹر باقر رضا

جینے کے اعتبار میں گزرے وبا کے دن
مرنے کے انتظار میں گزرے وبا کے د ن
لوگوں نے خود کو خوف میں محصور کرلیا
خودساختہ حصار میں گزرے وبا کے دن
ایمان و اعتقاد پہ ٹوٹیں قیامتیں
کس درجہ انتشار میں گزرے وبا کے دن
راتیں وبا کی گزریں دنوں کی تلاش میں
راتوں کے انتظار میں گزرے وبا کے دن
مفروضے گھڑنے والوں کو مصروفیت ملی
سازش کے کاروبار میں گزرے وبا کے دن
دیکھے ہیں ہم نے ایسے بھی کچھ خوش خیال لوگ
وہ جن کے یادیار میں گزرے وبا کے دن
آنکھیں کھلیں تو نشّہ عقیدت کا تھا ہرن
خمیازہ خمار میں گزرے وبا کے دن
تا زندگی بدن کے مجاور بنے رہے
خود اپنے ہی مزار میں گزرے وبا کے دن
بانہوں میں اک حسیں کے مقیّد رہے رضا
یعنی کسی کے پیار میں گزرے وبا کے دن

حصہ