آئیں اپنے رب کو راضی کرلیں

771

کلثوم رونجھا
۔11 دسمبر2019ء کو چین کے شہر ووہان سے پھوٹنے والی وبا ’’بین الاقوامی وبا‘‘ بن چکی ہے، لاکھوں انسان متاثر اور ہزاروں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں۔ ماہر ڈاکٹرز کئی جتن کرنے کے باوجود آج تک اس کی ویکسین ایجاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
اس وقت چہار سُو خوف کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان کورونا سے متعلق سوچ اور بحث کررہا ہے۔ مخیر طبقے کے خواتین وحضرات کی پریشانیوں اور غم کی نوعیت الگ ہے، جبکہ متوسط اور محروم طبقے کی پریشانی کا عالم جدا ہے۔ مبصرین طرح طرح کے تبصرے کررہے ہیں۔
بہرحال انسانیت سوچنے پر مجبور ہے۔ ہر طرح کی ٹیکنالوجی بے بس ہوچکی ہے۔ انسانیت خوف میں مبتلا ہے۔ ہر ایک مجبور و بے بس ہے۔ مصروف ترین زندگی گزارنے والے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ تعلیمی ادارے، اسکول، مدارس، دفاتر، مارکیٹیں، ریسٹورنٹس سب بند کردیے گئے ہیں۔ مشہور شاہراہیں اور گلیاں ویران ہیں۔ بازار سنسان ہیں، ہرطرف ہُو کا عالم ہے۔ اذہان کچھ سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہورہے ہیں۔
آخر یہ کیا ہوا کہ اتنے چھوٹے وائرس نے جو نظر بھی نہیں آتا، پوری دنیا کوہلا کر رکھ دیا! رُخِ زندگی بالکل بدل گیا! مصروف ترین لوگ فارغ ہیں، کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ حل کیا ہو؟
اگر ہم غورکریں اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو انبیائے کرام علیہم السلام کی قوموں پرعذاب آتے رہے۔ ایک نظر دیکھتے ہیں انبیاء ؑکی قوموں پر کیا کیا عذاب نازل ہوئے:
پیغمبر کا نام…قوم کی خطائیں…سزا
حضرت نوح ؑ … شرک… اللہ کی نافرمانی، نبی کا انکار و مذاق… شدید بارش؍ سیلاب میں غرق ہوئے۔
حضرت لوط ؑ… ہم جنس پرستی، نبی کی نافرمانی، تکبر… پتھروں کی بارش اور آندھی سے ہلاک ہوئے۔
حضرت شعیب ؑ… اللہ کی راہ میں چلنے والوں کو روکنا، ناپ تول میں کمی… زلزلہ اور آگ کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔
حضرت موسیٰ ؑ… شرک، فرعون کی پیروی، کتاب اللہ میں تحریف… صورتیں مسخ ہوئیں اور سمندر میں غرق ہوئے۔
حضرت ہود ؑ… نبی ؑکو جھٹلایا، باپ دادا کی اندھی تقلید، سرکشی اور غرور… سخت ہوا کا طوفان، کئی روز تک چلنے والی آندھی سے ہلاک کیے گئے۔
حضرت صالحؑ… شرک، تکبر، ڈھٹائی کے ساتھ انکارِ حق، اللہ کی نشانی پر دست درازی… سخت چنگھاڑ اور زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔
اے امت ِ محمدیہؐ…! اگر ہم غور کریں تو مخبرِ صادقؐ کی امت ہر طرح کی برائی میں مبتلا ہوگئی ہے، نتیجتاً آج ہم شدید آزمائش سے دوچار ہوچکے ہیں۔
1 -ہم بھول گئے کہ جس کی زمین ہے اُس کا اختیار ہے، ہم نے اپنی ضرورتیں انسانوں سے وابستہ کرلیں۔
-2ہم بھول گئے کہ نبیِ مہربانؐ ہی ہمارے ہادی و رہنما ہیں، ہم انسانوں کی بے جا افترا اور خوف میں مبتلا ہوگئے۔
-3ہم بھول گئے کہ قرآن مجید انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے رہنما کتاب ہے۔
-4ہم بھول گئے کہ زبان ودل کی حفاظت میری ہی ذمہ داری ہے۔ ہم بھول گئے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے اللہ کے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔
-5ہم اپنی مشکلات کا حل دولت کے استعمال، سفارش، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کو سمجھنے لگے۔
-6ہم بھول گئے کہ ہمیں اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر رب کی غلامی میں دینا ہے۔
-7ہم کساد بازاری، سود خوری، رشوت، خودغرضی، جھوٹ، غیبت، حسد، انا میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے۔
عظیم ہم وطنو! ہمارے رب نے ہمیں جھنجھوڑا اور بھولے ہوئے سبق یاد دلائے۔ حدیث کا مفہوم ہے: امتِ مسلمہ جسدِ واحد کی مانند ہے… رب نے یاد دلایاکہ کشمیر میں رونے، تڑپنے اور لاک ڈائون میں روز و شب گزارنے والے تمہارے ہی بدن کے حصے ہیں۔ برما میں بے گھر اور بے در ہونے والے بھی تمہارے ہی بھائی تھے۔ شام کی سرحدوں پر دریائوں کے کنارے رُلتی معصوم بچوں کی لاشیں بھی تمہیں متوجہ نہ کرسکیں۔
انڈیا میں مسلم کُش فسادات کے نتیجے میں بہنے والا لہو بھی تمہیں نہ تڑپا سکا۔
دنیا کے مختلف ممالک جہاں بھی مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہا ہے۔
جہاں آج مسلمان عورت کی ردا تار تار ہے۔
جہاں مسلمان عورت کی عصمت دری ہوتی ہے۔
جہاں امتِ مسلمہ کے نوخیز پھول مسلے جاتے ہیں۔
جہاں نوجوان توپوں اور گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
ہمارے ہی وطن میں حو ّا کی بیٹی حیا کی چادر سے بے خبر ہوچکی ہے۔
اولاد والدین کا ادب بھول چکی ہے۔ ہر ایک نفسا نفسی کے عالم میں ہے۔ ہر ایک یہ کہنے کو تیار ہے کہ آپ کو کیا غرض! میں بہت سمجھتا ہوں۔ فرائض کی ادائیگی کی فکر کم سے کم اور حقوق کی طلب میں اضافے نے خودغرضی میں اضافہ کردیا ہے۔ امیرامیر تر اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ معاشرے میں طبقاتی کشمکش نے غریب کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ کہیں غریب خودکشی کرنے اور اولاد بیچنے پر مجبور ہے، اور کہیں وڈیروں کے کتے عمدہ غذائیں کھاتے ہیں۔
جب اقوام اللہ کی طرف سے عائد فرائض کو ترک کردیتی ہیں اور غلط اور صحیح کے پیمانے خود مقرر کرلیتی ہیں تو فتنوں کی زد میں آجاتی ہیں۔
نبیِ مہربانؐ نے فرمایا:لوگو! اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا، جب تمہاری عورتیں حدود سے نکل پڑیں گی، تمہارے جوان نافرمان ہوجائیں گے، اور تم جہاد کو چھوڑ بیٹھو گے‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ کیا واقعی ایسا بھی ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: اُس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کوچھوڑ بیٹھو گے۔
صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ کیا ایسا بھی ہونے والا ہے؟
ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس سے بھی زیادہ ہوگا۔ اب صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ اس سے زیادہ اورکیا ہو گا؟
آپؐ نے فرمایا: اُس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم معروف کو منکر اور منکر کومعروف سمجھنے لگو گے۔
پھرآپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کہتاہے: جب ایسی صورت حال ہو جائے گی تو میں ان کے لیے ایسا فتنہ برپا کردوں گا کہ جس میں صاحبانِ عقل و ہوش حیران وششدر رہ جائیں گے۔
(ابن ابی الانبیاء۔ چند نکات کلام نبویؐ کی صحبت میں۔ صفحہ نمبر61)
دیکھیے آج یہ حالات پوری طرح نظر آرہے ہیں۔ اے وطنِ عزیز کے باسیو! بالآخر رب رحمن نے ہمیں جھنجھوڑا کہ پلٹ آئو۔ فرمانِ الٰہی ہے:۔
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرلو، خالص توبہ… بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں تم سے دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور اُن لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں، رسوا نہ کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کردے اور ہم سے درگزر فرما، تُو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ (سورۃ التحریم آیت 8)۔
اے اہلِ وطن! ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں، ہم نبیِ مہربانؐ کے امتی ہیں، ہم حاملِ قرآن ہیں، ہم مدینہ منورہ کے بعد اسلام کے نام پر قائم کی گئی دوسری اسلامی ریاست کے وارث ہیں۔ آئیں ہم اپنے رب کی طرف رجوع کریں، اپنے رب کو راضی کرلیں۔ اپنا خلیفۃ الارض کا مقام پہچانیں۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ’’مصائب سے بچنے کے پانچ نسخے‘‘ تحریر کیے ہیں۔ آپ رقم طراز ہیں: ’’مصائب سے بچنے کے لیے شریعت کی تعلیمات میں ایک واضح دستور العمل موجود ہے، جو لوگ مصیبتوں اور پریشانیوں سے حقیقی معنوں میں بچنا چاہتے ہیں وہ پانچ اعمال کا اہتمام کرکے قلبی سکون اور راحت حاصل کرسکتے ہیں:۔
(1 گناہوں سے بچنا اور استغفار کرنا:۔
نبیِ مہربانؐ دن میں 100`100 مرتبہ استغفار کرتے تھے۔
ہم گنہگار ہیں، ہمیں رب کے حضور پلٹنا ہے، توبو ا الی اللہ جمیعا۔ اس حکم ربانی پر عمل کرتے ہوئے آئیں ہم مل کر اللہ سے گناہوں کی معافی مانگیں۔
سورہ نوح آیت نمبر 10 تا 12 کا ترجمہ ہے:۔
’’ اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔
(2 اپنا فرضِ منصبی پہچاننا:۔
گناہوں سے توبہ واستغفار کے ساتھ اپنے فرضِ منصبی میں کوتاہی کرنے پر بھی توبہ کرنی چاہیے۔ اپنے فرضِ منصبی کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم طرح طرح کے مصائب کا شکار ہوگئے۔ اللہ کے احکامات ہماری آنکھوں کے سامنے ٹوٹ رہے ہیں، منکرات کا سیلاب امڈ آیا ہے، لیکن اس کے لیے مطلوب سعی نظر نہیں آتی۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن انداز سے ادا کرنا ہوگا۔
(3 دعا کا اہتمام کرنا:۔
دعا بھی ایک تدبیر ہے اور احسن التدبیر ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔ اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز قدر و منزلت کی نہیں، اور جس کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں کے وقت اس کی دعا قبول فرما لیں، اسے چاہیے کہ خوشی اور عیش کے وقت کثرت سے دعا مانگا کرے۔
(4 صدقہ وخیرات کا اہتمام کرنا:۔
نبی کریمؐ نے فرمایا: صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (بخاری شریف)۔
خوشی ہو یا غم، ہر موقع پر رب کی یاد ہی غالب رہنی چاہیے۔ نعمتیں عطا کرنے والے کی راہ میں نعمتوں کا استعمال نعمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
وطنِ عزیز میں معمول کے حالات میں بھی دکھی انسانیت تڑپ رہی ہے، اور موجودہ حالات میں لاک ڈائون ہو یا کاروبار بند ہوجائیں تو یہ مسکین کہاں جائیں گے۔ موجودہ حالات میں مواخات مدینہ کی یاد تازہ کرنی ہے۔
(5 ذکرِ الٰہی:۔
قولی، بدنی، ہر لحاظ سے رب کا ذکر کرنا اور رب رحمن کی یاد سے اپنے ذہن اور بدن کو مصروف رکھنا مصائب سے بچنے کا نسخہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رب العالمین سے مانگیں، وہ ضرور عطا کرے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے: ۔
’’اے نبیؐ میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں بتادو، شاید کہ وہ راہِ راست پا لیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ آیت 186)۔
سورۃ النمل آیت62 کا ابتدائی حصہ: (ترجمہ) ’’کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے، اور کون اس کی تکالیف کو رفع کرتا ہے۔‘‘
ان شاء اللہ جب ہم خالص توبہ کرلیں گے، اللہ کی طرف پلٹ آئیں گے، اپنا مقام منصبی پہچان لیں گے، گڑگڑا کر رب رحمن سے اس کی رحمت کو پکاریں گے، رب اغفر وارحم وانت خیر الرحمین، ہمارا ارحم الراحمین رب ہمیں ضرور معاف فرمائے گا، وبا کو ختم کرے گا، اس حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، اپنی رحمتِ خاص سے پوری انسانیت کو ڈھانپ لے گا، اِن شاء اللہ مرض وخوف کے انسانیت پر چھائے غم کے یہ بادل چھٹ جائیں گے۔ زندگی کی رونقیں لوٹ آئیں گی۔
اللہ رب العالمین ہمیں معاف فرمائے، ہمارے انفرادی و اجتماعی گناہ معاف فرما دے، بخش دے اورہمیں اپنی رحمتِ خاص سے نوازے۔ آمین ثم آمین۔

حصہ