محمد ناصر صدیقی
قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے، کورونا یا اس کی دہشت کے باعث ہلاکتیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، برق رفتاری سے دورڑتی ہوئی دنیا کو ایک حقیر سے وائرس کورونا کے خوف نے بریک لگادیا ہے،چین اور امریکاجیسی سپر پاور گھٹنوں کے بل آگئی ہیں، حکومتی اور کاروباری شخصیات جن کاایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے کو،کورونا کے باعث اپنے محلات اور گھروں میں بھی اپنے اہل خانہ سے بھی خوف کھائے بیٹھے ہیں کوئی ہمیں ہاتھ نہ لگادے ، کوئی کھانس نہ دے،پاکی کا خیال نہ کرنے والے ہر وقت ہاتھ دھوروہے ہیں،بے حجابی کو انسانی حقوق کہنے والیاں بھی سر تا پاؤں اپنے جسم کو لباس میں چھپاکر عافیت محسوس کررہی ہیں،ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے،ذخیرہ اندوزی کا یہ عالم کہ اسٹورز کے اسٹورز خالی ہوگئے۔مہذہب ہونے کا دعویٰ کرنے والے امریکا و دیگر مغربی ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں، لوگوں نے اس قدر راشن بھر لیا ، گویا ’’ذخیرہ اندوزی‘‘ ہی کو وِڈ 19کی ویکسین ہو،مالدار طبقات نے کئی کئی مہینوں کا راشن اور ہر قسم کا حفاظتی لوشن ، اسپرے ،ممکنہ ادویات، حفاطتی لباس(پی پی ای)ماسک، منرل واٹر سمیت دنیا کی ہر نعمت منہ مانگی قیمت پر اپنے اپنے گھروں میں بھر کر اسے کشتی نوحؑ سمجھ لیا ہے کہ بس ہم بچ جائیں،ہم محفوظ ہو جائیں،سفید پوش،مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کو دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہو گیا ہے، لاک ڈاؤن ، پابندیاں ،کاروبار زندگی جام ہونے سےغریب طبقے پر کورونا دوہرا عذاب بن گیا ہے ۔ نیوز چینلز پر ہر وقت ’’ کورونا ‘‘ کا واویلا ہے ،سماجی رابطے کی سائٹس’’ کورونا ‘‘ کی شیئرنگ ہے، کوئی کسی بڑے آدمی کے نام سے وائس میسیج شیئر کرتا ہے تو کوئی جھوٹ و سچ پر مبنی وڈیوز شیئر کرکے عوام کو خوف میں مبتلا کر رہا ہے، کوئی تحقیق و تصدیق کرنے والا نہیں۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اس بارے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کیا ہیں؟ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے تحقیق و تصدیق کے بعد صرف مثبت معلومات دوسروں تک پہنچانے کی تعلیم دی اور ایسا نہ کرنے والے کو جھوٹا اور گناہگار کہا ۔اگر تھوڑا بہت غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کورونا سے زیادہ اس سےمتعلق پھیلایا گیا خوف ہمارے لیے خطر ناک ہے ،جس شخص پر بھی خوف کا پروپیگنڈا حاوی ہو جائے گائے اسے بلڈر پریشر، ذہنی مرض،جسمانی کمزوری، ہر وقت ٹی وی اور موبائل میں لگے رہنے سے لوگ قوت مدافعت اور جسمانی کمزور ی کا شکارہوجائے گا، ضرورت اس بات کی ہے ہم پاکی کا خیال رکھیں ، احتیاطی تدابیر اختیار کریں،ایک دوسرے خوف میں مبتلا کرنے کے بجائے حصولہ دیں ، جو لوگ غریب ہیں ان کا خیال کریں ، ہمارا یمان ہے صدقہ مصیبتوں کو ٹالتاہے۔ کورونا یااس طرح کے جتنے بھی وائرس ہو سکتے ہیں وہ بچوں اور بزرگوں کو زیادہ گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں،عوام اپنا طرز زندگی بدل کر،فاسٹ فوڈ اور مشروبات سے نجات اور ورزش کو معمول بناکر اس وبا کا مقابلے کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ہر روز لاک ڈاؤن سے متاثرہ افراد کے لیے بڑے بڑے پیکیجز کے اعلانات کیے جارہے ہیں، گھروںمیں بیٹھے افراد صبح سے رات گئے تک نیوز چینلز پر اموات ، حفاظتی اقدامات اور راشن کی فراہمی کے اعلانات سن سن کر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ دوسری طرف شہروں میں فلاحی سرگرمیوں انجام دینے والے ادارے عملاًمیدان عمل میں موجود ہیں ، سب ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق غریب خاندانوں میں راشن یا پکا ہوا کھانا فراہم کررہے ہیں۔ملک میں زلزلوں ، سیلاب ، بارش و دیگر قدرتی اور انسانوں سے سرزد ہونے والی آفات میں قوم کی خدمت میں پیش پیش قومی خدمت گار الخدمت فاؤنڈیشن کے ہزاروں رضاکاراس وبائی صورتحال میں بھی شہروں اور ملک کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کو راشن، تیارکھانا ،سبزیاں ان کے گھروں تک پہنچاکے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ،رضاکاروں کی جانب سے راز داری سے راشن پہنچانے کے عمل کی،صحافیوں،سماجی رہنماؤں اور صاحب ثروت افراد نے حوصلہ افزائی کی ہےاس کے علاوہ ، آگاہی مہم،ماسک ، صابن ،سینیٹائزر کی تقسیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔الخدمت نے اپنے تمام اسپتال، میڈیکل و ڈائیگناسٹک سینٹرز اور ایمبولینسز حکومت کو کورونا سے بچاؤ کی سرگرمی کے لیے استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے ۔وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر الخدمت کے ذمے داران اعلیٰ حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ، گورنر پنجاب اور سندھ حکومت نے الخدمت کی سرگرمیوںکی گئی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے ،گزشتہ دنوں الخدمت کورونا ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کی قیادت میں الخدمت کے وفد نے سکھر سمیت دیگروصوبوں میں قائم قرنطینہ سینٹر ز کا دورہ کیا ،قرنطینہ سینٹر سکھر کے انچارج نے الخدمت کے وفد سے حفاظتی لباس، صاف پانی، چائے اور ریفریشمنٹ فراہم کرنے کو کہاتھا جس پر عمل کرتے ہوئے الخدمت سندھ کے صدر ڈاکٹر سیدتبسم جعفری نے وفد کے ساتھ قرنطینہ سینٹر کو1000حفاظتی لباس، ماسک ، سینیٹائزر فراہم کیے ، ،ڈاکٹر سید تبسم جعفری نے بتایا کہ قرنطینہ سینٹر میں طبی عملے کو چائے، ریفریشمنٹ اور صاف پانی فراہم کیاجارہاہے ، حکومتی اقدامات کے سلسلے میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں کا کردار قابل تعریف ہے ہم نے انہیں بھی حفاظتی کٹ فراہم کی ہیں،سندھ بھر میں بلا رنگ نسل ہر طبقے کے متاثرہ22ہزار خاندانوں میں ایک کروڑ روپے سے زاید مالیت کا راشن ، تیار کھانا، سبزیوں کے تھیلے،ماسک ، صابن ، سینیٹائزرتقسیم کیے جا چکے ہیں،مساجد، مندر ، گرجا گھروں میں اور رش والے مقامات پر جراثیم کش اسپرے کرنے کا عمل جاری ہے ۔ کراچی سمیت ملک بھر میں مختلف حفاظتی کٹ اور راشن کی مد میں کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں،تقسیم کا عمل جاری ہے ، متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہے ،حکومت یا کوئی بھی فلاحی ادارہ لاکھوں متاثرین کو خوراک پہنچانے کاکام تنہا انجام نہیں دے سکتا۔ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ بھر میں قائم اسپتالوں ، میڈیکل سینٹرز ،ایمبولینسز کا جائزہ لے رہے ہیں،الخدمت کے ہزاروں رضاکار حکومت ، ڈاکٹر ز، سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کورونا وبا سے عوام کو محفوظ رکھنے کے عمل میں شانہ بشانہ ہیں، رکن سندھ اسمبلی سید عبدالرشید الخدمت کی جانب سے صوبائی حکومت سے مکمل رابطے میں ہیں، ہمیں اللہ پر مکمل بھروسہ ہے قومی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے اس وبا پر قابو پالیں گے، گزشتہ دو دہائی سے وطن عزیز طورنانی بارش، سیلاب ،زلزلے ،مختلف نوعیت کے حادثات کا شکار رہاہے الخدمت کے رضاکار مشکل کی ہر گھڑی میں عوام کی مدد کے لیے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں لاکھوں لوگ الخدمت فراہمی آب اور صحت کے منصوبوں سے مستفید ہورہے ہیں،12ہزار سے زاید یتامیٰ کی ان کے گھروں اور آغوش ہوم میں کفالت کی جارہی ہے انہیں معاشرے کا مفید شہری بنایاجارہاہے،الخدمت کی خدمات کسی حادثے کی محتاج نہیں بلکہ فلاح انسانیت کا یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے اللہ کی خوشنودی کے لیے جاری رہے گا۔
پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے،مسلسل سماجی فاصلے کے بعد بھی مزید کتنے ہفتے لاک ڈاؤن رہے گا ،لاک ڈاؤن کی طوالت سے 90 فیصد لوگو ں کی زندگی اجیرن ہوجائے گی ، جیسے جیسےبے روزگاری بڑھے گی تو فاقوں سے بھی اموات خطرہ بڑھتا جائے گا۔ لاک ڈاؤن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، لیکن فوری طورپر قومی سطح پرمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے ،منتخب نمائندوں،قومی سلامتی کے اداروں،سرکاری محکموں کے سربراہوں، ماہرین طب، زراعت، صنعت،ایکسپورٹر،شعبہ مالیات اور سماجی تنظیوں کے ماہر افراد کی ٹاسک بنائی جائے تاکہ موجودہ صورتحال سے نکلنے اور آئندہ اس طرح کے کسی بھی خطرے کے سد باب کے لیے حکمت عملی تریبت دی جا سکے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ وائر س اب ختم ہونے والا نہیں ہے ،مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہے گا اور طاقتور ملک اس وبا کو بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے رہیں گے ، خاموشی سے کسی بھی ملک کو اس وائرس یا اسے بھی زیادہ خطرناک وائرس کے ذریعے اپاہج کیے جانے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔
ہمارے ملک میں عام شہری کو ذاتی حفاظت اوررضا کارانہ مدد گارکے طورپر فرائض سر انجام دینے کافقدان ہے۔ دو دہائی قبل سیکنڈری اسکولوں سے لے کر کالجز کی سطح پر این سی سی (نیشنل کیڈٹ کور) کے کورسز زیراہتمام کا اہتمام کیا جاتا تھا جن کے تحت طلبہ کو ہنگامی اور جنگی حالات میں رضا کارانہ خدمات سر انجام دینے کی تربیت دی جاتی تھی،اسکولوں میں جنگ ہونے یا کسی بھی قدرتی آفت سے کیسے نمٹا جا سکتاہے اس کے لیے باقاعدہ ایک استاد مقرر ہوتا تھا‘ حتیٰ کہ فائرنگ کرنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی موجودہ صورتحال میں کسی بھی وبا، ہنگامی حالات‘ حادثات اور قدرتی آفات کے مواقع پرزخمیوں اور بچوں‘ خواتین کی بروقت مدد کے لیے ہر دوسرے شخص کورضا کارانہ طورپر تیار ہونا چاہیے۔ ہنگامی حالات وآفات سے متعلق سرکاری و فلاحی ا داروں کو چوکنارہنا چاہئے۔ ان سے متعلق یہ دوسرے شہری کو تربیت فراہم کی جانی چاہئے‘ اسکول ، کالج اور مدارس میں خصوصی تربیتی ورکشاپ اورپروگرام کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ حکومت سول ڈیفنس ادارے کو مکمل طورپر فعال کرے۔