ام ایمان
(دوسری قسط)
روس کے خلاف جہاد افغانستان پندرہویں صدی ہجری کے اوائل اور بیسویں صدی عیسوی کے آخر کا ایسا حیرت انگیز باب ہے کہ جس کے اثرات اور کامیابیوں نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ نہتے افغانوںنے ثابت کیا کہ فتح و نصرت کے دروازے اسلحہ سے نہیں جذبہ ایمان کی شاہ کلید سے کھلتے ہیں۔ یہ ناول اُسی جہاد کی تابناک داستان ہے جو افغان مجاہدین نے دنیا کی ایک سپر پاور روس سے کیا تھا۔
…٭…
زبیر ہفتہ بھر اطمینان سے گھر میں رہا۔ زینب روز اس کے زخم کی صفائی کرکے مرہم لگاتی۔ زینب کی دن رات کی تیمارداری نے زبیر کو جلد اچھا کردیا۔
’’زینب! تم نے اس دفعہ جمال اور کمال کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی؟‘‘ زبیر نے زینب کو چھیڑا۔
یہ بات صحیح بھی تھی کہ جب بھی زبیر ایک یا دو دن کے لیے آتا تو زینب بہانے بہانے سے ان کے بارے میں سوال جواب کرتی۔ ہر تھوڑی دیر بعد زبیر سے ان کی خیر خیریت دریافت کرتی۔ مگر اِس بار بس ایک دفعہ ہی خیریت پوچھ کر تندہی سے زبیر کی تیمارداری میں لگ گئی تھی۔ زخم مندمل ہونے کو آرہا تھا۔ ادھر زبیر دوبارہ جانے کی باتیں کرنے لگا تھا۔ بیٹوںکے ساتھ اس دفعہ بھائی کی یاد بھی زینب کو ستا رہی تھی۔ اس نے زبیر سے کہا کہ ’’اس دفعہ جانے سے پہلے مجھے بھائی سے ملوا دو۔‘‘
زبیر نے زینب کی بات سنی اور سوچ میں پڑ گیا۔ اس وقت وہ صحن میں بچھے تخت پر گائو تکیہ پائوں میں دبائے کسل مندی سے لیٹا ہوا تھا۔ بلال اور ہلال سرخ و سیاہ مرغی اور اس کے ننھے منے چوزوں کے پیچھے دوڑ رہے تھے۔ ننھی فاطمہ ماںکے ساتھ ساگ چنوا رہی تھی۔
کچھ دیر سوچ بچار کے بعد زبیر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’ہاں زینبے! کچھ عرصہ بھائی کے پاس رہ آئو۔ اُدھر میرا دل بھی تمہاری وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ آج کل روسی فوجی گائوں گائوں چھاپے مارتے پھر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جعفر خان کے گائوں میں چھاپہ مارا، اس کے دونوں چھوٹے بچوں کو پکڑ لیا اور ماں کے سامنے تشدد کرکے شہید کردیا۔‘‘
زینب کانپ گئی۔ اس نے گردن گھما کر بلال اور ہلال کی طرف دیکھا۔ اب انہوں نے مرغی اور چوزوں کو پکڑ لیا تھا اور باری باری پنجرے میں ڈال رہے تھے۔ زینب کی نظریں بیٹوں سے ہوتی ہوئی بیٹی پر ٹک گئیں۔ ننھی فاطمہ ساگ کی ڈنڈیوں سے گڑیا کا کھانا تیار کرنے کے چکر میں تھی۔
زینب نے شکر ادا کیا کہ اس کا گائوں جنگ زدہ علاقوں سے دور تھا، لہٰذا اب تک روسی فوجیوں کے ناپاک قدموں سے محفوظ تھا۔
…٭…
دن بھر کے تھکے ہارے بچے تو بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے لیکن زینب اور زبیر کی آنکھوں میں نیند کا دور دور تک پتا نہ ہوتا۔ ملن کے لمحات تیزی سے گزرنے کا احساس انہیں دیر تک جگائے رکھتا۔
اس دن بھی زبیر نے افغانستان پر روسی حملے کی داستان چھیڑی تو بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ رات بھیگتی گئی لیکن باتوں کا سلسلہ جیسے ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
’’افغانستان پر روسی حملوں کی ابتدا کب ہوئی؟‘‘ زینب نے بات چھیڑی۔
’’افغانستان میں روسی مداخلت کی ابتدا تو بہت پرانی ہے لیکن اس کی باقاعدہ آمد ’’ببرک کارمل‘‘ کے دور میں ہوئی جب اُس نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی روسی حکومت سے درخواست کی کہ وہ افغانستان میں باقاعدہ طور پر داخل ہوجائے۔
صدر ’’حفیظ اللہ امین‘‘ کے قتل کے بعد جب ببرک کارمل نے افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا تو اس نے اپنا پہلا خطاب کابل ریڈیو کے بجائے ماسکو ریڈیو سے کیا تھا، اور اسی خطاب میں اس نے روس سے فوجی مداخلت کی باقاعدہ درخواست کی۔
حیرت ہے کہ افغان عوام ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ساری دنیا خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔
دراصل روس اپنی ساری خبریں آہنی پردے کے پیچھے چھپا لیتا ہے۔ دنیا تو اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتی کہ افغانستان میں روس کیا کھیل کھیل رہا ہے، بلکہ باقی دنیا تو دور کی بات ہے، خود روسی پریس نے افغانستان میں روسیوں کی آمد کے کئی سال بعد 1983ء میں پہلی مرتبہ جنگ میں روسی فوجوں کے الجھنے کی خبر دی۔‘‘
’’تو کیا روسی فوجیوں کے گھر والوں کو ان کے بارے میں تشویش نہ ہوتی ہوگی؟‘‘
’’عام روسی فوجی تو نہیں، ان کے افسران کے گھر والوں اور رشتے داروں کی بے چینی کے باعث ہی روسی حکومت کو محسوس ہوا کہ اب روسی عوام کو افغانستان میں ہونے والے حالات کے بارے میں بتانا ہی پڑے گا۔
روسی فوجی جب گھروں کو خط لکھتے تو اس بات کا اکثر شکوہ کرتے کہ ہم ہر وقت ایک بڑے خطرے سے دوچار رہتے ہیں اور ہمارے ساتھی روز ہی جانوں سے گزرتے رہتے ہیں لیکن نہ ہماری حکومت کو کچھ اثر ہوتا ہے اور نہ اخبارات ہی اس بارے میں ایک لفظ بھی لکھتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا روسی حکمرانوں نے افغانستان کی صورتِ حال اپنے عوام پر واضح کردی؟‘‘
’’نہیں اتنی ہمت تو وہ نہیں کرسکے، البتہ اکا دکا خبریں آنے لگی تھیں۔ لیکن یہ معاملہ روسی حکومت کے لیے بڑا حیرت انگیز ہے کہ وسط ایشیا اور مشرقی یورپ میں کامیاب جنگوں اور فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے بعد ان کی تربیت یافتہ فوج افغانستان کے محاذ پر کیسے ناکام ہورہی ہے، جب کہ اس کے مقابل کوئی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج بھی نہیں ہے۔ آج روسی حکمرانوں کے سارے اندازے اور اعداد و شمار سادہ لوح نہتے افغانیوں کے قلیل گروہ کے سامنے برف کی طرح پگھل رہے ہیں، اور وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ذہن و دل کی پوری آمادگی کے ساتھ شہادت کو گلے لگانے کے لیے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔‘‘
زبیر بات مکمل کرتے کرتے جوش میں اٹھ بیٹھا۔ اس کی نظریں دور بہت دور اپنے جوان بیٹوں کو دیکھ رہی تھیں۔ زینب بھی تصور ہی تصور میں جمال اور کمال کی بلائیں لے رہی تھی۔
زینب کی آنکھوں سے موتی گرتے دیکھ کر زبیر لمحوں میں سنبھل گیا۔
’’نیک بخت! مجاہدوں کی مائیں آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تیرے بیٹے میں تربیت گاہ میں چھوڑ آیا ہوں، جہاں وہ دشمنوں کے لیے صیقل کی ہوئی تلواریں بنائے جارہے ہیں۔‘‘
’’زبیر! ان آنسوئوں سے دھوکا نہ کھائو، میں تو انہیں شہادت کی راہ پر چلتے دیکھ کر جتنی خوش ہوں تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔‘‘
اس رات زینب نے زبیر کو بھائی شیر دل کے گھر چلنے پر راضی کرلیا۔ وہ خود بھی ان لوگوں کے لیے فکرمند تھا۔ زینب اور بچوںکی فکر اسے بار بار میدانِ جہاد سے گھرآنے پر مجبور کرتی۔ جب جب اسے اطلاع ملتی کہ فلاں فلاں گائوں میں روسی افواج نے بچوں اور عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، وہ مزید فکرمند ہو جاتا۔ زینب اور فاطمہ کے چہرے نظروں میں گھومنے لگتے۔
بھائی شیر دل کا گھر کابل سے کچھ ہی دور تھا۔ اسے ’’خورد کابل‘‘ یعنی ’’چھوٹا کابل‘‘ کہتے تھے۔ وہاں تک کا سفر خاصا لمبا تھا۔ پہلے بیل گاڑی کے ذریعے قصبے تک پہنچنا تھا، وہاں سے ’’کابل خورد‘‘ جانے والی بس کے ذریعے آگے کا سفر طے کرنا تھا۔ آنے جانے میں زبیر کو چار پانچ دن تو لگنے ہی تھے۔ زبیر نے اپنے ایک مجاہد ساتھی کے ذریعے جو چھٹیاں گزار کر واپس جارہا تھا، اپنے کمانڈر کو پیغام بھیج دیا کہ ’’مجھے واپسی میں ایک ہفتہ مزید لگ جائے گا۔‘‘
جب زینب نے اپنے بھائی شیر دل کے ہاں جانے کی ضد کی تو وہ بخوشی تیار ہوگیا۔ اس کے ذہن میں اپنا راستہ روشن لکیر کی مانند مزید واضح ہوگیا کہ اب اس کو مکمل طور پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں پر بسنا ہے تاکہ اپنے پیارے خاندان جیسے ہزاروں، لاکھوں خاندانوں کی حفاظت کی جاسکے، انہیں آزادی کی سعادت اور عزت کی زندگی فراہم کی جاسکے۔ اس کو علم تھا کہ یہ راستہ مشکلات اور آزمائشوں کا راستہ ہے، اس راستے میں روزانہ نہ جانے کتی بار موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنا ہوگا۔ لیکن شہادت کی منزل بھی تو انہی راہوں میں ہے جو اس کی خواہش، اس کی تمنا اور اس کا خواب تھی۔
اگلے دن کا آغاز بڑے پُرسکون انداز میں ہوا۔ زینب نے زبیر کے لیے انڈوں کے ساتھ گھی لگی روٹی کا ناشتا تیار کیا تھا، ساتھ میں ہلال بھی تھا۔ سردیاں شروع ہونے والی تھیں لہٰذا وہ روز ماں کی ہدایت کے مطابق خشک لکڑیاں جمع کرکے لاتا اور انہیں ذخیرہ کرنے والی کوٹھری میں جمع کررہا تھا۔ کبھی کبھی لکڑیاں اور خشک ٹہنیاں زیادہ بھاری ہوتیں تو وہ انہیں ایک بڑی جھاڑی میں رکھ کر باندھ دیتا اور کھینچ کے گھر تک لاتا، کہ انہیں اٹھاکر لانا اس کے بس میں نہ ہوتا تھا۔
فاطمہ گھر کے کاموں میں ماں کے ساتھ ساتھ رہتی۔ زینب اس سے چھوٹے موٹے کام لیتی۔ مجاہد باپ اور جفاکش ماںکی بیٹی کبھی کام سے جی نہ چراتی۔
’’فاطمہ بیٹی! اپنے بابا کے اٹھنے سے پہلے صحن کی جھاڑو لگا لو۔‘‘ زینب نے پکارا۔
جھاڑو دینا فاطمہ کو بہت پسند تھا۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے جھاڑو کو پکڑتی تو اسے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اس کو سنبھالنا پڑتا۔ لیکن پھر بھی اسے جھاڑو سے صحن کی صفائی میں مزا آتا تھا۔ سرخ گائے جس کے کھروں کے پاس پائوں میں سفید دھبے تھے، اس کا ایک گہرا سیاہ بچھڑا، دو سفید اور سیاہ بکریاں اور ان کے چار ننھے منے میمنے… یہ تھا ننھے چرواہے ہلال کا کُل ریوڑ۔ گھر سے نکل کر نیچے وادی کا رخ کرتے ہوئے ہلال نے ایک چھوٹا سا سفید اور سیاہ میمنہ بازوئوں میں اٹھا لیا۔
’’ہلال تم نے میمنے کو کیوں اٹھا لیا؟ تم کو ماں نے لکڑیاں چننے کے لیے کہا ہے؟‘‘ بلال نے ہلال کو میمنہ اٹھا کر لے جاتے ہوئے دیکھا تو کہا۔
’’بس بھائی! اس کو ذرا نیچے تک پہنچا دوں۔ یہ ابھی بہت چھوٹا ہے ناں، نیچے تک پہنچتے پہنچے تھک جائے گا۔‘‘ ہلال نے میمنے کی گردن پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ہوووں… ہوووں…‘‘ بلال نے اپنے ریوڑ کو اِدھر اُدھر ہوتے دیکھ کر ششکارا۔ اس کی آواز پر سب جانور ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہوگئے اور پھر بلال کے اشارے پر نیچے اترنے لگے۔
(جاری ہے)
٭…اخلاص…٭
٭ایک بزرگؒ سے منقول ہے کہ وہ یہاں تک اخلاص کی کوشش کرتے تھے کہ ہمیشہ جماعت کی صفِ اوّل میں شامل ہوتے۔ ایک دن اتفاقاً آخری صف میں کھڑے ہوئے اور دل میں خیال آیا کہ آج لوگ مجھے آخری صف میں دیکھ کر کیا کہیں گے۔ اس خیال کے سبب لوگوں سے شرمندہ ہوگئے، یعنی یہ خیال آیا کہ پچھلی صف میں لوگ دیکھ کر کہیں گے کہ آج اس کو کیا ہوگیا ہے کہ پہلی صف میں نہیں آسکا۔ اس خیال کے آتے ہی یہ سمجھا کہ میں نے جتنی نمازیں پہلی صف میں پڑھی ہیں اس میں لوگوں کے لیے نمائش مقصود تھی، تو تیس سال کی نماز قضا کیں۔ (کیمیائے سعادت)۔
٭ حضرت معروف خرکی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ’’اخلاص کر، تاکہ تُو خلاصی پائے۔‘‘ آپؒ نے یہ بھی فرمایا ’’مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو بھی ایسے ہی چھپائے جیسے کہ اپنی برائیوں کو چھپاتا ہے۔‘‘
٭ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے میری والدہ نے فرمایا ’’اے میرے بیٹے! علم پر اگر عمل کی نیت ہو تو پڑھو، ورنہ وہ علم قیامت کے دن وبال ہوگا۔‘‘ (تنبیہ المغتّرین)۔
٭حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ انسان کب مخلص ہوتا ہے؟ فرمایا: جب شیر خوار بچے کی طرح اس کی عادت ہو۔ شیر خوار بچے کی کوئی تعریف کرے تو اسے خوشی نہیں ہوتی، اور مذمت کرے تو اسے بری نہیں معلوم ہوتی۔ جس طرح وہ اپنی مدح اور زم سے بے پروا ہوتا ہے اسی طرح انسان جب مدح و ذم کی پروا نہ کرے تو مخلص کہا جاسکتا ہے۔‘‘ (تنبیہ المغتّرین)۔
٭ حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آدمی مخلص کس وقت ہوتا ہے؟ فرمایا جب عبادتِ الٰہی میں خوب کوشش کرے اور اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ میری عزت نہ کریں، جو عزت کہ لوگوں کے دلوں میںہے وہ بھی جاتی رہے۔ (تنبیہ المغتّرین)۔