مہر الدین افضل
تنگ زندگی
حضرت نوحؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ استغفار کرو اللہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا۔ (سورہ نوح آیت۔ نمبر:۔12,11) سورہ طٰہٰ آیت 124 میں ارشاد ہوا:۔ ’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضر ت نوحؑ کی قوم کو مال، اولاد، باغ، نہریں، حاصل نہیں تھیں؟ اور کیا ان پر بارشیں نہیں ہوتی تھیں؟ اور اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہی دعوت آج کے انسان کے لیے بھی ہے؟ جسے یہ سب چیزیں ہی کیا! اس سے بہت زیادہ چیزیں حاصل ہیں؟ کیا ان کے لیے یہ دعوت کوئی معنی رکھتی ہے؟ اِس سوال کا جواب اِنتہائی اَہم ہے، جب تک اِس کا واضح جواب نہ ہو اور اِس پر دل مطمئن نہ ہو، ایمان، یقین کی منزل نہیں پا سکتا۔ دنیا میں تنگ زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مال و دولت نہیں ہوں گے۔۔۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اَمن، چین، اور سکون نہ ہوگا۔ آج کھرب پتی بھی بے چین ہے۔ پوری دنیا پر اَپنا حکم چلانے والا بھی ڈپریشن اور بے اطمینانی کا شکار ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ دولت و اقتدار حاصل کرنے والوں کی ساری کامیابیاں ہزاروں قسم کی چال بازیوں کا نتیجہ ہیں۔۔۔ جن کی وجہ سے ان کا اَپنا ضمیر مسلسل انہیں نوچتا رہتا ہے اور آس پاس کے پورے اجتماعی ماحول سے ان کی نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے، عدم تحفظ کا شکار ہیں، چین اور سکون کو ترستے ہیں اور سچی خوشی سے دور، بہت دور ہیں۔ آج اولاد ہے لیکن فرماں بردار نہیں امیر کی اولاد کو بھی شکوہ ہے کہ ہمارے ماں باپ نے ہمارے لیے کیا کیا؟ اور غریب کی اولاد کو بھی۔ بہت اچھی بات اگر کوئی کہتا ہے! تو یہ کہ ہمارے ماں باپ کم علم تھے یا ان کے پاس وسائل کم تھے، اس لیے ہمارے لیے کچھ نہ کر سکے۔ جبکہ خد ا کہتا ہے کہ تم اپنی بچپن کی حالت پر ذرا غور کر و جب تم کسی قابل نہ تھے اگر یہ تمہیں نہ پالتے تو تمہارا زندہ رہنا مشکل تھا۔ اس مائنڈسیٹ کے ساتھ اولاد کے کندھے ماں باپ کے سامنے جھکے رہتے ہیں اور وہ ان کے شکر گزار اور خدا سے ان پر رحم کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اسی طرح مال و اسباب اور قدرتی وسائل کے بارے میں خدا کے ماننے والوں کا جو مائنڈ سیٹ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے، آج کے انسان کا مائنڈ سیٹ اس سے بالکل مختلف ہے ا س لیے آج بے شمار قارو ن ہیں جنہیں چابیاں لاد کر چلنا نہیں پڑتا پلاسٹک کا ایک ٹکڑا کافی ہے!!! لیکن تحفظ نہیں دریا، نہریں، آبشار، بارشیں، سب ہیں لیکن پینے کا صاف پانی نہیں، فصلیں تک زہر آلود ہیں۔ قدرتی وسائل جو دریافت ہو چکے ہیں یا تو کام میں لائے نہیں جاتے یا اس کا فائدہ صرف خاص لوگوں کو پہنچتا ہے۔ آج انسان کے پاس توانائی کے اتنے ذخائر ہیں کہ بغیر تعصب کے تقسیم کیے جائیں تو کہیں اندھیرا نہ ہو، اور کوئی پہیہ نہ رُکے۔ لیکن زمیں کا بڑا حصہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے اور وہ جہاں چاہیں پہیہ چلتا ہے نہ چاہیں تو رک جاتا ہے۔
خرابی کی جڑ
انسان کی خدا سے بغاوت تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ خدا کی اس وسیع کائنات کے سامنے اِس زمین کی حیثیت کیا ہے؟ یہ بات آج کا انسان بہت اچھی طرح جانتا ہے اور اَ صل حقیقت جسے وہ بھول بیٹھا ہے یا جھٹلاتا ہے۔ یہ ہے کہ یہ ساری کائنات خدا کی سلطنت ہے۔ زمین، سورج، چاند کیا اربوں، کھربوں کہکشائیں، ہوا، پانی، روشنی اور جس چیز کا بھی آپ نام لیں۔ سب خدا کے غلام ہیں اور انسان بھی، جی ہاں!!! انسان بھی خدا کے غلام کی حیثیت سے پیدا ہوا ہے۔ (آپ کو برا لگا! تو آپ کے خیال میں خالق کے سامنے مخلوق کی کیا حیثیت ہے؟ مجبور، عاجز، غلام اس کے علاوہ اور کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟) ذرا سوچیے! جب اس کائنات کے سامنے۔۔۔ زمین کی حیثیت ایک ذرّے سے زیادہ نہیں!!! تو اِنسان کی بھلا کیا اَوقات، ایک نہیں، سات اَرب اِنسانوں کی بھی کوئی اَوقات نہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا سب کو جھلسا دینے کے لیے کا فی ہے۔۔۔ سرد ہوا کی ایک لہر سب کا لہو جما دینے کے لیے کافی ہے۔ ان کے لیے خد ا کو کسی لشکر کی ضرورت نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں!!! ایک چنگھاڑ۔۔۔ سب کو ایسا کر دے گی۔۔۔ کہ زندگی کا کوئی شرارہ تک باقی نہ بچے گا۔) سورۃ یٰسین آیت نمبر29)۔
انسان کی حقیقی حیثیت
دوسری اہم حقیقت یہ ہے کہ انسان کے پاس اختیا ر، ارادے اور آزادی کے ساتھ جتنی قوّتیں اور صلاحیتیں ہیں یہ سب وہ اپنے پاس سے تو نہیں لایا! بلکہ اسے خدا نے دی ہیں۔ جس نے اپنی ساری مخلوقات کے سامنے اختیار اور ارادے کی ذمہ داری کو پیش کیا تھا۔۔۔ سب نے انکار کیا اس نادان نے قبول کر لیا۔ سورہ الاحزاب آیت 72 میں ارشاد ہوا:۔ ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔۔۔۔ آج کا انسان یہ کہتے نہیں تھکتا کہ ہم آزاد ہیں۔ ہر بندھن سے آزاد! کس نے دی یہ آزادی ؟ یہ آزادی خدا نے دی ہے۔۔۔ نافرمانی کی آزادی!!! اس نے خود اعلان کیا تھا کہ میں اپنی مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ آزادی دینا چاہتا ہوں کہ وہ۔۔۔ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود راضی خوشی میری با لا تری کا اقرار، اور میرے احکام کی اطاعت کرنا چاہے تو کرے ، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا۔۔۔ اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔۔۔ کیوں اس امتحان میں اپنے آپ کو ڈالا تھا؟ کیوں ان سب خطرات کا مقابلہ کرنے کی ہمت کی تھی؟ جو اس آزادی اور خود مختاری میں چھپے ہوئے تھے؟ وجہ صرف ایک تھی۔۔۔کہ اس امتحان کو پاس کر کے خدا کی سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ حاصل کر سکے۔ یہ اختیارات انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں۔۔۔ بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ ہوا، یہ سمندر یہ پہاڑ انسان کی خدا سے بغاوت کو دیکھ کر اپنے آقا سے فریا دکرتے ہیں۔۔۔ کہ ہمیں حکم دیجیے کہ ہم ان کی دھجیاں اڑا دیں۔ لیکن وہ اپنے مقرر کیے ہوئے وقت پر جس کا علم اس کے علاوہ کسی کو نہیں۔۔۔ جسے چاہے گا حکم دے گا۔۔۔ ابھی مہلت عمل ہے۔۔۔ اس مہلت عمل میں انسان اگر کائنات کی ہر شے کے بلکل خلاف۔۔۔ اللہ سے بغاوت کرے گا تو لازمی طور پر پورے نظام کائنات سے اس کا ٹکراو ہو گا اور اس حرکت کے نتائج تباہ کن ہوں گے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔
صحیح طرز عمل اور صحیح تصور خدا
اگر انسان اس زمین پر امن، سکون اور خوش حالی چاہتا ہے تو اس کے لیے صحیح طرز عمل اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ زمین وآسمان میں جو حقیقی حکومت ہے، اس کے سامنے سر جھکا دے، اپنی خودی اور خود سری کو اس کے آگے (Surrender) کردے۔۔۔ اپنی اطاعت اور بندگی کو اس کے لیے خالص کردے۔۔۔ اور اپنی زندگی کا ضابطہ وقانون خود بنانے یا دوسروں سے لینے کے بجائے اس سے لے۔ اور خدا کو اس طرح مانے کہ ہم اس کے سوا کسی کے بندے نہیں۔۔۔ اور اس کے قانوں کے خلاف کسی کو ہم پر حکم چلانے کا حق نہیں۔۔۔ ہمارا سر اس کے سوا کسی کے آگے جھکنے کے لیے نہیں بنا ہے۔۔۔ ہماری تقدیر بنا نے اور بگاڑنے وا لا صرف وہی ہے۔۔۔ ہمارا جینا اور مرنا بالکل اس کے اختیا ر میں ہے۔۔۔ وہ جس وقت چاہے ہمیں موت دے سکتا ہے اور جس وقت تک چاہے ہمیں زندہ رکھ سکتا ہے۔۔۔ اس کی طرف سے موت آئے تو دنیا کی کوئی طاقت بچا لینے والی نہیں۔۔۔ اور وہ زندگی عطا کرے تو دنیا کی کوئی طاقت ہلاک کر دینے والی نہیں۔ جو وہ دینا چاہے کوئی اس سے روک نہیں سکتا۔۔۔ اور جو نہ دینا چاہے کوئی اسے دے نہیں سکتا۔
ترقی کا سفر
اب اس سوال کی طرف آتے ہیں جو ہمارے مغرب زدہ لوگ ہم سے کرتے ہیں کہ تم نے کیا کیا؟ دنیا کو وسائل تو انہوں نے فراہم کیے ہیں اس لیے وہی صحیح ہیں۔۔۔ اس سوال کے درست جواب کو سمجھنے کے لیے چند حقیقتوں کی یاد دہانی ضروری ہے۔۔۔(۱) اس زمیں پر بسنے والے تمام انسان خدا کی نظر میں برابر ہیں کوئی بھی فضیلت کا تاج پہن کر پیدا نہیں ہوا، اور نہ کوئی اپنے ماتھے پر ذلّت کا داغ لے کر آیا ہے ۔۔۔ فضیلت اگر حاصل ہے تو اسے جس نے اپنا جوہر انسانیت کھو نہ دیا ہو۔۔۔ یعنی اللہ پر ایمان اور پاکیزہ زندگی (۲) انسان کو اس دنیا کی زندگی میں جو کچھ مال و اسباب ملتے ہیں امتحان کے لیے ملتے ہیں، نہ کہ انعام کے طور پر۔۔۔ اسی طرح انسان کو کسی چیز سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ بھی امتحان کے طور پر نہ کہ سزا کے طور پر۔۔۔ جزا اور سزا کے لیے خدا ایک اور جہاں بنائے گا جسے آخرت کہتے ہیں۔ (۳) جس طرح کسی انسان کو کچھ دے کر اور کسی کو نہ دے کر آزمایا جاتا ہے۔۔۔ اسی طر ح مختلف ادوا ر او ر زمانوں کے انسانوں کو بھی مختلف وسائل دے کر آزمایا گیا تھا۔۔۔آج بھی آزمایا جا رہا ہے (۴) آدمؑ کو تمام اشیا کا علم دیا گیا تھا وہ چاہتے تو سب کچھ جو انسان نے اب تک دریافت اور ایجاد کیا ہے کر جاتے یا کم از کم ایک کتاب میں لکھ جاتے۔ لیکن خدا کی مصلحت یہ ہے کہ ہر دور کے انسان کو اس دور سے متعلق ضروری چیزوں تک رسائی عطا فرمائے۔ (۵) رسائی انہیں عطا ہوتی ہے جو ذوق، جستجو اور تحقیق سے کا م لیتے ہیں اور اپنی ذات سے آگے دوسروں کے لیے سوچتے ہیں۔ (۶) جو دیانت دار ہوتے ہیں تاکہ دریافت اور ایجاد کا فیض بلا تخصیص اور تعصب تمام لوگوں تک پہنچا سکیں۔
ایک منظم اور صالح جماعت کی ضرورت
کیا آج جن لوگوں کے ہاتھ میں ایجادات و اختراعات ہیں وہ ان تمام شرائط پر پورے اترتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تمام شرائط پر پورے نہیں اترتے۔۔۔ لیکن زیادہ تر پر کسی حد تک پورے اترتے ہیں وہ جستجو اور تحقیق کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے آگے بھی سوچتے ہیں، آپ تمام موجدین کی فہرست بنا لیں ان کی زندگی پر تحقیق کریں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کی اکثریت نے اپنی ذات کو فنا کیا تھا۔ وہ دیانت دار ہیں۔ ہاں وہ خدا کا انکار کرتے ہیں۔ کیوں کے خدا تک ریسرچ کرکے نہیں پہنچا جا سکتا۔ خدا تک صرف اور صرف وحی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے اور وحی کا علم جن کے پاس محفوظ ہے ان کے خدا پر ایمان کی حالت کیا ہے آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے تحقیق و جستجو کے ذوق کی حقیقت سے بھی آپ واقف ہیں۔ ان کی دیانت داری کا حال بھی آپ سے کیا کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ اگر زمین پر انسانوں کی ایک منظم او ر صالح جماعت موجود ہو۔۔۔ جو خدا پر کامل ایمان رکھتی ہو۔۔۔ تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ زمین کا انتظام ان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کائنات کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس لیے کہ آ ج جن لوگوں کے ہاتھ میں زمین کا اقتدار ہے وہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ اخلاق و کردار میں ان کا اصول HONESTY IS THE BEST POLICY ہے جب کہ خدا کو ماننے والے کے نزدیک HONESTY ڈیو ٹی ہوتی ہے۔ پالیسی کے طور پر جب دنیا داروں کو ایمان داری میں نقصان نظر آتا ہے، تو وہ بے ایمانی کرنے لگتے ہیں اور یہ بے ایمانی بہت بڑھ گئی ہے۔ ایجاد و اختراعا ت کا فیض تمام انسانوں تک پہنچانے میں وہ بالکل ناکام ہیں۔ صرف وہی چیزیں عام انسان تک پہنچتی ہیں جو وہ استعمال کرکے پرانی کر دیتا ہے اس طرح انہوں نے زمیں کو لنڈا بازار اور کوڑا خانہ بنا دیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ خدا کو ماننے والے اس لنڈا بازار میں بہت خوشی اور سرشاری سے گھوم رہے ہیں، خریداری کر رہے ہیں اور بڑے مزے سے کوڑا خانے پر بیٹھ کر دوسروں کا جھوٹا کھا رہے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ و تعالی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔