۔’کورونا وائرس ‘کے بڑھتے اَثرات بد ، اِس کے مختلف ماہرین کو تیزی سے پیدا کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ان میں طبی، دیسی ، روحانی، مذہبی، سماجی، سیاسی ،معاشی ہر قسم کے ماہرین اور اِن کی آراء شامل رہیں۔ایک طبقہ تو وہ تھا جس نے سیدھا سیدھا حکومتی بیانیہ یعنی ’معروف احتیاطی تدابیر‘ پر زور دیا،جن میں صابن سے ہاتھ دھونے، سینیٹائز کرنے، سماجی فاصلے رکھنے کی توجہات و یاد دہانیاں تھیں، ویسے یہی سب سے مناسب طریقہ تھا لوگوں کو آمادہ کرنے کا۔ہمارے دوست قیصر قریشی برطانیہ سے اِن یاد دہانیوں پر لکھتے ہیں کہ ،’’ اَب تواتنی دفعہ رگڑ رگڑ کے ہاتھ صابن سے دھوئے کہ میری دوسری شادی کی لکیر ہی مٹ گئی‘‘۔ ایک اور دوست شاعری میں لکھتے ہیں کہ ’’میں وہ محرومِ عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے …ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وَبا پھوٹ پڑی‘‘۔
تواترسے بڑھتے مریضوں کی تعداد دیکھ کر بنیادی حفاظتی تدابیرسے آگے بڑھ کر معاملہ ’لاک ڈاؤن‘ تک پہنچ گیا۔چنانچہ ٹوئٹر پر کورونا وائرس کے ساتھ لاک ڈاؤن کا ہیشٹیگ ٹرینڈ بن گیا۔لاک ڈاؤن کی پہلی اصطلاح چونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے حالیہ دنوں سُنی تھی اس لیے جب لوگوں نے اس کو ذرا سا اپنے اوپر محسوس کیا تو یہ احساس ٹوئٹر پر بھی کئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنے نظر آئے۔KashmirUnderModiCrona، کہ کورونا سے بچ بھی گئے تو بھارتی فوج مار ڈالے گی۔یہی نہیں بلکہ فلسطینی مسلمانوں کی آزمائشوں کو بھی یاد کیا جاتارہا۔لاک ڈاؤن کا دائرہ سندھ کے بعد بلوچستان، خیبر پختونخواہ ، گلگت پھر پنجاب سمیت ملک بھر میں بتدریج پھیل گیا۔اکثر سیلیبریٹیز نے تو اِسی طریقہ کو اپنایا ، خود بھی گھروں میں جا بیٹھے اور سب کو یہی بات سمجھائی کہ اس وَبا سے بچنے کا ، مقابلہ کرنے کاسب سے موثر طریقہ قرنطینہ یعنی اپنے آپ کو کچھ عرصہ کے لیے گھر کے اندر محدود کرناہے ۔لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی جو دوسرا بڑا مسئلہ سامنے آیا وہ اُن روزانہ کمانے والے لاکھوں غریب مزدوروں و کام کام کرنے والوں کا آیا جن کے پاس نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ تھے اور نہ ہی کوئی جمع پونجی ہوتی ۔اسلیے ان کی امداد کے لیے بھی رفاحی تنظیمیں و درد مند دل رکھنے والے افراد کار بھی میدان عمل میں اُترے نظر آئے۔کئی سیلیبریٹیز اعصام الحق، شاہد آفریدی و دیگر نے ایسے لوگوں کی مدد کا عزم ارادہ وعملی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی۔پہلے سندھ میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا جہاں کراچی ایک اہم مرکز ہے اسلیے یہاں بھی کار خیر سمیٹنے اور انفاق کی زبردست مثالیں قائم ہوئی، جنہیں سوشل میڈیا پر مثبت انداز سے رپورٹ کیا جاتا رہا۔نبیل اختر اپنی وال پر ایک غیر سیاسی رفاحی ادارے کے ایک ذمہ دار کے تاثرات لکھتے ہیں کہ ’’بڑے بڑے سیٹھوں نے لوگوں کو راشن پہنچانے کے لیے اپنی تجوریاں کے منہ کھول دیے ہیں۔ کلیکشن مراکز میں تنخواہ دار طبقہ بھی اپنا حصہ ڈال کر جارہا ہے ۔‘‘ڈاکٹر فیاض عالم حکومت سندھ کی جانب سے راشن سپلائی کے لیے اٹھائے گئے اقدام پر لکھتے ہیں کہ ،’’وزیراعلی سندھ کی طرف سے ایک موبائل نمبر راشن کی فراہمی کے لئے دیا گیا ہے۔اس بظاہر چھوٹے سے اقدام سے حکومت اور این جی اوز کے فرق کا پتہ چلتا ہے کیونکہ مالی ، انتظامی وسائل دیگر کے اعتبار سے کوئی موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا!اگر وزیراعلی سندھ کا یہ اعلان کارگر ہے تو کم از کم سندھ میں راشن تقسیم کرنے والی این جی اوز کا بوجھ بہت کم ہوجائے گا۔اسی طرح وفاقی حکومت کے اعلان کردہ 3000 روپے بھی اگر فوری طور پر مستحقین کو مل جائیں تو کم از کم لوگوں کے بنیادی راشن کا مسئلہ حل ہوجائے۔‘‘ امدادی کاموں میں چینی آن لائن کمپنی علی بابا کے مالک کی جانب سے پاکستان میں 5روپے سے95روپے تک پہنچنے والے ماسک کی اچھی کھیپ موصول ہونے کی خبریں بھی سوشل میڈیا کی زینت رہیں ۔
سوشل میڈیا پر جہاں حالات کی منظر کشی جاری تھی وہاں طنز و مزاح اور ہمیشہ کی طرح تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مختلف میم کی صورت بھی جاری رہا۔اس لاک ڈاؤن کے فوائد اس انداز سے سوشل میڈیا پر بتانے شروع کیے کہ ’’گھر میں سکون اور چین قائم رکھنے والے اہم جملے : تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو (5 بار) کام بھی کتنا کرتی ہو (5 بار)دن بدن اسمارٹ ہو تی جا رہی ہو(5 بار) کام کر کر کے تھک جاتی ہو گی (3 بار) امی کب آ رہی ہیں حالات ٹھیک ہو جائیں تو ان کو بلا لو(1بار سے زیادہ نہیں)انجملوں کو گھر میں جب تک لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے موقع دیکھ کر دہراتے رہیں،روزانہ 3 سے 4 بار *بیوی* کے سامنے پڑھنے سے گھر میں چین ، سکون اور شانتی بنی رہے گی۔شیطان آپ کو ایسا کرنے سے روکے گامگر ہمت کریںاور باآواز بلند پڑھیں۔‘‘اسی طرح ایک اور پوسٹ بھی منظر کشی کرتی نظرا ٓئی کہ’’لاک ڈاؤن کے آج 12 بجے سے شروع ہوتے ہی آدھے پاکستانی صرف یہ دیکھنے کیلئے باہر نکلے ہوئے ہیںکہ کوئی باہر تو نہیں نکلا ہوا؟‘‘ ہینڈ سینیٹائزر کے بارے میں اتنا شور مچایا گیا کہ اُس کی مثال ایک مقبول میم میں یوں آئی کہ ’’یہ محلے کے اُس ناکارہ، لفنگے سا تھاجسے کوئی منہ لگانا پسند نہیں کرتا تھا مگر اب وہ ایسا ہو گیا کہ اچانک ڈپٹی کمشنر لگ گیا ہو۔‘‘ اسی طرح ایک اور پوسٹ میں سمجھایاگیا کہ’’کورنا جب تک آپ کے گھر نہیں آئے گا جب تک آپ اُسے لینے گھر سے باہر نہیں جائیں گے ۔‘‘
عالمی منظر نامہ بھی کورونا کے تناظر میں مستقل خراب ہوتا نظر آیا۔ امریکہ میں مقیم دنیا کے معروف شیف فلائیڈ کارڈوز59سال کی عمر میں اس وائرس کی وجہ نیو یارک میں علاج کے دوران انتقال کر گئے۔نیو یارک اس وقت اہم کورونا مرکز بنا ہوا ہے۔اسکے علاوہ شروع میں بتایا گیا کہ اٹلی نے بھی ابتداء میں لاک ڈاؤن کو سیریس نہیں لیا جیسا کہ چین نے فوری طور پر وہان کے ساتھ15شہروںسمیتپورے صوبے میںلاک ڈاؤن کر دیا تھا۔بے شمار پابندیا ںلگا کر دنیاکی آبادی کا 18فیصد رکھنے والے اس ملک نے ڈھائی ماہ کے اندر اس بدترین وائرس کی وبا کو قابو میں کرلیا۔ 8 اپریل تک چین کا لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گااور مقامی آبادی میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہونا اُن کے لیے باعث خوشی جبکہ ’لاک ڈاؤن‘ طریقہ کار کو اپنانے والے ممالک کے لیے باعث اطمینان خبر ہے۔یہ اسلیے بھی کہ جس طرح اٹلی کا حال ہوا تھااور اُنہیں بہت دیر سے خیال آیا ٹھیک اُسی طرح اسپین نے بھی تاخیر کی ۔14مارچ کواسپین میں ایمرجنسی کا اعلان ہوا، تادم تحریر اسپین میں رپورٹ شدہ اموات 3500کی تعداد میں ہو چکی ہیںجو کہ وائرس کے پہلے مرکز چین کی 3300اموات سے بڑھ گئیہیں۔اسپین کی خاتون نائب وزیر اعظم کارمین کالوو بھی کورونا کا شکار ہو کرزیر علاج ہیں۔ فرانس میں بھی 17مارچ سے لاک ڈاؤن شروع ہو اہے ۔ انہوں نے جن وجوہات میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے اُنمیں ہر بار ایک تصدیق شدہ فارم کا ہونا ضروری ہے جس میں اصل وجہ درج ہو۔ وجوہات میں وہ نوکری جو گھر سے انجام نہیں دی جا سکتی، ضروریات زندگی کی خریداری، طبی سہولیات ، ناگزیر خاندانی ملاقات، ورزش، عدالت کے طلب کرنے پر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی جس کی خلاف ورزی پر 1000یورو تک جرمانہ عائد کیا گیا ہے اگر آپ 15دن میں دو بار خلاف ورزی کرتے پکڑے گئے ۔ برطانیہ کے وزیر اعظم بارس جانسن نے عالمی جنگ دوم کے اختتام جیسالاک ڈاؤن نافذ کرکے سب کو گھرمیں رہنے کا اعلان کر دیا۔اسی طرح بیلجیم، جرمنی، گریس، آئرلینڈ، ڈنمارک، پرتگال، آسٹریا سب ایسے ہی لاک ڈاؤن سے گزر رہے ہیں۔برطانوی وزیر اعظم نے جو 4وجوہات گھر سے باہر نکلنے کی بیان کی اُن میں ، بنیادی ضروریات کی اشیاء کی خریداری، ایک قسم کی ورزش کے لیے ، طبی سہولیات لینے دینے کے لیے ، انتہائی ضرورت پر دفتر یا کام پر جانا ۔یہ صورتحال دیکھ کر بھارت کے وزیر اعظم نے بھی شاید جلد بازی میں پورے بھارت میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔اب یہ بات ذہن میں رکھیں یا نقشہ سامنے ہو تو دیکھ لیں کہ ایک بھارت میں کئی برطانیہ ، اٹلی، اسپین، فرانس آ سکتے ہیں ۔آبادی کے لحاظ سے بھارت 138کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جس میں اکثریت غریبوں کی ہے جنہیں شاید 2 وقت کی روٹی بھی نصیب نہیںسوتے تو پھروہ سڑکوں پر ہی ہیں۔ایسے میں بھارت کس طرح 24مارچ سے تین ہفتوں کا لاک ڈاؤن جھیلے گا؟ یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔نئی دہلی میں البتہ تین دن قبل سے ہی لاک ڈاؤن کا ماحول بنا دیا گیا تھا ، لیکن وزیر اعظم کے اعلان کے بعد ویسا ہی ہوا جیسا کراچی میں غذائی قلت کاشوشا چھوڑاگیا اور لوگوں نے دھڑا دھڑ مہینوں کا سامان ایک دن میں بھرلیا۔بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کروانا آسان نہیں تھا اور خبریں ایسی ہی آتی رہیں۔ویسے ہماری حکومت کوبھی دو اقساط میں یہ بات سمجھ آگئی، ویسے تو کورونا کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات میں سندھ بازی لے جا رہا تھا۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ سندھ کے اپنے وزیر اعلیٰ کے گھر والے ہی متاثر ہو چکے ہیں اسلیے بھی اہم اقدامات لیے جا رہے ہیں لیکن گزرتے وقت نے جو ’اَلارم ‘بجایا اُس نے سب کو ’جھنجھوڑ‘ کر اٹھا دیاپھریکایک سارے بیانیے تبدیل ہوگئے۔
اہل کراچی کا حال تو معلوم ہی ہوگا آپ کو کہ جب تمام مصدقہ ذرائع بشمول میڈیا بھی سمندری طوفان سے ڈراتا رہا ہے تو وہ سب چھوڑ کر کلفٹن کے ساحل کا رُخ کرلیتی ہے کہ دیکھیں طوفان کیسا ہوتا ہے۔ الامان الحفیظ ۔ نہ میں اس روش کو نہ پہلے درست کہہ سکتا تھا نہ اب ۔لیکن کیا کریں اس بار بھی مناسب انداز سے لاک ڈاؤن کے بارے میں ہدایات ، پیغامات کا ابلاغ کیا گیا۔اٹلی کی مثال دی گئی، خانہ کعبہ کے خالی ہونے کی ویڈیوز تو پچھلے ہفتے ہی وائرل ہو چکی تھیں لوگوں کو اندازہ ہو جانا چاہیے تھا اب گھر میں بیٹھنا ہوگا لیکن میں نے نوٹ کیا ہر جگہ کم و بیش صورتحال یہی ہے کہ لوگ ابھی سنجیدہ نہیں لے رہے ۔ جس طرح کراچی میں پولیس کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں پر معمولی سختی( ڈنڈے، مرغا بنانا ودیگر) جیسی سزا دیتے دیکھا ویسا ہی کچھ انڈیا و دیگر ممالک میں بھی دیکھا۔بھارت میں تو پاکستان سے کہیں زیادہ مشکل کام ہوگا عوام کو آمادہ کرنا۔پاکستان میں تو سیاست کے ساتھ مذہب کا بھی ایک اہم کردار ہے لوگوں کے عمل میں تبدیلی لانے کے لیے اسلیے کراچی میں تو کم ازکم اس حوالے سے مذہبی طبقات نے بھی ایک اجلاس کی حد تک یکسوئی کا مظاہرہ کیا۔گورنر ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں صرف فرائض کی ادائیگی کے لیے مسجد آنے والی شق دیکھ کر یہ سوال اٹھائے گئے کہ کیا ’کورونا وائرس صرف سنت نماز کے دوران حملہ آور ہوگا فرائض میں نہیں۔‘طلبہ کے تعلیمی سال کے تناظر میں اچانک سے ایک دن آن لائن ایجوکیشن کے خلاف ٹوئٹر ٹرینڈظاہر ہوا جس میں آن لائن ایجوکیشن کے منفی پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا تھا، اس سے ایک دن قبل سمسٹر بریک کا شور مچایا گیا۔سب سے حیرت انگیز بات وقار ذکا کے ٹرینڈ کی وجہ سے ہوئی ۔23مارچ کوسولجر بازار کے کسی علاقے کی سموسے جلیبی کی دکان کے باہر رش کی ویڈیو دِکھا کر ’وقار ذکا ‘نے جو انتہائی گندی گالیوں کے ساتھ عوام کو گھروں پر بیٹھنے کی تلقین کی وہ بات تہذیب کے دائرے میں بھی کی جا سکتی تھی ، لیکن عوام کو تفریح سوجھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وقار ذکا ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، لوگ پوچھتے یہ رہے کہ یہ کیوں بن گیا ہے ایسا کیا کر دیا ہے لیکن ۔۔۔۔گو کہ پولیس کی جانب سے مرغا بنانے ، چھترول کرنے کے اقدامات ایسے تھے جن کی ویڈیوز مستقل شیئر ہو رہی تھیں لیکن عوام بالکل بھی سدھر نہیں رہی تھی ۔
چین نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں وہان سے پھیلنے والی وبا کے بارے میں شفاف تحقیقات کا ڈرافٹ رد کر دیا ، جس پر سماجی میڈیا خصوصاً بھارت میں سخت رد عمل نظر آیا، پاکستانی حدودمیں بھی ایک ہیش ٹیگChineseVirusکے نام سے ٹرینڈ بنا۔سماجی میڈیا پر کورونا کوچینی وائرس کہہ کر مطعون کرنے کا سلسلہ ٹرینڈ کی صورت نظر آیا۔سازشی تھیوری پر ہمیشہ سے زور دیا جاتا رہا ہے اسی تناظر میں بڑا معاشی جن بننے کیلیے چین کی ایک ناپاک کوشش بھی قرار دی گئی۔امریکہ و یورپ کی گرتی معیشت و تباہ حال اداروں کو اس دوران سستے داموں خریدنے کا چینی منصوبہ بھی پیش کیا گیا۔امریکی سازش بھی قرار دی گئی اور نہ جانے کہاں کہاں سے کیا کیا شیئر ہوتا رہا۔ایسے ایسے دستاویزات اٹیچ کر کے فارورڈ کیے گئے جنہیں یکسر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ، ماسوائے اس بات کے کہ آپ کو ان کے جعلی ہونے کا معلوم ہو جائے ۔تمام ذرائع ابلاغ نے اس وائرس کو 196ممالک میں پھیلنے کا ذکر کیا ہے جس میں اسرائیل بھی شامل ہے اور نارتھ کوریا بھی ، روس بھی ہے انڈیا بھی اور امریکہ تو65 ہزار مریضوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر کھڑا ہے۔امریکہ کا حال تو یہ ہے کہ صدر امریکہ ڈانلڈ ٹرمپ کو کئی خطابات میں خدا ، گرجا ، عبادت، دُعاجیسی باتیں کرنی پڑ گئیںآپ اس کو معمولی سمجھ لیں یہ آپ کی مرضی میں امریکہ کا ماضی ، اسکی تاریخ دیکھ کر اسے کوئی معمولی بات نہیں سمجھتا۔لیکن چین کی سیکورٹی کونسل والی اس حرکت پراور ساتھ ہی عالمی ادارہ صحت کی 14جنوری 2020کی اُس ٹوئیٹ پر حیرت ہوئی جس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ یہ وائرس انسانوں سے انسانوں میں نہیں پھیلتا۔اس کے سازشی پہلوپر تفصیلی گفتگو اگلے ہفتے جاری رہے گی۔